میری ٹیڑھی زلفیں — غزالہ پرویز

’’سیدھی مانگ نکالو ، سیدھا میاں ملے گا۔‘‘
میرے گھنگھریالے بالوں میں چنبیلی کے تیل کی چمپی کرتے ہوئے میری معصوم سی ماں کی معصومانہ التجا ہوتی ۔ پلنگ پر بیٹھی میری ماں مجھے اپنے دونوں پاؤں سے جکڑ کر فرش میں بٹھا لیتیں۔ نہ چوں کرنے کی اجازت ہوتی اور نہ چاں اور سیدھی سادھی، بھولی بھالی ، نادان نادیہ سی میں سر جھکائے ’’آہ، اوہ اور آؤچ‘‘ کو حلق سے باہر نکلنے نہ دیتی۔ چنبیلی کے تیل کی چبھتی ہوئی تیز خوشبو جسے میں بدبو گردانتی تھی اس پر ناک سکیڑنے پر بھی ایک چپت پڑتی اور’’چھچھوندر‘‘سننے کو ملتا اور وہ میری ناک کے اوپر کنگھے کا آخری دندانہ رکھتیں اور پیشانی کے بیچوں بیچ کنگھا گھسیٹتی پیچ در پیچ، خم در خم زلفوں میں سے کنگھے کو کھینچتے کھانچتے ، کھوپڑی پر رگڑ ڈالتی بلکہ کھرچتی ہوئی گردن کی گدی تک پہنچ کہ دم لیتیں اور ایسے حساب کتاب سے آدھی زلفوں کو دائیں اور آدھی کو بائیں جانب کر لیتیں کہ مجال ہوتا کہ ایک بھی لٹ آوارہ گردی کی مرتکب ہو۔
’’جانے کِس پر گئے ہیں تمہارے بال؟ ایسے جیسے الجھا اون کا گولا۔‘‘
وہ تیل سے چپڑے بالوں کو مزید کھینچ تان کے سیدھا کر لیتیں اور نیلے، لال ربن کو چٹیا میں لپیٹتی چھپکلی کی دم کے مانند بالوں کی نوک تک کس دیتیں اور پھر اسے بل دے کر دونوں کانوں کے اوپر ایک پھول سا بنا دیتیں اور ساتھ ہی ایک پیار بھری چپت رسید کرتے ہوئے کہتیں:
’’اللہ سیدھا سا شہزادہ دُلہا دے۔‘‘
اور لفظ ’’دُلہا‘‘ پر میں دوپٹے کا کونا دانتوں تلے دبا لیتی اور آنکھیں بند کیے تصورات میں خود کوطلسماتی دنیا میں پاتی اور ریپنزل سی ٹاور کی کھڑکی میں خود کو کھڑا پاتی اور شہزادہ میرے تیل سے چپڑی چٹیا تھامے نیچے کھڑا نظر آتا اور پھر اچانک میرے اسپرنگ نما گھنگھریالے بال اوپر کے جانب آجاتے اور شہزادہ اس پر مزے سے گول جھولتا اوپر میرے پاس۔ ’’ہائے‘‘ میں ہنس پڑتی، لیکن امی کو توجیسے ستھرے ،کھینچ کے سیدھے ہوئے بالوں کی چٹیا کو دیکھ کر سکوں ہوتا کیوں کہ ستھرے بال جیسے کہ ستھرے مستقبل کے ضامن ہوں۔ اگرچہ کہ آرام سے کبھی نہ چٹیا بنی میری مگر غلطی سے ایک لٹ بھی رہ جاتی اور اسپرنگ کے مانند جھولنے لگتی، تو امی مستقبل کے اندیشوں میں غوطے کھانے لگتیں۔ ان کا خیال تھا کہ:
اس زلف کے پھندے سے نکلنا نہیں ممکن
ہاں مانگ کوئی راہ نکالے تو نکالے
اور ہائے رے ہائے ایسی راہ نکالی کہ بس

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
میری امی کی زندگی کے مقاصد میں سے ایک مقصد تھا میرے زلفوں کو سیدھا کرنا۔ کنگھا ہاتھ کیا لگتا کہ میں پکڑ میں آجاتی میرے بالوں سے جنگ شروع ہوجاتی۔
’’ہائے امی میں ایسی ہی بھلی۔‘‘اب وہ کیا سمجھتیں کہ ۔۔۔ یاں پلیتھن نکل گیا واں غیر ٭ اپنی مکی لگائے جاتا ہے ۔
بچپن گزرا اور وقت کے ساتھ میں چلی چھٹک کے دامن ان کے دستِ ناتواں سے۔
اور میرے گیسو امی کے ہاتھوں سے پھسلے تو بالکل ہی آوارہ ہوئے۔
’’اری بیٹی کیا کورا سر اور کورے بال لیے گھوم رہی ہو۔ تیل ڈالو بالوں میں، بنا تیل کے صورت سے ہی ابلا سبلا لگتی ہو۔‘‘ میں اِٹھلاتی اور انہیں کا جملہ انہیں پر ٹکا دیتی۔
’’چھچھوندر کے سر میں چنبیلی کا تیل، سبحان تیری قدرت، سبحان تیرے کھیل‘‘ اور وہ معصومیت سے کہتیں:
’’کیا بادام کے تیل کی مالش کردوں؟‘‘ اور میں کھلکھلاتی پھر اِدھر پھر ادھر اڑنچھو ہو جاتی۔ اب اماں بے چاری کیا جانیں روکھے ، پھولے، بکھرے بال فیشن ہیں۔
ہماری اماں سدا کی سیدھی اور معصوم۔ شاید پرانے وقتوں کی عورتیں ایسی ہی ہوتی ہوں گی لکیر کی فقیر سی لیکن نہیں! پھر کٹنی کسے کہتے تھے؟ ارے بھئی میری بلا سے۔ ہاں تو میری امی کے لیے بال بنانا انتہائی اہم کام تھا جسے وہ بڑی فرصت اور فراغت اور محبت سے سر انجام دیتی تھیں۔ سکون و اطمینان سے تیل، کنگھی، سرمہ اور آئینہ لے کے بیٹھتیں اور ساتھ گنگناہٹ جاری رہتی اور وہ بھی رخصتی کے گیت گیتوں کی اور لازماً آنسو آنکھوں کے کونے بھگو دیتے۔ کنگھی چوٹی ہی ان کے لیے بال بنانا تھا اور یہی ان کا سنگار تھا۔ سیدھی مانگ، سیدھے سمٹے بال اور سیدھی چٹیا اور آخر میں اس پر گھر کے موتیے کے پھولوں کو دھاگے میں پرو کر لڑیاں بناتیں اور چوٹی میں لپیٹ لیتیں اور ساتھ گنگناتی ’’جومیں ہوتی راجا بیلا چنبیلیا ، مہک رہتی راجا تورے بنگلے پر۔‘‘اور میں مبہوت سی بیٹھی انہیں دیکھتی رہتی اورکبھی چھیڑ بھی دیتی:
’’کس کے بنگلے پر نظر ہے؟‘‘ اور وہ مسکرادیتیں۔ میں اکثر سوچتی اور ایک دن پوچھ ہی بیٹھی آخر منہ پھٹ جو ٹھہری یعنی گز بھر لمبی زبان جو تھی۔
’’امی آپ کی تو ہمیشہ سے مانگ ستھری سیدھی رہی، سجے سنورے بال تو پھر سیدھا میاں کیوں نہ ملا؟‘‘
بس جناب چپت تو چپت تین حرف بھی سن لیے۔
’’زبان چلتی ہے قینچی سی تمہاری تالو سے زبان کو لگا۔ اپنے باپ کے لیے ایسا بول؟‘‘
پھر خود ہی ذرا روہانسی سی ہوکر بولیں:
’’کیا پتاکس کج رو سے بچ گئی۔‘‘
فوراً موضوع پلٹ کر کہنے لگیں:
’’اپنی خیر منا یوں سر جھاڑ منہ پھاڑ نہ بنی رہا کرو۔‘‘
لیکن میں ٹھہری چکنا گھڑا سوچا سیدھی مانگ پر ایسے غصے والے جلالی شوہر سے تو میری ٹیڑھی مانگ ہی بھلی اور زلفِ پرخم کو دل کھول کہ خوب آوارہ کیا۔ چوٹی سے ربن نکال پھینکا، دو چوٹیاں بنیں ایک، پھر چٹیا کھلی تو پونی بنی، پونی کھلی تو شانوں تک چڑھ آئی اور پھر لیڈی ڈیانا کٹ اور زندگی ہوئی ڈن ڈنا ڈن ڈن اور امی بے چاری کئی وسوسوں کے فشار میں میری لٹوریوں سے الجھتی ہی رہ گئیں۔
’’کیا جٹا دھاری فقیرنی بنی گھومتی ہو، تیل ڈالو، سیدھی مانگ نکالو سیدھا میاں ملے گا۔‘‘
اور میں آڑے ٹیڑھے مانگ کے ساتھ لچھے دار گیسوں کو دائیں بائیں جھلاتی گنگناتی ’’لوگ کہیں موہے باوری، میرے الجھے لمبے بال۔‘‘ امی کی نظروں سے اِدھر ادھر ہوجاتی اور وہ بے چاری بڑبڑاتی رہ جاتیں۔
’’مل گیا نہ لچھے دار تو نہ کہنا۔ ہنہ۔ تری مرضی ہے اگر یونہی تو لے یونہی سہی بنا لو دل کھول کر مجھے نکو۔‘‘
جانے کیوں ایسا لگنے لگا مجھے دیکھتے ہی امی کو ڈھولک کی تھاپ، گیندے کے پھول،سہرا، ابٹن، رت جگے اور گلگلے کی کڑاہی نظر آنے لگتی ہے اور مکھ پر رمال دھرے۔ ’’امی جان سلام‘‘ کہتے دُلہا میاں نظر آنے لگتے ہیں۔
اور پھر امی نے میری ضد بازیوں کے آگے یہ بولنا بھی چھوڑ دیا اور یوں یہ خیال بھی عین غین ہوا۔
وقت کے ساتھ ساتھ درمیان کی سیدھی مانگ کبھی دائیں جانب جھکی تو کبھی بائیں جانب کھسکی، کبھی ننھی سی مانگ ہوئی تو کبھی سرے سے ہی غائب ہوئی اور پھر ’’زگ زیگ مانگ‘‘ فیشن میں آگئی۔ میں اور فیشن سے ایک قدم بھی پیچھے نہ نہ اللہ نہ کرے۔
اسکول تھا یا کالج یا پھر یونیورسٹی میری زلفوں کے بل مذاق کے نشانے پر رہتے، خوب لطیفے بنتے، ٹھٹھے لگتے۔
’’بالوں کا گچھا‘‘، بھیڑ کی دم، برتن دھونے کا جونا، ’’جھاڑ جھنکار‘‘ الغرض جتنے منہ اتنے نام۔ کسی نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ میرے ایسے آڑے ٹیڑھے بال ہوتے تو خودکشی ہی کرلیتی۔
اور میں نے جل کر ترکی بہ ترکی جواب دیا:
’’شکر ہے تمہاری بچت ہوئی۔‘‘
میں لڑکیوں کے سانپوں سے چمک دار، چکنے سیدھے بالوں کو دیکھتی رہ جاتی، نظر پھسل پھسل جاتی اور بہ ظاہر میں خوب اترا اترا کے اپنے اسپرنگ نما بالوں سے کھیلتی اب اپنی چھاچھ کو کون کھٹی کہتا ہے بھئی لیکن بال زلفوں کے میرے سب سے کجی رکھنے لگے۔ وقت گزرتا رہا اور اچانک یہ پیچ دار زلف فیشن میں آگئے۔
’’ہائے اللہ تم کتنی خوش قسمت ہو کہ تمہیں ’’کرل‘‘ نہیں کروانے پڑتے!‘‘
اور میں اچانک سے اڑی اڑی طاق پر جا بیٹھی۔ اب تھوڑا سا اترانا تو بنتا تھا نا اور پھر میری سہیلیاں کالج ختم ہونے پر یادگار کے طور پر میرے بالوں کی لٹ مانگنے لگیں۔ خیر وقت آگے بڑھتا گیا۔ زلف کبھی الجھی، کبھی سلجھی، کبھی چٹیا، کبھی پونی، کبھی شانے پر لہرائی تو کبھی کمر کو چھو آئی۔ پر رہی وہی سرکش، وہی برہم وہی پیچ کہ اوپر پیچ چڑھا۔ خیال ہی رہا کہ
مرے ہاتھ سلجھا ہی لیں گے کسی دن
ابھی زلف ہستی میں خم ہے تو کیا غم
٭…٭…٭
اور وہ وقت بھی آگیا جس کا انتظار میری ماں کو میری پیدائش کے دن سے تھا ’’ایک شہزادہ آئے گا سفید گھوڑے پہ میری شہزادی کو لینے۔‘‘
مجھے آج تک وہ جملہ نہیں بھولتا اپنے بھائی کا جب وہ ایک تصویر لیے میرے پاس آیا۔
’’سچ کہوں آپی بہت سیدھے ہیں دُلہا بھائی آگے وہ کیا کہہ رہا تھا مجھے سنائی نہیں دیا بس اپنی کھوپڑی کے بیچوں بیچ کھجلی سی ہونے لگی۔ یعنی باقی زندگی اللہ میاں کی گائے کے ساتھ یعنی ’’گائے؟‘‘
ڈھولک کی تھاپ تھی، سہاگ کے گیت تھے، سہرا تھا اور جدائی تھی اور میرا خوف۔
’’کہیں ایسا نہ مل جائے، کہیں ویسا نہ مل جائے۔‘‘
میرے سیدھے میاں، میری امی کو خدا کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے کے چہیتے داماد ٹھہرے۔
درویشِ خدا مست نہ شرقی ہے نہ غربی اور دو پاٹوں میں الگ ہوئے گیسو نہ اب شرقی رہے نہ غربی۔ ایک جوڑے میں سمٹ گیا زلف کا بل۔ اب کس کو فکر کاکلِ پرخم کی کہ اب کاکلِ گیتی سنوارنا تھا۔ وہ زلف کے بل میں یوں الجھے کہ کبھی نہ سلجھے۔
’’ھ‘‘ میں ملا۔ ’’الف‘‘اور زیست ہوئی ھا ھا ھا۔
پچیس سال پرخم راستوں پر ایک دوسرے کے ساتھ گزار دیے
یہاں تک آ گئے آگے خدا کا نام ہے ساقی

٭…٭…٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

بوڑھے آدمی کا خواب — محمد جمیل اختر

Read Next

الف — قسط نمبر ۰۱

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!