الف — قسط نمبر ۰۲

پیارے بابا!
میں جانتا ہوں، اس خط کے لفافے پر میرا نام دیکھ کر آپ چونکے ہوں گے پھر بہت دیر تک آپ نے اس لفافے کو کھولا نہیں ہو گا۔ میرا نام دیکھتے رہے ہوں گے اور آپ کو سب کچھ یاد آتا رہا ہو گا۔ جو میں آپ سے کہہ کر گیا تھا اور جس پر میں آپ سے نادم ہوں۔ آپ نے سوچا ہو گا، خط کھولے بغیر لفافے کو پھاڑکر پھینک دیں مگر یہ آپ سے ہو نہیں سکے گا کیوں کہ میں آپ کا اکلوتا بیٹا ہوں۔ طہٰ عبدالعلی۔ جسے آپ نے میری ماں کے جانے کے بعد چڑیا کے بچے کی طرح تن تنہا پالا اور جس کے لیے آپ نے اپنی زندگی وقف کر دی۔ لفافہ پھاڑ کر پھینک دیتے تو بھی دوبارہ ٹوکری سے نکال کر کاغذ کے ٹکڑوں کو جوڑ لیتے۔ دل تو ہے نہیں یہ کہ ٹوٹ کر نہ جڑتا۔
کیا لکھوں آپ کے نام اس خط میں؟ اپنی شرم ساری، اپنی ندامت یا اپنی بے بسی۔ بابا !آپ کو چھوڑ کر گیا تھا پر آپ سے کٹ کر رہا نہیں جا رہا۔ آپ یاد آتے رہتے ہیں، زیادہ نہیں بس ہر سانس کے ساتھ۔
آپ کا دل دکھایا ہے پر میرے پاس اس کے سوا اور کوئی چارہ نہیں تھا۔ کیا کرتا؟ آپ کو چھوڑ کر کم از کم زندہ تو رہ رہا ہوں۔ حسنِ جہاں کو چھوڑ دیتا تو یہ بھی نہ کر پاتا۔ خط پڑھ رہے ہوں گے تو حسنِ جہاں کے نام پر آپ کے ماتھے پر بل آیا ہو گا۔ میں جانتا ہوں، آپ اب بھی اس کے لیے اپنا دل بڑا نہیں کر پائے ہوں گے۔ میں نے زندگی میں پہلی بار آپ کو کسی سے نفرت کرتے دیکھا ہے اور وہ بھی اس سے جس سے محبت ہے۔ مجھے تو اندازہ ہی نہیں تھا بابا! آپ نفرت نام کی کسی شے سے واقف بھی ہیں۔
آپ تو اللہ سے محبت کرتے ہیں اور اللہ کی کائنات سے۔ اس کائنات میں ایک حسنِ جہاں بھی ہے جسے اللہ نے دنیا میں پیدا کر کے اس کو میرے دل میں رکھ دیا ہے۔ وہ ویسی ہی ”روح” رکھتی ہے جیسی آپ اور میں، ویسا ہی دل جیسا آپ اور میں۔ پھر بابا! آپ مجھے حسنِ جہاں سے محبت کرنے کے لئے معاف کیوں نہیں کر سکتے۔
میرے بس میں ہوتا اسے پیار نہ کرتا تو میں کبھی نہ کرتا۔ میرے بس میں ہوتا اس سے ترک تعلق کرنا تو میں کب کا کر چکا ہوتا۔ پر میرے بس میں کچھ بھی نہیں۔ اسے دل سے نہیں نکال پاتا اور آپ کو دماغ سے۔ میں آج کل دل اور دماغ کی اس جنگ میں صرف ایک بے کار وجود بن کر رہ گیا ہوں۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

آپ کی بددعائیں لگ رہی ہیں مجھے۔ میں جانتا ہوں، یہ پڑھتے ہوئے آپ بے قرار ہوئے ہوں گے کیوں کہ آپ تو مجھے بددعا دے ہی نہیں سکتے نا لیکن آپ کا دل دکھایا ہے تو یہ کیسے ممکن ہے، اللہ ناراض نہ ہوا ہو مجھ سے۔
اب اللہ کا نام نہیں لکھ پاتا میں۔ لکھتا بھی ہوں تو وہ نام میری روح سے نہیں بس ہاتھوں سے لکھا جاتا ہے۔ لوگ میرے ہاتھ سے بنی خطاطی کو اب نہیں دیکھتے، دنگ ہونا تو دور کی بات ہے اور خریدنا تو اس سے بھی دور کی بات۔
میں جانتا ہوں، آپ کہیں گے۔ دل میں حسنِ جہاں بسا کر اللہ کا نام لکھو گے تو یہی ہو گا۔ شاید شرک کر بیٹھا ہوں مگر توبہ کی توفیق بھی نہیں ہو پا رہی۔ طہٰ عبدالعلی بڑی تکلیف میں ہے آج کل۔ اللہ کو پکارتا ہوں تو وہ نہیں سنتا۔ آپ کو پکار رہاہوں کیوں کہ اللہ آپ کی ہمیشہ سنتا ہے۔ اس سے کہیں طہٰ کو معاف کر دے۔ طہٰ کے دل سے حسن جہاں مٹا دے، وہاں اپنا ٹھکانا بنائے۔ طہٰ کے ہاتھوں اور روح کو اس قابل رہنے دے کہ وہ اللہ کے نام لکھے تو لوگوں کے دلوں کو موم کر دے۔ اللہ کی کبریائی کے خوف سے۔ منور کرے اللہ کی محبت کے نور سے۔ پر یہ تب ہی ہو گا جب آپ طہٰ کو معاف کریں گے۔ بابا مجھے معاف کر دیں۔
آپ کا نافرمان بیٹا
طہٰ عبدالعلی
٭…٭…٭
قلبِ مومن نے بے یقینی کے عالم میں اپنی ماں کے ہاتھوں سے وہ لفافہ لیا۔ اس پر اس کا نام لکھا تھا بے حد خوبصورت رسم الخط میں۔
”اللہ تعالیٰ کی ہینڈرائٹنگ کتنی خوب صورت ہے۔”
اس نے اس لفافے پر نظر ڈالتے ہوئے ایک لمحہ کے لیے سوچا۔ پھر سر اٹھا کر اپنی ماں کو دیکھا جس کے ہاتھوں کی کپکپاہٹ اس نے لفافہ لیتے ہوئے نوٹس کی تھی۔ وہ سرتاپا لرز رہی تھی۔ اپنی مسکراہٹ کو ہونٹوں میں اور آنسووؑں کو آنکھوں میں چھپانے کی کوشش کرتے ہوئے اس کا چہرہ سرخ ہو رہا تھا یا شنگرفی یا گلابی۔ پتا نہیں وہ کون سا رنگ تھا۔ کلر بیلٹ کے سارے رنگوں سے زبانی واقف ہونے کے باوجود مومن بوجھ نہیں سکا مگر کم از کم وہ زرد رنگت نہیں تھی۔ وہ زرد رنگت جو وہ اپنے باپ کے جانے کے بعد اپنی ماں کے چہرے پر دیکھنے کا عادی ہو گیا تھا۔
وہ ایک خوب صورت سرخ گلاب کی طرح کھل اٹھی تھی یا شاید جی اٹھی تھی۔ وہ ماں کو مبہوت دیکھتا رہا۔
”تم خط نہیں پڑھوگے؟” اس کی ماں نے جیسے اسے یاد دلایا۔
”ہاں، مگر اسے کھولا کس نے؟” اس نے یک دم لفافہ پلٹا اور اس کا اٹھا ہوا فلیپ دیکھا۔
”میں نے۔” کچھ مجرمانہ سے انداز میں اس کی ماں نے کہا۔ وہ راز جو اس کے اور اللہ کے درمیان تھا وہ اس کی ماں بھی جان گئی تھی اور یہ بات اس وقت مومن کو اچھی نہیں لگی تھی۔ وہ چپ چاپ خط لیے اندر آگیا۔
میرے پیارے قلبِ مومن!
تمہارے سارے خط اللہ تک پہنچ گئے ہیں اور انہوں نے پڑھ بھی لیے ہیں۔ وہ تمہیں خود ان سب کا جواب بھیجنا چاہتے تھے لیکن پھر انہوں نے سوچا، وہ تمہارا جواب میرے ذریعے تم تک پہنچا دیں۔ میں 15تاریخ کو آرہا ہوں۔ تمہاری سب باتوں کا جواب لے کر۔
تمہارا دادا
عبدالعلی
٭…٭…٭
جس بے قراری اور بے چینی سے اس نے لفافہ کھول کر خط پڑھنا شروع کیا تھا۔ اسی بے قراری کے ساتھ ہی اس نے خط ختم بھی کیا۔ بے حد مایوسی کے ساتھ۔
”تو یہ خط اللہ تعالیٰ نے لکھ کر نہیں بھیجا۔” اس نے عجیب مایوسی سے سوچا۔
”پردادا یہاں کیوں آرہے ہیں؟”
اس کے ذہن میں اگلا سوال ابھرا۔ مگر اس سے بھی بڑا سوال یہ تھا کہ دادا کو یہ کیسے پتا چلا کہ اس نے اللہ تعالیٰ کو خط بھیجا تھا اور دادا کو کیوں اس کے خطوں کا جواب دینے کے لیے اللہ نے چنا۔ کیا وہ بھی اللہ کے پاس رہتے ہیں۔
سوالات کا ایک انبار تھا جس نے اس کے ذہن کا گھیراؤ کیا ہوا تھا۔
”مومن۔” وہ اپنی ماں کی آواز پر بے اختیار پلٹا۔ وہ پتا نہیں کب اس کے پیچھے کمرے میں آگئی۔
”اللہ تعالیٰ نے خود خط کیوں نہیں لکھا مجھے؟” اس نے ماں کو دیکھتے ہی بے ساختہ کہا۔
”خود نہیں لکھتے وہ، ان کے پاس بہت سارے لوگ ہوتے ہیں کام کرنے کے لیے۔ انہوں نے کسی کو کہہ دیا ہو گا یہ کام کرنے کے لیے۔” اس کی ماں نے اس کے ہاتھ میں پکڑا خط اس کے ہاتھ سے لے کر اسے بڑی احتیاط سے تہہ کر کے لفافے میں ڈالتے ہوئے کہا۔
”انہوں نے دادا سے کہا ہے۔” مومن کو لگا جیسے اس کی ماں نے خط دھیان سے نہیں پڑھا تھا۔
”ہاں، میں جانتی ہوں۔” مدھم آواز اسے سنائی دی۔ اس کی ماں اب خط کو اس کی اسٹڈی ٹیبل پر رکھتے ہوئے اس پر ایک پیپر ویٹ رکھ دی تھی۔
ایک لمحہ مومن کو خیال آیا، وہ ماں کو بتا دے کہ اس نے خط میں اپنے باپ کو بھیجنے کا کہا تھا۔ ایک لمحہ کے لیے ہی وہ جھجکا اور پھر اس نے ماں سے کہہ دیا۔
”لیکن میں نے تو بابا کو بلایا تھا، دادا کو تو نہیں بلایا تھا۔” اس کے شکوے کا جواب اس کی ماں نے ایک پراسرار مسکراہٹ سے دیا مگر اس مسکراہٹ کے ساتھ اس کی آنکھوں میں بہت سارے قمقے سے روشن ہوئے تھے۔
”وہ بھی تو آرہے ہیں۔”
وہ ساکت ہوا پھر خوشی سے بے قابو۔
”آپ کو کیسے پتا چلا؟” مومن بے اختیار چلایا تھا۔
جواب میں ایک اور مسکراہٹ آئی اور پھر ایک ہنسی۔ اس نے باپ کے جانے کے بعد آج پہلی بار ماں کو کھلکھلا کر ہنستے دیکھا تھا۔ سرخ ہوتے، چمکتے چہرے کے ساتھ۔ مومن کو یقین آگیا تھا کہ اللہ تعالیٰ واقعی اس کے بابا کو بھیج رہے تھے اور وہ بھی اس کے دادا کے ساتھ جن سے وہ کبھی نہیں ملا۔ مگر اس سے بھی زیادہ ناقابل یقین بات یہ تھی کہ اللہ تعالیٰ کو اس کے سارے خط مل گئے اور انہوں نے اس کے خط پڑھ بھی لیے۔
اس کی ماں کمرے سے جا چکی تھی اور مومن وہیں کھڑا تھا۔ اپنے دل کی دھڑکنوں کو گنتا۔ وہ کل اسکول میں سب کو بتا سکتا تھا کہ وہ اللہ تعالیٰ کو جو خط لکھتا تھا، وہ اللہ کو مل گئے تھے اور اسے ان کا جواب بھی ملنے والا تھا مگر اس سے پہلے اسے ایک کام کرنا تھا۔
٭…٭…٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

الف — قسط نمبر ۰۱

Read Next

الف — قسط نمبر ۰۳

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!