الف — قسط نمبر ۰۴

میری پیاری بیٹی حسنِ جہاں!
السلام علیکم
تمہاراحال پوچھنا چاہتا ہوں۔ پوچھنے کی ہمت نہیں کر پا رہا۔ تمہارا حال تو جانتا ہوں میں اور میں ہی تو وجہ بنا ہوں تمہیں اس حال میں لانے کی۔ تمہیں کیا لکھوں۔ میری بیٹی کیا لکھوں؟
بہت ساری باتیں ہیں جو تم سے کہنا چاہتا ہوں لیکن لفظ، لفظ اس کاغذ پر وہ لکھنے سے قاصر ہیں جو میرے دل میں ہے۔ لیکن تمہارا دوبارہ سامنا کرنے سے تمہارے نام یہ خط لکھنا آسان ہے میرے لیے۔
تم سے کیا کہوں؟ کہ میں شرمندہ ہوں یا یہ اعتراف کروں کہ تم سے کہ میں گناہ گار ہوں کہ حسنِ جہاں تمہارا وہ گھاوؑ بھر جائے جو میرے ہاتھوں لگا اور تم مجھے معاف کر سکو۔
میں نے اپنی ساری زندگی کینوس اور کاغذ پر صرف اللہ کی بڑائی اور صناعی بیان کرتے گزاری ہے۔ روشنائی اور رنگوں سے خطاطی کرتے عمربسر کی ہے، مگر یہ سمجھ نہیں پایا کہ اللہ کی بڑائی بیان کرتے کرتے غرور کا وہ کون سا لمحہ تھا جس میں میں خود کو بھی ”بڑا” مان بیٹھا تھا۔ نیک، متقی، پرہیزگار۔ گناہ نہ کر سکنے والا۔ یاد نہیں حسنِ جہاں! میں مومن سے کافر کس وقت ہوا تھا لیکن کبھی نہ کبھی کچھ تو ایسا کر بیٹھا تھا میں کہ ٹھوکر کھائی تو اللہ نے سنبھال نہیں، گرنے دیا۔ اور میں گرتا ہی چلا گیا۔
اور اب جب یہ خط لکھنے بیٹھا ہوں تو یہ کاغذ آئینہ بن کر مجھے میرا وہ عکس دکھا رہے ہیں جن سے میں نظریں نہیں ملا سکتا۔
اس عمر میں اکلوتی جوان اولاد کو کھو دینے کے بعد میری ز ندگی کا وہ محور گم ہو گیا ہے جس کے گرد میری زندگی گھومتی تھی۔ اب کچھ بھی یاد نہیں رہتا مجھے۔ نہ کھانا نہ پینا نہ سونا جاگنا، نہ ہی دنیا کی کوئی اور چیز، طہٰ سب کچھ لے گیا ہے میرا۔ بس میرا وجود چھوڑ گیا ہے اپنے اس پچھتاوے کے ساتھ جو ہر وقت میرا گلا گھونٹتا رہتا ہے۔ میری سمجھ میں نہیں آتا، اب اس پچھتاوے کا کروں کیا اور اس وجود کا مصروف کیا رہ گیا ہے۔
وہ خطاطی جو کئی نسلوں سے خون کی طرح ہماری رگوں میں بہتی آئی تھی، طہٰ کے جانے کے بعد سوکھنے لگی ہے۔ اب میری اگلی نسلوں میں کوئی اللہ کی کبریائی اور بڑائی بیان کرنے والا نہیں آئے گا۔ یہ میری سزا ہے۔ میرے غرور کی۔ میں اس کی شکایت کسی سے نہیں کر سکتا۔
طہٰ مٹی ہو گیا۔ میں مٹی بھی نہیں ہو سکتا۔ اس دنیا سے جانے کی باری میری تھی۔ مہلت اس کو نہیں ملی۔ اس عمر میں جو غم میرے حصے میں آیا ہے، وہ جھیلا نہیں جا رہا۔ یہ جو گھر ہے ،جس میں میں رہتا ہوں، یہاں کی ہر شے، ہر دیوار کے ساتھ اس کی یادیں لپٹی ہیں۔ میں ہر روز صبح اس کی یادوں کو درختوں کی بڑھی ہوئی شاخوں کی طرح کاٹ کر باہر پھینک آتا ہوں۔ وہ رات تک پھر سے اُگ آتی ہیں، پرانی یادوں کی رہ جانے والی جڑوں میں سے۔ میں یہ فصل کاٹتے کاٹتے تھکنے لگا ہوں۔ گھر طہٰ سے خالی ہو گیا اس کی یادوں سے خالی ہونے کو تیار نہیں۔
وہ تمہارے ساتھ چلا گیا تھا تو اس گھر میں اس کی یادیں اس طرح نہیں اُگتی تھیں۔ میری نفرت اور غصہ ہر اُگنے والی یاد کو کھا جاتے تھے۔ اب ایسا نہیں ہوتا۔ اب میرے اندر کچھ بھی نہیں رہا۔ فخر، غرور، آن، غصہ سب ختم ہو گیا۔ اگر کچھ بچا ہے تو روشنی کی وہ کرن جو قلبِ مومن کے نام سے تمہارے گھر کو روشن کیے ہوئے ہے۔ میں ہر وقت اس کے بارے میں سوچتا ہوں جب اپنے اندر ،باہر ہر طرف اندھیرا ہو جاتا ہے تو اُس کے چہرے کی روشنی مجھے راستہ دکھانے لگتی ہے۔ کیا اسے اپنا یہ بوڑھا دادا یاد آتا ہے؟ مگر میں اسے کیوں یاد آوؑں گا؟ میں نے اُس کو دیا ہی کیا ہے؟ اسے پہلی بار دیکھا تو مجھے لگا طہٰ کا بچپن لوٹ آیا، وہ بچپن میں قلبِ مومن جیسا ہی تھا۔ ویسا ہی معصوم چہرہ، ویسی ہی میٹھی آواز، ویسے ہی سوال اورویسی ہی شرارتیں۔ پر قلبِ مومن تو شرارتیں نہیں کرتا۔ وہ تو بس طہٰ کیا کرتا تھا، قلبِ مومن تو بس سوال کرتا ہے اور ان سوالوں کا میرے پاس کوئی جواب نہیں۔ اس کا مجرم ہوں میں۔ میں نے اُس سے شرارتیں چھین کر یہ سوال تھما دیے۔ میں نے بڑا ظلم کیا۔
میری بیٹی حسنِ جہاں۔ تم مجھے معاف کر دو۔ دل سے معاف کر دو۔ قلبِ مومن کو میرا بہت پیار دینا۔ اُس سے کہنا وہ اللہ کو ایک خط اپنے دادا کے لیے بھی لکھے۔ اللہ سے کہے۔ اُس کے دادا کا ہنر اُسے واپس کر دے۔ قلبِ مومن کا ہر خط اللہ کو پہنچ جاتا ہے، وہ تمہارا بیٹا ہے نا اس لیے۔
والسلام
قلبِ مومن کا دادا
٭…٭…٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

قلبِ مومن نے اسٹریچر پر لیٹی حسنِ جہاں کو دیکھا جسے پیرامیڈکس گھر سے باہر کھڑی ایمبولینس کی طرف لے جا رہے تھے اور پھر اُس نے اپنے دادا کو دیکھا جو بہتے آنسوؤں کے ساتھ اُس اسٹریچر کے پیچھے آرہا تھا۔ قلبِ مومن اور اُن کی نظریں ملی تھیں اور قلبِ مومن کے چہرے کا خوف جیسے عبدالعلی کی آنکھوں میں جھلکا تھا۔ مومن سائیکل سے گرنے کے بعد اپنی چوٹوں کو بھول گیا تھا اور اپنی اُس سائیکل کو بھی جو رستے میں گری پڑی تھی۔ وہ بس ایمبولینس کی طرف بھاگا تھا اور دادا نے اُسے روک لیا تھا۔
”ممی کو کیا ہوا؟ میری ممی کو کیا ہوا؟” عجیب خوف کے عالم میں اُس نے عبدالعلی سے پوچھا تھا۔
”دعا کرو کچھ نہ ہو۔” عبدالعلی نے اُسے ساتھ لپٹاتے ہوئے کہا تھا۔
ایمبولینس اب دور جا رہی تھی اور قلبِ مومن کو عبدالعلی کی ٹانگوں سے لپٹ کر جیسے عجیب سکون کا احساس ہوا تھا وہ کسی چڑیا کے بچے کی طرح کانپ رہا تھا۔ عبدالعلی نے اُسے گود میں اٹھا لیا۔ وہاں کھڑے آس پاس کے گھروں میں رہنے والے لوگ اب وہاں سے آہستہ آہستہ جانے لگے تھے۔ دادا کی گود میں چڑھے قلبِ مومن کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا۔ ان لوگوں کی آنکھوں میں اس کے لیے ترس کیوں تھا۔ وہ اس عمر میں بھی اُس احساس کو پہچان سکتا تھا۔
”ممی کے پاس جانا ہے۔” اُسے ایک دم ماں کی یاد دوبارہ آئی تھی اور تب ہی اس نے عبدالعلی کی آنکھوں سے مسلسل بہتے ہوئے آنسو بھی دیکھے تھے۔ وہ شاید اُس کی ممی کے لیے رو رہے تھے۔ قلبِ مومن نے خود ہی سوچ لیا تھا، اُن آنسوؤں نے قلبِ مومن کے دل کو جیسے کچھ اور نرم کیا تھا عبدالعلی کے لیے۔
آئی سی یو میں حسنِ جہاں بے ہوش پڑی ہوئی تھی اور عبدالعلی کے ساتھ قلبِ مومن بھی اُسے شیشے سے دیکھ کر بُری طرح بے چین ہوا تھا۔
”ممی کو کیا ہوا ہے دادا؟” اس نے عبدالعلی کو ہاتھ کو بے تابی سے ہلایا تھا۔ اپنی آنکھوں کو رگڑتے ہوئے عبدالعلی نے اُس سے کہا۔
”وہ بیمار ہو گئی ہیں۔” اُسے بتاتے ہوئے ان کی آواز بھر آئی۔
قلبِ مومن نے اس بار ان آنسوؤں پر غور کیا۔ ”آپ کیوں رو رہے ہیں؟” اس بار وہ جیسے پوچھے بغیر نہیں رہ سکا۔
”مجھ سے ایک گناہ ہو گیا ہے مومن۔” عبدالعلی کا جیسے حوصلہ جواب دے گیا۔
مومن کو یک دم یاد آیا، اُس کی ماں نے بھی تو کسی گناہ کی بات کی تھی جس کو اُس کے باپ نے معاف نہیں کیا تھا اور اب دادا بھی کسی گناہ کی بات کر رہے تھے۔
”ممی نے کہا تھا، اُن سے بھی کوئی گناہ ہوا تھا۔” اس نے بے اختیار عبدالعلی سے کہا۔
”نہیں تمہاری ممی نے کوئی گناہ نہیں کیا مومن۔ یہ میرے گناہ کی سزا ہے۔” وہ بلک بلک کر رونے لگے تھے۔
قلب مومن کو اُس لمحے عبدالعلی پر بہت زیادہ ترس آیا۔ اس کا دل چاہا، وہ انہیں اپنے ساتھ لگا کر تھپکے جیسے وہ اُسے تھپکتے تھے۔
”اللہ تعالیٰ کیا ہم سب کو سزا دیتے ہیں؟ مجھے اُن سے بہت ڈر لگتا ہے دادا۔” عبدالعلی کا ہاتھ دوبارہ تھامتے ہوئے قلبِ مومن نے جیسے اپنا خوف اُن کی جھولی میں ڈالا۔
”اللہ سزا نہیں دیتا۔ ہم سب دیتے ہیں۔” انہوں نے جیسے اس ننھے بچے کے دل سے اُس خوف کو مٹانے کی کوشش کی۔
”کیا اللہ تعالیٰ ہم سے سزا دینے کو کہتے ہیں؟”
”مومن! مجھ سے وہ سوال مت پوچھو جس کا جواب میرے پاس نہیں۔” اس نے عبدالعلی کو ایک بار پھر پھوٹ پھوٹ کر رونے دیکھا تھا۔ آئی سی یو کے شیشے سے اُس نے بستر پر آنکھیں بند کیے لیٹی ہوئی حسنِ جہاں کو دیکھا۔ قلبِ مومن کو اُس وقت احساس ہوا اُسے صرف حسنِ جہاں کی ضرورت تھی بابا کی نہیں وہ اُن کے بغیر رہنا سیکھ چکا تھا۔ وہ حسنِ جہاں کے بغیر رہنا سیکھنا نہیں چاہتا تھا۔
اگلے دو دن وہ دادا کے ساتھ ہاسپٹل جاتا رہا اور پھر اُس نے بالآخر حسنِ جہاں کو آنکھیں کھولتے دیکھ لیا تھا۔ لیکن یہ وہ آنکھیں نہیں تھیں جنہیں وہ ہمیشہ سے دیکھتا آیا تھا۔ یہ آنکھیں خالی تھیں، اُن میں کچھ بھی نہیں تھا۔
اُس آٹھ سال کے بچے نے وہ تبدیلی محسوس کی تھی اور بڑی شدت سے کی تھی۔ کچھ ہوا تھا اُس کی ماں کو مگر کیا ہوا تھا۔ یہ وہ جان نہیں پا رہا تھا۔
”ممی! آپ ٹھیک ہو گئیں میں نے اتنی دعائیں کی تھیں۔” اُس نے حسنِ جہاں سے لپٹ کر جیسے اُس میں وہی گرمی، وہی تمازت ڈھونڈنے کی کوشش کی جو ہمیشہ سے وہ اُس کی آغوش میں محسوس کرتا تھا۔ حسنِ جہاں نے اُسے لپٹا لیا تھا۔ قلبِ مومن نے اُسے کہتے سنا۔
”میں نے بھی بڑی دعائیں کی تھیں۔ میری تو کوئی دعا قبول نہیں ہوئی۔”
قلبِ مومن نے حسنِ جہاں کا چہرہ دیکھنے کی کوشش کی مگر عبدالعلی کی آواز نے اُسے اپنی طرف متوجہ کر لیا، اُس نے انہیں ہاتھ جوڑتے۔ حسنِ جہاں سے کہتے سنا۔
”آپ کو معاف کر دوں گی۔ اپنے آپ کو کیسے کروں گی؟” وہ کیا پہیلی تھی جو عبدالعلی اور حسنِ جہاں کی گفتگو میں پنہاں تھی۔ وہ کیا گناہ تھا جو انہیں سزا دے کر گیا تھا اور وہ کیا شے تھی جس سے وہ محروم ہوئے تھے۔ قلبِ مومن سمجھ نہیں پایا۔ سمجھ میں آئی تھی تو صرف ایک بات۔ وہ دونوں اب اُس کے باپ کی بات نہیں کرتے تھے اور اُس کو پہلے کی طرح ڈھونڈ بھی نہیں رہے تھے مگر قلبِ مومن اب حسنِ جہاں سے کوئی ایسی بات نہیں پوچھنا چاہتا تھا جو اُس کی ماں کو رلاتی اور پتا نہیں کیوں اُسے لگتا تھا، وہ یہ سوال کرے گا تو اُس کی ماں روئے گی۔
اللہ کو ایک اور خط لکھنا ضروری ہو گیا تھا کیوں کہ قلبِ مومن کو کوئی جواب اپنی دنیا اور اپنے رشتوں سے نہیں مل رہا تھا۔
”جب غلطیاں ہو جاتی ہیں تو وہ کیا وہ کبھی ٹھیک نہیں ہو سکتیں اور جب گناہ ہو جائیں تو کیا ہمیشہ اُن کی سزا ملتی ہے۔ کیا اللہ معاف نہیں کر سکتا؟”
قلبِ مومن کو اب اللہ تعالیٰ سے یہی سوال کرنے تھے کیوں کہ وہ اپنے گھر میں دو لوگوں کو تکلیف میں دیکھ رہا تھا اور وہ اُس تکلیف کی جڑ کو کھوجنا چاہتا تھا۔
جنگل میں تنے پر دھرا اس کا لیٹر باکس غائب تھا۔ قلبِ مومن کو چند لمحے اپنی آنکھوں پر یقین ہی نہیں آیا۔وہ شاید کسی غلط جگہ پر آگیا تھا راستہ بھول کر۔ آخر وہ اتنے دنوں کے بعد آیا تھا اُس جنگل میں۔ مگر قلبِ مومن کبھی راستہ نہیں بھولتا تھا۔ صدمے کی کیفیت میں وہ اُس درخت کے گرے ہوئے تنے کے ساتھ ساتھ آس اپس بہت سارے دوسرے گرے ہوئے درختوں پر بھی چڑھ چڑھ کر اپنے لیٹرباکس کو ڈھونڈتا رہا۔ اُسے اپنے لیٹر باکس کا کہیں نام و نشان بھی نہیں ملا تھا۔ بے حد مایوسی کے عالم میں وہ اُس دن واپس گھر آیا تھا اور اپنے کمرے میں جاتے ہی وہ جامد ہو گیا تھا۔ وہ لیٹرباکس ایک بیگ میں پڑا تھا۔ بیگ کی کھلی زپ سے آدھا اندر اور آدھا باہر۔ قلبِ مومن بے یقینی کی کیفیت میں اُس لیٹرباکس کو دیکھتا رہا۔ ممی کو کیسے پتا تھا کہ اُس نے وہ لیٹرباکس وہاں اُس جنگل میں اُس درخت پر رکھا تھا اور وہ اس کے اندر خط ڈالتا تھا۔ کیا انہیں یہ بھی پتا تھا کہ…
اُسے مزید سوچنے کا موقع نہیں ملا۔ وہ حسنِ جہاں کی آواز تھی جس نے اُسے چونکایا تھا۔
”مومن! ہم پاکستان جا رہے ہیں۔”وہ بے اختیار پلٹا تھا۔ حسن جہاں کمرے کے دروازے میں کھڑی تھی۔
”کیوں؟” وہ حیران ہوا تھا۔ وہ جانتا تھا اُس کی ماں کا تعلق پاکستان سے تھا مگر اُس کا تو نہیں تھا۔
”رہنے کے لیے۔ اب ہم یہاں نہیں رہیں گے۔ پاکستان میں رہیں گے۔”
مدھم آواز میں جو اُس نے حسنِ جہاں کی زبان سے سنا اس نے مومن کو دہلا دیا تھا۔ اُس کی ماں اسے وہاں سے کیوں کسی اور جگہ لے جانا چاہتی تھی، یہ اس کی سمجھ میں نہیں آیا تھا۔ وہ مزید سوال کرنا چاہتا تھا مگر وہ چلی گئی تھی۔ وہ جب سے ہاسپٹل سے آئی تھی، اس سے بہت کم بات کرتی تھی۔ اگر کسی سے بات کرتی تھی تو وہ دادا تھے مگر وہ ساری باتیں سرگوشیوں اور آنسوؤں کی زبان میں ہوتیں اور قلبِ مومن اُن دونوں چیزوں سے بے زار ہو گیا تھا۔ اُس پہیلی سے بھی اس کھیل سے بھی۔
٭…٭…٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

الف — قسط نمبر ۰۳

Read Next

الف — قسط نمبر ۰۵

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!