عشق من محرم — علینہ ملک

جمال یار سے آنکھوں میں عکس بنتا ہے
عکس جب روح میں اترے تو نقش بنتا ہے
واعظ ! آئو میں سمجھائوں رقص کی تشکیل
روح جب وجد میں آئے تو رقص بنتا ہے
ہوا میں ہلکی ہلکی سی سرگوشی ابھری تھی۔ شاید یہ کسی نئی کہانی کے آغاز کا سندیسہ تھا۔ کہانیاں تو ازل سے تخلیق ہوتی چلی آرہی ہیں ، فرق صرف قلم کار کی سوچ کا ہے کہ وہ نوکِ قلم سے اسے کس سانچے میں ڈھال دے ورنہ زندگی تو ہمیشہ سے ایک ہی سمت رواں ہے، پیدائش سے موت تک… اور موت سے عالمِ بالا تک… ہاں یہ بھی حقیقت ہے کہ اصل کہانی کار تو اوپر والے کی ذات ہے جس کی لکھی کہانیوں میں کوئی جھول نہیں اور جس کے کردار اس کے پیدا کردہ چلتے پھرتے انسان ہیں۔ جو دنیا میں آتے ہیں اور اپنا کردار نبھا کر چلے جاتے ہیں۔ ہر شخص اپنی پیدائش کے ساتھ ایک نئی کہانی لاتا ہے مگر عمر بھر وہ یہ نہیں جان پاتا کہ اس کی کہانی کا انجام کیا ہوگا؟ ہے نہ حیرت کی بات کہ انسان ساری کائنات مسخر کر کے بھی اپنی کہانی کو تسخیر نہیں کر پایا۔ تو بات شروع ہوئی تھی کہانی کی اور کہانی بھی وہی عام تھی ۔وہ سیاہ داسی ،سیاہ پوش۔
بھلا سوچنے والے بھی کہتے ہوں گے یہ کیسا نام ہوا۔ تو بات ہی ایسی تھی کہ وہ سیاہ داسی، سیاہ رنگ کی عاشق، سیاہ رنگ کی غلام تھی۔اس کے خیال میں سیاہ رنگ عشق کا رنگ ہوتا، وہی تو ایک رنگ ہے جو سارے رنگوں کو اپنے اندر سمو لیتا ہے۔ محبت، خلوص اور چاہت کا رنگ۔پھر سیاہ رنگ تو غلافِ کعبہ کا بھی ہے اور اسے تو کعبہ سے بھی عشق تھا۔ نام اس کا آمنہ نور، اور نور تو اس کے چہرے سے پھوٹتا تھا۔مگر سیاہ رنگ کی کشش نے اسے سیاہ داسی بنا ڈالا ۔
کہتے ہیں جن کا عشق خدا ہو انہیں سپنے بھی سچے دکھائی دیتے ہیں۔آج تیسری بار وہ یہی خواب دیکھ رہی تھی۔وہ سر تا پا سیاہ لباس میں ملبوس صحرا کی گرد پیروں میں لپیٹے وہاں حرم میں موجود تھی، کعبہ کے عین سامنے مقام ابراہیم کے پاس ایک شفاف ستون سے سر ٹکائے وہ نجانے خدا سے کیا راز و نیاز میں مصروف تھی کہ اس کے عین عقب سے وہی جانی پہچانی آواز ابھری ۔
”کیوں بھاگتی پھر رہی ہو مجھ سے اے پاکیزہ روح؟ کیا تمہیں میری حالت پر ذرا رحم نہیں آتا؟ جانتی ہو نہ میں تمہیں دیکھ کر جیتا ہوں؟”
”مجھے دیکھ کر؟” اس نے سیاہ معصوم آنکھوں سے حیران ہو کر پوچھا تھا۔





”ہاں! ایک تمہارا سراپا ہی تو دیکھ پایا ہوں مگر تمہاری معصوم اور روشن آنکھیں اس بات کی عکاس ہیں کہ تمہارا چہرہ بھی تمہارے کردار کی طر ح شفاف آئینہ ہو گا۔”
اس نے بے چینی سے پہلو بدلا اور نگاہیں فرش پر گاڑھ دیں۔ اتنی بے باک تعریف وہ بھی کسی اجنبی سے سننا، اسے کچھ ناگوار گزرا۔
”سنو ابن عبداللہ! تم کیوں ہاتھ دھو کر میرے پیچھے پڑ گئے ہو؟جاؤ چلے جاؤ یہاں سے مجھے انسانوں میں کوئی دلچسپی نہیں۔ میری زندگی صرف میرے رب کے لیے ہے اور پھر چار دن کی اس زندگی میں کسی اجنبی سے دل لگانا مجھے گوارہ نہیں۔” غصہ سے اس کی آنکھیں سرخ ہوئی تھیں۔
”میں تمہاری ایک نظر کا طالب ہوں اے سیاہ پوش حسینہ! مجھے دل میں تھوڑی سی جگہ دے دو۔ میں جی اٹھوں گا۔”وہ ملتجی ہوا تھا۔
”تم نے مجھے دیکھا ہی کب ہے جو میرے حسن کے قصیدے پڑھ رہے ہو؟ کیا میں نہیں جانتی کہ مرد عورت کو تعریفوں کے خوبصورت جال میں پھنساتا ہے اور پھر تمام عمر اس کو تنہا کر کے رلاتا ہے۔”
”تم غلط سوچتی ہو۔ میں ان مردوں میں سے نہیں۔ ایک بار مجھ پر بھروسہ کر کے تو دیکھو۔”
”ابن عبداللہ! تم دنیا کے آخری مرد بھی ہوئے نا تو میں تب بھی تم پر بھروسہ نہیں کروں گی۔” وہ منہ پھیر کر بولی تھی۔ مگر کون جانے کے اس کی کھائی ہوئی قسم کب ٹوٹ جائے کہ قدرت کے کھیل قدرت ہی بہتر جانتی ہے۔ وہ کب کسے توڑ دے اور کب توڑ کر جوڑ دے، سبھی اختیار اس کے ہیں۔
وہ ابنِ عبداللہ جسے وہ خواب میں دیکھتی آئی تھی، اب حقیقت میں اس کی زندگی میں آچکا تھا۔ اسے نہیں یاد کہ اچانک وہ اجنبی کب،کیسے اور کیوں اس کی زندگی میں آیا ۔مگر یہ بھی سچ ہے کہ اس پہلی ملاقات کے بعد ابنِ عبداللہ نے اس کا پیچھا نہیں چھوڑا۔وہ ہر موڑ،ہر رستے اور ہر جگہ سائے کی طرح اس کے ساتھ تھا ۔
”تم آخر میرا پیچھا چھوڑ کیوں نہیں دیتے؟ بولو۔”
”بھلا پروانہ شمع کے پاس نہیں آئے گا تو اور کہاں جائے۔”
”پروانہ نہیں بھنورا کہو۔تم بھنورا صفت انسان ہو۔ ڈالی ڈالی، کلی کلی منڈلانے والے۔ تم کیا جانو کہ محبت کی حقیقت کیا ہے اور عشق کسے کہتے ہیں۔”
”جانتے ہو عشق کی حقیقت کیا ہے؟ عشق تو وہ ہے جب دوئی کا فرق مٹ جاتا ہے۔ سانس کوئی لیتا ہے تو نبض کسی کی چلتی ہے عشق تو روحوں کا ملن ہے۔جانتے ہو سچے عاشق تو ایک ہی در کے فقیر بن جاتے ہیں۔ پھر نہ آنکھوں کو کوئی دوسرا دکھائی دیتا ہے نہ کانوں کو کوئی اور سنائی دیتا ہے۔ بس تو ہی تو، تو ہی تو۔من مندر میں ایک خدا اور وہی دکھے جابجا۔” وہ روانی میں کہہ رہی تھی۔
”عشق سیکھنا ہے تو نرمگس سے سیکھو جو ایک ملکہ کی خواہش میں اپنی ساری زندگی یہاں تک کہ جان تک ہار بیٹھتا ہے اور ابنِ عبداللہ اسے ہر بار کچھ یوں اپنے سچ کی گواہی دیتا:
” تمہیں میری محبت پر یقین نہیں نا تو دیکھ لینا، ایک دن یقین بھی آجائے گا۔ میں تمہیں پاکر تمہارے ہر خدشے کو دھو ڈالوں گا۔” اور پھر وہ وہاں ٹھہرا نہیں۔ اس کی نظروں سے اوجھل ہو گیا۔
وقت کبھی ایک سا نہیں رہتا۔ انسان ہزار تاویلیں گھڑ لے مگر جو ہونا ہوتا ہے وہ ہو کر ہی رہتا ہے۔ دو سال گزر چکے تھے۔ اب اسے سچے خواب آنا بند ہو گئے تھے ۔ہاں وہ جاگتے میں خواب بننے لگی تھی۔ وہ خواب جو اس کی مرضی کے تھے۔ بھلا مرضی کے خواب بھی کبھی تعبیر پاتے ہیں۔ مگر وہ انسان ہی کیا جو زندگی میں ایک بار خطا نہ کرلے۔پھر وہ بھی تو عام انسان ہی تھی پھر کیونکر خطا وار نہ ٹھہرتی۔جس بات سے وہ ڈرتی تھی وہ بات پوری طرح اس کی ذات پر حاوی ہو چکی تھی۔کہتے ہیں پانی کی بوندیں اگر مسلسل پتھر پر گرتی رہیں تو اس میں بھی شگاف ڈال دیتی ہیں۔ پھر وہ تو موم سے بھی زیادہ نرم تھی۔ عبداللہ کی بار بار التفات نے اس کے دل میں بھی شگاف ڈال دیا۔
ایسا شگاف جو کئی گنا گہرا تھا اور جس کو بھرنا۔ناممکن تھا ۔وہ بھی اب سر تا پیر عشق میں ڈوب چکی تھی۔
دیکھو ابن عبداللہ! تم مجھے اپنا لو۔ وقت بہت گزر چکا ہے۔ میں خدا کی نافرمان بن کر نہیں جی سکتی کہ اس سے عشق بھی کروں اور حکم عدولی بھی۔ اسے بھی چاہوں اور غیر محرم کو بھی۔ میری سوچیں دن رات تمہارا طواف کرتی ہیں۔ آنکھیں صرف ایک تصور میں رہتی ہیں۔ خدا کے لیے مجھے اپنا نام دے دو۔ یوں بے راہ روی کی زندگی مت جیو میں۔ عمر بھر تمہاری داسی بن کے رہوں گی۔ وہ اپنی انا، خودداری سب کچھ تیاگ کر آج اس کے رو برو تھی۔ وقت گزر رہا تھا اور نا محرم محبت نے اسے اس کی اپنی نظر وں میں گرا ڈالا تھا۔
”لوٹ جاؤ آمنہ نور! میں بہت مجبور ہوں۔” وہ منہ پھیر کر دھیمے لہجے میں بولا۔
”کیوں ابن عبداللہ! کیوں مجبور ہو تم؟تم تو کہتے تھے عمر بھر ساتھ نبھاؤں گا۔”
”میں مجبور ہوں اس لیے کہ میں اپنی ماں کا حکم نہیں ٹال سکتا۔مجھے ان کی خواہش کا ہر حال میں احترام کرنا ہے۔ میں بہت شرمندہ ہوں۔”
”تو تم بھی وہی عام مرد نکلے ابنِ عبداللہ!جو معصوم عورت کے دل، جذبات اور احساسات سے کھیلتے ہیں۔پہلے محبت اور زندگی بھر ساتھ کے حسین خواب دکھاکر اپنے ساتھ چلاتے ہیں اور پھر دکھ کی اندھیری کھائی میں دھکیل جاتے ہیں۔اگر اتنا ہی ماں کی خواہش کا احترام تھا تو محبت بھی ماں سے پوچھ کر کرتے۔مگر نہیں، تم کو تو اپنے کنوارے پن کا وقت کاٹنا تھا سو میرے اجلے من کو سیاہ کر کے کاٹ لیا۔ اب تمہاری بلا سے میں جیو یا مروں۔ واہ ابنِ عبداللہ خوب محبت نبھائی ہے تم نے۔”وہ نم آلود لہجے میں بولی تھی۔
”بس کرو آمنہ نور! تم مجھ پر الزام پہ الزام لگا رہی ہو۔محبت کے اس پر خار رستے کو تم نے اپنی مرضی سے چنا تھا۔ میں نے تمہیں کبھی مجبور نہیں کیا تھا۔ہاں صرف دوستی کا ہاتھ ضرور بڑھایا تھا مگر تم عورتیں بھی عجیب ہوتی ہو۔ اگر کوئی محبت کر لے ان سے تو شادی کے در پے ہو جاتی ہو۔ ضروری تو نہیں ہر محبت کا انجام شادی ہو۔”وہ استہزایہ ہنسا تھا۔
اور وہ آمنہ نور اپنی ہی نظروں میں منہ کے بل گری تھی ۔خاموشی نے اس کی زبان کو تالا لگا دیا تھا۔ اب نہ اس کے پاس کہنے کو الفاظ تھے اور نہ ہی بولنے کو زبان۔بس ایک زخمی سی نگاہ اوپر آسمان کی طرف اٹھی تھی اور پھر وہ واپسی کا رستہ ڈھونڈنے لگی۔
واپسی بھی کتنی کٹھن ہوتی ہے، پاؤں تپتے صحرا کی خاک پر آبلہ پا اور آنکھیں رستے سے خار چنتے چنتے آلودہ۔
زخم تو روح کو لگے تھے اور روح کو لگ جانے والے گھاؤ کب بھرتے ہیں۔
سکون ختم ہو چکا تھا۔ آنکھیں سرخ رہنے لگی تھیں اس کی نمازوں میں سجدے طویل ہوتے جارہے تھے گناہ کی لذت بھی اور لت بڑی عجیب ہوتی ہے۔ جب لگتی ہے تو کچھ سجھائی نہیں دیتا مگر جب لذت ختم ہو جائے تو پھر زبان سے حلق تک کرواہٹ بھر جاتی ہے۔ وہ بھی ایک گناہ کر بیٹھی تھی، یہ جانتے ہوئے بھی کہ نامحرم مرد اور عورت دوست کبھی نہیں ہوتے ۔وہ یا تو محرم ہوتے ہیں یا پھر اجنبی۔ مگر اس نے اللہ کی قائم کردہ حدود جو توڑی تھی تو اب معافی ملنا بھی آسان نہیں تھا۔




Loading

Read Previous

بے اثر — سحرش مصطفیٰ

Read Next

چنگیزی ہاؤس — ایم زیڈ شیخ

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!