بے اثر — سحرش مصطفیٰ

وہ سب سے بے خبر خود کو دیکھے جارہی تھی اور پھر اس نے جیسے سبھی سے نظریں چرا کر اپنے اندر جھانکا تھا۔ یہ ایک بے حد مشکل اور کٹھن مرحلہ تھا، لیکن ہر انسان کی زندگی میں ایک نہ ایک عمر میں یہ مرحلہ آتا ہے جب اسے اپنے اندر جھانکنا پڑتا ہے ۔ وہ سردیوں کا عروج تھا، لیکن پھر بھی وہ پسینے میں نہا گئی تھی۔ صدف عثمان نے نظر بھر کر بسمہ کامران کو دیکھا تھا۔ چمکتا ہوا اُجلا چہرہ ہمیشہ کی طرح مطمئن۔ بہت کچھ کھو دینے کے باوجود غم سے عاری آنکھیں۔ اس نے اپنی آنکھیں بند کیں اور اپنے آپ کو ماضی کی بھول بھلیوں میں کھو جانے دیا تھا۔
بچپن کی دھوپ چھاؤں سے لے کر جوانی کی نو بہار تک وہ بسمہ کامران سے خار کھاتی تھی۔ خار کا ذائقہ تلخ اور اثر زہریلا ہوتا ہے سوچ کو کڑوااور روح کو نیلا کردیتا ہے ۔ تکلیف کے وہ لمحات روز بہ روز اذیت ناک ہوتے جارہے تھے۔
بارہواں یا شاید گیارہواں سال تھا ۔ جب اس کے دل میںخواہش پیدا ہوئی تھی۔ جب پہلی بار عاجزی کا غرور اس کی روح میں اترا تھا ۔
اس کی ماں کے لہجے کی حلاوت اور مزاج میں موجود مروت بے مثال تھی۔ سارے خاندان کے لیے ایک مثال تھی۔ وہ خوب صورت انسانی صفات کا ایک مثالی نمونہ تھیں ۔جو پہلی بار ملتا وہ دوسری بار ملنے کی خواہش دل میں رکھتا ۔وہ ستائش پسند تھی ۔ اپنی ماں کے لیے لوگوں کے منہ سے نکلنے والے الفاظ اسے کسی تصوراتی دنیا کی سیر کراتے۔ وہ خود کو ان کی جگہ محسوس کرتی تھی ۔ یہ خیال اور خواہش اتنی پختگی اختیار کرگئی تھی کہ اس نے ماں کے نقش قدم کو اپنانا چاہا۔کم عمری میں روزے رکھے ۔پنج وقت نماز ادا کی۔ ماں باپ کی فرماں برداری اختیار کی۔ہر اچھی عادت کو اپنانے کے بعد ملنے والی دا د و تحسین اسے مزید نیکیوں پر اکساتی تھی ۔ وہ ہواؤں میں تھی کہ اچانک بسمہ کامران اسے زمین پر لے آئی۔ اس کی سگی چچا زاد اس کے روبرو آگئی تھی۔ وہ خوب صورت تھی ، چمک دار آنکھیں، صاف رنگت اور چہرے کے نقوش میں جمی ہوئی ملکوتی معصومیت۔ وہ ذہین تھی، ہر سال حاصل کی جانے والی اوّل پوزیشن اسے صدف کے مقابلے میں آگے لے آئی ۔ اس کے چھکے چھوٹ گئے تھے ۔ اس احساس کے ساتھ کہ کوئی اس سے آگے نکل رہا تھا۔ تعریف و توصیف کے ڈونگروں کی وہ اکلوتی حق دار نہیں تھی ۔ عمر کے بارہویں سال میں وہ روشنی میں نہائی تھی اور پندرہویں برس میں اس پر تاریکی کا سایہ لہرایا تھا۔ وہ ”صدف ” اور ”بسمہ” کے فرق کو پہچان سکتی تھی۔ بسمہ کے پاس ذہانت تھی۔ وہ ذہانت جودنیا کو چونکا دیتی ہے ۔جو کسی بھی خاندان کا فخر ہوتی ہے۔ وہ ذہانت جو برسوں میں پیدا ہوتی ہے اور فنا ہونے کے بعد بھی اپنی جزیات ہوا کے جھونکوں کو سپرد کرجاتی ہے۔ وہ سب کی آنکھ کا تارا تھی اور اس کی آنکھ کا تنکا۔ جھوٹ، حسد اور بغض کے تیزاب کو اپنے ذہن پر روز انڈیل دیتی اورآہستہ آہستہ گھلتی رہتی۔





اس کی عبادت ایک مثال تھی ۔عبادت آخرت کا سہارا ہوتی ہے۔ اس نے اپنی عبادت کو دنیا میں آگے بڑھنے کی لاٹھی بنالی۔
وہ عبادت گزار تھی روشنی میں نہائی ہوئی تھی۔ وہ اپنی عبادت پر نازاں تھی اس پر تاریکی کا ہلکا سا پہرہ تھا۔
سترہویں سال میں ایک صبح بسمہ نے اسے میڈیکل میں داخلے کی خوش خبری سنائی اور اگلے دن صدف نے ایک خواب ”گھڑ” لیا۔
”چاچی میں نے دیکھا کہ اس کالج کے باہر ایک گڑھا ہے۔ کالے گدلے بدبو دار پانی والا اور بسمہ اس میں گر پڑی۔” جھوٹ کا بھوت اس کے سر پر سوار تھا۔
اس کے اس خود کھدے خواب نے بسمہ کے خوبوں کو مٹی کردیا۔ اسے آرزو تھی اسے بلکتا ہوا دیکھنے کی جو آرزو ہی رہی ۔ بسمہ کامران بڑی ”پکی اور ہوشیار” نکلی اس نے صبر کا سہارا لیا اور جو صبر کرلے، تو دکھ کی کیا مجال کہ آنکھوں کو آنسوؤں سے تر کرلے۔ چاچا نے اس کے لیے ایک اور میڈیکل کالج منتخب کیا۔ اس نے چاچی کے کان بھرے۔
”میں نے خواب دیکھا چاچی کہ بسمہ کے میڈیکل کالج میں آگ لگ گئی ہے اور وہ اس کے دھویں میں گھری بری طرح کھانس رہی ہے ۔” چاچی دھک سے رہ گئیں۔ بسمہ کا خواب اس نام نہاد خواب نے تباہ کردیا ۔ وہ سب کی نظروں میں معتبر تھی۔ اس کی عبادتیں گنتے تھے وہ لوگ ۔ اس نے اس گنتی کا خوب فائدہ اٹھایا ۔طے ہوا کہ مسیحائی بسمہ کی قسمت میں نہیں ہے ۔
بسمہ سسک کر رہ گئی ۔
پھر تو یہ نیا وتیرہ بن گیا تھا۔ آئے دن اسے کوئی نہ کوئی خواب آتا جو بسمہ کے خواب چکنا چور کردیتا ۔ اس کی آنکھیں خواب دیکھ کر تھکتی ہی نہیں تھیں۔ بسمہ بس چپ تھی۔ بسمہ کے لیے آنے والا ہر اچھا رشتہ اس کے استخارہ کی روشنی میں ہمیشہ ہی ریجیکٹ ہوجاتا ۔ اس کے تقویٰ اورعبادت پر سب کو یقین تھا۔
وہ نادان تھی یہ بات سمجھ نہ پائی کہ یہ سارے جھوٹے خواب اسے ایمان کی بستی کی حدود سے نکال کر انگار وادی میں دھکیل رہے تھے۔ حسد کی آگ سے تخلیق ہونے والی انگار وادی۔ وہ خوشی سے اس آلودہ بارش میں نہاتی رہی اور پھر خوابوں کا وہ سلسلہ رکا نہیں۔ بسمہ کی ہر کامیابی اور ہر نئے خواب کے بعد ایک خواب گڑھ لیا جاتا تھا ۔ابتدا میں اسے دقت ہوتی جھوٹ ”سوچنا” پڑتاتھا، لیکن پھر جھوٹ خود بہ خود اس کے منہ سے ”ادا” ہونے لگا ۔ وہ بے اختیار کچھ نہ کچھ برا کہہ دیتی ۔ کچھ ایسا جو بسمہ کو تکلیف پہنچائے ۔
حیرت تو اسے بسمہ پر ہوتی تھی ۔ اسے لگتا تھا کبھی نہ کبھی وہ اسے برا بھلا کہے گی ۔ اسے شعلہ بار نظروں سے گھورتے ہوئے لفظوں سے آگ برسائے گی پر اس کا رویہ ویسا کا ویسا تھا۔ بس اس کی آنکھوں کی میں اداسی کی تہ گہری ہوتی جارہی تھی ۔
ایک کے بعد ایک خواب، صدف عثمان بودی اور کھوکھلی ہوتی چلی گئی۔ بسمہ کامران گہری ہوتی گئی۔ وہ بغض اور جھوٹ کے سہارے چلتی گئی۔ بسمہ شکر ، صبر اور دعا پر انحصار کرنے لگی ۔
اس کے نفلی روزوں کی تعداد بڑھنے لگی اس کی نماز کا دورانیہ طویل ہونے لگا ۔ وہ ایک ریس میں داخل ہوچکی تھی۔
پھر زندگی کی ایک نئی ڈگر شروع ہوئی ایک نئے دور کا آغاز ۔ وہ بہار بن کر صارم کی زندگی میں داخل ہوئی اور اس کے کچھ عرصے بعد بسمہ بھی بسمہ کامران سے بسمہ اظفر بن گئی ۔
شادی کے ایک سال بعد بسمہ کے پیروں تلے جنت آگئی اور وہ صدف عثمان اس نعمت سے محروم رہی ۔ محروم ہی رہی ۔ ایک سال تک اسے کوئی پریشانی نہیں ہوئی ۔ بسمہ کی اولاد نے اسے بے چین کیا ۔ پھر یاسیت ہی یاسیت تھی ۔ اداسی کے سارے رنگ اس کیے غم کے آگے پھیکے پڑ گئے ۔ وہ وظیفے کرتی ، دعائیں ، استخارہ ، علاج، پیر ، فقیر اور صدقہ خیرات لیکن سب بے سود ۔ کاش انسان اپنے گناہ کسی کو خیرات کرسکتا ۔ گزرتا ہوا ہر نیا دن ، گناہ کا بڑھتا ہوا ہر نیا احساس اس کے احساس جرم کو بڑھاتا رہا ۔ دس سال پر لگا کے اڑگئے تھے ۔ بسمہ تین بچوں کی ماں بن گئی اور چوتھا آنے والا تھا۔
وہ اب پژمردگی کا شکار رہنے لگی تھی ۔ اس کی عبادتوں میں بے رغبتی آنے لگی۔ اس کی خاموشی سونے پن میں بدلنے لگی ۔ صارم بہت اچھا انسان تھا۔ وہ اسے دلاسے دیتا اس کی قدر کرتا تھا ۔ اسے اللہ پر یقین رکھنے کی تلقین کرتا تھا ۔ پھر بسمہ کی چوتھی اولاد دنیا میں آئی۔ وہ بیٹا تھا۔ پیدائش کے ساتویں دن اس بچے کے عقیقے والے دن بسمہ نے اپنی اولاد اسے تھمادی ۔ وہ حیران رہ گئی ۔ اس بچے کو ہاتھ میں تھامے اس نے بسمہ کو اس قدم سے روکنا چاہا، لیکن وہ نہ رکی۔ اس کی آواز گھٹ کر رہ گئی۔ اس ننھے وجود کی نرماہٹ نے اسے سر تا پا موم بنادیا ۔ اور اس دن اسے احساس ہوا کہ اللہ نے بسمہ کو اتنا کیوں نوازا تھا۔ ڈھول کی تھاپ پر سب خوشیاں منانے میں مصروف تھے ۔ کون کہاں اجڑا کون کہاں بسا کس کو پروا تھی، کس کو خبر تھی لیکن جس کو خبر تھی وہ ہول کھارہی تھی ۔عاجزی پر کیا گیا غرور سلو پوائزن کی طرح ہوتا ہے اور وہ سلو پوائزن ہماری روح کے اندر بہت سے سانپ تخلیق کرنے کی وجہ بنتا ہے اور وہ اسی لمحے کے حصار میں تھی۔ وہ حصار نہیں تھا قید تھی، ہر ایک لمحہ زنجیر تھا۔ ایک ہی چھت تلے دو نفوس تھے ۔ ایک نے نفس کو گرو بنایا تھا اور وہ نفس اس کی ساری عبادات اور ریاضات کو کھا چکا تھا ۔ ڈھول کی دھمک اور اونچی ہوتی جارہی تھی، لیکن وہ دھمک اس کے دل کی دھڑکن کو قابو کرنے میں ناکام تھی۔ وہ خوف زدہ ہوئے بغیر انہیں دیکھ رہی تھی ۔اُنہیں جنم دینے والا وجود اس کا تھا وہ کیسے ان سے خوف کھاتی۔ غرور بے وقوفی کی نشانی ہوتا ہے ۔ حسد ہمارے اندر موجود کم ظرفی کو بیان کرتا ہے ۔ صدف عثمانحسد، کم ظرفی اور غرور سے تخلیق کردہ ان سانپوں کو گھور رہی تھی ۔اس کا پنا آپ ایک سوالیہ نشان تھا ۔اس کی زندگی بھی سوالیہ نشان تھی ۔ سب کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا۔ پھولوں اور روشنیوں سے سجا گھر ، قہقہے ، سب کی مسکراتی نظریں اور اس ننھے وجود کے نرماہٹ جسے ابھی ابھی امی نے اسے تھمایا تھا۔
شرمندگی تھی کہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی تھی ۔ جو کچھ وہ کرتی رہی سب بے اثر تھا ۔
کسی بھی چیز یا انسان کی دلکشی اور ذہانت اس کی اپنی تخلیق نہیں ہوتی ۔ اللہ کی دین ہوتی ہے۔ سب تعریفیں اللہ کے لیے ہوتی ہیں ۔ اس کی دین سے اختلاف کرنے والے کا کیا انجام ہوتا ہے ؟ وہ سوچنے لگی ۔ کیا تھا اگر بسمہ کامران کا چہرہ نگاہوں کو مقید رکھنے کی صلاحیت رکھتا تھا ۔ کیا تھا اگر اس کی ذہانت اسے درجنوں میں نمایاں کرتی تھی ۔ کیوں کیا اس نے ایسا ؟ آخر کیوں ؟ اسے اب حیرت ہورہی تھی کہ اس کی
عبادت نے اسے یہ سب باز رکھنے کی طاقت کیوں نہیں دی تھی ۔ کیسے دے سکتی تھی ؟
وہ عبادت جو خلق کی ”واہ” کی ”چاہ” میں کی جائے وہ بے اثر ہوتی ہے ۔ کئی سال پہلے اپنی ماں کی دنیاوی ساکھ سے متاثر ہوکر اس نے جو عبادت شروع کی تھی۔ وہ اسی دنیا میں کہیں ٹکراتی پھررہی تھی۔ وہ عبادت خالق کو راضی کرنے کا راستہ نہیں تھی ۔ تو اتنے سالوں تک میں نے کیا کیا صرف ایک ریہرسل۔ وہ ایک نئے خوف میں مبتلا ہوگئی تھی ۔ آنسو ایک مرتبہ پھر اس کے گالوں کو چھونے لگے تھے ۔ وہ کتنا رحیم ہے ۔ کتنا کریم ہے کہ اس نے آج تک اس کا پردہ رکھا تھا۔ اس نے صدف عثمان پر رحم کیا تھا، لیکن ساتھ ہی ساتھ بسمہ کامران کے ساتھ انصاف کیا تھا۔ اس نے ایک نظر اپنے وجود میں نیند کی وادی میں اترے ہوئے وجود کو دیکھا اور ایک نظر سامنے کھڑی بسمہ کو دیکھا تھا۔ بسمہ نے اس کی آنکھوں کی چمک کو تاک لیا تھا۔ وہ بے اختیار آگے بڑھی اور صدف عثمان کو گلے لگالیا۔ وہ پھوٹ پھوٹ کر رودی تھی ۔ پچھتاوے کے آنسو اتنی آسانی سے کیسے تھم سکتے ہیں۔ دکھاوے اور دوسروں کو کم تر ثابت کرنے والی عبادت زہر آب ہوتی ہے۔ ہمارے سارے وجود کو گھٹن زدہ کردیتی ہے اور بے اثر ہوتی ہے۔ ہماری آنکھوں پر خوش فہمیوں کی طویل پٹی باندھ دیتی ہے ۔اس پٹی کے اترنے کے بعد بھی انسان کئی سال تک اس کی چبھن اور دھندلے پن کا شکار رہتا ہے ۔ وہ بھی ایسی ہی تکلیف میں مبتلا تھی۔

٭…٭…٭




Loading

Read Previous

شہربانو کا آخری خط — محمد انس حنیف

Read Next

عشق من محرم — علینہ ملک

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!