’’میں خوش ہوں ۔لیکن اگر میں کوئی پرندہ یا پودا ہوتا یا تمہاری طرح قد آور درخت ہوتا تو کتنا اچھا ہوتا۔میں مضبوط اور توانا ہوتا۔سارا دن موج مستی کرتا۔مجھے کوئی روکنے ٹوکنے والا نا
ہوا کی سرسراہٹ اور وحشت زدہ سناٹے کو چیرتے ہوئے گھوڑے کے قدموں کی ٹاپ دور دور تک گونج رہی تھی۔ وہ ہر شے بے نیاز اڑتے بالوں کو کاندھے کے ایک طرف ڈالے سرپٹ
”نل میں پانی نہیں آ رہا۔ کیا مصیبت ہے؟ اب منہ کیسے دھوؤں؟” ریحان نے سنک پر کھڑے ہو کر شور مچایا تھا۔چہرے پر صابن ملے وہ بے زار سا کھڑا تھا جب شہلا بالٹی
”میں، ڈاکٹر ماریوس مارتنسن، برگن کے فارینزک سائیکاٹری ہاسپٹل کا ایک سائیکاٹرسٹ، اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ میری تشخیص کے مطابق مس آگسٹا بلوم کا ذہنی توازن درست نہیں ہے۔ وہ آج بھی
”لقمان احمد ہائیر ایجوکیشن سکول اینڈ کالج۔” اس نے چشمہ اتار کر آنکھوں میں امڈتی نمی کو صاف کیا۔ ”ایان صاحب ماشا اللہ بہت بہت مبارک ہو۔اللہ نے آپ کی محنت کا اتنا خوبصورت صلہ
گھر میں مہمانوں کی آمد کا سلسلہ شروع ہو چکا تھا۔ شام کی چائے اور رات کے کھانے کا انتظام کرنے کے لیے نواب صاحب نے صبح ہی احکامات جاری کر دیئے تھے۔عمار علی مستعدی
پھر وقت کا پرندہ اڑتا چلا گیا۔ بھلا وقت کب ایک سا رہتا ہے۔کہانی کار کے قلم سے نکلی تحریر اوپر آسمانوں پہ کسی نئے موڑ کی تلاش میں تھی۔ وہ عورت تھی، عورت کا