گھر کا چراغ — شبانہ شوکت

’’روحان ! تنگ مت کرو، میںماروں گا اب۔‘‘
فاران ٹی وی پر اہم خبریں سننے میں مصروف تھا اور روحان مسلسل آئس کریم کے لیے پیسے مانگ رہا تھا۔ چار بج چکے تھے، وہ اسے اکیلے جانے نہیں دینا چاہتا تھا اور خود جانے کا جی نہیں چاہ رہا تھا۔ اصل میں روحان ذہنی کم زور بچہ تھا۔ تقریباً بارہ سال کی عمر میں وہ آٹھ سال کا دکھائی دیتا تھا اور دماغ تو چھے سال کے بچے سے بھی گیا گزرا تھا۔ بولتابھی توتلا تھا۔ کھیل کود میں بھی کوئی خاص دل نہیں لگتا تھا سو ہر وقت باہر کی سوجھتی تھی۔ ’’مجھے پیچھے( پیسے) دے دیں، میں آئچھ کیم لائوں دا۔‘‘
’’بس تھوڑی دیر میںچلتے ہیں ۔‘‘ فاران نے تسلی دی۔’’نیئں ،نیئں‘‘ اس نے نیچے سے جوتی اٹھاکر فاران کو دے ماری۔ وہ غصے سے اُٹھا تو روحان منہ پر ہاتھ رکھ کر پھس پھس کر کے ہنسنے لگا۔ فاران اسے بے بسی سے دیکھ کر ہی رہ گیا۔ عرفہ سو نہ رہی ہوتی تو اسے بہلا سکتی تھی۔ تنگ آکر فاران نے اسے پچاس روپے پکڑائے اور وہ خوشی خوشی نکل گیا۔ فاران ٹی وی دیکھنے لگ گیا۔
’’روحان کہاں ہے فاران؟‘‘ عرفہ اُٹھ کر آئی تو اِدھر اُدھر دیکھتے ہوئے اس نے پوچھا۔
’’ہیں‘‘ وہ ہڑ بڑا کر اُٹھا، ٹی وی دیکھتے دیکھتے اس کی تو آنکھ ہی لگ گئی تھی اور اب عرفہ کی آواز پر کھلی ۔ وال کلاک پر نظر پڑتے ہی سر گھوم گیا، ساڑھے چھے۔
’’وہ ذرا باتھ روم میں دیکھنا وہاں تو نہیں ہے۔‘‘
’’نہیں۔ میں ہر طرف دیکھ کر ہی آئی ہوں۔‘‘
’’یا اللہ‘‘ فاران کو تو گھبراہٹ ہونے لگی۔ لاہور میں تو پہلے ہی اغوا کی خبریں سن سن کر دماغ گھومے ہوئے تھے اور یہ روحان ابھی تک واپس نہیں آیا۔ وہ تیزی سے گھر سے باہر آیا تھا۔ گلی میں موجود دکان دار سے روحان کا پوچھا۔
’’ہاں بھائی آیا تو تھا، آئس کریم لے کر آگے چلا گیا تھا۔‘‘
فاران اتنی تیزی سے آگے بڑھا کہ دکان دار کی آدھی بات تو منہ میں ہی رہ گئی ۔ پھر رات ہو گئی پر روحان نہیں ملا۔ ارد گرد سب کو معلوم ہو گیا۔ سب ان کے گھر جمع ہو گئے۔ عرفہ کا تو رو رو کر برا حال تھا، سب خواتین اسے تسلیاں دے رہی تھیں۔ ہر ماں کا کلیجہ جل رہا تھا۔ چین کیسے آتا۔
’’پولیس میں فوراً رپورٹ کروا دینی چاہیے۔ دیر مناسب نہیں ہو گی۔ یہاں تو سمجھ دار بچوں کا نہیں پتا چل رہا تو یہ تو پھر …‘‘ کہنے والوں کو کوئی احساس نہیں ہوتا کہ وہ دکھی ماں باپ کے زخمی دل کو تیز نشتر سے چھیل رہے ہیں۔ اولاد تو اولاد ہے، کیا ذہین، کیا غبی، اور ان دونوں کا ایک ہی ایک بچہ، ان پر کیا گزر ہی تھی، یہ کوئی دوسرا کیسے جان سکتا تھا۔





’’ہے تو بڑا سوہنا، پر بولتا صحیح نہیں ہے۔‘‘
’’ تو کیا تو نے خبریں سننی ہیں اس سے؟‘‘
اشفاق نے چڑ کر جواب دیا۔ نصیبو مسکرائی تھی، ’’میں تو اس لیے کہہ رہی تھی کہ اُستاد یہ نہ کہے مال صحیح نہیں ہے۔‘‘
’’اگر ہم یہی چھان ٹھیک کرتے رہیں تو خود نہ دھر لئے جائیں۔‘‘
بچہ رو رہا تھا۔ ’’ماما، پاپا‘‘۔
’’اوئے چپ کر پاپا کا پتر، ایک لگائوں گا منہ پر۔‘‘
وہ سہم کر دبک گیا پر سسکیاں لیتا رہا۔ ’’کھانا کھائو گے؟‘‘
اُس نے روتے روتے اثبات میں سر ہلایا۔ ’’او نصیبو، اس کے لیے روٹی لے آ۔‘‘ نصیبو دال اور روٹی لائی تو وہ پیچھے ہو گیا۔
’’نیئں یہ نیئں، یہ اچھا نیئں۔‘‘
’’شاباشے… یہ اچھا نہیں؟ تیرے لئے ادھر بریانیاں دم کریں؟ کھانا ہے تو کھائو، نہیں تو بھوکے مرو۔‘‘ نصیبو بھڑکی تھی۔
بچے کی سسکیاں تیز ہو گئیں۔
رات بیت گئی تھی، ابھی تک روحان کا کوئی پتا نہیں چل سکا تھا۔ عرفہ پر غشی کے دورے پڑ رہے تھے۔ اس کی امی اور بہنیں بھی آگئی تھیں۔ فاران کے بھائی، بھابیاں سب آچکے تھے پر نہیں تھا تو ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک، دل کا چین روحان کہیں نہیں تھا۔ ہر کسی نے مقدور بھر ملامت کی کہ جب بچہ مکمل سمجھ دار بھی نہیں تھا تو پھر اسے اکیلا بھیجنے کی کیا تک تھی۔ وہ بھی ایسی جلتی دوپہرمیں جب ہر بندہ گھر میں آرام کو ترجیح دیتا ہے اور گلیاں سنسان پڑی ہوتی ہیں۔ حالاںکہ کہنے والے بھی جانتے تھے کہ اب یہ سب کہنے کا کوئی فائدہ نہیں اور یوں تو بچے بھی اغوا ہو رہے ہیں … ایک ابنارمل بچے کا اغوا کیا مسئلہ ہے۔ ’’چلو فاران پولیس اسٹیشن میں رپورٹ تو لکھوا دیں۔ اب تو بہت دیر ہو چکی ہے۔‘‘ کاشان بھائی نے نڈھال سے فاران کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اُسے اُٹھنے کا کہا۔ وہ اُٹھ گیا۔ ان کے بہنوئی ضیاء بھائی اور فاران کا سالا عامر بھی ساتھ چلے گئے۔
’’دیکھیں جی ماں باپ کو بہت محتاط ہو کر رہنا چاہیے۔ بچوں کو ہر ممکن حد تک گھر کے اندر مصروف رکھا جائے کیوںکہ یہ اغوا کی وارداتیں پنجاب بھر اور خصوصاً ہمارے شہر لاہور میں بہت زیادہ ہو رہی ہیں، روزانہ ہی کئی کیس رجسٹرڈ ہو رہے ہیں۔‘‘
ایس ایچ او بہت سلجھا ہوا بندہ تھا، تدبر سے اُن کی بات سُنی اور اپنی سنائی تھی۔ دوسرے دن کئی چینل والے آگئے۔ فاران تو ان سے بات کرنے کے لیے تیار ہی نہیں تھا مگر ان کے نمائندے نے اسے سمجھایا ’’دیکھیں اس طرح آپ کے بچے کی تصویر ٹی وی پر بار بار دکھائی جائے گی تو اس سے یہ فائدہ ہو گا کہ وہ کسی کو نظر آیا تو ہمیں اطلاع مل جائے گی، دوسرا اس سے یہ ہو گا کہ دیگر لوگ محتاط ہو جائیں گے۔‘‘ انہوں نے نہ صرف فاران کا انٹرویو لیا بلکہ بُری طرح روتی ہوئی عرفہ کو بھی کیمرہ بند کیا تھا۔
’’اس پاگل کے پیچھے اتنا رو رہی ہے، ہائے ہائے ماں جو ہوئی بے چاری۔‘‘ نصیبو نے ٹی وی پر عرفہ کو روتا دیکھ کر مصنوعی افسوس سے کہا۔
’’اچھا تو اس کا دھیان رکھ، میں ذرا کام سے جا رہا ہوں۔‘‘
’’نہ تو ہم کب تک اس کے ساتھ پریشانی بھگتیں گے؟ تو استاد کو فون کر کے کہہ لے جائے اس کو، اور ہمیں ہمارا حصہ دے جائے۔‘‘ وہ تنک کر بولی۔
’’زیادہ ہوشیار نہ بن، فون تو میں نے کر دیا تھا۔ اب کہیں آنے ہی والا ہو گا دِتہ، اُستاد نے طیفو اور دِتّے کو بھیجا ہے اسے لینے کے لیے۔‘‘
’’تو اب تو کہاں جا رہا ہے؟‘‘
’’ذرا آگے پیچھے جائزہ لے آئوں گا اگلے شکار کا۔‘‘
وہ باہر کی طرف بڑھا کہ فون کی بیل بجنے لگی، اس نے اٹینڈ کیا ’’ہاں، اوئے ہوئے، چلو خیر ہے، چل فِر جب ٹھیک ہووے تو آجانا، ہاں ہاں‘‘ ۔
’’چلو ان کی گڈی خراب ہو گئی ہے، اب دیر لگ جانی ہے ان کو، تو اس کا خیال رکھ۔‘‘
’’یہ موبائل ہے‘‘ بچہ رونا بھول کر اس کے پاس آگیا۔
’’ہیں کیا؟‘‘ وہ سمجھ نہیں پایا۔
’’یہ فون ہے آپ کا؟‘‘
’’ہاں، کیا کرنا ہے تو نے؟‘‘
’’دیم (گیم) لا دو۔‘‘
’’گیم لگا دو۔ واہ جی واہ۔‘‘ اس نے گیم لگا کر فون بچے کے حوالے کر دیا۔
’’اسے کیوں دے رہا ہے۔ کسی کا فون آگیا تو…‘‘
’’تو تم لے کر بات کر لینا، میں بس گھنٹے میں آتا ہوں۔‘‘
وہ چلا گیا، نصیبو نے بچے کو دیکھا، وہ گیم کھیل رہا تھا۔ وہ کمرے سے باہر آئی، دروازے کو کنڈی لگائی اور اپنے کاموں میں لگ گئی۔ بچہ نارمل ہوتا تو وہ کبھی اسے فون نہ دیتے مگر یہ تو بچہ ہے ہی بے چارہ…‘‘ اب ان کے فرشتوں کو معلوم نہ تھا کہ فاران اور عرفہ نے اپنے نمبر اُسے کتنی مشکل سے سہی مگر یاد کروائے ہوئے تھے اور فون بھی پرانے ہندسوں والا تھا، روحان نے گیم روکی اور جلدی جلدی فاران کے نمبر ملائے۔ ’’پاپا، پاپا‘‘ فاران کی آواز سنتے ہی وہ رونے لگا، ’’روحان، روحان میرا بچہ، کہاں ہو تم، کس کے ساتھ ہو، روحان‘‘ وہ اس کی آواز سنتے ہی پاگلوں کی طرح چیخنے لگا تھا، اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ فون سے روحان کو برآمد کر لیتا۔ روحان کا نام سنتے ہی سب ارد گرد بیٹھے افراد الرٹ ہو گئے۔ اندر عرفہ تک بھی یہ بات پہنچا دی گئی تھی، وہ ننگے پائوں دوڑتی ہوئی فاران کے پاس پہنچی۔ ’’پاپا، پاپا‘‘ وہ اسی طرح رو رہا تھا۔ آج پہلی بار فاران کو اپنے بچے کی بے بسی پر رونا آیا، اگر وہ صحیح ہوتا اور بولنے کے قابل ہوتا تو اسے سمجھا تو دیتا کہ وہ کس جگہ پر ہے؟ عامر نے فاران سے فون لیا اور خود نارمل ہو کر اس سے بات کی ’’روحان میں آپ کا عامر ماموں ہوں۔ آپ کیسے ہو، ٹھیک ہو؟ آپ کے پاس کون ہے، انکل ہیں اور آنٹی بھی ہیں، اور بچے بھی ہیں، نہیں ہیں۔ اچھا آپ روئیں نہیں ہم ابھی آتے ہیں۔ ابھی آپ کو وہاں سے لے آتے ہیں۔‘‘
روحان نے فون بند کر دیا تھا۔ فاران خود پر قابو پاتے پاتے بھی شدتِ جذبات سے روپڑا تھا۔ اندر سے تو وہ ویسے ہی خود کو مجرم سمجھ رہا تھا۔ کیا تھا اگر وہ اپنے ساتھ جا کر اسے آئس کریم دلا کر لے آتا۔ اب اپنی غلطی کی کتنی بڑی سزا بھی تو بھگت رہا تھا۔ روحان کی آواز سُن کر اس کے دل پر چھریاں سی چل گئی تھیں۔ عامر اور کاشان بھائی نے اسے سمجھا بجھا کر ریلیکس کیا تھا۔ عرفہ کو بھی تسلی دی جو بے تحاشا رو رہی تھی۔
’’آپی، اب ہم لوکیشن ٹریس کروا کر وہاں پہنچ سکتے ہیں۔ آپ بس دعا کریں۔‘‘ وہ فاران کو لے کر پولیس اسٹیشن پہنچ گئے ’’دیکھیں یہ سب کرنے کے دوران دعا کریں، وہ بچے کو کوئی نقصان نہ پہنچائیں۔ ظاہر ہے انہیں فون کال کا پتا چلا تو کوئی رد عمل تودکھائیں گے۔‘‘
’’تو آپ جلدی کریں نا، وہ میرے بیٹے کو کچھ کر نہ دیں۔‘‘
فاران تو ہراساں ہو کر کھڑا ہو گیا۔ ’’پلیز پلیز‘‘۔ ایس ۔ ایچ۔او کمال صاحب نے تحمل کا اشارہ کیا اور فون پر کسی سے بات کرنے میں مصروف ہو گئے۔
٭٭٭٭
’’ارے یہ تو فون پر کسی سے بات کرتا رہا ہے، یہ دیکھ یہ کسی کا نمبر بھی ملایا ہوا ہے اور چار منٹ بات بھی کی ہے۔‘‘
اشفاق باہر سے آیا تو کھانا کھانے بیٹھ گیا، پھر کافی دیر بعد طیفو کا فون آیا کہ وہ آرہے ہیں تو اس کی نظر ڈائلڈ نمبر پر پڑی تو وہ بوکھلا کر اُٹھ گیا۔ ’’ہائے میں مر گئی، اس چول کو فون ملانا بھی آتا ہے۔ ’’اوئے بند کر اس فون کو‘‘۔
اشفاق نے فون ہی آف کر دیا۔ نصیبو نے بچے کو دو تھپڑ مارے ’’اوئے سانوں کملا بن کے دکھاندا ایں، اندروں پورا ایں۔‘‘
بچہ بُری طرح بلبلا رہا تھا۔ ’’جلدی جلدی یہاں سے نکلو۔ ہم اڈہ نمبر ۲ پر پہنچ کر طیفو کو بتا دیں گے، وہ وہاں سے اسے لے لے گا۔ جلدی نکل یہاں سے۔‘‘
لیکن بہت دیر ہو چکی تھی۔ پولیس نے نہ صرف ٹریس کر لیا تھا بلکہ بچے کو نقصان سے بچانے کے لیے بغیر سائرن بہ جائے، بغیر دستک دیئے دیواریں کود کر اندر آئے اور بچے سمیت سب کو گرفتار کر لیا تھا۔ دھڑکتے ہوئے دل کے ساتھ فاران، روحان کو دیکھ کر دوڑ کر آیا اور اُسے بازوئوں میں بھینچ کر بے تحاشا چومنے لگا اور عرفہ کی تو حالت دیکھنے والی تھی جو روتی تھی، ہنستی تھی اور اسے ساتھ لپٹائے بار بار چومتی تھی۔ واقعی ان کی کوئی نیکی ہی کام آئی تھی ورنہ ٹی وی اینکر چیخ رہے تھے خدارا اپنے بچوں کی حفاظت کیجیے، خدارا انہیں گھروں کے اندر محفوظ رکھئے۔ بچو کسی انکل! کسی آنٹی !سے کوئی ٹافی، چپس یا جوس نہیں لینا، ایسے انکل اور آنٹی جنہیں آپ پہلے کبھی جانتے ہی نہیں۔ بوری بند بچوں کی لاشوں کی تصویریں دکھا دکھا کر عبرت دلا رہے تھے۔ اخبار خوف ناک خبروں سے بھرے پڑے تھے اور پھر بھی بچے غائب ہو رہے تھے۔ کیا واقعی آج کل کے ماں باپ بے پرواہ ہو گئے ہیں یا اتنے غافل کہ بچوں سے متعلق اتنے خوف ناک حقائق جان کر بھی ان کے تحفظ کے لیے کوئی لائحہ عمل اختیار نہیں کرتے، کتنے اشفاق اور نصیبو پکڑے جائیں گے۔دس میں سے ایک تو خدارا خود اپنے بچے اپنے گھروں میں، اسکولوں میں محفوظ رکھنے کا بندوبست کریں۔
٭٭٭٭




Loading

Read Previous

پہچان — صائمہ اقبال

Read Next

کرم جلی — فرح بھٹّو

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!