کرم جلی — فرح بھٹّو

’’آپ کو اپنی بیوی کی جان لینی ہے کیا؟‘‘
لیڈی ڈاکٹر نے رضیہ کا مکمل چیک اپ کرنے کے بعد مبشر کو اندر کمرے میں بلایا۔
اور عینک کی اوٹ سے مبشر کو کڑی نظروں سے گھورتے ہوئے بولی۔
مبشر نے پہلو بدلا-
’’آپ کی مسز میں خون کی بے حد کمی ہے اور بھی کئی پیچیدگیاں ہیں۔ پانچواں حمل کسی طور مناسب نہیں تھا، جب کہ بچے بھی بڑے آپریشن سے ہوتے ہوں۔‘‘
لیڈی ڈاکٹر کا سخت لہجہ مبشر کو خون کے گھونٹ بھرتے ہوئے سہنا پڑا۔ اس کے گھر کی کوئی عورت ایسے لہجے میں بات کرتی تو اس کی زبان گدی سے پکڑ کر باہر کھینچ لیتا ۔
اس نے غصیلی نظر اپنی بیوی رضیہ پر ڈالی جو کالا نقاب لیے سر جھکا کر بیٹھی تھی۔
’’آپریشن کا ٹنٹنا نہ ہوتا تو گائوں کی دائی رحیمہ سے بھی کیس کروایا جاسکتا تھا۔‘‘
مبشر نے رومال کندھے پر ڈالتے سوچا۔
’’اولاد اللہ کی رضا سے ہوتی ہے بیٹا ہو یا بیٹی۔ اس میں عورت کا کوئی قصور نہیں، لیکن تم لوگ یہ بات نہیں سمجھتے۔‘‘
لیڈی ڈاکٹر نے مزید جلتی پر تیل چھڑکا ،اس بار مبشر بھڑک اٹھا۔
’’بات سُن بی بی! میں نے ادھر پیسے چیک اپ کے لئے جمع کروائے ہیں۔ مشورے سننے کے لئے نہیں ۔‘‘
مبشر نے اتنا ہی کہا تھا کہ لیڈی ڈاکٹر اپنی سیٹ سے ایک دم کھڑی ہوگئی۔
’’اجڈ اور جاہل ہو تم لوگ ۔ عورت کو بچے پیدا کرنے کی مشین سمجھ رکھا ہے۔ فوراً نکلو یہاں سے! میں یہ کیس لینا بھی نہیں چاہتی جس میں تم نے بیوی کو مارنے کی پوری پلاننگ کر رکھی ہے۔‘‘
ڈاکٹر نے بیل بجائی تو چپراسی دوڑا آیا۔
’’چل اٹھ اب منہ کیا دیکھ رہی ہے؟ اور بے عزتی کروانی ہے۔‘‘
مبشر نے رضیہ کو بازو سے پکڑ کر کھڑا کیا اور تن فن کرتا باہر لپکا، ساتھ رضیہ بھی گھسٹتی جارہی تھی۔ ڈاکٹر کا نسخہ بھی ہاتھ سے چھوٹ کر گر پڑا تھا۔
٭٭٭٭





سنبھال اس کو اماں۔ آج اس نے ڈاکٹرنی کے سامنے میری بے عزتی کروائی ہے۔‘‘
گھر میں آتے ہی مبشر نے رضیہ کو زور دار قسم کا دھکا دیا تو وہ صحن کے بیچوں بیچ رکھی چارپائی سے جا ٹکرائی۔ ہاتھوں سے اگر چارپائی کا پایا نہ پکڑتی تو زمین پر گرتی مگر چوٹ پیٹ پر لگی۔
دھکا لگنے کے سبب پیٹ میں موجود سانس لیتی جان مچھلی کی طرح تڑپ اُٹھی۔
رضیہ وہیں لکڑی کے پائے کے ساتھ فرش پر بیٹھ گئی۔
’’کیا کردیا اس کرموں جلی نے؟‘‘
اماں جو اسی چارپائی پر پیر لٹکائے بیٹھی تھیں، تنّفر سے پوچھنے لگیں۔
’’جب سے بیاہ کر آئی ہے کبھی سر اونچا بھی کیا ہے میرا ؟
ہمیشہ بے عزتی کروائی ہے ۔‘‘ وہ منہ پھلا کر ماں کے برابر جا بیٹھا۔
’’ہک ہا،کیا کیا ارمان لے کر تیرا ویاہ اس کرم جلی سے کروایا تھا۔ کیا خبر تھی میرے لعل کو کم بخت جوانی میں ہی بوڑھا کردے گی۔ چار چار ڈائنیں پیدا کرکے،برادری میں ہماری گردن جھکا دی…قطار لگا دی لڑکیوں کی۔‘‘ اماں نے پیر سے رضیہ کو ٹھڈا مارا۔
’’اتنے پیسے خرچ کرکے اس کا آپریشن کرواتے ہیں۔ گھر لے کر آتی ہے منہ کی کالک۔‘‘
’’آس پڑوس کی عورتیں ہنسا کرتی ہیں کہ بھئی ہم نے تو دائیوں کے ہاتھوں جنے وہ بھی شہزادوں جیسے لعل اور تیری بہو اتنے روپے خرچ کرواکر سوکھی سڑی کڑیاںساتھ لاتی ہے ۔‘‘
اماں سرد آہیں بھرنے لگی۔
’’اماں اس بار اگر لڑکا نہ ہوا تو دیکھنا کیسے اس کو دھکے مار کر گھر سے نکالتا ہوں۔ حاجرہ ویسے بھی میرے ساتھ نکاح کو ترس رہی ہے مگر تیری چاہت تھی کہ اپنی بہن کی بیٹی لانی ہے۔‘‘
مبشر نے اپنے آئندہ لائحہ عمل سے آگاہ کیا تو رضیہ کا دل بیٹھ گیا۔ اسی دن کے خوف سے تو اس نے اپنے لاغر اور ناتواں وجود کو پانچویں بچے کے لئے آمادہ کیا تھا ورنہ تو اس میں تنکا اٹھانے کی بھی سکت نہ رہی تھی۔ پہ در پہ ضائع ہوتے حمل جب ٹھہرتے تو لڑکے کی اُمید بندھ جاتی لیکن پھر بھی لڑکی کا منہ دیکھنا پڑتا تھا۔ ایک لڑکی ہوتی تو پیچھے دو حمل ضائع ہوجاتے، علاج کون کرواتا یہی سلسلہ چلتا رہا۔
ضائع ہونے والے حمل پر ساس دوہتھڑے سینے پر مار کر کہتی۔
’’ہائے ڈائن… جان کر لڑکے پیٹ میں مار دیتی ہے تاکہ میرے بیٹے کی نسل نہ چل سکے۔‘‘
وہ عقل سے بالاتر الزامات لگایا کرتی تھی اور رضیہ سر جھکائے لعن طعن سہتی رہتی۔
٭٭٭٭
’’اے میرے اللہ! مجھے اس بار بیٹا دے دے… میری لاج رکھ لے۔‘‘
رضیہ مصلّہ بچھائے، ہاتھ اٹھائے دعائوں میں مصروف تھی۔
تھوڑی دور کھیلتی تینوں بچیوں نے بھی ہاتھ اٹھا کر بھائی کے لیے دعا مانگی۔ چھوٹی والی دو برس کی تھی، شعور رکھتی تو وہ بھی ہاتھ اُٹھا لتی کہ رضیہ اور بچیوں کو اپنی جان کی امان اسی صورت میں ملنی تھی جب ان کے ہاں لڑکے کی آمد ہوتی بہ صورت دیگر ماں کے ساتھ باپ اور دادی کا ناروا سلوک ان کے سامنے تھا۔ خیر بخشتی تو دادی ان کو بھی نہ تھی ہر بچی کو ’’کرم جلی‘‘ کے نام سے پکارتیں، اب تو رضیہ بھی اپنی بیٹیوں کے اصل نام بھول چکی تھی۔
٭٭٭٭
پھر آخر کار شہر کے ایک سرکاری اسپتال میں رضیہ کو دردزہ سے تڑپتے لایا گیا۔ ساس وہیں برآمدے کے ایک کونے میں مصلّہ بچھا کر بیٹھ گئی اور رو رو کر اتنی رِقت سے دعا مانگنے لگی کہ پاس سے گزرتے لوگ اور نرسیں دل میں اس مریضہ کو خوش قسمت گرداننے لگے، جس کی خاطر یہ معمر عورت بے چین ہوکر خدا سے التجائیں کر رہی تھی ۔
’’اور دلوں کا حال تو اللہ ہی جانتا ہے ۔‘‘
مبشر بھی آپریشن تھیٹر کے باہر ٹہل رہا تھا۔
اتنے میں ایک نرس آپریشن تھیٹر کا دروازہ کھول کر باہر آئی اور پوچھا۔
’’رضیہ مبشر کے شوہر آپ ہیں۔‘‘
’’جی میں ہوں۔‘‘
مبشر دوڑ کر آیا۔
’’کیا ہوا ہے بیٹی یا بیٹا؟‘‘
وہ اشتیاق سے پوچھنے لگا۔
’’جی بیٹا لیکن افسوس آپ کی بیوی کا انتقال ہوگیا۔‘‘
نرس بتانے لگی، مبشر نے تو بیٹا لفظ سن کر ایک نعرہ لگایا۔
’’اماں اماں سنتی ہو تیری دعا قبول ہوئی۔ مجھے بیٹا مل گیا… میری عزت اونچی ہوگئی۔‘‘
وہ خوشی سے ناچنے لگا ۔
اماں فوراً اُٹھ کر بیٹے کے گلے لگ گئی۔ ’’میرا بچہ …میرا لعل …تیری نسل چل پڑی۔‘‘
ان دونوں کو خوشی سے بے قابو دیکھ کر اطلاع دینے والی نرس کا منہ کھلا رہ گیا۔
’’اماں تمہاری بہو دنیا میں نہیں رہی۔‘‘
ہکا بکا سی نرس نے اونچی آواز میں بتایا تو رضیہ کی ساس پل بھر کو خاموش ہوئی۔
’’ہائے ہائے کیسی قسمت لے کر آئی کرمو جلی کہ اپنے بیٹے کا منہ بھی نہ دیکھ سکی۔‘‘
اس نے افسوس سے سر ہلایا اور پھر سے پوتے کی خوشی میں مست ہوگئی۔

٭٭٭٭




Loading

Read Previous

گھر کا چراغ — شبانہ شوکت

Read Next

لاپتا — سندس جبین

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!