پہچان — صائمہ اقبال

’’میں تو وہاں ڈٹ کر کھڑی ہو گئی۔ کسٹم آفیسر اپنے آپ کو پتا نہیں کیا سمجھ رہا تھا۔ بھئی ایک گل دان ہی تو تھا۔ ایسے ٹھونک بجا کر دیکھ رہا تھا جیسے کئی کلو ہیروئن اس میں بھر کر سمگل کرنے والی ہوں۔‘‘
فاطی نے اپنے شولڈر کٹ بالوں کو ایک جھٹکا دے کر رعونت سے پیچھے کیا تھا۔ وہ سب مسحورہو کر اُسے سُن رہی تھیں۔ گوری چٹی فاطی یہی کوئی چالیس سال کی ہو گی۔ اُس نے اپنے آپ کو کافی فٹ رکھا ہوا تھا اس لئے اپنی عمر سے کچھ چھوٹی ہی لگتی تھی۔ موضوع کوئی بھی ہو، کسی نے بھی شروع کیا ہو فاطی سے زیادہ معلومات کسی کے پاس تھیں اور نہ کوئی اس طرح دلیل سے بات کر سکتا تھا۔
’’سب کو عام عورتوں کی طرح ہی ٹریٹ کرتے ہیں۔ جو ان کی بات سُن کر کونوں کھدروں میں جھانکنے لگتی ہیں۔ ذرا انگلش میں بات کیا کی، میڈم میڈم کرنے لگا۔‘‘
سب کھِی کھِی کرنے لگیں تھیں۔
’’یہاں ایسے ہی کرتے ہیں یہ کسٹم والے، تنگ کرنے کا کوئی موقع جانے نہیں دیتے ہاتھ سے۔‘‘
یہ فارحہ تھی۔ فاطی اور فارحہ کی خوب بنتی تھی۔ خیالات جو ایک جیسے تھے۔ ایک دوسرے کی ہاں میں ہاں ملانا ان کا فرضِ اولین تھا۔
یہ اپنے وطن سے کوسوں دور بیٹھی عورتوں کی ایک پارٹی کا احوال ہے۔ شاید اسے کِٹی پارٹی کہنا چاہیے ۔ ان کی تعداد یہی کوئی آٹھ دس رہی ہو گی۔ یہ کوئی ایلیٹ کلاس کی بیگمات نہیں ہیں لیکن ’’یہاں‘‘ وہ اپنے آپ کو اسی صف میں شامل کرتی ہیں۔ ان کی سب سے بڑی صفت اوورسیز پاکستانیہوتی ہے۔
اُسے یہاں آئے ابھی کچھ مہینے ہوئے تھے۔ سب کچھ اُس کے لئے بہت نیا تھا۔ پاکستان سے دور ہونے کی اُسے کبھی خواہش تھی اور نہ ہی جستجو، لیکن شوہر کی جاب کی بدولت اِدھر آنا پڑا تھا۔ حسن علی (اُس کے شوہر کے دوست) کی بیگم شفق کے ساتھ وہ پہلی بار ون ڈش بنا کر اِدھر آئی تھی۔
اُس کا دھیان باتیں کرتی فاطی سے ہٹ کر سفید پردوں پر جا پڑا تھا۔ پردے باہر سے آتی ہوا سے ہلکے ہلکے لرز رہے تھے۔ ایک گہرا سانس لے کر اُس نے ہوا کی شفافیت کو اپنے اندر اتارا۔
’’نقشین اگر نان تھوڑی دیر اور اوون میں رہنے دیتی ناں تو یہ بہت مزے کے بنتے۔‘‘
کھانا کھل چکا تھا اوراب کھانے کا تیا پانچا ہو رہا تھا۔
’’نان تو شمائلہ ہی بناتی ہے اور سچ پوچھو تو اسی نے تو متعارف کروائے ہیں یہاں، اس سے اچھے نان کوئی نہیں بنا سکتا۔‘‘
پتا نہیں نقشین کی برائی تھی یا شمائلہ کی تعریف، وہ کچھ سمجھ نہیں سکی۔ وہ اچانک ہی بے چینی کا شکار ہوئی تھی۔ اُس نے حلیم کے اوپر کتری ہوئی ادرک ڈالی ہی نہیں اور بھنی ہوئی پیاز اُسے یہاں نظر نہیں آرہی تھی۔ پتا نہیں کسی کا دھیان اس طرف گیا تھا یا نہیں لیکن وہ بے چینی سے کئی بار پہلو بدل بیٹھی تھی۔
’’یار تم کیسے رہ لیتی ہو گھر پہ، مجھ سے تو کبھی نہ رہا جائے بڑا مشکل کام ہے گھر پہ سارا سارا دن بھلا بندہ کرے تو کرے کیا اور کچھ کرنے کو نہ ہو تو، میں تو پھر بھی ونڈو شاپنگ کے لئے نکل جاتی ہوں۔‘‘
اب نشانۂ مشقِ ستم اسی طرح کی کوئی اور بے چاری تھی یہ رِدا تھی جو کھانے کے ساتھ پورا انصاف کرتے، عابی کے بخیے اُدھیڑ رہی تھی۔ عابی بے چاری بغلیں جھانکنے لگی۔ عابی جاب نہیں کرتی تھی کوئی یونی ورسٹی بھی جوائن نہیں کی تھی اور اس کا گھر میں رہنا باقی خواتین کے لیے حیرت، استعجاب اور وحشت کی علامت تھا۔
’’ادرک‘‘ نہ ڈالے جانے کی بے چینی کی جگہ اب ’’فارغ‘‘ہونے کی بے چینی نے لے لی تھی۔ وہ بھی تو کچھ نہیں کرتی تھی۔ شکر تھا کہ اکیلے میں پوچھا جانے والا سوال۔
’’تم کیا کرتی ہو؟‘‘
ابھی تک سب کے سامنے نہیں پوچھا گیا تھا۔
’’اگر مجھے سارا دن گھر میں رہنا پڑے تو میں تو پاگل ہی ہو جائوں۔‘‘
حد سے زیادہ روکھے اور خشک بالوں والی ردا نے لمبے ناخنوں والے ہاتھ کچھ اوپر کرتے چہرے پر کچھ ایسے تاثرات سجائے تھے کہ باقی لوگوں کے ساتھ ساتھ اُسے عابی اور خود اپنا آپ بھی بے چارا سا لگنے لگا تھا۔
جاب کرنا جبری بات نہیں تھی اسی طرح حجاب نہ کرنا بھی بُری بات نہیں تھی۔ لیکن یہاں بیٹھی ساری عورتوں کے لیے یہ بات کسی اچھنبے سے کم نہیں تھی کہ گھر کس طرح دیا جا سکتا ہے۔ کیا ان کے وطن کی ساری خواتین اور وہ خود بھی ایسی ہی تھیں جب وہ اُدھر تھیں۔
مال میں پھرنا، ونڈو شاپنگ کرنا، کافی شاپ میں بیٹھ کر کافی کے ساتھ چار دوسری عورتوں کی برائیاں کرنا بھی تو ایک ’’بڑا کام تھا‘‘ اور وہ اسے بڑے ذوق و شوق سے انجام بلکہ سرانجام دے رہی تھیں۔
’’حارث ٹھیک ہی کہتے ہیں۔ یہ بے چارے گورے تو اپنے کام سے کام رکھتے ہیں۔ کبھی نظر اٹھا کر دیکھتے تک نہیں۔ پاکستانیوں سے اللہ بچائے۔ لڑکی بعد میں دیکھیں گے آنکھیں اُبل کر پہلے باہر آجائیں گی۔‘‘
فاطی چکن سے انصاف کرتے ایک پھر ایکشن میں تھی۔ ناک سکوڑ کر ناگواری کا اظہار کرتے اُس نے اپنی ……حواریوں کی جانب دیکھا جو اس کی ہاں میں ہاں ملا رہی تھیں۔
’’گورے بھی بھلا مرد تھے۔ مرد تو صرف اس کے ہم وطن تھے جن سے ’’پردہ‘‘ جائز تھا۔ باقیوں کے سامنے تو سر جھاڑ منہ پھاڑ پھرا جا سکتا تھا۔‘‘
ورطۂ حیرت میں غوطہ زن وہ ان مصنوعی خواتین کو سُن رہی تھیں۔
’’یاد نہیں وہ’’طوری‘‘ center میں سٹال لگایا تھا جب۔‘‘
نقشین نے جانے کیا یاد کرانے کی کوشش کی تھی۔
’’اُف کیسا عجیب ڈرامہ ہوا تھا۔ اچھی خاصی چل رہی تھی نمائش، بس کچھ ہم وطن لوگوں نے آکر ہی سارا مزا کِرکرا کر دیا تھا۔ میں نے تو فوراً منہ پھیر لیا بھلا اب ان کے سامنے ہم ایسے ہی کھڑے رہیں۔‘‘
وہ نمائش اس نے بھی دیکھی تھی۔ عین سینٹر میں فاطی اور اُس کی دو سہیلیوں نے سٹال لگایا تھا۔ بنی ٹھنی میک اپ زدہ چہرے لئے وہ جیولری بیچ رہی تھیں لیکن جونہی اُن کے ہم وطن ادھر آنکلے منہ پھیر کر ہی کھڑی ہو گئیں۔
’’آج ’’چوچی‘‘ نہیں آئی۔‘‘
نقشین نے رِدا سے پوچھا تھا۔ ردا نے اپنے کھردرے بم پھٹے بالوں کو بڑی ادا سے سنوارنے کے ساتھ نفی میں جواب دیا ’’چوچی‘‘ کے نام پر باقی چہرے مسکرا اُٹھے تھے۔
’’چوچی‘‘ اس محفل سے غیر حاضر ایک ایسی خاتون کا ’’نامِ گرامی‘‘ تھا جو محفل میں موجود دوسری خواتین نے انہیں دے رکھا تھا اور ان کی عدم موجودگی میں انہیں اسی لقب سے یاد کیا جاتا تھا۔ ’’وجۂ تسمیہ‘‘ اُن کی اپنے آپ کو چھوٹے بنا کر پیش کرنے کی کوششیں تھیں۔
’’یار مزا نہیں آرہا کچھ ’’چوچی‘‘ کے بغیر۔ کچھ جان نہیں لگ رہی محفل میں۔ اب بھلا میں اپنے آپ کو سب سے چھوٹی بنا کر پیش کرتی اچھی لگوں گی۔‘‘
یہ شمائلہ تھی جو کب کی چپ تھی۔ کچھ تو اس کا بھی حصہ ہونا چاہیے ناں۔
’’سولہ سال کی تھی جب شادی ہوئی تھی۔‘‘
شمائلہ نے شاید چوچی کی نقل اتاری تھی۔ (اسے ابھی جو چی کا نام معلوم نہیں تھا)
’’تم بھول رہی ہو سولہ نہیں پندرہ سال کی تھی چوچی۔‘‘
فاطی نے اتنی سنجیدگی سے تصحیح کی تھی کہ وہاں بیٹھی سب خواتین ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہو رہی تھیں۔ اس نے سنجیدگی سے ان مہذب و پڑھی لکھی خواتین کو دیکھا جو اس وقت اپنی تہذیب بیگ میں رکھ کر اس کی زپ بند کر چکی تھیں۔
ہمایوں کو آنے کا کہہ دینا چاہیے۔ بہت دیر ہو گئی ہے اب تو۔ سوچتے سوچتے اُس نے بیگ سے موبائل نکالا۔
’’رافعہ؟‘‘ یہ تمہارا شادی کا سوٹ ہو گا۔‘‘
اُس کے سوچتے سوچتے شاید گفت گو کا موضوع بدل گیا تھا۔ موضوع بحث اب وہ خود ہی تھی۔
’’یعنی شادی کی سوٹوں میں سے ایک سوٹ۔‘‘
فرحین نے تفصیل کے ساتھ تصحیح بھی کر دی۔
’’جی۔‘‘
اس نے بڑے مرے مرے انداز میں جواب دیا تھا۔ اس کی قمیص کی لمبائی درمیانی تھی اور اب کافی لمبی قمیصیں چل رہی تھیں۔ کچھ عرصہ پہلے کا فیشن بکسر بدل گیا تھا۔ ساس اور اپنی امی کی اپنے لیے خریدی ہوئی چیزیں اُس نے اسی احتیاط سے استعمال کی تھیں، جس طرح وہ اپنی پسند کی چیزیں استعمال کرتی تھی۔
فرحین اس سے سوال پوچھ کر لاتعلق ہو گئی تھی تعریف نہ تنقید، مقصد صرف اسے احساس دلانا تھا۔ باقیوں نے بھی بڑے غور سے اُسے عجوبے کی طرح اوپر سے نیچے تک دیکھا تھا۔
اُسے ان کی سوچ پر افسوس ہونے لگا۔ عجیب سوچ کی حامل خواتین سے واسطہ بڑا تھا اس کا۔ اس کے بعد نہ کبھی وہ کسی پارٹی میں گئی تھی اور نہ ہی کبھی جانے کی خواہش رہی تھی۔ اُسے اپنا گھر اور گھر کا سکون بے حد عزیز تھا۔ گھر رہنے کی خواہش کو اس نے دل و جان سے پورا کیا تھا بچوں کی ذمہ داریاں اور شوہر کی خوش نودی اُسے ہر چیز سے زیادہ عزیز تھی۔ ایک ایسے معاشرے میں رہتے ہوئے جہاں آپ کے اپنے جیسے لوگ اور ماحول نہیں ہوتا وہاں آپ کے گھر اور اپنے بچوں کو آپ کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے اور وہ اس ضرورت کو سمجھ گئی تھی۔’’فاطی کی بیٹی نے انگریز کلاس فیلو سے شادی کر لی تھی۔‘‘
اس بات کا اندازہ اُسے پہلے نہیں ہوا تھا۔ لیکن اب ہو گیا تھا۔ کبھی وہ سوچتی اُسے بچوں کو چار سال کا ہونے سے پہلے ہی ڈے کیئر بھیجنا چاہیے تھا وہ یہاں کی زبان تو اچھے طریقے سے سیکھ لیتے۔ کبھی اُسے لگتا وہ بہت فارغ ہے گھر پر رہتی ہے۔ گھر پر رہنا اُس کی اپنی پسند تھی تو پھر وسوسے کیوں تھے۔ کبھی کبھار اُسے پاکستان والی جاب چھوڑنے کا افسوس ہوتا۔ لیکن اب اُسے احساس ہوا تھا کہ ونڈو شاپنگ، کافی، کِٹی پارٹیز اور پارلر کے چکر اتنے اہم نہیں ہیں جتنا بچوں کو وقت دینا اہم ہے۔
جاب کے ساتھ آپ اپنی ذمہ داریاں بہت اچھے سے پوری کر سکتی ہیں لیکن بہت زیادہ سوشل ہونا باقی چیزوں کو بہت پیچھے چھوڑ دیتا ہے۔
عورت کی ایک ذمہ داری اُس کا اپنے مقام کو پہچاننا بھی ہے۔
اوورسیز رہنا کوئی قابلیت نہیں نا ہی انگلش بولا قابلیت کے زمرے میں آتا ہے۔ اسی طرح جاب کرنا یا نہ کرنا آپ کی ذاتی پسند ، ناپسند یا حالات پر منحصر ہے۔ فیشن آپ کا شوق ہو سکتا ہے یا سادگی آپ کی ترجیح، سب سے بڑی بات عورت کا اپنے صحیح مقام کا تعین کرنا ہے۔ عورت چاہے وطن میں رہے یا وطن سے باہر، اس کی ذمہ داریاں ایک سی رہتی ہیں۔ ان ذمہ داریوں میں تصنع، بناوٹ، نمائش اور کھوکھلی قابلیت کہیں بھی نہیں ہے۔

٭٭٭٭




Loading

Read Previous

قرض — وقاص اسلم کمبوہ

Read Next

گھر کا چراغ — شبانہ شوکت

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!