موبائل یاریاں — عرشیہ ہاشمی

’’ابرار… اٹھ جائو نا اب … کبھی تو وقت پر بات سُن لیا کرو۔‘‘
امی کوئی پانچ بار اسے آواز دے چکی تھیں وہ موبائل فون پر مسلسل کچھ ٹائپ کرتا رہا اور امی کے کام کو ٹالتا رہا تو وہ سر پر آن پہنچی تھیں۔
’’اچھا امی… بتائیں کیا کیا لانا ہے…؟؟ ’’ابرار نے موبائل فون اپنی پینٹ کی جیب میں ڈالتے ہوئے امی سے پوچھا۔
’’صبح سے ہزار بار بتا چکی ہوں۔ دھیان کدھر رہتا ہے تمہارا… اور اس فون میں ایسا کیا ہے، جو اس کی جان نہیں چھوڑتے تم؟ امی نے پہلے اُسے ڈانٹا اور پھر اپنی توپوں کا رُخ موبائل فون کی طرف کرلیا۔
’’چلیں بتا دیں ناں اب پہلے ہی کافی دیر ہو گئی ہے۔‘‘ موبائل فون کی شامت آنے سے پہلے ہی اس نے بات بدل دی۔
٭٭٭٭
اریبہ کچن میں مصروف تھی۔ پرات میں آٹا نکالنے کے بعد ڈونگے میں پانی ڈالا ہی تھا کہ سیل فون پر وائبریشن ہوئی۔ اس نے پہلے اِردگرد نظر دوڑائی پھر اپنے دوپٹے میں بندھے چھوٹے سے فون کو نکال کر میسج چیک کرنے لگ گئی۔
’’گڑیا! کیا کر رہی ہو؟‘‘ میسج پڑھتی اریبہ کے چہرے پر مُسکراہٹ در آئی۔
’’بریانی پکا رہی ہوں۔‘‘ اس نے تیزی سے بٹن پریس کرتے ہوئے جواب ٹائپ کیا۔
’’اپنا ہاتھ نہ جلا دینا۔ دھیان سے پکانا گڑیا۔‘‘ جھٹ سے جواب آن پہنچا جسے پڑھ کر اریبہ ایک بار پھر مسکرا دی۔
’’اتنا خیال ہے اسے میرا… ایک ہماری اماں ہیں، جن کو اپنی بیٹی کا ذرا بھی خیال نہیں۔ اتنی گرمی میں کچن میں لاکھڑا کیا اماں نے۔‘‘ موبائل فون کو واپس اپنے دوپٹے سے باندھتے ہوئے وہ سوچنے لگی۔
٭٭٭٭





’’تمہیںڈر نہیں لگتا اریبہ… تم نے گھر والوں سے چھپ کر موبائل فون رکھا ہوا ہے تو…؟؟‘‘
’’ڈر کیسا میری جان… یہ مائیں ناں بڑی سادہ ہوتی ہیں اور اولاد… بڑی چالاک… اماں کی نظروں میں کبھی میرا موبائل فون نہیں آئے گا۔‘‘ اس نے آنکھیں چلائی۔
’’کبھی پردہ اُٹھ بھی تو سکتا ہے اریبہ… تمہاری اماں کو کتنا دکھ ہو گا جب انہیں یہ سب پتا چلے گا۔‘‘ اس کی کلاس فیلو اور پڑوسی نائلہ نے اُسے آنے والے وقت سے ڈرانا چاہا۔
’’ایسا کبھی نہیں ہو گا نائلہ… اور میں کون سا ہمیشہ موبائل رکھوں گی۔ یہ تو کچھ وقت گزاری کے لیے رکھا ہے۔‘‘
’’کچھ بھی ہویہ غلط ہے۔‘‘
’’بس بس… اب تم اماں بننے کی کوشش مت کرو۔‘‘ نائلہ ابھی مزید کچھ کہنا چاہتی تھی لیکن اریبہ نے ہاتھ بلند کرتے ہوئے اُسے وہیں روک دیا۔
٭٭٭٭
مسز احمد مہینے بھر کی دالیں صاف کر کے پلاسٹک کے بڑے بڑے جارز میں ڈالتی جا رہی تھیں۔ ابھی تقریباً آدھا کام باقی تھا۔ ابھی انہوں نے خشک دھنیا اور گرم مصالحے ٹرے میں نکال کر اُسے صاف کرنا چاہا کہ ڈیجیٹل فون کی گھنٹی بجنے لگی۔ وہ اپنا کام ادھورا چھوڑ کر فون کی طرف چلی گئیں۔
’’ہیلو‘‘ انہوں نے تقریباً پانچویں گھنٹی پر فون اُٹھایا تھا۔
’’جی‘‘
’’بات کیا ہے آپ صاف صاف بتائیں۔‘‘ فون کے دوسری جانب شاید کوئی غیر معمولی بات تھی۔ ان کے تاثرات میں پریشانی اور پھر غصہ واضح نظر آنے لگا تھا۔
’’میر ابیٹا ایسا نہیں ہے۔ میں اپنے بیٹے کو آپ سے زیادہ جانتی ہوں… خبردار جو آپ نے اب ابرار پر کوئی الزام لگایا۔‘‘ وہ غصے سے مخاطب پر برس پڑیں تھیں۔
’’ارے… آپ اپنی بیٹی کو سنبھال کر رکھیں۔ غیر مردوں کو ورغلانے کے لیے بیٹی نے ٹھیکا لے رکھا ہے اور ماں باپ ہیں کہ دوسروں کے شریف لڑکوں پر الزام دھرنے پہنچ جاتے ہیں۔‘‘ غصے میں انہوں نے جواب دیا اور فون کا ریسیو کریڈل پر رکھ دیا۔
’’حد ہوتی ہے بے حیائی کی… اپنی بیٹیاں تو سنبھالی نہیں جاتیں الزام لڑکوں پر دھر دیتے ہیں۔‘‘ انہوں نے باقی ماندہ کام نمٹاتے ہوتے خود کلامی کی۔ اب وہ دل ہی دل میں اس لڑکی کو کوسے جا رہی تھیں، جس کے موبائل سے ابرار کے میسجز پکڑے گئے تھے۔ پھر کچھ خیال آیا تو سیڑھیاں چڑھ کر اوپر اس کے کمرے میں جا پہنچیں۔
’’ابرار‘‘دروازے کے اندر قدم رکھتے ہی انہوں نے ابرار کو مخاطب کیا تو موبائل فون پر میسج کرتا ہوا ابرار اماں کی اچانک آمد پر بوکھلا اُٹھا۔ لیکن جلد ہی اپنی بوکھلاہٹ پر قابو پالیا۔
’’جی امی… آئیں ناں‘‘ موبائل فون کو دھیرے سے سرہانے کے نیچے سرکاتے فرماںبرداری سے اُس نے امی کی بات کاجواب دیا۔
’’یہ عاصمہ کون ہے…؟؟‘‘ ماتھے پر شکنیں ڈالتے ہوئے مسز احمد نے ابرار سے ڈائریکٹ اُس لڑکی کے بارے میں پوچھ لیا۔
’’عاصمہ کون عاصمہ…؟؟ مجھے کیا پتا کون ہے یہ عاصمہ میں تو نام ہی پہلی بار سن رہا ہوں‘‘ وہ اَن جان بن کر حیرت سے اپنی ماں کو دیکھ رہا تھا۔
اُس کی اس لاتعلقی اور لا علمی پر مسز احمد کے دل کو سکون سا ملا تھا۔
’’خوامخوا میرے بیٹے پر الزام دھر دیا۔ یہ تو اس کو جانتا بھی نہیں ہے۔‘‘ انہوں نے دل ہی دل میں الزام لگانے والے کو بُرا بھلا کہا۔
’’کچھ نہیں بیٹا… پتا نہیں کون ہے یہ عاصمہ تم اپنا کام کرو۔‘‘ مسز احمد بات کو ٹالتی ہوئی واپس نیچے چلی گئیں۔
٭٭٭٭




Loading

Read Previous

لاپتا — سندس جبین

Read Next

خسارہ — تشمیم قریشی

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!