ہائے کاش تو کہتا، تاجی دریا میں کود جا میری خاطر تو میں ہنس کر کود جاتی۔۔ اب بھی کودی ہوں پر یہ دریا نہیں آگ ہے۔ روز جلتی ہوں ۔روز مرتی ہوںتیرے ساتھ قدم
رات کا آخری پہر تھا حرف اپنے بستر پہ لیٹا اونگھ رہا تھا۔ اس کے ساتھ والے بیڈ پہ لیٹا حرف کسی گہری سوچ میں ڈوبا ہوا تھا۔ نیند اس کی آنکھوں سے کوسوں دور
تیسرے دن میں ابھی پبلک ریلیشنز کا پیریڈ اٹینڈ کر کے نکلی ہی تھی کہ اسے کلاس روم کے باہر اپنی مخصوص مسکراہٹ سمیت منتظر پایا۔ سُرخ ٹی شرٹ اور جھاگ جیسی سفید پینٹ پہنے
مبارک پور کی جنازہ گاہ میں بچوں کا بہت رش تھا۔ ظاہرہے کوئی فوت ہوا تھا۔ مگر فوت ہونے والا کون تھا۔۔۔ ؟ جنازہ گاہ میں بچوں کی موجودگی ایک انہونی بات تھی۔ ایک راہ
’’یہ میرا وقت ہے۔ مَیں جیسے بھی گزاروں‘‘ زہیر نے مسکرا کر کہا تو وہ اسے دیکھتی رہ گئی۔ ’’بتائو ضرورت یا عادت؟‘‘ زہیر نے اپنا سوال دہرایا۔ ’’ضرورت بہت بڑی حقیقت ہے۔ معاشی ضرورت،
شنو تو شائد واقعی تارہ سے جان چھڑانا چاہتی تھی سو جو منہ میں آتا بول دیتی….. شنو کا ایسے ہی جلدی جلدی لوگوں سے دل بھر جایا کرتا تھا…. اور کچھ یہ بھی تھا