چاند میری زمین، پھول میرا وطن — زاہدہ عروج تاج

’’موٹا آلو گول گول ۔۔۔۔ کر کے کھا رول رول۔۔۔‘‘ اعتزاز جیسے ہی ناشتے کی میز پر آیاربیعہ اور فیض نے لہک لہک کر گنگنانا شروع کر دیااور سلام کے انداز میں سر کو ایک جانب جھکایا۔ اعتزاز بھی چڑنے کی بجائے کورنش بجا لایااور مسکراتے ہوئے خالی کرسی کھینچ کر اس پر بیٹھ گیا ۔
’’امی جی ! ۔۔۔ناشتہ ۔۔۔۔‘‘ اس نے کچن کی طرف منہ کر کے آواز لگائی ۔ ’’دس پراٹھے، بارہ آملیٹ ،دو جگ دودھ اور چار ٹکیاں مکھن۔۔۔۔‘‘ اعتزاز کے ناشتے کی آواز لگاتے ہی فیض نے لوازمات گنے اور ربیعہ نے ’’صرف‘‘کا لمبا تڑکا لگایا۔ حالاںکہ اعتزاز بے چاراناشتے میں صرف ایک آملیٹ اور دو بریڈ سلائس یا کبھی کبھار پراٹھا لیتا تھا ۔مگر اس کی صحت مندی اکثر لوگوں کو اس غلط فہمی میں مبتلا کر دیتی کہ وہ پیٹو ہے ۔بچپن میں دس بارہ سال تک وہ مناسب حد تک ایک صحت مند بچہ تھا مگر ششم کلاس میں ایک دم ہی اس کا وزن اور قد بڑھا اور اب جب کہ وہ نہم کلاس میں تھا تو وزن اور قد بھی مزید بڑھ چکے تھے ۔ ’’مجھے پاک آرمی میں جا لینے دو ذراپہلا پٹھو تو میں تمہیں ہی لگواں گا ۔‘‘ اعتزاز نے مصنوعی خفگی سے فیض کو گھورتے ہوئے جیسے دھمکایا تھا۔ جب کہ اس کی اس دھمکی پہ فیض نے جیسے ناک سے مکھی اڑائی۔۔’’جانے دو بھائی! آپ کو انہوں نے فوج میں بھرتی کرنے کی بہ جائے اسلحہ خانے میں بہ طور توپ جمع کر لینا ہے۔‘‘ ساتھ ہی اشارے سے اپنی بات پہ ربیعہ سے داد چاہی۔ ۔ ربیعہ سے داد تو نہ ملی مگر امی کی جوتی فیض کی کمر ضرور سینک گئی ۔ ’’ہائے مر گیا۔‘‘ کیا غضب کر دیا امی جی ی ی ی ی ۔۔۔۔۔ اور اس توپ میں آپ کی جوتیاں اچھی خاصے بم کا رول ادا کر سکتی ہیں ۔۔’’ہائے وائے کرتے ہوئے بھی وہ شرارت سے باز نہ آیا ۔ ابھی تو یہ بم تمہیں چھو کر گزرا ہے اب سچ مچ تمہیں تارے دکھائے گا اگر اب تم نے میرے بھولے بھالے معصوم بیٹے کو توپ کہا تو ۔۔۔ ‘‘امی نے مُسکراتے ہوئے کہا اور اعتزاز نے امی سے چھپ کر ربیعہ کو وکٹری کا نشان بنا کر دکھایا اور فیض ،اعتزاز کو معصوم کہنے پہ بے ہوش ہونے کی ایکٹنگ کرنے لگااورپھر ایک دم احتجاجی نعرہ بلند کیا ’’امی جی ی ی ی۔۔۔‘‘ اس نے اعتزاز کو چڑاتے ہوئے دیکھ لیا تھا ۔ ’’چاند میری زمیں پھول میرا وطن‘‘ اعتزاز خود کو لاپرواہ ظاہر کرنے کے لیے گنگنانے لگا۔ ایک فوجی کا بیٹا ہونے کے ناطے اعتزاز کو ہمیشہ سے ہی پاک آرمی سے لگائو رہا اور مستقبل میں اس کا پاک آرمی میں ہی جانے کا ارادہ تھا۔ویسے تو وہ واقعی بہت بھولا بھالا اور خوش مزاج بچہ تھا مگر ایک عادت ایسی تھی جس پر بعض اوقات غصہ آتا تو کبھی ہنسی سے پیٹ میں بل پڑ جاتے ۔ہر نئے بندے کو دیکھتے ہی وہ اسے کسی پھل یا سبزی کا نام دے دیتا ۔ جیسے ماسی جمیلہ (کام والی )کی بیٹی کو وہ ہمیشہ دیسی مولی کہہ کر بلاتا کیوںکہ وہ دبلی پتلی اور بالکل سفید تھی۔ سکول کے مالی باباکوافغانی تربوز کہتا اور ان کے بیٹے کو لال شکرقندی اور ربیعہ اور فیض کو ناشپاتی اور خربوزہ کہتامگر ایک بات تھی کہ وہ نام اتنے مزے کے اور شخصیت کے مطابق رکھتا اور اتنے معصوم انداز سے پکارتا کہ سننے والے کی بھی ہنسی چھوٹ جاتی اب جب کہ وہ خود اچھا خاصا موٹا ہو گیا تھا تو سب کو جیسے موقعہ مل گیا تھا اس سے بدلہ لینے کا ۔کوئی اسے آلو کہتا کوئی سندھڑی اور کوئی تربوز ۔ فیض اسے بہت احترام سے آلو بھیا اور ربیعہ اسے کچالو بھیا کہتی ۔ گھر میں اگر آج کیا پکایا جائے کی بات بچوں کے سامنے ہوتی تو وہ فورا شروع ہو جاتے ۔۔۔آلو کی بھجیا ۔۔۔آلو پالک ۔۔۔ آلو کے پراٹھے۔۔۔آلو گوبھی ۔۔۔آلو انڈے ۔۔۔ نہیں نہیں کچالو کی چاٹ بنے گی آج تو ۔۔۔۔اعتزاز کو دیکھ دیکھ کر آلو والی سبزیوں کے نام لیے جاتے ۔وہ بھی خوب سمجھتاتھا۔’’امی سب مجھے اتنا آلو آلو کرتے ہیں کہ کبھی کبھی مجھے لگتا ہے میں سچ مچ ہی آلو بن گیا ہوں اور یہ سب میری چپس بنا کر کھا جائیں گے۔۔۔‘‘ ایک دن اس نے اتنی معصومیت سے کہا کہ امی کھلکھلا کر ہنس دیں ۔ ’’اور بھائی آپ کی تو اتنی ساری چپس بنے کی گی کہ آرام سے کسی کا ولیمہ بھگتایا جا سکتا ہے‘‘ فیض نے لقمہ دیا۔ ’’دیکھنا! بالکل بھنڈی ہے ۔۔۔‘‘ سکول آتے ہوئے راستے میں درخت سے ٹیک لگائے ایک آدمی کو دیکھ کر اس نے فیض کو کہنی ماری اور فیض کے چہرے پر بھی اسے دیکھ کر مسکراہٹ دوڑ گئی۔ دراصل وہ آدمی بہت دبلا پتلا تھا منہ بھی خاصا لمبوترا اور بغیر گوشت کے تھا۔ ’’اگر یہ آدمی سبزی ہوتا تو ضرور بھنڈی یا بیل توری ہوتا یا اگر بھنڈی یا بیل توری انسان ہوتیں تو بالکل ایسی ہی ہوتیں ۔۔۔‘‘ اعتزاز کا مزید تبصرہ جاری رہتا مگر سکول کا گیٹ آجانے پر وہ دونوں مسکراتے ہوئے اندر داخل ہو گئے ۔ ’’امی جا۔۔۔۔۔۔ن ۔۔۔۔‘‘اعتزاز کی چیخ نما آواز سن کر رفعت بیگم کچن سے تقریبا بھاگ کر نکلی تھیں ۔’’کیا ہوا بیٹا ۔۔؟‘‘ انہوں نے لائونج کے دروازے پر رُکے ہوئے اعتزاز کو دیکھ کر پوچھا اور پھر اس کی خوف زدہ نظروں کے تعاقب میں دیکھا تو دروازے کے عین اُوپر موٹی تازی چھپکلی براجمان تھی ۔ ’’اس کو ہٹائیں امی جان ۔۔۔‘‘اس نے روہانسی آواز میں کہا۔ ’’ہٹائیں تو تم ایسے کہہ رہے ہو بیٹا! جیسے وہ میرے کہنے پر ہی تو یہاں لٹکی ہوئی ہے ‘‘وہ مسکرائیں ۔
’’چوکیدار تو ایسے ہی بن کر بیٹھی ہے جیسے کسی کاآڈر ہو ‘‘وہ منہ بسورکر بولا۔ اتنی دیر میں آوازیں سُن کر فیض اور ربیعہ بھی لائونج میں آگئے تھے ۔ ’’بھائی! آپ کو پاک فوج میں جاناہے شائد ؟ فیض نے اسے یاد دہانی کروائی۔ ’’مگر وہاں پہ مجھے چھپکلیوں سے جنگ نہیں کرنی یار ۔۔‘‘ اس نے گھور کر فیض کو دیکھا۔ ’’مگر بھائی !ٹریننگ کے دوران جو جنگلوں، بیابانوں میں یہ۔۔۔ بڑے بڑے سانپ ملتے ہیں ناں ۔۔۔ ‘‘ اب کے ربیعہ نے آواز کو خوف ناک بنا کر بازئوں سے بڑے بڑے کااشارہ کیا۔ ’’سانپوں کی خیر ہے مجھے بس چھپکلیاں بری لگتی ہیں ۔۔۔اس کو بھگائیں ۔۔۔‘‘ اعتزاز نے خود کو بہادر ثابت کرنے کے لیے ڈر کی جگہ بُری لگنے کا لفظ استعمال کیا جس پر رفعت بیگم کے چہرے پر بے اختیار مسکراہٹ دوڑ گئی جسے چھپانے کے لیے وہ جھاڑو لینے کے لیے مڑ گئیں ۔ ’’آپ ایسے ہی ڈرتے ہیں بے چاری سے اتنی سی تو ہے ۔۔‘‘فیض نے ہاتھ سے ناپ کر بتایا ’’تم اس اتنی سی کو بے شک اٹھا کر اپنے کمرے میں سجا لو مجھے کوئی اعتراض نہیں مگر یہاں سے ہٹا دو۔۔۔پلیز‘‘ان کی نوک جھوک ابھی جاری رہتی کہ اتنی دیر میں رفعت بیگم جھاڑو اٹھا لائیں اور ایک ہی وار میں چھپکلی کو زمین چاٹنے پر مجبور کر دیا اور اگلے وار میں اگلے جہان پہنچا دیا اور اعتزاز نے گہرا سانس لے کر مری ہوئی چھپکلی سے لمبا جمپ لگا کر اندر قدم رکھا ۔ قابل رشک صحت مند بچے میں دل گویا چڑیا کا تھا ۔ ’’ارے یہ بھنڈی آج پھر ادھر ہی اُگی ہوئی ہے ۔۔‘‘ اگلے دن سکول جاتے ہوئے اس کی نظر سکول کے باہر لگے درختوں سے ٹیک لگائے کل والے آدمی پر پڑی تو اس نے سوچا۔ آج طبیعت کچھ ناساز تھی اس لیے فیض سے تبادلۂ خیال نہ کیا ۔پہلے تو کبھی اسے ادھر نہیں دیکھا عموما کینٹ کے افراد ایک دوسرے کو جانتے ہی ہوتے ہیں یہ پتا نہیں کون ہے لگتا تو نہیں کہ کسی بچے کو چھوڑنے آتا ہو گا۔۔۔اچھا اگر آئندہ بھی نظر آیا تو ٹیچر سے بات کروں گا۔ایسی ہی باتیں سوچتا ہوا وہ سکول کے اندر داخل ہو گیا ۔مڑ کے دیکھا تو بھنڈی ابھی تک وہیں موجود تھی۔ ’’بیٹا! تم مجھے رات کو ہی بتا دیتے کہ صبح دوستوں کے لیے بھی لنچ لے کے جانا ہے تو مجھے بھی آسانی رہتی ۔۔۔‘‘ رفعت بیگم تیز تیز ہاتھوں سے آلو کے چپس کاٹتے ہوئے بولیں ۔ ’’بس امی !نکل جاتا ہے نا ذہن سے ۔۔ بس آپ آج جلدی سے بنا دیں آئندہ میں یاد رکھوں گا ۔۔‘‘اعتزاز نے معذرت خواہانہ انداز میں کہا ۔ ’’اچھا اچھا یہ لو بس ابھی پانچ منٹ میں فراائی ہو جاتے ہیں ۔۔۔‘‘ انہوں نے گرم کڑاہی میں احتیاط سے چپس ڈالتے ہوئے کہا ۔




Loading

Read Previous

لال فیتا — امینہ عنبرین

Read Next

الفاظ کا احتجاج — ہما شہزاد

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!