الفاظ کا احتجاج — ہما شہزاد

رات کا آخری پہر تھا حرف اپنے بستر پہ لیٹا اونگھ رہا تھا۔ اس کے ساتھ والے بیڈ پہ لیٹا حرف کسی گہری سوچ میں ڈوبا ہوا تھا۔ نیند اس کی آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔ ان کے باقی ساتھی بھی ڈرائنگ روم میں بیٹھے پریشان دکھائی دے رہے تھے۔
’’میں نے منع بھی کیا تھا تم لوگوں کو کہ اب کوئی ایسا کام نہیں کرنا مگر تم لوگوں نے پھر حامی بھر لی۔ ابھی پچھلا غم نہیں بھولا اور چل پڑے نئے کام پہ۔‘‘ بڑے صوفے پہ بیٹھا حرف غصے سے بول رہا تھا۔
’’سارا دن فارغ بھی تو نہیں بیٹھا جاتا۔ میری تو ٹانگیں بھی اکڑ جاتی ہیں بیٹھ بیٹھ کے بے کار بیٹھنے سے بہتر ہے رسک لے لیا جائے۔‘‘ اس کے ساتھ ٹیک لگا کے بیٹھے حرف نے سر جھٹکتے ہوئے کہا۔
’’لیکن کہہ تو وہ بھی ٹھیک ہی رہا ہے یاد ہے پچھلی بار کا تجربہ کچھ حاصل نہیں تھا ہوا۔‘‘ سنگل صوفے پہ بیٹھے حرف نے پہلے والے کی حمایت کی۔
ڈرائنگ روم میں عجیب ٹینس سا ماحول تھا۔ ہر حرف فکر مند دکھائی دیتا تھا۔
’’چلو ابھی کام کون سا شروع ہوگیا ہے آپس میں مت اُلجھو کل وہ لوگ آئیں گے تو پہلے ان سے بات کرلیں گے۔‘‘ ٹوسیٹر صوفے پہ بیٹھے حرف نے کافی کاسپ لیتے ہوئے متانت سے کہا۔ ’’مجھے تو پریشانی سے نیند بھی نہیں آئے گی۔‘‘ بڑے صوفے پہ بیٹھا حرف کچھ زیادہ ہی پریشان تھا۔
’’کچھ نہیں ہوتا جو ہوگا سب مل کے دیکھ لیں گے زیادہ مت سوچو۔ اب اُٹھ جاؤ رات بہت ہوگئی ہے۔‘‘ سنگل صوفے پہ بیٹھا حرف اسے تسلی دیتا ہوا اُٹھ گیا۔
باقی سب حروف بھی اُٹھ کر اپنے اپنے بیڈ رومز کی طرف چل پڑے لیکن گہری نیند آج کسی کا مقدر نہیں تھی سب کو آنے والے کل کا انتظار تھا۔ ان کے دلوں میں نیا کام کرنے کا شوق بھی تھا اور اس کے مسترد ہونے کا خوف بھی۔
٭…٭…٭
’’مجھے سمجھ نہیں آتی تم لوگ میری بات مان کیوں نہیں لیتے؟‘‘ قلم نے چائے کاسپ لیتے ہوئے اپنے سامنے بیٹھے حروف کی طرف دیکھا۔
تم نئے ہو قلم اور میرا تجربہ کہتا ہے کے نئے قلم کا کام مشکل سے ہی اپنی جگہ بنا پاتا ہے۔ پہلے بھی ہمیں ایک نیا قلم لے گیا تھا پھر کیا ہوا ہم سب بکھر گئے کسی رسالے کسی اخبار نے ہمیں ذرا سی بھی جگہ نہیں تھی‘‘ دانت سے بسکٹ کا کونا کتر کتر کرکھاتے حرف نے استہزائیہ انداز میں اپنی بات مکمل کی۔
’’ماں اور میں تو ابھی تک اسی صدمے سے سنبھل نہیں پائے۔ اب مجھ میں کوئی نیا غم سہنے کا حوصلہ نہیں ہے۔‘‘ چھوٹے دل کا حرف سٹرا سے تھوڑا تھوڑا فریش جوس پیتے ہوئے بولا۔
’’مانا کہ یہ قلم نیا ہے لیکن اس کے پاس بہت اچھے آئیڈیاز ہیں تم لوگ آزما کے تو دیکھو امید ہے اس مرتبہ ہمیں کامیابی مل ہی جائے۔‘‘ قلم کے ساتھ بیٹھے کاغذ نے اس کی حمایت کی اگر اس مرتبہ بھی کامیابی نہ ملی تو آئندہ میں کسی قلم پہ بھروسہ نہیں کروں گا۔‘‘ آنکھوں پہ عینک لگائے ہوئے حرف نے اپنی عینک اتار کے اس کے شیشے صاف کرتے ہوئے کہا اس کے انداز میں مایوسی تھی۔
’’تو پھر تم لوگ یہ آخری موقع مجھے ہی دے دو۔‘‘ قلم نے بڑی امید سے ان سب کی طرف دیکھا۔
’’ٹھیک ہے ایک آخری کوشش کرلیتے ہیں۔‘‘ ڈرائنگ روم کے کونے میں کرسی رکھ کے بیٹھے حرف نے بلآخر فیصلہ سنایا۔
قلم کے چہرے پہ مسکراہٹ پھیل گئی۔ وہ اپنی جگہ سے اٹھا اور ایک ایک حرف کو اٹھا کے کاغذ پہ ڈالنے لگا۔ قلم لکھتا گیا حرف لفظوں میں ڈھلتے گئے۔ کاغذ کی سطح پہ جملے ابھرنے لگے۔ اس کام میں کئی دن لگے اور آخرکار نئے قلم کی لکھی کہانی مکمل ہوئی مگر اب مرحلہ تھا اس کہانی کو شائع کرانے کا اور اسی مرحلے کی وجہ سے حروف الفاظ میں ڈھلنے سے ڈرتے تھے کہ جانے کوئی ان الفاظ کو اہمیت دے یا نہ دے۔ لیکن قلم نے ہمت کی اور اپنی کہانی ایک رسالے کو پوسٹ کردی۔ کاغذ پہ لکھے الفاظ کے دل بے ترتیب انداز سے دھڑکنے لگے…
٭…٭…٭
میگزین انچارج نے ایک نظر کہانی پہ ڈالی اور اسے سائیڈ پہ رکھ دیا۔ نئے قلم کے کام کے لیے ابھی رسالے میں جگہ نہیں تھی۔
قلم نے کہانی ایک اور جگہ بھیجی لیکن اس ڈائجسٹ نے بھی چھاپنے سے معذرت کرلی۔ وجہ وہی پرانی… نئے قلم کا کام ہے…
پھر ایک اور جگہ قسمت آزمائی…، اس نے تو کہانی اٹھا کے ردی کی ٹوکری میں ہی پھینک دی…
اور یہ بس حد تھی کاغذ پہ لکھے الفاظ کے صبر کی… بیش تر الفاظ اپنی تحقیر پر رونے لگے۔ ایک کی تو روتے روتے ہچکی سی بندھ گئی۔
’’روتے کیوں ہو؟ رونے سے کچھ نہیں بنے گا اٹھو اپنے حق کے لیے آواز بلند کرو۔‘‘ بلآخر ایک ہمت والے لفظ نے اپنے ساتھیوں کے آنسو دیکھتے ہوئے انہیں جینے کی نئی آس دلائی۔
کون سا حق؟ ہماری غلطی تھی ہم نئے قلم کے کہنے پہ متحد ہو کے الفاظ میں ڈھل گئے۔ اب دیکھو ہمارا ٹھکانا یہ ردی کی ٹوکری ٹھہرا۔ نئے قلم کا کہیں کوئی حق نہیں۔‘‘ الفاظ کے اندر موجود ہر حرف آب دیدہ تھا۔
’’متحد ہونا تمہاری غلطی نہیں تمہاری قوت ہے اٹھو ہمت نا ہارو۔ آؤ مل کر احتجاج کریں۔ جگہ نہ بھی ملی تو اس بار ہماری آواز دور دور تک جائے گی۔‘‘ پہلا لفظ بول رہا تھا اور کاغذ پہ لکھے باقی الفاظ اپنے اندر ایک جوش اُٹھتا محسوس کررہے تھے۔
ہمت والے لفظ کی بات مکمل ہوئی اور الفاظ نے نئے جذبے کے ساتھ احتجاج کا علم اٹھانے کا فیصلہ کیا۔ اب انہیں انتظار تھا قلم انہیں کسی نئی جگہ بھیجے اور وہ اپنے پلان پر عمل درآمد کریں۔
٭…٭…٭
قلم نے کہانی ایک آخری امید پر ایک اور میگزین والوں کو بھیجنے کا سوچا۔ ادھر اس نے کہانی پوسٹ کی ادھر کاغذ پہ لکھے الفاظ تیزی سے اپنی جگہ بدلنے لگے۔ کہانی لگتا ہے کچھ اور بن گئی ہے… کیا؟…
میگزین ایڈیٹر نے بے دلی سے نئے قلم کا کام کھولا۔ لیکن یہ کیا؟؟
سامنے پہلے صفحے پر ہی الفاظ بازوؤں پہ کالی پٹیاں باندھے دھرنا دیے بیٹھے تھے۔
’’پرانے لکھاریوں کے ساتھ اپنے ڈائجسٹ میں تھوڑی سی جگہ ہمیں بھی دو‘‘… پہلی سطر میں بیٹھے الفاظ کا نعرہ تھا۔ ’’ہمارا قصور ہم نئے قلم کے ساتھی‘‘ الفاظ کے ہاتھوں میں موجود بینر پہ درج تھا۔
’’نئے قلم کی آواز بھی لوگوں تک پہنچاؤ۔‘‘ ’’ہمیں جگہ نہ ملی تو ہمارے احتجاج کے بعد ہماری ہڑتال ہوگئی۔‘‘
مختلف پلے کارڈز اٹھائے الفاظ کاغذ پہ جگہ جگہ کہیں کھڑے تھے کہیں بیٹھے تھے۔
ایڈیٹر نے ایک نظر پھر سے الفاظ کے احتجاج پر ڈالی اور سوچ میں پڑگیا۔ اگر الفاظ کی ہڑتال ہوگئی اور وہ حرف حرف بکھر کے گھر چلے گئے تو پھر وہ کبھی متحد ہوکے الفاظ کا روپ نہیں دھاریں گے۔
تو پھر کیا سوچا آپ نے؟ آپ کا میگزین جگہ دے رہا ہے الفاظ کے احتجاج کو؟ یا پھر الفاظ کی ہڑتال کا انتظار ہے؟ کاغذ کے آخری کونے میں کھڑے چند الفاظ آخری سطر سے لٹکے ایڈیٹر سے سوال کر رہے تھے۔ سطر پہ ان کے ہاتھوں کی گرفت ڈھیلی تھی۔ کیوں کہ وہ ہڑتال پہ جانے کے لیے تیار تھے۔ ادھر ایڈیٹر انکار کرتا۔ ادھر ان کے ہاتھ چھوٹتے اور وہ حرف حرف بکھر جاتے۔
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

چاند میری زمین، پھول میرا وطن — زاہدہ عروج تاج

Read Next

۱۳ ڈی — نفیسہ سعید

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!