۱۳ ڈی — نفیسہ سعید

’’آپ کو پتا ہے جی‘‘… ڈسٹنگ کرتی فاطمہ کو جیسے اچانک کچھ یاد آگیا ہو۔
’’کیا‘‘…
کچن میں مصروف کبریٰ نے چولہے کی آگ کم کرتے ہوئے اپنی بھرپور توجہ فاطمہ کی جانب مبذول کر دی کیوںکہ وہ جانتی تھی کہ فاطمہ کسی بھی اہم خبر کی ابتداء اسی ایک جملے سے کرتی ہے۔
’’وہ جو کونے والی باجی ہیں نا۔‘‘ ڈسٹنگ والا کپڑا ہاتھ میں لئے وہ تجسس پھیلاتی کچن کے دروازے پر ہی آن کھڑی ہوئی۔
’’کونے والی باجی…‘‘ کبریٰ کی سمجھ میں نہ آیا کہ وہ کس کی بات کر رہی ہے۔
’’ارے وہی جی جن کا بڑا نخرہ ہے منیزہ باجی۔‘‘
چوںکہ اسی گلی میں منیزہ سے تو کبریٰ واقف تھی اس لئے اُس نے تصدیق کی خاطر اس کی نوکری کا حوالہ دے دیا۔
’’وہی جو بنک میں ملازمت کرتی ہیں؟‘‘
’’ہاں وہی با جی…‘‘
’’کیا ہوا انہیں۔‘‘منیزہ کے نام کے ساتھ بھی کبریٰ کی دل چسپی تھوڑی بڑھ گئی۔
’’ان کو کیا ہونا ہے۔ ہوا تو ان کے میاں کو ہے، آپ کو نہیں پتا آج کل کسی لڑکی سے چکر چلایا ہوا ہے، بڑا فساد ڈالتا ہے اس کے پیچھے۔ دنوں میاں بیوی کل شام میرے سامنے ہی جھگڑ پڑے تھے۔
’’اچھا…‘‘
یہ اطلاع کم از کم کبریٰ کے لئے خاصی حیران کن تھی کیوںکہ منیزہ اور معیز کی ابھی چھے سال قبل ہی شادی ہوئی تھی اور دونوں ایک ہی بینک میں جاب کرتے تھے اور اپنی محبت کی کہانیاں منیزہ پورے محلے کو ہی سُنا چکی تھی اور یہ محبت ان دنوں میں باقاعدہ دکھائی بھی دیتی تھی۔ پھر یہ جو کچھ فاطمہ انہیں بتا رہی تھی نا صرف حیران کُن بلکہ کافی حد پریشان کُن بھی تھا۔
ہاں جی منیزہ باجی تو خوب رو رہی تھیں کیوںکہ سمیر بھائی سے شادی کے لئے انہوں نے اپنے پورے خاندان سے مخالفت مول لی، اپنی پہلی منگنی توڑی اور پھر دیکھیں انہیں صلہ کیا ملا وہ بھی ایک مرد کی بے وفائی۔
’’ہو سکتا ہے تمہیں کوئی غلط فہمی ہوئی ہو کیوںکہ ابھی دو دن قبل تو وہ مجھے عنبرین کے گھر میلاد میں ملی تھی بالکل خوش باش اپنی ٹپ ٹاپ کے ساتھ۔‘‘
’’آپ سے وہ گھر کے باہر ملی تو ظاہر ہے کہ گھر کا دُکھ اندر ہی چھوڑ کر آئی ہوں گی نا۔ ویسے بھی جی جو لڑکی ساری دنیا کو ناراض کر کے ایک بندے کو اپنا بنائے، بتائیں وہ بھلا کیسے اس بندے کی بے وفائی کا ذکر دنیا کے سامنے کرے گی؟‘‘
مختلف گھروں میں کام کرنے سے فاطمہ کا انداز گفت گو خاصا سمجھ دارانہ ہو گیا تھا جس کا اندازہ پہلے ہی کئی بار کبریٰ کو ہو چکا تھا۔
’’پر میں تو ان کے گھر جاتی ہوں مجھ سے بھلا کیسے کچھ چھپا سکتی ہیں وہ؟
بڑا رو رہی تھیں جی میرے سامنے سمیر بھائی کی بے وفائی پر۔‘‘





’’اچھا… چلو اب تم جلدی جلدی کام ختم کرو بچے گھر آنے والے ہیں اور میں کھانا لگاؤں۔‘‘
باتوں کے دوران کبریٰ کو ٹائم کا پتا ہی نہ چلا۔ اب جو گھڑی پر نظر پڑی تو جلدی سے فاطمہ کو ٹوک دیا۔
’’میرا کام تو ختم ہو ہی چکا ہے۔ بس ذرا ڈسٹنگ رہ گئی ہے، وہ اب کل آکر کروں گی کیوںکہ مجھے روحی باجی کے گھر آج ذرا جلدی جانا ہے پھر وہ ناراض ہو جائیں گی۔‘‘
’’’اچھا ٹھیک ہے مگر کل آکر سارا کام ٹائم سے ختم کر لینا۔‘‘
ٹھیک ہے باجی سالن پک گیا ہے تو کسی تھیلی میں ڈال دیں۔ روٹی میں باجی روحی کی باورچن سے لے لوں گی وہ سالن بڑی دیر سے پکاتی ہے جب کہ مجھے زوروں کی بھوک لگی ہے۔
’’تم روٹی بھی مجھ سے لے جاؤ۔‘‘
یہ کہہ کر کبریٰ نے جلدی سے اُسے ایک تھیلی میں سالن اور دو روٹیاں لپیٹ کر دے دیں۔
ویسے ایک بات ہے باجی جو ذائقہ آپ کے ہاتھوں سے بنے سالن کا ہے وہ تو مجھے باجی روحی کی باورچن کے ہاتھوں میں بھی نہیں ملتا بڑا سواد ہے جی آپ کے کھانے میں۔
اچھا…
اُس کی ذرا سی تعریف سے کبریٰ نے خوش ہو کر اسے تھیلا پکڑایا اور اُس نے جلدی سے فریج کھول کر دو آم بھی اسی تھیلی میں ڈال کر اُس کے حوالے کر دیئے۔
’’اللہ بہت دے آپ کو، بڑا خیال رکھتی ہیں میرا۔‘‘
اسی طرح دعائیں دیتی وہ باہر نکل گئی تو کبریٰ کو یاد آیا کہ آج تو اُس نے فاطمہ سے پنکھے صاف کرنے کو بھی کہا تھا جو باتوں ہی باتوں میں دونوں ہی بھول گئیں جب کہ شام میں گھر کچھ مہمان آنے والے تھے اس لئے لازم تھا کہ پنکھے صاف ہوتے۔ اب چوںکہ فاطمہ جا چکی تھی اس لئے کبریٰ نے خود ہی جلدی سے سارے گھر کے پنکھے جھاڑ دیئے، مبادا انہیں دیکھ کر عزیز کو غصہ نہ آجائے۔
٭٭٭٭
فاطمہ گلی نمبر ۱۳۔ڈی کے تقریباً تمام ہی گھروں میں کام کرتی تھی یہ ہی وجہ تھی کہ وہ ہر گھر میں موجود کوئی نہ کوئی ایسی کہانی ضرور جانتی تھی۔
جس سے عام طور پر محلے کے دوسرے لوگ بے خبر ہوں۔ بہ قول فاطمہ کہ کبریٰ پوری گلی میں اُس کی سب سے اچھی باجی تھی جسے وہ سب کی باتیں بتایا کرتی۔
’’ویسے تو باجی جی اللہ معاف کرے میں کبھی کسی کی بات یہاں وہاں نہیں کرتی بڑا سخت گناہ ہے جی یہ، کبھی کبھی کسی کی کوئی بات بتا دیتی ہوں جس پر اللہ مجھے معاف کرے۔‘‘
اور چاہ کر بھی کبریٰ نے کبھی اُس سے یہ نہ کہا کہ ’’کبھی کبھی‘‘ نہیں بلکہ تم تو روز ہی مجھیایک نئی داستان سناتی ہو وجہ شاید یہ تھی کہ اُسے بھی اس طرح محلے کی خبروں سیباخبر رہنا اُسے اچھا لگنے لگا تھا اور وہ خود فاطمہ کی سنائی ہوئی ہر بات بڑی دل چسپی سے سنتی اور ایسے میں اکثر ہی اُسے فاطمہ کے جانے کے بعد کئی ایسے کام کرنے پڑتے، جنہیں وہ اپنی باتوں میں ادھورا چھوڑ جاتی۔
٭٭٭٭
’’آمنہ باجی کے بیٹے نے پھوپھی کے گھر اپنی منگنی توڑ دی ہے۔‘‘
یہ فاطمہ کی طرف سے آج کی تازہ خبر تھی۔
’’ارے وہ کیوں؟‘‘
کبریٰ کو فاطمہ کا جملہ سنتے ہی حیرت کا جھٹکا لگا کیوںکہ وہ جانتی تھی کہ ولید نے یہ منگنی خود اپنی مرضی سے کی ہے جب کہ آمنہ کی تو اپنی نند سے پہلے بھی نہ بنتی تھی۔
کہتا ہے کہ لڑکی اچھی نہیں ہے۔
حیرت ہے آج سے دو سال قبل تو وہ لڑکی اتنی اچھی تھی کہ اس کی خاطر روز ماں سے جھگڑتا تھا اب ایک دم ہی اتنی بُری ہو گئی کہ منگنی بھی ختم کر دی۔
’’بس جی جو لڑکیاں، اس طرح لڑکوں سے یاریاں لگا کر منگنی کرتی ہیں۔ بھلا وہ کہاں کامیاب ہوتی ہوتی ہیں مجھے تو ایسا لگتا ہے کہ جی جب تک باؤ ولید کا مطلب پورا نہیں ہوا تب تک وہ اچھی تھی جیسے ہی اپنا مطلب نکلا لڑکی میں کیڑے نظر آنے لگے۔‘‘
’’بری بات ہے فاطمہ بنا جانے کسی کے لئے اتنی بڑی بات نہیں کرتے۔‘‘
کبریٰ نے اُسے ہلکی سی سرزش کے ساتھ اسے سمجھانا چاہا۔
’’ میں کہاں کر رہی ہوں جی کوئی بات۔ مجھے تو خود آمنہ باجی نے بتایا ہے ۔‘‘
’’اچھا…‘‘ظاہر ہے جب آمنہ نے خود بتایا تھا تو وہ بھلا کیسے فاطمہ کو غلط قرار دیتی۔
’’اور جی آپ کو ایک اور بات تو میں بتانا بھول ہی گئی۔‘‘
’’اچھا ذرا جلدی سے بتا دو جو بتانا ہے کیوںکہ آج عزیز نے بھی لنچ کرنے گھر آنا ہے دراصل ہانیہ یونی ورسٹی ٹرپ پر ترکی جا رہی ہے اُسے چھوڑنے ہم دونوں کو ایئرپورٹ جانا ہے۔‘‘
’’واہ جی ہانیہ باجی کے تو مزے ہی مزے۔‘‘
’’مفت میں مزے نہیں ہوئے۔ ہم نے پورے دو لاکھ یونی ورسٹی کو دیئے ہیں اس ٹرپ کے لئے۔‘‘
سالن میں چمچ چلاتی کبریٰ بڑے فخر سے بولی۔
’’اب بتاؤ تم کیا کہہ رہی تھیں۔‘‘
’’وہ جی آنٹی قریشی کا بیٹا لڑکی بھگا کر گھر لے آیا ہے۔‘‘ اس نے اپنی گول گول آنکھیں نچائیں۔
’’ہیں یہ کب ہوا؟‘‘ آج تو شاید حیرتوں کا دن تھا۔
’’وہ تو بڑا سیدھا سادا اور بھلا مانس سا بچہ ہے، پانچ وقت کا نمازی اور پرہیزگار پھر بھلا کیسے وہ کسی کی بیٹی اس طرح بھگا لایا۔‘‘
یہ پہلی ایسی خبر تھی جس پر یقین کرنے کو کبریٰ کا دل قطعی آمادہ نہ ہوا۔
’’یہ تو مجھے نہیں پتا جی بس آج میں نے دیکھا گھر میں ایک نئی لڑکی تھی خوب تیار شیار، میں نے آنٹی سے پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ حماد کی گھر والی ہے۔‘‘
’’ہاں تو اس کا مطلب یہ تو نہ ہوا نا کہ وہ لڑکی بھگا کر لے آیا ہے۔‘‘
’’وہ لڑکی ڈری سہمی بیٹھی تھی اور آنٹی سارے گھر میں رولا ڈالتی پھر رہی تھیں کہ جانے کس کا گند گھر لا کر ڈال دیا۔‘‘ وہ مسز قریشی کے لہجے کی نقل اتارتے ہوئے بولی۔
’’چلو آج شام میں دیکھ کر آؤں گی۔‘‘

’’پر میرا نام نہ لیجیے گا آپ کو پتا ہے وہ بڑے غصے والی آنٹی ہیں۔ مجھے تو اس لڑکی پر ترس آ رہا تھا جو نومی بھائی کے عشق میں میں مبتلا ہو کر یہان آن پھنسی۔ اُسے کیا پتا کہ اُس کی ساس کیسی پٹاخا عورت ہے گھر میں کسی کی کیا مجال جو ان کے آگے بول جائے۔‘‘
’’ہاں یہ تو تم ٹھیک کہہ رہی ہو اور منیزہ کی سناؤ کیسی ہے؟ کافی دنوں سے نظر نہیں آرہی۔‘‘
’’پتا نہیں جی پر مجھے تو لگتا ہے کہ بھائی سمیر نے اب جلدی ہی دوسری شادی کر لینی ہے بلکہ ہو سکتا ہے کر بھی لی ہو۔‘‘
’’اچھا تمہیں ایسا کیسے لگا؟‘‘
’’آج کل گھر ہی نہیں ہوتے جب کہ میں صبح آٹھ بجے سب سے پہلے ان کے گھر جاتی ہوں۔ اب بتاؤ بھلا اتنا سویرے سویرے وہ کہاں چلے جاتے ہیں؟ مجھے تو لگتا ہے کہ وہ رات ہی گھر نہیں آئے۔‘‘
’’اوہ…‘‘ کبریٰ کو خاصا افسوس ہوا۔
’’اب منیزہ باجی بھلا کس کو اپنا دکھ سنائے؟ ایک مرد کے لئے تو سب کچھ چھوڑا، اب وہ ہی اپنا نہ رہا تو بچاری کیا کریں جی ۔‘‘
ہاں کہہ تو تم ٹھیک ہی رہی ہو، بریانی پکائی ہے کھاؤ گی؟
’’جی آپ کے ہاتھ کی تو دال اتنی سواد کی ہوتی ہے کہ بندہ انگلیاں چاٹتا رہ جائے۔ میں بھلا بریانی سے کیسے منع کروں؟‘‘
اور اسی خوشی میں مدہوش کبریٰ نے ڈبہ بھر کر بریانی کے ساتھ دو کباب اور رائتہ بھی فاطمہ کے حوالے کر دیا۔
’’اللہ آپ کو بہت دے جی۔‘‘ جاتے جاتے وہ دعا دینا نہ بھولتی۔
٭٭٭٭




Loading

Read Previous

الفاظ کا احتجاج — ہما شہزاد

Read Next

کرتا — دلشاد نسیم

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!