ٹونی روحیل کو نیہا کی سرگرمیوں کے حوالے سے مسلسل آگاہ کررہا تھا۔ پہلے روحیل نے باتوں کو اتنا سنجیدہ نہیں لیا تھا، پر اب بات حیرت اور اچھنبے والی تھی، بعض حلقوں میں نیہا
درخت کے سائے میں بیٹھے بیٹھے ایک دن وہ اُکتا گیا، یہ دنیا اتنی بڑی ہے میں کب تک یہاں پڑا رہوں گامجھے ضرور یہاں سے جانا ہوگا۔ ”میں یہاں سے جارہاہوں ” ایک دن
”لِکھ خالہ حبیبن مع اہل و عیال” اماں نے عینک درست کرتے ہوئے معمر کو کارڈز لکھوانے شروع کئے ”لکھ دیا اماں” اُس نے لکھا ہوا کارڈ ایک سائیڈ پہ رکھا اور دوسرا کارڈ یہ
”لالہ! اتنے پیسوں سے کام چل جائے گا؟” حکیم صاحب نے پیسے ہاتھ میں پکڑے انہیں گنا اور مایوسی سے سر ہلایا۔ ”بڑے ہسپتالوں میں تو بیٹا داخلے داخلے میں ہی اتنی رقم نکلوا لیتے
زندگی اگر بے کیف ہو تو اس میں آنے والا بدلاؤ، بھی کوئی معنی نہیں رکھتا ہے اور نہ ہی مزاج میں ارتعاش پیدا کرتا ہے۔ ایسے میں انسان روبوٹ بنا اپنے ریموٹ کے بٹن
اشتیاق احمد کا نام آتے ہی ذہن میں انسپکٹر جمشید،ایک مستعد ،ایمان دار اور محب وطن پولیس آفیسر کا خاکہ بننے لگتا…محمود، فاروق اور فرزانہ کی نوک جھونک، شرارتیں،غیر معمولی ذہانت اور بر وقت سمجھ
پاکستان میں موجود نوّے فیصد لڑکیوں کی طرح ہم بھی یہ مانتے ہیں کہ عورت اور باورچی خانے کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ کافی غوروخوض کے بعد ہم نے حقوق نسواںکی کھلی پامالی کرتی