ارمان رہ گئے — حمیرا نوشین

”لِکھ خالہ حبیبن مع اہل و عیال” اماں نے عینک درست کرتے ہوئے معمر کو کارڈز لکھوانے شروع کئے ”لکھ دیا اماں” اُس نے لکھا ہوا کارڈ ایک سائیڈ پہ رکھا اور دوسرا کارڈ یہ سوچ کر نکالا کہ اب اس کارڈ پہ دیکھو کس کو منور حسین کی شادی میں شرکت کا شرف حاصل ہو گا۔
”اماں تائی سروری کو تو جلدی کارڈ بھیج دینا حیدر آباد سے خانیوال کا سفر بھی لمبا ہے اور کچھ تیاری بھی تو کرنی ہو گی شادی کی۔” گلو نے اماں کو یاد دہانی کروائی۔
”اے چھوڑ دفع کر تائی سروری کیا لے کر آئے گی شادی میں نرا ہمیں ہی بھگتنا پڑ جائے گا۔ ساتھ میں دو چار پوتے پوتیوں کو بھی لٹکا لائی تو کونڈا کر دیں گے ہمارا تو” اُنہوں نے فوراً تائی سروری کو بلانے کا ارادہ ترک کر دیا۔





”ہاں اماں ٹھیک کہتی ہو پلنگ پر پڑی پڑی حکم چلائے جائیں گی اور پان کا خرچہ الگ ۔”
”اے ودود بیٹا جلدی سے بنارسی تمباکو کا سانچی پان بنوا کر لائیو۔ سر چکرا رہا ہے اور طبیعت بڑی بوجھل ہوری اے۔گلوری منہ میں رکھوں تو کچھ طبیعت سدھرے۔ پورے سات پان بنوا کر چلی تھی گھر سے۔ ٹرین میں جونہی اپنا چاندی کا پاندان کھولا، پورے ڈبے میں پان کی دلفریب مہک سب کے نتھنے مہکا گئی۔ کیا مرد کیا عورت سبھی نے للچائی نظروں سے ایسے دیکھا کہ منہ میں رکھا پان چبانا مشکل ہو گیا۔ میں نے بھی سارے پان ندیدوں میں بانٹ دیئے۔ نظر میں آئے پان کھا کر مجھے اپنی طبیعت تھوڑی خراب کرنی تھی۔”
ودود نے ہو بہو تائی سروری کی پوپلے منہ کی نقل اُتاری تو سب کی کِھل کِھل ہنسی سے فضا گونج اُٹھی۔ ”حالاںکہ تمہاری تائی تو وہ بخیل ہستی ہے جو کسی کو اپنا بخار بھی نہ دے۔ ساٹھ پان تو اُس نے زندگی میں نہ کھائے ہوں گے۔ ایک پان کو چٹکی چٹکی کھاتے ہفتے نکال دیتی ہے۔” اماں نے تائی کے مزید گن گنوائے تو سب نے اُن کی تائید میں اپنی موٹی گردنیں جب زور سے ہلائیں تو معمر کی گردن سے کڑک کی آواز آئی اور سب نے اس سلسلے کو جلدی سے موقوف کر دیا۔
”چل اب ماموں شریف کا کارڈ بھی لکھ دے۔ سگا نہیں ہے تو کیا ہوا؟ سگوں سے بڑھ کر چاہتا ہے تمہیں۔ بہن سمجھ کر ہر موقع پر کھڑا رہا ہے تو اس موقع پر کیسے بھول جائوں گا میں اُس کو؟ ماموں زاد کی محبت اُمڈ کر سامنے آئی۔
”اماں رشتے داروں کے کارڈ تو مکمل ہو گئے اب ذرا محلے والوں کی طرف آجائو۔”
”ہاں بھئی محلے والوں کا تو پہلا حق ہے اُن کو بھلا میں کیسے چھوڑ سکتی ہوں۔” وہ انگلیوں پر محلے داروں کو گننے لگیں کہ کس کس کو بلانا ہے۔
”ابھی تک یہ کارڈز لکھنے کا سلسلہ موقوف نہیں ہوا۔ یہاں پیٹ میں چوہے دوڑ دوڑ کر بے دم ہو کر گر رہے ہیں۔ خدا کے لئے اُٹھ کر کچھ شکم سیری کا سامان بھی کر لو۔”
بلو اماں کے پاس آکر صوفے پر دَھم سے گرا تو وہ اسپرنگ والے پرانے صوفے پر اُچھل پڑیں اور اُسے خشمگیں نگاہوں سے گھورتے ہوئے بولیں: ”ایک دن پیٹ پوجانہ کی تو کچھ نہیں ہو گا اگر پھر بھی اتنی ہی بھوک ستا رہی ہے تو جا ناصر بیکری والے سے دو کریم رول پکڑ لا اور دودھ میں ڈبو کر کھالے۔” انہوں نے اُسے اپنے پاس سے اُٹھا کر باہر کی طرف دھکیلا اور پھر سے کارڈز کی طرف متوجہ ہو گئیں۔





”اماں ذرا جلدی بولو ایمان سے میری تو کمر بھی تختہ بن گئی لکھتے لکھتے اُنگلیاں بھی دُکھنے لگیں۔ اتنی دیر تو میں کبھی امتحانی کمرے میں نہیں بیٹھا جتنی دیر سے میں اس حبس زدہ کمرے میں بیٹھا کارڈ لکھ رہا ہوں۔” معمر کارڈز پکڑے پکڑے اماں کی گود میں لیٹ گیا۔
”لو تم تو لکھتے لکھتے تھک گئے اور ہم تمہیں دیکھ دیکھ کر ہی اکڑ گئے ہیں۔” گلو پر جھنجھلاہٹ سوار تھی کیوںکہ اُس کے پسندیدہ ڈرامے کا ٹائم ہو چکا تھا مگر اماں کا حکم تھاکہ یہاں سے کوئی نہیں ہلے گا جب تک کارڈز مکمل نہ لکھ لئے جائیں۔ کیا پتا دماغ میں کوئی نام لکھنے سے رہ جائے تو ان میں سے کوئی یاد تو کروا دے گا۔
”اے زیادہ دنگا نہ کر۔ ڈرامے کی آگ لگ رہی ہے تو جا دفع ہو۔ جا کے دیکھ اپنی پر کٹی سفید پوڈر میں لتھڑی چٹی کبوتریوں کو یہ ودود ہے نا میرا بچہ دماغ کا تیز۔ اس سے پوچھ لوں گی اگر کوئی نام ذہن سے نکل بھی گیا تو۔” ودود اپنی تعریف سن کر مزید دو گز پھیل کر بیٹھ گیا اور گلو کلانچیں بھرتی ہوئی ساتھ والے کمرے میں دوڑ گئی۔
اماں پھر سے معمر کو نام لکھوانے لگیں۔
”اکرام کباڑیے کے نام مع ”فِیم لی” لکھ دے۔ ہے تو بے چارا کباڑیا پر دل کا بڑا سخی ہے جتنا اُس کے گھر والے کھا کر جائیں گے اس سے چار گنا زیاد ہ دے کے جائیں گے۔”
”اماں جلدی جلدی بولو۔ اب تو پین بھی جواب دینے لگا ہے پھیکا پھیکا سا لکھ رہا ہے۔”
”ہاں بس اب اپنے یہ اگلی گلی میں جو وہ لمبا سا لونڈا رہتا ہے ارے وہی جو دفتر میں کام کرتا ہے یہ لمبی سی کار ہے جس کے پاس۔” اماں نے نام یاد نہ آنے پر ودود کی طرف دیکھا۔
”عرفان عالم” ودود نے فوراً اماں کا مطلوبہ نام زبان سے ادا کیا۔
”ہاں… وہی عرفان عالم” اُنہوں نے محبت سے ودود کے لمبوترے سر پر اپنا سیاہی مائل ہاتھ پھیرا۔
”پر اماں اُن سے تو ہماری کوئی علیک سلیک نہیں ہے اُن کو تو رہنے ہی دو۔ ویسے بھی وہ اچھے خاصے پڑھے لکھے ہیں۔ ہمارے خاندان میں اُن کا آنا کچھ عجیب سا لگے گا۔” معمر نے نام لکھنے سے انکار کر دیا۔
”اے میں کہہ رہی ہوں تو لکھ۔” اُس کی بیوی سے سلام دُعا ہے میری ۔ایک دو مرتبہ گلی سے گزرتے ہوئے اُس نے مجھے سلام بھی کیا اور گھر آنے کی دعوت بھی دی۔”
”اے اِتا بڑا گھر ہے اُس کا تو دِل بھی بڑا ہی ہو گا۔” وہ اُس کے ٹائلوں والے گھر سے کچھ زیادہ ہی متاثر لگ رہی تھیں۔
”لو بھئی اماں! میرا کام تو ختم۔ ایمان سے اب تو نیند بھی آنکھوں میں ستانے لگی ہے۔” اُس نے انگڑائی کے ساتھ ہی بڑی سی جماہی بھی لی مگر اگلے ہی پل اُس کے انگڑائی لیتے بازو فضا میں ہی رہ گئے۔ اماں بھی صوفہ چھوڑ اپنے بھاری بھرکم وجود کو سنبھالتی باہر تخت کی طرف بھاگیں جہاں منور حسین سر جھکائے شکست خوردہ سے بیٹھے تھے۔
”کیا ہوا منور حسین ٹھیک تو ہو؟” مگر اُدھر گہری خاموشی تھی۔
”اے کچھ تو بتائو یوں منہ لٹکا کے بیٹھ گئے۔ میرا تو دل ہولائے دے رہے ہو” اماں بھی وہیں تخت پوش پر بیٹھ گئیں۔ گلو بھی ادھورا ڈرامہ چھوڑ کر منور حسین کے قدموں میں بیٹھ گئی اور وہ گلو کے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے رُندھی ہوئی آواز میں بولے۔





”میری بیٹی مجھے معاف کر دے تجھے اب چند کپڑوں اور معمولی جہیز میں ہی اس آنگن سے رُخصت ہونا ہو گا۔”
”کیا اول فول بکے جا رہے ہو؟ کیا سٹھیا گئے ہو؟ سیدھی طرح اصل بات کی طرف کیوں نہیں آتے” اماں نے جھنجھلا کر اُن کے ناتواں کندھے پر ہاتھ مارا تو اُن کی ہڈیوں کے چٹخنے کی آواز واضح سنائی دی۔ باقی سب بھی منہ کھولے کچھ نہ سمجھنے والے انداز میں اُن کی جانب دیکھ رہے تھے۔
وہ … وہ… منور حسین ہکلائے۔
”ہاں… ہاں بولو” اماں نے اُن کے خضاب لگے بالوں پر ہاتھ پھیر کر حوصلہ دیا اور پانی کا گلاس اُن کے لبوں سے لگایا جو ودود اُن کی حالت کے پیشِ نظر لے آیا تھا۔
پانی پی کر کچھ حالت تو سنبھلی تھی مگر آواز ابھی بھی کانپ رہی تھی مگر صورتِ حال سے سب کو آگاہ کرنا بھی لازمی تھا۔
”وہ ہاجرہ بیگم۔ انیسہ سلطانہ نے شادی سے انکار کر دیا ہے” خبر سنا کر وہ چور سے بن گئے۔
”کیا…؟ الفاظ تھے یا بم۔ ہاجرہ بیگم کو غش آگیا۔ گلو میلے دوپٹے کو منہ میں پھنسا کر دبی آواز سے رونے لگی۔ ودود اور بلو کے چہروں پر بھی یہ خبر سن کر مُردنی چھا گئی مگر اماں کی حالت دیکھتے ہوئے جلدی سے اُنہیں کے لہسن، پیاز کی بساندھ میں رچے دوپٹے سے ہوا دینے لگے اور چلو بھر پانی اُن کے منہ میں ٹپکایا تو اُنہوں نے پٹ سے آنکھیں کھول دیں اور بھرائی ہوئی آواز میں منور حسین سے مخاطب ہوئیں۔
”پر منور حسین انکار کی کوئی وجہ بھی تو بتائی ہو گی اس نے۔”
”ہاں” اُنہوں نے سرد آہ بھری۔
وجہ سن کر ہی تو میرے پائوں تلے سے زمین سرک گئی۔
”اے اب بتا بھی چکو نہیں ہورا صبر مجھ سے” انہوں نے ہتھیلیاں رگڑیں۔
”پرسوں رات اُسے ہارٹ اٹیک ہوا ہے ایک دن اسپتال رہ کر آئی ہے آج اُس نے مجھے فون کر کے بلایا اور کہنے لگی: ”میری زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں میں تمہیں دھوکے میں نہیں رکھنا چاہتی۔ میں نہیں چاہتی کہ تم شادی کے چند دن یا چند ماہ بعد ہی رنڈوے ہو جائو۔ میں تمہارے جیسے مخلص شخص کو یہ دُکھ ہرگز نہیں دوں گی۔” منور حسین یہ بات بتاتے ہوئے تقریباً روہی دیئے اور اماں… اُن کا تو یہ حال کہ ”کاٹو تو بدن میں لہو نہیں۔”
”ہائے یہ کیا ہوا؟ لاکھوں کی جائیداد کی اکلوتی وارث انیسہ سلطانہ منور حسین کی دُور پرے کی رشتہ دار تھیں۔ کم صورت ہونے کے باعث شادی نہ ہو سکی اور وہ بیالیس برس کی ہو گئیں۔ ماں باپ کے دُنیا سے رخصت ہونے کے بعد وہ اس مکان میں بالکل تنہا رہ گئیں سرکاری سکول میں نوکری کرتی ہزاروں کما رہی تھیں۔ ابھی ریٹائرمنٹ لے کر لاکھوں روپے کی مالک بنی تھیں۔ سنا تھا جوانی میں منور حسین پر بڑی آس لگائے بیٹھی تھیں اور اسی آس کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے ہاجرہ بیگم نے اپنے شوہر منور حسین کا رشتہ انیسہ سلطانہ کے سامنے رکھا تو وہ بھی کچھ پس و پیش کے بعد مان گئیں کہ تنہائی سہتے سہتے وہ بھی اُوب گئی تھیں اب اپنی زندگی کے باقی ماندہ ایام وہ بھر ے پرُے گھر میں گزارنا چاہتی تھیں ہاجرہ بیگم نے اُن کو اپنا شیشے میں اُتارا کہ وہ منور حسین کی سادگی و پُرخلوص رویے کو دیکھ کر آنے والے دنوں کے تصور سے ہی اپنے آپ کو جوان محسوس کرنے لگیں مگر قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ ہاجرہ بیگم کا یہ خواب کہ دو کمروں کے گھر سے انیسہ کے بڑے سے دس مرلہ کے پختہ و خوب صورت مکان میں شفٹ ہو جائیں گے، بیٹی خوب جہیز لے کر رُخصت ہو گی اور انیسہ کے کسی امیر رشتہ دار کی بیٹی کا رشتہ لے کر اُن کے تو دن ہی پھر جائیں گے۔ بڑی دُور کی سوچی تھی۔ اُنہوں نے تو اپنے شوہر میں بٹوارہ بھی اسی بنیاد پر برداشت کرنے کی ٹھان لی تھی۔ یہ کڑوی گولی نگلنے کا فیصلہ اپنے بچوں کے خواب پورے کرنے کے لئے کیا تھا مگر سارے خواب چکنا چور ہو گئے انیسہ کے انکار کی خبر سن کر وہ اس شعر کی تفسیر بنی ہوئی تھیں۔
قسمت کی خوبی دیکھئے ٹوٹی کہاں کمند
دو چار قدم جب لبِ بام رہ گیا
٭٭٭٭




Loading

Read Previous

لال کتاب — حنا یاسمین

Read Next

درخت اور آدمی — محمد جمیل اختر

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!