انہیں ہم یاد کرتے ہیں — اشتیاق احمد

اشتیاق احمد کا نام آتے ہی ذہن میں انسپکٹر جمشید،ایک مستعد ،ایمان دار اور محب وطن پولیس آفیسر کا خاکہ بننے لگتا…محمود، فاروق اور فرزانہ کی نوک جھونک، شرارتیں،غیر معمولی ذہانت اور بر وقت سمجھ داری، بچپن کی یادیں تازہ کرنے لگتی ہے۔
اشتیاق احمد ہمارے ہیرو تھے اور ہمیشہ رہیں گے۔ انہوں نے ہمیں اپنی تحریروں کے ذریعے وطن سے محبت اور وفاداری کا سبق دیا… اشتیاق احمد 1944ء کو پانی پت، ضلع کرنال میں پیدا ہوئے۔ تقسیم کے زمانے میں پاکستان ہجرت کی اور ان کا گھرانہ جنگ میں آبسا… انہوں نے ستر کی دہائی کے آغاز میں لکھنے کی ابتدا کی… شروع میں انہوں نے بچوں کی کہانیاں لکھیں اور پھر 1973ء میں باقاعدہ ناول لکھنے کا آغاز کیا جو بنیادی طور تو جاسوسی تھے مگر ان میں بچوں کے لیے دینی تعلیمات اور اصلاحی مواد بدرجہ اتم موجود ہوتا… ان کی یاد گار تحاریر میں انسپکٹر جمشید سیریز، انسپکٹر کامران مرزا سیریز اور شوکی سیریز شامل ہیں… اشتیاق احمد صاحب نے آٹھ سو سے زائد ناول تحریر کیے… انہوں نے تمام عمر اپنی توجہ بچوں کے ادب پر ہی مرکوز رکھی … ہر کتاب کا موضوع الگ ہونے کے باوجود اس سے دل چسپی کا عنصر کم نہ ہوتا… اشتیاق احمد اپنے دور کے مقبول و معروف ترین مصنف رہے اور انہوں نے لاکھوں کروڑوں دلوں پہ راج کیا… بچوں کے ادب پہ شائد ہی کسی نے اتنی محنت اور جانفشانی سے کام کیا ہو جتنا اشتیاق احمد نے اس فن کو اپنے خون جگر سے پالا …انہوں نے ایک ماہ میں چار چار ناول لکھنے کا ریکارڈ بھی قائم کیا … ان کی تحریریں اُردو زبان کی بہترین شاہ کار ہوتیں، جس سے بچوں کی بول چال میں بھی نکھار آتا۔ انہوں نے اپنے قلم کے ذریعے پڑھنے والوں کے دلوں میں پاکستان کی شدید محبت انڈیلی… کتاب آپ کی دوست ہوتی ہے کے مقولے کو اشتیاق احمد صاحب کی کتابوں نے ثابت کیا…





میں جب پیچھے مڑ کر دیکھتی ہوں تو ہمیشہ ایک خوشگوار احساس ہوتا ہے کہ ہمارا بچپن اور نوجوانی کا دور اشتیاق احمد کے اصلاحی ناول پڑھتے ہوئے گزرا… اَسی کی دہائی میں مجھ جیسے ہزاروں لاکھوں بچوں کے لیے اشتیاق احمد مشفق و مہربان استاد کی حیثیت رکھتے تھے… میرے والد اس وقت ہم بہن بھائیوں کو دو روپے روزانہ جیب خرچ دیتے جن کے مصرف میں ترجیح اشتیاق احمد کے ناولوں کو حاصل ہوتی تھی… ہم رنگ برنگی گولیاں ٹافیاں یا سموسہ وغیرہ کھائے بغیر تو رہ سکتے تھے مگر اشتیاق صاحب کی کتاب کے بغیر ہمارا گزارا نہ تھا… اور پھر ایک کتاب کے بعد دوسری کتاب کے لیے پیسے جمع کرنا شروع کر دیتے… ان کتب کا نشہ ایسا تھا کہ جب بھی نئی کتاب لاتے تو دل میں کھلبلی مچنے لگتی کہ کب سکول کا کام ختم ہو اور ہم انسپکٹر جمشید، محمود، فاروق اور فرزانہ سے مل سکیں… کتابوں کے آغاز میں بچوں کے لیے دئے گئے رہنما اصول اپنی مثال آپ تھے :
(1)کیا یہ کسی نماز کا وقت تو نہیں؟
(2)کیا آپ نے اسکول کا کام ختم کر لیا ؟
(3)کیا آپ کے والدین نے آپ کو کوئی کام تو نہیں کہا؟
(4)کیا یہ سونے کا وقت تو نہیں ؟
(5) آپ کے گھر میں مہمان تو نہیں آئے ؟
اگر ان میں سے ایک بھی کام ہے تو پہلے اسے مکمل کریں پھر کتاب پڑھیں …
اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اشتیاق احمد صرف کتاب ہی نہ لکھتے تھے بلکہ بچوں کی تعلیم و تربیت میں بھی اُن کا کردار اہم تھا۔
کتاب شروع کرنے سے ختم کرنے تک سیکھنے کا عمل مسلسل جاری رہتا…





اشتیاق احمد صاحب کے ناولوں میں دلچسپی کا عنصر بھر پور ہونے کے باعث پڑھتے ہوئے محویت کا عالم یہ ہوتا کہ ارد گرد کا کوئی ہوش نہ رہتا … ناول میں مزاح ،سنجیدگی اور اصلاح ساتھ ساتھ چلتی … اشتیاق صاحب مصنف ہونے کے ساتھ ساتھ نئی نسل کے لیے استاد کی حیثیت بھی رکھتے تھے … بڑوں کا ادب، اللہ سے محبت، اچھائی اور برائی میں فرق کا سبق ان کی کتابوں میں ہمیشہ موجود ہوتا … اُردو زبان سے محبت اور مشکل الفاظ سے واقفیت ان کی کتابوں کی وجہ سے ہی ہمیں حاصل ہوئی… ان کی کتابوں میں سائنس کی نت نئی ایجادات سے بھی آگاہی ملتی… مجھے یہ کہنے میں ہمیشہ فخر محسوس ہوا ہے کہ اشتیاق احمد ہمارے بچپن کا ایک ناقابلِ فراموش حصہ ہیں… وہی قومی زبان سے ہماری محبت کا باعث ہیں … ہماری اور ہم سے پیچھے آنے والی نسلوں میں اُردو ادب کا بیج بونے والے اشتیاق احمد ہی ہیں…کتاب چند کاغذوں پہ مشتمل شے کا نام ہی نہیں بلکہ اس کے اندر ایک جہان بستا ہے اور اس جہان کو ہم تب ہی جان پاتے ہیں اور اس کا حصہ بھی ہم تب ہی بن پاتے ہیں جب اس کتاب کو اپنا لیتے اور اس کے اندر دئیے گئے اسباق اور اصلاح پر عمل کرتے ہیں… ایک قاری کے محسوسات کتاب کے بارے میں بہت حساس ہوتے ہیں کیوںکہ وہ کتاب نہ صرف اس کی دوست ہوتی ہے بلکہ اس کتاب کے لمس میں اپنائیت کوٹ کوٹ کر بھری ہوتی ہے … اور ان تمام احساسات سے ہمارا تعارف اشتیاق احمد کی کتب کے ذریعے ہوا…ان کا ادبی سفر1970 ء سے 2015 ء تک جاری رہا اور اس تمام عرصے میں انہوں نے بچوں کے دلوں پہ راج کیا…
آج کی نسل کو اُردو ادب سے وہ شغف حاصل نہیں جو تین یا چار دہائیاں پہلے کے بچوں کو تھا… دوسری زبانوں کا ادب پڑھنا بھی اچھی بات ہے مگر اپنی زبان کا ساتھ چھوڑ دینا دانش مندی نہیں۔ والدین کی ذمہ داری ہے کہ بچوں کو اردو کی کہانیوں اور کتابوں کی جانب راغب کریں ..
17 نومبر 2015ء کو وہ اس فانی دنیا کو چھوڑ کر خالق حقیقی سے جا ملے اور اپنے پیچھے لاکھوں مداحوں کو چھوڑ گئے… مرحوم ایک ایسا سرمایہ تھے جن کی کمی پوری ہونا ناممکن ہے… انہوں نے لاکھوں بچوں کے دلوں میں مطالعہ کی شمع روشن کی اور انہیں اپنی زبان سے روشناس کرایا … حاضر دماغی کا ہنر ان کی کتابوں سے بچوں نے حاصل کیا کہ مشکل وقت میں احتیاط کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیے… اشتیاق احمد کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ ہماری اصلاح اور تربیت اتنے لطیف طریقے سے کرتے کہ ہمیں وہ ذہنی بوجھ نہ لگتا بلکہ ہم اس میں ایسے ڈوب جاتے کہ غیر محسوس طریقے سے علم ہمارے اندر سرایت کر جاتا … والدین کی تربیت کے ساتھ ساتھ ایک اور انسان نے بچوں کی تربیت کا بیڑا اٹھا رکھا تھا اور وہ تھے مرحوم اشتیاق احمد…
…اس سب کو دیکھتے ہوئے ایک خواہش دل میں پنپتی ہے کہ کاش ایک اشتیاق احمد آج کی نسل کے لیے بھی پیدا ہو جو اپنے لفظوں کی جادوگری سے اس زمانے کو شیدا کر دے… ہم اشتیاق احمد صاحب کی خدمات سے نظر نہیں چرا سکتے اور نہ ہی انہیں فراموش کر سکتے ہیں۔ انہوں نے پاکستان کی کئی نسلوں پر احسان کیا اور ہم احسان فراموش بالکل نہیں ہیں۔ ہمارے دلوں میں مطالعے کی جو لگن وہ لگا گئے ہیں ہم اسے اپنی زندگی کا حصہ بنائے رکھیں گے اِن شاء اللہ… اللہ پاک اشتیاق احمد مرحوم کو اپنی جوارِ رحمت میں جگہ دے۔ آمین ثم آمین ۔




Loading

Read Previous

سوزِ دروں — سندس جبین

Read Next

شکستہ خواب — فرحین خالد

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!