کئی دن بعد آج موسم کافی خوشگوار تھا… آسمان سرمئی بادلوں سے ڈھکا ہوا تھا… میں گھر میں بیٹھے بیٹھے اکتا سا گیا تو سوچا آج کچھ باہر کی سیر ہوجائے … تازہ دم ہو
اپنے نانا کو حوالات کے پیچھے دیکھ کر چڑیا ہل کر رہ گئی تھی۔ اس کی زندگی کی تکلیف دہ یادوں میں ایک اور یاد کا اضافہ ہوگیا تھا۔تھانے دار نے زمین کی جعلی رجسٹری
ہڑپہ اور موہنجو دڑو کی کہانی کہانی بڑی پرانی! سمیع اللہ حامد۔ بحرین اِدھر آؤ بچو! کہانی سنو! کہانی ہماری زبانی سنو! کہانی یہ ماضی کی سوغات ہے یہ صدیوں پرانی ملاقات ہے کنارے پہ
آؤ چلتے ہیں لاہور ارسلان اللہ خان کیوں ہوتے ہو اتنے بور آؤ چلتے ہیں لاہور دیکھو داتا کا دربار گھومو باغِ شالیمار ماڈل ٹاؤن، سبزہ زار چوبُرجی کے یہ مینار چڑیا گھر ہے جیسے
میٹھے بول ضیاء اللہ محسن جب بھی بچو بولو تم لب اپنے جب کھولو تم لہجہ ایسا، من کو بھائے اور باتوں سے خوشبو آئے منہ سے نکلیں میٹھے بول بول بھی ایسے کہ انمول
مالک اور نوکر ارسلا ن اللہ خان اک مالک نے رکھا نوکر دیر سے اُٹھتا تھا وہ سو کر جو چیزیں مالک منگواتا نوکر کچھ کا کچھ لے آتا مالک نے منگوائی کَکڑی نوکر جی
چڑیا کی زندگی میں اس کا کانونٹ کا اور سسٹر ایگنس کا جور ول تھا وہ اسے کبھی فراموش نہیں کرسکتی تھی۔ وہ اس کے لیے مسیحا کی حیثیت رکھتے تھے۔ کچھ ایسا ہی فخر