ٹھنڈی وڈاں گاؤں کے رشک خان کی پوتی گاؤں کی اونچی نیچی پگڈنڈیوں پہ اچھلتی کودتی زمین کی دراڑوں کو دیکھتی جاتی ہے ۔ گہری اور بڑی دراڑیں جنھوں نے زمین کو اندر تک چیر
اور یہ پچیس سال بعد کا قصہ ہے۔ صدی کا تیسرا حصہ گزرنے کے بعد۔ پنجرے میںافتخار اور ریحانہ قید تھے۔ الگنی سے لٹکے پنجرے کے ساتھ بچھے تخت پر ابراہیم کسلمندی سے لیٹا تھا۔
تو باخبر ہے ناں میرے احوال کا… کیسے جی گئی ہوں میں یہ زندگی… جوز تو خالی ہے اور نہ ہی پوری بھری ہوئی… ایسی جیسے کہ سمندر کنارے کھڑی کوئی کانچ کی عمارت …
تپتی دھوپ میں شیخ حسام الدین گھر میں داخل ہوئے تو بُری طرح پسینے میں شرابور تھے ۔ ذرا دم لینے کے لیے پنکھے کے نیچے بیٹھے ہی تھے کے ان کی بیگم زبیدہ خالہ
مہم صبح ہونے والی تھی۔ ساری رات گزر گئی تھی ماں کو ڈھونڈھتے۔ کوئی سراغ نہیں مل رہا تھا۔ ماں کو آوازیں بھی دیں مگروہ خدا جانے کہاں چلی گئی تھی۔ ایسے تو کبھی نہ
”ٹھیک ہے میں تمہیں طلاق دے دوں گا، مگر تم یاد رکھنا تم مجھے کھو کر پچھتاؤ گی میں نہیں، تم دنیا کی واحد لڑکی نہیں ہو کہ میں تمہارا ماتم کرتا پھروں، تمہارے لئے
”ایکسیکوزمی سر! کیا میں آپ سے اکیلے میں چند منٹوں کیلئے بات کر سکتی ہوں؟” بریگیڈئر حسن دانیال اس وقت ٹرالی میں سے مکب نکال رہے تھے جب اس لڑکی نے مداخلت کی تھی’ انہوں