”جب سے تم گئے سنا ہے معطر دیوانی ہو گئی۔تمہارے چچا نے تو اسی روز درمیان کا دروازہ میخیں ٹھوک کر بند کر دیا تھا اور بڑے دروازے کوپھلانگنے کی میری ہمت نہیں ہوئی۔ لیکن
خوشبو کبھی ٹھہر نہیں سکتی۔ وہ لمحہ بہ لمحہ بے چینی سے گھومتی پھیلتی رہتی ہے کیوں کہ اس کی کوکھ میں ایک اسرار ہوتا ہے اور وہ اس اسرار کا پردہ رکھنے کی کوشش
یوں تو کوئی بھی فیس بکی محبت کو پسند کی نگاہ سے نہیں دیکھتا اور اگر اس کی مخالفت کرنے کی بات کی جائے تو ہم بھی ارسطو اور خلیل جبران کو کہیںپیچھے چھوڑنے پر
صبح کا وقت تھا۔ زویا پوائنٹ میں تھی۔ اُسے آئی ای آر کی لائبریری سے کچھ کتابیں دیکھنی تھیں۔ وہ ابھی اسی سوچ میں گم تھی کہ یہیں اُتر جائے یا ڈیپارٹمنٹ چلی جائے۔ اُس
ٹھنڈی وڈاں گاؤں کے رشک خان کی پوتی گاؤں کی اونچی نیچی پگڈنڈیوں پہ اچھلتی کودتی زمین کی دراڑوں کو دیکھتی جاتی ہے ۔ گہری اور بڑی دراڑیں جنھوں نے زمین کو اندر تک چیر
اور یہ پچیس سال بعد کا قصہ ہے۔ صدی کا تیسرا حصہ گزرنے کے بعد۔ پنجرے میںافتخار اور ریحانہ قید تھے۔ الگنی سے لٹکے پنجرے کے ساتھ بچھے تخت پر ابراہیم کسلمندی سے لیٹا تھا۔