سوءِ بار — میمونہ صدف

ٹھنڈی وڈاں گاؤں کے رشک خان کی پوتی گاؤں کی اونچی نیچی پگڈنڈیوں پہ اچھلتی کودتی زمین کی دراڑوں کو دیکھتی جاتی ہے ۔ گہری اور بڑی دراڑیں جنھوں نے زمین کو اندر تک چیر ڈالا تھا۔ اماں بتاتی تھی کہ یہ دراڑیں برسوں پہلے تب پڑی تھیں جب اس علاقے میں شدید بھونچال آیا تھا ، آبادی کی آبادی تلپٹ ہوگئی تھی ۔
”اماں بھونچال کیسے آتا ہے؟” اس کی آٹھ جماعتیں پڑھی ماں بتاتی کہ جب زیرِ زمین پلٹیں سرکتی ہیں تو بھونچال آتا ہے ، زمین ہچکولے کھانے لگتی ہے اور دادا ایسے میں ٹھنڈی آہیں بھرتے کہا کرتے تھے کہ جب زمین پہ بوجھ بڑھ جاتا ہے، تو زمین اس بوجھ کو اتار پھینکنے کو انگڑائیاں لیتی ہے ۔ اس کا ننھا ذہن سوچتا کہ زمین پر آخر کس شے کا بوجھ ہے ؟ انسانوں اور ڈھورڈنگروں کایا شہرکی بڑی بڑی عمارتوں کا ؟
دادا کہتے تھے ۔ ” جب حضرت انسان حد سے تجاوز کرنے لگتا ہے تو پہاڑ دھرتی بنانے والے کے حضور گزارش کرتے ہیں کہ ایک حکم دیں اور وہ سرک جائیں ، ہوا بھی سوال بن کر کھڑی ہو جاتی ہے کہ آیا وہ سب اڑا لے جائے ، پانی چاہتا ہے کہ وہ سب بہا لے جائے لیکن قدرت خاموش رہتی ہے ۔بنانے والا حکم نہیں دیتا ، مہلت دیتا ہے۔۔ تبھی آدم شیر ہوتا ہے ۔تباہ ہو کر بھی اصلاح نہیں کرتا ، پچھتاتا نہیں ہے۔ سوال کرتا ہے ، اکڑتا ہے اور پھر سے وہی دہراتا ہے ۔”
رشک خان کی پوتی ناسمجھی سے بس اثبات میں سر ہلا دیتی ۔ اس کی سمجھ میں نہیں آتا کہ دادا کیسی باتیں کرتے ہیں اور رشک خان ماضی میں کھو جاتا جہاں برسوں پہلے زمین کو سرکنے کا حکم جاری ہو ا تھا ۔
٭…٭…٭





ٹھنڈی وڈاں گاؤں میں ایک ہی بات زبانِ زد عام تھی کہ زمان خان کے اِکو اِک پتر کا ضمیر بگڑ گیا ۔ شہر بھیجا تھا پڑھنے کو ، عقل مت سیکھنے کو، افسر بن کر لوٹنے کو ۔ مگر کچھ نہ بنا بس ناخلف بن گیا ، ناشدنی، نافرجام۔ اب اسے انہی القابات سے نوازا جاتا ۔ کبھی و ہ جو باپ کی نیک نامی کا باعث بنا، اب بدنامی کا باعث بن رہا تھا۔ پہلے گاؤں والے اسے سر آنکھوں پر بٹھاتے، اب سب اسے آنکھیں دکھاتے ۔ وہ جو قابل ِ مثال رہا تھا۔
”دیکھ شیر گل جیسا بن۔ کتنا لائق نکلا ۔ پورے گاؤں کیا آس پاس کے گاؤں میں بھی کوئی اس جیسا نہیں ۔” اب بھی قابلِ مثال ہی تھا ۔
”خبردار جو شیر گل سا وتیرہ اپنایا۔ ناعاقبت اندیش۔ ہماری سات پیڑھیوں میں اس سا کوئی نہیں نکلا۔”
تو وہ جو شیر گل تھا اس کے باپ دادا اور تایا کا اس گاؤں میں دیگر لوگوں کی طرح ایک ہی کاروبار تھا ۔ مہاجن ، جو مجبوروں کو قرض دیا کرتے اور سود سمیت وصول کیا کرتے ۔ آس پاس کی دکانوں پر بھی یہ نہیں تو کم و بیش اسی قسم کاکاروبار عام تھا ۔ کوئی سرحد پار سے غیر قانونی اسلحہ منگوا کر دکانوں کی زینت بنا رہا ہے ، تو کوئی پوست کی کاشت سے کما رہا ہے ۔ سب حلال اور باعثِ برکت مانا جاتا ۔کالا دھن سفید سمجھ کر وصولا اور بیچا جاتا۔ اسی مال سے صدقہ کیا جاتا ، خیرات کی جاتی، زکوة دی جاتی۔ وہاں کوئی قاعدہ قانون نہ تھاکہ ان کے اپنے قاعدے اپنے قانو ن تھے اور صدیوں سے ایسا ہی چلا آرہا تھا ۔
شیر گل جب شہر سے آتا نجانے کس کس کو ایسے کاروبار سے جڑا پاتا ، اندر کہیں سے برا مناتا لیکن ظاہر نہ کرتا ۔ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہی سہی پر کوئی درجہ تو تھا ۔جب رہا نہ گیا تو ایک روز بول پڑا ۔
”کاکا یہ کام چھوڑ دو ۔ یہ سارا سود ہے ۔ خدا اور اس کے رسولۖ کے خلاف اعلان جنگ، یہ آمدن حرام ہے۔ ” زمان خان سکتے میں آگیا ۔ یہ کون سی زبان تھی جو وہ بول رہا تھا ۔ کون سا فتویٰ وہ جاری کر رہا تھا۔
”کون کہتا ہے کہ آمدن حرام ہے ؟”
”وہ قرض جو نفع لے کر آئے حلا ل کیسے ہو سکتا ہے؟” زمان خان کا جوان بیٹے پر ہاتھ اٹھ گیا تھا۔
”اسی کمائی سے تیرے دادا نے ہمیں پالا اور اسی کمائی سے ہم اپنی نسل کو پال رہے ہیں ۔ اب یہ حرام ہوگئی۔ پاپ چڑھ گیا۔” وہ انیس سالہ شیر گل کو مارتا رہا اور وہ مار کھاتا رہا ۔ جب وہ مار مار کر ہانپنے لگا تو اس نے شیر گل کے منہ پر تھوک دیا۔
”باپ دادا کو حرام خور کہتا ہے۔ شہر اس لیے بھیجا تجھے؟” شیر گل نے اپنا منہ آستین سے پونچھ ڈالا پھر بھی مؤدب کھڑا رہا ۔
”شہر حق اور سچ کی تلاش میں بھیجا تھا نا۔ اب جب حق اور سچ کی بات کرتا ہوں، تو سب سے بڑا جھوٹا بھی میں ہوں اور باطل بھی میں۔”
”سائنس پڑھنے کو بھیجا تھا، تو ہمیں مذہب پڑھا رہا ہے۔”
”سائنس پڑھنا اور مذہب پڑھنا ایک برابر ہے ۔ سچ ہے ۔”
”کہاں سے آیا تیرا یہ سچ؟” زمان خان دہاڑا تھا۔ پہلے کبھی دہاڑا نہیں تھا مگر اب اس سے کم پر بات نہ بن رہی تھی ۔
”آسمانوں سے اترا ہے ۔” وہ نظریں جھکائے کھڑا رہا ۔مؤدب بنا رہا۔
”نافرمان ہے تو، خمیدہ آگیا تجھ میں ، میری تربیت میں۔ کیا تجھے دکھتا نہیں کہ سب اسی کاروبار سے کما رہے ہیں ، کتنی برکت ہے اس میں ؟”
”حرام میں کبھی برکت نہیں ہوتی۔ تبھی یہاں کی عوام کبھی خوشحال نہیں ہوتی ۔”
”سب غلط ہیں کیا؟” اس نے کف اڑایا۔
”جو یہ کرتے ہیں وہ غلط ہیں۔”
”ایک تو سچا ہے؟” نخوت سے دیکھا گیا۔
”جو یہ نہیں کرتے سب سچے ہیں۔” ادب سے جواب آیا۔
”مردود ہو گیا ہے تو۔” زمان خان اکلوتے بیٹے کا ماتم منانے کو سر پیٹنے لگا تھا۔
بات پھیلتے پھیلتے ٹھنڈی وڈاں تو کیا آس پاس کے چھوٹے دیہات تک جا پہنچی تھی۔ سو اب پنجایت بٹھائی گئی۔
”تو ہمارے کاروبار کو حرام کہنے والا کون ہوتا ہے؟” سب گاؤں والے بیٹھے تھے ۔ وہاں ایک ہی عاصی کھڑا تھا ۔ انیس سالہ جوان شیر گل۔
”میری کیا مجال۔ یہ تو خدا اور اس کا رسول ۖ کہتے ہیں ۔”
”تجھے کیا خدا نے خود کہا یا فرشتے بھجوائے؟” بڑا زمیندار ٹھنکا تھا ۔
” کلام بھیجا گیا ہے وہاں لکھا ہے سب۔ وہاں درج ہے سب ۔” وہ سر جھکائے ، ہاتھ باندھے کھڑا تھا ۔
سب کی تیوریاں چڑھیں۔
”ہم نے بھی پڑھ رکھا ہے سب ۔ جانتے ہیں سب ۔”
”مگر مانتے نہیں ہیں۔” اس نے سر اٹھا کر سب کی جانب دیکھا ۔
”تو ہوش میں ہے ؟” زمان خان نے سر پیٹ لیا ۔
”میں ہی تو ہوش میں ہوں۔”
پھر اسے واپس بھیجنے کا فیصلہ سنا دیا گیا کہ وہ باغی ہوتا وہاں کی نسل کو برباد کر رہا تھا، لیکن ایسے نہیں سنگسار کر کے اور پہلا پتھر اسے زمان خان نے مارا تھا اس کا پہلا قدم اٹھانے میں مدد دینے والا ، اس کا باپ ۔ پھر تابڑ توڑ پتھر برسائے گئے اور شیر گل دیوانہ وار بھاگتا چلا گیا ۔کون سا پتھر کہاں لگا یہ یاد نہ رہا سوائے اس پہلے پتھر کے ۔
”شیر گل حق بات کہتا ہے۔” وہ تو سنگسار کر کے نکال دیا گیا تھا، لیکن یہ سوچ دوسرے ذہنوں میں پنپنے لگی تھی ۔
”آباء ہمیشہ درست ہوں گے یہ کہاں لکھا ہے ؟ کہاں ہوتا آیا ہے؟ تاریخ گواہ ہے ۔” وہ شیر گل کا تایا زاد رشک خان تھا ْ۔
” گزری قوموں جیسا کریں گے تو انہی کی طرح بندر خنزیر بنا دیے جائیں گے ۔” وہ ٹھنڈی وڈاں کے بڑے زمیندار کا پتر امیر حمزہ تھا ۔
”ہم کیا کر سکتے ہیں؟”
” ہم ہی تو کر سکتے ہیں ، ہم جمے رہیں یہ ہم پہ لازم ہے ۔ اصحاب ِ کہف بھول گئے ۔چند جوان لڑکے ، نو عمر لیکن ایمان پر ڈٹ جانے والے ۔ اتنا نہ سہی ، کچھ تو ایمان دکھائیں ۔”
چودہ لڑکوں کا وہ ٹولا شیر گل کا ہم خیال تھا ۔ چودہ گاؤں کے لیے چودہ جوان کافی تھے ۔انہیں سمجھایا گیا ، ڈرایا گیا ، لالچ دی گئی ، وعیدیں سنائی گئیں مگر وہ ڈٹے رہے، جمے رہے ۔ انھیں سنگسار نہ کیا جا سکا کہ اس میں بڑے لوگوں کے پتر شامل تھے۔ پھر کس کس کو سمجھاتے بجھاتے اور کس کس کو سنگسار کرتے ۔ ایک چنگاری تھی جو لگا دی گئی تھی۔
بہت ماہ بعد شیر گل کسی امید کے سنگ لوٹا تھا ۔ ایک آخری بار ۔ بڑے ٹیلے پر کھڑا ہوا چلا رہا تھا ۔
” مان جاؤ ۔ حد سے بڑھنے والوں کو مٹا دیا جاتا ہے ۔” آہستہ آہستہ پورا ٹھنڈی وڈاں ٹیلے کے گرد جمع ہونے لگا ۔ شیر گل یہی دہراتا جاتا ۔
” تو ولی ہے یا نبی جو وعیدیں سنا تا ہے ۔ ہم اب تک بچے ہیں ، آگے بھی بچے رہیں گے ۔” بڑا زعم تھا انھیں اپنی عبادات پہ ۔ غرور اور تکبر تھا جو ٹپک رہا تھا ۔
”بنی اسرائیل مت بنو۔”
”بن بھی گئے تو کیا؟ بڑا کرم تھا اس قوم پہ ۔” اور وہ سارا عذاب بھول گئے، صرف انعام یاد رکھا۔ آزمائشیں ، پابندیاں کچھ یاد نہ رہا ۔ شیر گل پھر رکا نہیں ۔ ہمیشہ کے لئے نکل گیااور جس روز سرحد پار سے ان کا متبرک مال آنا تھا اور وہ نجانے کون کون سے منصوبے بنا رہے تھے۔ دھرتی پہ بوجھ کو بڑھا رہے تھے تو زمین سرکنے ، خون اگلنے لگی ۔ گھر کے گھر اجڑ گئے۔ گاؤں کے گاؤں الٹ گئے اور چودہ لڑکوں کا وہی ٹولا بچ گیا جو شیر گل کا ہم خیال تھا ۔
رشک خان نے آنکھوں کو پونچھتے ہوئے پوتی کی جانب دیکھا جواس کی انگلی تھامے زمین کے اونچے نیچے رستوں پر چلتی دراڑوں کو دیکھتی دہراتی جاتی تھی ۔ زمین پہ بوجھ بڑھنے سے بھونچال آتا ہے ۔ اگلی بارنجانے بوجھ کب بڑھے گا۔
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

نیل گری — افتخار چوہدری

Read Next

محبتیں ہمارے عہد کی — ثناء شبیر سندھو

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!