نبھانا — نعمان اسحاق

دور افق پر سورج ڈھل رہا تھا۔ ڈھلتے سورج کی کرنیں بادلوں پر اپنا ہر عکس بکھیررہی تھیں اور یہی مدھم کرنیں جب ڈالیوں پر کھلے گلابوں پر پڑتیں تو ان کی تازگی پر مہر لگاتیں۔ یہ مہر تو مریم کے بالوں میں اٹکے گلاب پر بھی لگتی۔ چہرے پر شگفتگی لیے مریم دو رویہ پودوں کے درمیان کھڑی دور راستے پر کچھ اس طرح سے دیکھتی جیسے کسی کی راہ تک رہی ہو اور پھر اسے وہ نظر آگیا۔
بانکا اور سجیلا۔
مریم کا دل کچھ ایسی لے پر دھڑکا کہ اسے سنبھالنا مشکل ہوگیا۔ دل کو سنبھالے وہ اس کی طرف چلنے لگی۔ قدموں کی رفتار کچھ تیز ہوئی اور پھر ایسے جیسے وہ بھاگ رہی ہو۔ بھاگتے بھاگتے اس کا سفید ململ کا غرارہ ہوا کے دوش پر لہراتا۔ وہ اس کے قریب پہنچی مگر اس کے قریب پہنچ کررکنے کی بجائے وہ آگے بڑھ گئی۔
”مریم!” اس نے پکارا تو مریم کے پاؤں رکے، مگر مڑ کے پھر بھی نہ دیکھا۔ وہ خود چل کراس کے پاس آیا۔
”رکی کیوں نہیں کہاں جارہی تھی۔” وہ پوچھ رہا تھا۔ مریم مسکرادی۔ اس کا مسکراناہی جواب تھا۔
”یہ گلاب …” اب کی بار اس نے مریم کے بالوں میں اٹکے گلاب کو چھوا تھا۔
”میں فیصلہ نہیں کرپاتا کہ یہ گلاب تمہاری خوبصورتی کو مکمل کررہا ہے یا تم اس کی خوبصورتی کو بڑھارہی ہو۔” مریم کے لبوں پر تبسم کچھ یوںآن ٹھہرا جیسے ہمیشہ یہیں ڈیرہ ڈالے رہے گا۔
تبھی مریم کی آنکھ کھلی اور اس نے خود کو نیم تاریک کمرے میں اپنی چارپائی پر لیٹا پایا۔ دل کی دھڑکن کانوں میں سنائی دے رہی تھی۔ وہ بے قابو دل کو سنبھالتے اٹھی۔ پیروں میں چپل پھنسائی اور دبے قدموں سے باہر آئی۔
گرمیوں کو رخصت ہوئے مہینہ بھر ہوچکا تھا، مگر سردیوں کی آمد ابھی تک دور تھی۔ بہرحال رات کے آخری پہر سردی کا لطیف سا احساس ہوتا۔ باہر برآمدے میں آکر مریم نے چند گہرے سانس لیے جیسے تازہ ہوا کو اپنے اندر اتارا ہو۔ پھر قدم قدم چلتی برآمدے کے ایک کونے میں لگے نل کی طرف آئی ۔ نل کھولا اور منہ پر پانی کے چند چھینٹے ڈالے۔
نل کے نیچے ٹوٹے پیندے والی بالٹی دھری تھی تاکہ بالٹی میں پانی جمع نہ ہو۔
گھریلو حالات سنک اور واش بیسن کی اجازت نہ دیتے تھے اور جن چیزوں کی حالات اجازت نہ دیں تو خودبخود اُن کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی اور یہی حال اس گھر کے مکینوں کا تھا۔
”بھلا کیا ضرورت ہے سنک کی؟” منہ پر چھینٹے مارنے کے بعد وہ پانی کی دھار کو بہتا دیکھتی رہی۔ اور ایک نام اس کے لبوں سے نکلا۔
”بلال!”





دور کسی مسجد میں مؤذن نے فجر کی اذان دینا شروع کی۔
”اللہ اکبر اللہ اکبر ۔” اذان کے کلمات وہ ساتھ ساتھ دہرارہی تھی اور پھر وضو کرنے لگی۔ جب وہ پاؤں دھو رہی تھی تب آنکھیں ملتی حمیرا بھی باہر آگئی۔
”آج تم پھر مجھ سے پہلے اٹھ گئیں۔ حالاں کہ میں جلدی سوئی تھی کہ تم سے پہلے اٹھ جاؤں مگر مجھے نہیں لگتا تم سے پہلے اٹھنے کی خواہش کبھی پوری ہوپائے گی۔” حمیرا اس سے اڑھائی سال بڑی تھی اور وہ بہنیں عمر کے ایسے دور میں ہرگز نہیں تھیں جب ایسے مقابلے کیے جائیں مگر ان دونوں میں ایسے مقابلے چلتے رہتے تھے اور جب تک مریم نے دو سنتیں پڑھیں تب تک حمیرا بھی وضو کرکے اس کے ساتھ آن کھڑی ہوئی۔
دعا کے لیے اس نے ہاتھ اٹھائے تو خشوع و خضوع خود ہی دامن گیر ہوا اور یوں بھی آج صبح کی دعا میں عجز کا عنصر زیادہ تھا کہ آج نتیجہ جو متوقع تھا اور وہ اپنے اللہ سے پورے انکسار سے اچھے نمبروں کی دعا مانگ رہی تھی۔ دعا مانگ کر کمرے میں گئی اور ماں کو جگایا۔
بلقیس اتنی بوڑھی ہرگز نہ تھی مگر بے قابو ہوتی ذیابیطس نے وقت سے پہلے بڑھاپے کی دہلیز پر آبٹھایا تھا۔ رات کے پہر کے پہر بے خیالی میں گزرتے اور پچھلے پہر کہیں جاکر آنکھ لگتی نتیجتاً صبح اٹھنا مشکل ہوجاتا۔ بیٹیاں اس سے پہلے اٹھتیں اور نماز سے فارغ ہوکر اسے اٹھاتیں۔
یہ بیٹیاں بھی کیسی نعمت ہیں۔ یوں تو بیٹیوں کے لیے رحمت کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے، مگر بلقیس کو نعمت بھی لگتیں۔ کیسے اس کا دھیان رکھتیں۔ ان کے بغیر وہ کہاں جی پاتیں۔ نعمت سی نعمت تھی۔ نماز کے بعد بلقیس نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے ہی تھے کہ مریم اس کے پاس آئی اور دوزانو ہوکر ساتھ بیٹھی۔
”امی میرے لیے بھی دعا کیجیے گا ۔ میرا نتیجہ ہے آج ۔ اچھے نمبر آنے چاہئیں۔ ”
”میری پیاری بیٹی۔ ” بلقیس نے آگے بڑ ھ کے بیٹی کا ماتھا چوما۔
”تم تو کہتی ہو تمہاری ہر دعا قبول ہوتی ہے، تو پھر امی سے دعاکا کس لیے کہتی ہو۔ ” پیچھے سے حمیرا کی آواز آئی۔
”دعا تو میری ہر قبول ہوتی ہی ہے پر کیا ہے نا کہ اپنے حق میں دوسروں سے بھی دعائیں کروانی چاہئیں۔ وہ دعائیں بھی مقبولیت کا درجہ رکھتی ہیں۔” مریم نے حمیرا کے قریب آکر جواب دیا تھا۔
”ہونہہ! ” حمیرا سر جھٹک کر رہ گئی ۔ یوں تو حمیرا بڑی تھی مگر باتوں سے مریم ہی سمجھ دار لگتی۔
قرآن مجید کی تلاوت کے بعد حمیرا نے تو کڑھائی والا فریم اٹھالیا اور سوئی دھاگے کی الجھنوں میں الجھتی گئی۔ جبکہ مریم چہل قدمی کے لیے چھت پر آگئی۔
صبح حسب معمول سہانی تھی۔ تازہ ہوا کے جھونکے اسے مزید خوبصورت بنا رہے تھے۔ دور کسی درخت پر بیٹھے پرندے اپنی بولیوں میں قدرت کی حمد و ثنا کر رہے تھے۔ یونہی ایک دیوار سے ٹیک لگائے مریم تازہ ہوا کو اپنے اند اتارتی پرندوں کی چہچہاہٹ سنتی سوچوں میں گم ہوگئی۔
رزلٹ کا دن بھی کیسا اسراربھرا ہوتا ہے۔ دھڑکن چاہے تیز نہ بھی ہو مگرمعمول سے ہٹ کر ہوتی ہے اور ہاتھ پاؤں میں بھی ایک سنسناہٹ دوڑتی ہے ۔ اچھے پڑھے لکھے طلبہ گوکہ مطمئن ہوتے ہیں، مگر عجیب دورانیے سے وہ بھی گزرتے ہیں۔
رزلٹ کا سوچتے سوچتے صبح کاذب کے وقت دیکھا خواب اس کی آنکھوں میں آن سمایااور ہونٹ ایک دلفریب مسکراہٹ سے چمکنے لگے۔
”بلال بھی نا۔ اب کیا خوابوں میں بھی آؤگے؟” چشم زدن میں وہ بلال سے مخاطب تھی اور شاید یہ مکالمہ آگے بڑھتا اگر کسی کے سیڑھیاں چڑھنے کی آواز دخل نہ دیتی اور وہ تخیل برقرار رکھ پاتی۔
سیڑھیاں چڑھ کر آنے والا حمیرا کے سوا کون ہوسکتا ہے۔
”کیا تمہیں یاد نہیں کہ آج ناشتا بنانے کی باری تمہاری ہے۔اب امی روٹیاں پکانے بیٹھ چکی ہیں۔” حمیرا کے ماتھے پر شکن تھے۔
”تو آپا میرا رزلٹ ہے آج ۔ اپنے بنائے گئے شیڈول سے خاص دن تو مجھے رعایت دے دیا کرو۔ آپا آپ ناشتا بنانے بیٹھ جاتیں تو کم ازکم امی کو تو تکلیف نہ ہوتی۔” لفظ آپا پر وہ زوردے دے کر بولی اور حمیرا جل بھن کر رہ گئی۔ اصل جھگڑا پیچھے رہ گیا اور پرانا جھگڑا (اتنا پرانا کہ مریم صدیوں پرانا کہتی) دونوں کے درمیان پھر سے آن کھڑا ہوا۔
”کتنی بار کہا ہے مجھے آپا مت کہا کرو۔ تم سے اتنی بڑی بھی نہیں ہوں۔ اڑھائی سال کا تو فرق ہے، مگر تمہیں تو چھوٹی بچی بننے کا شوق ہے۔” حمیرا ابھی مزید کچھ کہتی مگر مریم نے اسے ٹوک دیا۔
”اڑھائی سال نہیں آپا ۔ دوسال اور سات ماہ۔”
حمیرااسے گھور کررہ گئی۔
”پھر سے آپا۔” وہ دانت پیستی مریم کے پاس آئی اور مریم ہنستے ہوئے پرے سرکی۔ حمیرا مزید آگے بڑھی اور مریم نے دوڑ لگادی اور یوں بھاگتے ہوئے مریم ایسے قہقہے لگاتی کہ اس میں تو شبہ ہی نہ تھا کہ آواز گلی میں نہ جارہی ہو۔
”مریم آج تو میں تمہاری جان لے ہی لوں گی۔”
”نہ آپا نہ۔” اب تو باقاعدہ پکڑن پکڑائی شروع ہوگئی تھی۔ مریم کے گلے میں جھولتا دوپٹابھی زمین پر گرگیااور اس نے دھیان ہی نہ دیا اور جانے کتنی دیر وہ یوں آگے پیچھے دوڑتیں کہ سیڑھیوں سے آواز ابھری۔
”مریم!” دونوں بہنوں نے سیڑھیوں کی طرف دیکھا۔ بلقیس دیوار کا سہارا لیے پہلی سیڑھی پر کھڑی تھیں۔
”کتنی بار تمہیں سمجھایا ہے یوں قہقہے مت لگایا کرو۔ گلی سے گزرنے والے کیا سوچتے ہوں گے۔ یوں ہنسنے کی آواز باہر جائے لڑکیوں کو زیب نہیں دیتا اور یہ لو دوپٹا بھی گلے میں نہیں۔ تمہارا کیا ہوگا مریم۔” بیٹی کو ڈپٹتے ہوئے بلقیس کے دل میں یہی آرزو جمی بیٹھی تھی کہ اللہ اس کی بیٹیوں کو ہمیشہ ایسی ہی بے فکری دکھائے کہ جب وہ چاہے دل کھول کر ہنس سکیں، مسکراسکیں، قہقہے لگاسکیں۔
”اور حمیرا تم تو بڑی ہو۔ تم ہی سمجھ داری کا مظاہرہ کیا کرو۔ کیا پاگلوں کی طرح پیچھے پیچھے دوڑ رہی ہو۔” حمیرا کو تو یہ بات بندوق سے نکلی گولی کی طرح لگی، مگر بجائے جسم پر لگے نشتر سے خون نکلتا اس کے منہ سے کڑوے الفاظ ہی نکلے۔
”بڑی’ بڑی بڑی یہ کیا ہر وقت آپ مجھے بڑی ہونے کا طعنہ دیتی ہیں۔ کیا میں اپنی مرضی سے اس کلموہی سے بڑی ہوں۔ میرے بس میں ہوتا تو…تو یہ مجھ سے اڑھائی سال چھوٹی ہے ۔ میں اس سے پورے پانچ سال چھوٹی ہوتی۔”
”اڑھائی سال نہیں پورے دوسال اور سات ماہ۔” مریم نے تصحیح کرنا ضروری سمجھا۔
”دیکھ لیں آپ اپنی دلاری کو۔” حمیرا سے وہاں رکنا محال ہوگیا۔ پاؤں پٹختے وہ سیڑھیاں اترنے لگی اور ہنسی کے فوارے ایک بار پھر مریم کے حلق سے پھوٹنے لگے۔
”مریم!”بلقیس نے آنکھیں دکھائیں مگر وہ مریم ہی کیاجو خاطر میں لاتی۔ ہنستے مسکراتے اس نے زمین پر پڑا اپنا دوپٹااٹھایا ، جھاڑ کر گلے میں لٹکایااور ماں کا ہاتھ پکڑ کر سیڑھیاں اترنے لگی۔ قہقہوں سے دل بھرگیااس لیے اب بلقیس سے کہہ رہی تھی۔
”آج نتیجہ ہے۔ آپ کو ناراض نہیں کرنا چاہتی۔ دیکھیں اس لیے اب قہقہے نہیں لگارہی ہنسنے پر اکتفا کررہی ہوں۔” یہ کہتے ہوئے بھی ایک قہقہہ پھوٹا تھا اور بلقیس چاہ کر بھی آنکھیںنہ دکھا سکی ابمسکراہٹ اس کے ہونٹوں پر آن ٹھہری۔
٭…٭…٭
جلال پور پیر والا۔ شہر تھا ہی کتنا بڑا۔ یہاں سے شروع اور یہیں پر ختم۔ اسیّ کی دہائی میں جب بڑے شہر بھی اتنے گنجلک اور بڑے بڑے نہ تھے۔ یہ شہر تو جیسے گاؤں کی ترقیاتی شکل تھا۔ ہا ں گورنمنٹ آف پنجاب نے ٹاؤن کمیٹی مہیا کی ہوئی تھی اور جلال پور کو ملتان تحصیل کا درجہ دینے پر غوروخوض کیا جارہا تھا، البتہ اڑوس پڑوس کے بکھرے ہوئے بے تحاشا اور ان گنت دیہات کے لیے جلال پور شہر کا درجہ رکھتا تھا۔ شناختی کارڈ دفتر، ہیلتھ سنٹر ، لڑکوں اور لڑکیوں کے ہائر سیکنڈری سکول ، بازار غرض وہ شہری ضروریات کے لیے جلال پور کا ہی رخ کرتے اور ہماری مریم اسی شہر کی باسی تھی۔
بوہڑ سے نیچے اترو تو بائیں جانب ایک تنگ گلی۔ اس تنگ گلی کے دائیں کنارے ایک بند گلی تھی۔ یہ بند گلی نسبتاً کھلی کشادہ تھی اور اسی گلی کے دائیں طرف آخری گھر سے دو گھر پہلے مرسیم کا گھر تھا اور اس بند گلی میں تمام گھر رشتہ داروں کے ہی تھے۔
چچا ‘ ماموں’ پھوپھو اور خالائیں۔ کوئی پھو پھو ممانی بھی تھیں تو کوئی خالوچچا بھی تھا اور یوں ساری گلی رشتوں سے جڑی تھی اور مریم کو یہ رشتوں سے بھری گلی اس قدر اچھی لگتی تھی کہ اس کی پسندیدگی اور محبت کے لیے الفاظ نہ ملتے تھے۔
اور یہ بارہ بجے کا وقت تھا۔ دس بجے اگر رزلٹ کا اعلان کیا گیا ہو تو (اخبار میں یہی بتایا تھا کہ بی اے کے امتحان کا اعلان یونیورسٹی دس بجے کرے گی) تو دو گھنٹے تک رزلٹ جلال پور تک بھی پہنچ جانا چاہیے۔ کب سے بلال رزلٹ معلوم کرنے کا کہہ کر نکلا اور لو یہ سوئی ایک پر آن ٹھہری اور بلال نہیں آیا۔ وہ مین گیٹ سے برآمدے تک آتی۔ برآمدے میں بچھی چارپائی پر بیٹھ کر کچھ دیر انگلیاں مروڑتی اور پھر سے اٹھ کر مین گیٹ تک جاتی۔ یوں برآمدے سے مین گیٹ اور مین گیٹ سے برآمدے تک اس نے کوئی بیسیوں چکر لگائے۔
”میری ہی غلطی تھی جو بلال سے کہا۔ پتا بھی ہے وہ ہر کام میں دیر کرنا فرض سمجھتا ہے۔” اب وہ بڑبڑارہی تھی۔
”تمہیں فیل ہونے کی اتنی جلدی کیوں ہے۔” سوئی دھاگے میں الجھی حمیرا کہہ رہی تھی۔ یوں بھی اس کی طرف کافی ادھار باقی تھے اور وہ ہی حمیراہوگی جو حساب نہ چکائے۔
”شکل اچھی نہ ہو تو پھر بھی بات اچھی کرلینی چاہیے…آپا۔” سیر کو سوا سیر کرنے کے لیے اس نے لفظ آپا پر زور دیا اور حمیرا کادل چاہا کہ پاس کوئی چیز پڑی ہوتی تو مریم کو دے مارتی۔
تبھی دروازے پر کھٹکا ہوا۔ مریم کے چلتے قدم رک گئے اور وہ دم سادھ کر اپنی جگہ ساکن ہوگئی اور پلکیں جھپکے بغیر دروازے کی طرف تکنے لگی۔ دروازہ بھیڑ کر آنے والا بلال ہی تھا۔ چہرے پر مسکراہٹ اور ہاتھ میں مٹھائی کا پیلا ڈبا لیے۔ دوسرے ہاتھ میں ایک پرچی بھی دبی تھی جس پر یقینا اس کے نمبر درج ہوں گے۔
”پاس ہوگئی میں ۔ دکھاؤ میرے نمبر ۔” ساکن وجود میں حرکت آئی اور وہ نمبر دیکھنے کے لیے بے تاب ہوئی۔
”نہیں مریم! مٹھائی کے ڈبے سے غلط مطلب مت نکالو یہ تو امی نے منگوائی ہے ۔ باجی کو دیکھنے کے لیے لڑکے والے آرہے ہیں۔”
”غلط مطلب نہ نکالوں سے تمہارا کیا مطلب ہے۔” وہ ٹھٹکی تھی۔
”مجھے افسوس سے کہنا پڑرہا ہے کہ میں تمہارا دل نہیں دکھانا چاہتا، مگر بتانا بھی ضروری ہے۔ تم انگلش کے مضمون میں پاس نہیں ہوسکی، مگر دل چھوٹا مت کروسپلی میں کلیئر کرلینا۔” مریم ایک بار پھر ساکت ہوگئی۔
”لو میں نہ کہتی تھی ۔ تمہیں فیل ہونے کی جلدی ہے، لو آگیا نتیجہ۔”اور کچھ ہوا نہ ہوا مگر رزلٹ سن کر حمیرا کے دل کو چین آگیا۔ اس کی بھی بی اے میں سپلی تھی تو اب مریم کی بھی آنی چاہیے۔
”آگیا بلال ۔ لو بتاؤ میری بیٹی کا رزلٹ۔ پاس ہوگئی نا؟ بڑی ہوشیار ہے سکول کے زمانے سے ہی۔”بلقیس بھی کمرے سے باہر آگئیں۔
ساکت ہوئی مریم کی آنکھوں میں سب سے پہلے آنسو چمکے اور پھر وہاںٹھہرنا دوبھر ہوا۔ وہ کمرے کی طرف دوڑی۔ لو جی سپلی اب تو خودکشی ہی کرلینی چاہیے۔ اس نے دہاڑیں مار مار روناشروع کردیا۔
باقی تینوں نفوس بھی اس کے پیچھے کمرے میں چلے آئے۔ دھندلی ہوتی آنکھوں سے مریم نے ان پیاروں کو دیکھا۔ اس کی خودکشی کے بعد وہ کس قدر اکیلے رہ جائیں گیااور رو رو کر اپنی بینائی ختم کرلیں گے۔
ہائے اللہ ، تیری آزمائشیں۔ اپنے کمزور بندوں پر ان کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہ لاد۔ خیالات کے گھوڑے سرپٹ دوڑتے گئے۔
بلقیس کچھ کہہ رہی تھیں، مگر مریم کے پلے نہ پڑرہا تھا۔ بھلا کیا کہہ رہی تھیں۔ پھر انہوں نے مٹھائی کا ڈبا آگے کیا۔ پیلے ڈبے سے سیاہ جامن اٹھایا اور مریم کے منہ کی طرف بڑھایا۔
”بس کر میری دلاری۔ یہ بلال تو ہے ہی سدا کا جھوٹا۔ تو نے اسے کہا ہی کیوںیہ رزلٹ معلوم کرآئے۔ تم پاس ہو۔ وہ بھی اے گریڈ سے۔” مریم نے تحیر سے بلال کو دیکھا جو ہنسی سے لوٹ پوٹ ہورہا تھا۔ مریم نے کچھ کہنے کے لیے منہ کھولا ہی تھاکہ بلقیس نے پورا جامن اس کے منہ میں ٹھونس دیا۔
”مبارک ہو مریم۔” حمیرا نے آگے بڑھ کر خود ہی برفی کا ٹکڑا اٹھایا اور کھانے لگی۔ چاہے وہ غمگین سہی مگر اب مٹھائی سے تو منہ نہیں موڑ سکتی تھی۔ ویسے مریم کی سپلی آنی چاہیے تھی، لیکن خیر جہاں اتنے دکھ سہے یہ بھی سہی۔
بلقیس اب مریم کا ماتھا چوم رہی تھیں۔ اس کی آنکھوں میں نمی اترنے لگی تھی۔ بلال ہنسے جاتا تھا اور مریم اس کا دل چاہ رہا تھا کہ بلال کو قتل ہی کردے۔ اس شخص کو ویسے بھی زندہ نہیں رہنا چاہیے بلکہ یہ شخص شادی کے لیے ہرگز موزوں نہیں۔ خوامخواہ اس سے دل لگایا۔
اس سمے کون جانتا تھا کہ وقت نے آگے کیسی کروٹ لینی ہے ۔ باوجود اس کے کہ ہر کوئی یہ جانتا تھا کہ وقت ایک جیسا نہیں رہتا۔
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

میزانِ بریّہ — راؤ سمیرا ایاز

Read Next

نیل گری — افتخار چوہدری

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!