ڈگا ڈگ کے اسٹیشن پر جب گاڑیوں کی آمد کا وقت قریب ہوتا تو سگریٹ فروش گاہشا وہاں ہمیشہ سب سے پہلے آپہنچتا۔ وہ ٹھیک سمجھا کہ اسٹیشن اس کی سب سے بڑی منافع بخش
جس شخص کی یہ سرگزشت ہے وہ اپنے قصبے کا امیر ترین اور بار سوخ دہقان تھا۔ اس کا نام تھورڈا دراس تھا۔ ایک دن وہ اپنے قصبے کے واحد پادری کے دارالمطالعہ میں گیا۔
”جب سے تم گئے سنا ہے معطر دیوانی ہو گئی۔تمہارے چچا نے تو اسی روز درمیان کا دروازہ میخیں ٹھوک کر بند کر دیا تھا اور بڑے دروازے کوپھلانگنے کی میری ہمت نہیں ہوئی۔ لیکن
خوشبو کبھی ٹھہر نہیں سکتی۔ وہ لمحہ بہ لمحہ بے چینی سے گھومتی پھیلتی رہتی ہے کیوں کہ اس کی کوکھ میں ایک اسرار ہوتا ہے اور وہ اس اسرار کا پردہ رکھنے کی کوشش
یوں تو کوئی بھی فیس بکی محبت کو پسند کی نگاہ سے نہیں دیکھتا اور اگر اس کی مخالفت کرنے کی بات کی جائے تو ہم بھی ارسطو اور خلیل جبران کو کہیںپیچھے چھوڑنے پر
صبح کا وقت تھا۔ زویا پوائنٹ میں تھی۔ اُسے آئی ای آر کی لائبریری سے کچھ کتابیں دیکھنی تھیں۔ وہ ابھی اسی سوچ میں گم تھی کہ یہیں اُتر جائے یا ڈیپارٹمنٹ چلی جائے۔ اُس