غضنفر کریم — ارم سرفراز

امریکی ریاست کولوراڈو کے شہر ڈینور میں صبح کے نو بجے تھے جب دروازے کی گھنٹی ُْبجی۔ طاہرہ افتخار تینوں بچوں کو اسکول ڈراپ کرنے اورحسن کو ناشتا دینے کے بعد اب فریزر کے سامنے کھڑی سوچ رہی تھی کہ اس دن کیا پکایا جائے۔ گھنٹی کی آواز پر دونوں چونکے۔
”کسی نے آنا تھا کیا اِس وقت؟ ”حسن نے طاہرہ کی طرف دیکھا ۔
”نہیں۔” طاہرہ نے جلدی سے فریزر بند کیا اور دروازے کی طرف گئی ۔ گھنٹی اس وقت تک دوسری مرتبہ بج چکی تھی۔ طاہرہ نے peephole سے جھانکا اور بری طرح چونکی۔ وہ تیزی سے کچن کی طرف گئی ۔
”باہر پولیس کھڑی ہے ، حسن ۔” اس کی آواز میں پریشانی تھی ۔
”کیا؟ ” حسن اچھلا اور اسی تیزی سے دروازے کی طرف بڑھا۔
”گڈ مارننگ ۔ ” اس کے دروازہ کھولنے پر باہر کھڑے مرد اور عورت پولیس آفیسرز نے مسکرا کر اسے greetکیا ۔
”میں آپ کی کیا مدد کر سکتا ہوں آفیسرز؟ ” حسن نے بھی مسکرا کران سے ہاتھ ملایا گو کہ اندر سے اس کا دل ڈوبا جا رہا تھا۔ اس طرح اچانک پولیس کا دروازے پر آنا کوئی خوش آئند بات نہ تھی۔ طاہرہ بھی دھڑکتے دل سے دروازے کی اوٹ سے سن رہی تھی ۔
”میرا نام Detective وارنر ہے اور یہ میری پارٹنر Detective فرے ہیں۔” مرد افسر نے اپنا تعارف کروایا اور دونوں نے حسب ضابطہ اپنے بیج نکال کر حسن کو دکھائے۔
”ہم یہاں کے لوکل پولیس سٹیشن سے آئے ہیں اور آپ سے کچھ سوالات پوچھنا چاہتے ہیں۔”
”کیا آپ کا نام حسن افتخار ہے؟” ڈی ٹیکٹو فرے نے اپنے ہاتھ میں موجود کچھ کاغذوں میں دیکھتے ہوئے سوال کیا ۔
”جی ہاں۔” حسن نے سر ہلایا۔ اس کے دماغ میں تیزی سے وہ سب تدابیر اور اصلاحات دوڑ رہی تھیں جن کے اوپر عمل کرنے کی تاکید مسلمانوں کو دروازے پر اچانک اس طرح پولیس کے آنے پر کی گئی تھی ۔ امریکاکی موجودہ فضا میں مسلمانوں کو چوکس رہنے اور اچانک نمودار ہونے والی پولیس سے صحیح طریقے سے بات چیت کرنے کی خاص ہدایات تھیں ۔
”کیا کوئی پرابلم ہے ڈی ٹیکٹو ؟” حسن نے محتاط لہجے میں سوال کیا ۔




”کیا آپ لوگوں سے گفتگو مجھے اپنے لائر کی موجودگی میں کرنی چاہیے؟” دونوں ڈی ٹیکٹو اس بات پر مسکرائے۔
”اپنے لائر کو بلانا یا نہ بلانا آپ کا اپنا فیصلہ اور قانونی حق ہے، مسٹر افتخار ، لیکن میرے خیال میں یہ ضروری نہیں ہے۔ ”ڈی ٹیکٹو وارنر کا لہجہ دوستانہ تھا۔
”ہم صرف روٹین کے کچھ سوالات کرنا چاہتے ہیں۔ آپ لوگ کسی ڈائریکٹ انویسٹی گیشن کا حصّہ نہیں ہیں۔” یہ سن کر حسن اور طاہرہ کی سانس کچھ بحال ہوئی۔
”کیا ہمیں اندر آنے کی اجازت ہے؟” ڈی ٹیکٹو فرے نے پوچھا۔
”جی ہاں، ضرور۔” حسن افتخار نے انہیں خوش دلی سے اندر آنے کی اجازت دی۔ دونوں ڈی ٹیکٹو اندر داخل ہو گئے۔ حسن نے طاہرہ کا بھی ان سے تعارف کروایا ۔ حسن افتخار اور طاہرہ افتخار کا صاف ستھرا ور خوبصورتی سے آراستہ گھر مہمانوں پر ہمیشہ ایک خوشگوار تاثر چھوڑتا تھا۔ لیونگ روم میں آنے تک گھر کے ہر طرف دوڑتی دونوں ڈی ٹیکٹو کی نظریں بظاہر سرسری تھیں، لیکن اس سرسری پن میں بھی پیشہ ورانہ گہرائی اور زیرک پن تھا ۔ دونوں ڈی ٹیکٹو نے نوٹ کیا کہ گھر کے مکینوں کو اپنے ملک سے کافی لگاؤ تھا ۔ دیواروں پر لگی پینٹنگز میں بھی پاکستان کے دیہاتی مناظر کی عکاسی کی گئی تھی ۔ پاکستانی آرائشی اشیا کے علاوہ چنیوٹ کے کوفی ٹیبلز اور ہاتھ کے بنے ایریا رگز بھی مکینوں کی خوش ذوقی کا منہ بولتا ثبوت تھے۔
”ہم لوگ اصل میں آپ کے محلے میں کسی پاکستانی نژاد آدمی کی تلاش میں ہیں۔ ”ڈی ٹیکٹو وارنر نے بیٹھنے کے بعد اپنی آمد کا مقصد بیان کیا۔
”اسی لیے ہم اس محلے میں موجود پاکستانی فیملیز سے بات کر رہے ہیں ۔ شاید آپ ہماری کچھ مدد کر سکیں ۔ اس آدمی کا نام غضنفر کریم ہے ۔ کیا آپ یا آپ کی بیگم اس نام کے آدمی کو جانتے ہیں؟”
دونوں ڈی ٹیکٹو کا انداز رسمی سا تھا، لیکن ان کی تیز اور مستعد نظریں حسن اور طاہرہ کی ہر جنبش پر تھیں۔
”غضنفر کریم ؟” حسن افتخار نے حیرت سے دونوں ڈی ٹیکٹو کی طرف دیکھا۔
”میں نے تو یہ نام بھی پہلے نہیں سنا۔”
”ذرا سوچ کر بتائیے؟” ڈی ٹیکٹو فرے نے غور سے اس کی طرف دیکھا۔
”کیا یہ نام واقعی آپ کے لیے نیا ہے؟”
”جی ہاں ۔ ” حسن افتخار نے سر ہلایا۔
”یہ نام واقعی ہمارے لیے نیا ہے۔ ہم اس علاقے میں پچھلے دس سال سے رہ رہے ہیں اور یہاں موجود ساری پاکستانی فیملیز کو بہت اچھی طرح جانتے ہیں۔”
”ہو سکتا ہے آپ کی وائف نے اس آدمی کے بارے میں سنا ہو؟” ڈی ٹیکٹو وارنر نے پوچھا۔ تینوں کی نظریں طاہرہ افتخار کی طرف اٹھیں ۔
”جی نہیں۔ ” طاہرہ افتخار نے نفی میں سر ہلایا۔
”میں اس نام کے کسی آدمی کو نہیں جانتی۔” اس کالہجہ پراعتماد لیکن چہرہ ہر رنگ سے عاری اور لٹھے کے مانند سفید تھا۔ ڈی ٹیکٹو فرے نے اپنے دل میں ہمدردی محسوس کی۔ ان دونوں کی آمد سے حسن افتخار سے زیادہ طاہرہ افتخار خوفزدہ لگ رہی تھی۔ طاہرہ کے جواب پر دونوں ڈی ٹیکٹو کے درمیان نظروں کا خاموش تبادلہ ہوا ۔ ڈی ٹیکٹو وارنر نے گہری سانس لی ۔
”دیکھیے مسٹر افتخار ، ہمیں امید ہے کہ آپ ہم سے غلط بیانی سے کام نہیں لے رہے۔ ”ڈی ٹیکٹو کی آواز میں ہلکی سی سختی در آئی تھی۔
”کیونکہ جوابات میں ہلکی سی بھی غلط بیانی آپ کو انصاف کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے کا قصوروار ٹھہراتی ہے۔”
”ڈی ٹیکٹو، میں آپ لوگوں سے جھوٹ نہیں بول رہا۔ ” حسن افتخار اب سخت پریشان ہو رہا تھا ۔ بیٹھے بٹھائے مصیبت گلے پڑ رہی تھی۔ موجودہ دور پولیس والوں کو دور سے سلام کرنے کا تھا ، نہ کہ ان کی نظروں میں آنے کا۔
”میں نے یہ نام اپنی زندگی میں کبھی نہیں سنا۔ ویسے یہ آدمی ہے کون؟ کیا کیا ہے اس نے ؟ کیا یہ خطرناک ہے ؟”اس کی آواز میں دبا دبا غصہ اور جھنجلاہٹ دونوں ڈی ٹیکٹوز کے تیز کانوں سے چھپا نہیں تھا۔صاف ظاہر تھا کہ مسٹر حسن افتخار کے مزاج کا نقطہ کھولاؤ بے انتہا کم تھا۔
”غضنفر کریم کو روایتی تعریف میں خطرناک نہیں کہہ سکتے ۔ ”ڈی ٹیکٹو وارنر نے وضاحت کی۔




Loading

Read Previous

لفاظی — نعمان اسحاق

Read Next

لبِ بام — باذلہ سردار

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!