جنگی وردی کا قیدی — نجیب محفوظ — مترجم محمود رحیم

ڈگا ڈگ کے اسٹیشن پر جب گاڑیوں کی آمد کا وقت قریب ہوتا تو سگریٹ فروش گاہشا وہاں ہمیشہ سب سے پہلے آپہنچتا۔ وہ ٹھیک سمجھا کہ اسٹیشن اس کی سب سے بڑی منافع بخش مارکیٹ ہے۔ وہ اپنی چھوٹی چھوٹی تجربہ کار آنکھوں سے گاہکوں کو تلاش کرتا ہوا نہایت چستی سے پلیٹ فارم پر چلتا۔
گاہشا سے اس کے کام کے متعلق اگر پوچھا جاتا تو اچھی خاصی لعنت بھیجتا کیونکہ بہت سے اور لوگوں کی طرح وہ بھی اپنی زندگی سے بیزار اور اپنے بخت سے ناخوش تھا۔ اگر وہ انتخاب کی آزادی رکھتا تو شاید کسی رئیس کا ڈرائیور ہونے کو ترجیح دیتا تاکہ قیمتی لباس پہن سکتا، اعلیٰ طعام کھاسکتا اور گرمی اور سردی کے موسم میں عالی شان مقامات پر اس کا مصاحب ہوتا۔
پیٹ کی خاطر تگ و دو کے مقابلے میں اس نے ایک ایسے کام کو ترجیح دی جو اس کی کایا پلٹ دیتا اور اسے خوش رکھتا، تاہم اس کام کو ترجیح دینے اور اس قدر چاہنے میں اس کے اپنے خاص اسباب تھے جن کا آغاز اس دن ہوا جب اس نے ایک مقامی معمر آدمی کے ڈرائیور الغور کو معمر کی ملازمہ بنادیہ کے راستے میں کھڑے ہوکر نہایت جرأت اور خود اعتمادی کے ساتھ اس سے چھیڑ چھاڑ کرتے ہوئے دیکھ لیا تھا۔ ایک بار جب جوش مسرت میں الغور مضطر بانہ اپنے دونوں ہاتھ چلا رہا تھا، تو گاہشا نے ایک دفعہ اس سے یہ بھی سنا کہ اس نے بنادیہ کو کہا ہے کہ وہ جلد ہی اس کے لیے انگوٹھی لے کر لوٹے گا۔ اس کے بعد گاہشا نے دیکھا کہ وہ لڑکی الغور کی طرف دیکھ کر بہ تکلف مسکرائی اور اپنے چہرے سے حجاب کا کونا ہٹایا جیسے کہ اسے درست کر رہی ہو حالانکہ حقیقت یہ تھی کہ اس نے تیل میں لپڑے اپنے کالے سیاہ بالوں کی نمائش کی تھی۔ جب گاہشا نے یہ سب کچھ دیکھا تو اس کے دل میں ایک آگ سی لگ گئی۔
اس نے محسوس کیا کہ رشک اسے اندر ہی اندر بیدردی سے کھائے جارہا ہے۔ اس کی سیاہ آنکھیں اس کے تمام درد و کرب کا باعث بن گئیں۔ وہ اس کے پیچھے چند قدم چلتا۔ کبھی کبھار اسے گلی میں جاتے دیکھ کر اس کے رستے میں ہولیتا۔ آخرکار جب اس نے تنگ رستے پر اسے جالیا تو وہ سب کچھ کہہ ڈالا جو کہ الغور نے اسے انگوٹھی دینے کے بارے میں کہا تھا، مگر وہ منہ بناتے ہوئے ایک طرف کو ہوگئی۔
”اگر تم اپنے پاؤں کے لیے کوئی کھڑاؤں خرید لیتے تو یہ بات زیادہ معقول ہوئی۔”
وہ حقارت سے بولی۔
گاہشا اپنے لمبے لمبے پاؤں غور سے دیکھتا جو ایسے لگتے جیسے بالکل اونٹ کے ہوں۔ اس نے اپنی میلی کچیلی عبا اور سرکی گرد آلود ٹوپی کو گھورا۔
”تو اسی سبب سے میں اتنا ذلیل ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ میرا مقدر ایسا ہے۔”
وہ اپنے آپ کو کوسنے لگا۔





اس نے الغور کی ملازمت پر رشک کیا جو اسے بہت پسند تھی، تاہم امیدیں اسے اپنا کام جاری رکھنے سے روک نہ سکیں اور اس نے پکی دھن سے پھر اپنا دھندا شروع کردیا۔ اسے معلوم تھا کہ اس کی تمنائیں خوابوں ہی میں پوری ہوسکتی تھیں۔
اس دوپہر وہ اپنا خوانچہ اٹھائے اسٹیشن کی طرف روانہ ہوگیا اور گاڑی کی آمد کا انتظار کرنے لگ۔ اس نے افق کی سمت نگاہ کی اور گاڑی کو دھوئیں کے ایک بادل کی طرح دور سے آتے دیکھا۔ گاڑی قریب سے قریب تر آتی گئی اور اس کے مختلف حصے زیادہ صاف دکھائی دینے لگے۔ شور بلند سے بلند تر ہوتا گیا اور بالاآخر گاڑی اسٹیشن پر آکر مکمل طور پر رک گئی۔ گاہشا جلدی جلدی پرہجوم ڈبوں کی جانب لپکا اور یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ دروازوں پر مسلح گارڈ تھے اور اجنبی سے چہرے بے بسی اور حیرانی کے ساتھ کھڑکیوں میں سے جھانک رہے تھے جب لوگوں نے گاڑی کے متعلق استفسار کیا تو انہیں بتایا گیا کہ یہ اطالوی جنگی قیدی ہیں جو بے شمار تعداد میں دشمن کے ہاتھ لگے ہیں اور اس وقت جنگی کیمپوں میں منتقل کیے جارہے ہیں۔
گاہشا وہاں حیرت زدہ کھڑا مٹی سے اٹے ہوئے چہروں کا جائزہ لینے لگا۔ وہ دل گرفتہ ہونے لگا۔ جب اسے احساس ہوا کہ یہ لوگ جن کے زرد چہروں سے مایوسی اور مفلسی جھلکتی ہے، سگریٹ نوشی کی اپنی شدید خواہش اس سے پوری نہ کرپائیں گے۔ کھا جانے والی آنکھوں سے خوانچے کو دیکھتے ہوئے اس نے انہیں تاڑ لیا اور پھر غصے اور حقارت آمیز ہنسی سے ان پر نگاہ ڈالی۔ وہ پلٹ کر اپنی راہ لینے ہی والا تھا، جب اس نے یورپی لہجے کی عربی زبان میں کسی کو اپنے اوپر چلاتے ہوئے سنا۔ اس نے آدمی کو مشکوک نگاہ سے دیکھا اور پھر اپنی شہادت کی انگلی کو انگوٹھے کے ساتھ رگڑتے ہوئے جتایا کہ اسے پیسوں کی بھی ضرورت ہے۔ سپاہی اس کا مطلب سمجھ گیا اور ہاں کے سے انداز میں اپنا سر ہلایا۔ گاہشا محتاط طریقے سے آگے بڑھا اور سپاہی کی دسترس سے دور خاصے فاصلے پر کھڑا ہوگیا۔
”یہ رہے میرے پیسے!”
سپاہی نے نہایت خاموشی سے اپنی جیکٹ اتاری اور اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولا۔
گاہشا حیران ہوا اور پیلے بٹنوں والی خاکی جیکٹ و تمنا کے ملے جلے جذبات سے دیکھنے لگا۔ اس کا دل دھک دھک کررہا تھا مگر وہ بھی کوئی بھولا یا بیوقوف نہ تھا۔ اس نے اپنے جذبات کو خاصا چھپایا جو اسے اطالوی کی حرص کا شکار بناسکتے تھے۔ اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے اس نے سگریٹوں کا ایک ڈبہ نکالا اور جیکٹ لینے کے سے انداز میں اپنا بازو دراز کیا جس پر سپاہی ناخوش ہوا۔
”جیکٹ کے عوض بس ایک ڈبہ؟ مجھے دس ڈبے دو۔”
سپاہی نے ناراض ہوتے ہوئے شور مچایا۔
اس پر گاہشا چونکا اور ذرا پیچھے ہٹ گیا۔ اس کی تمنا قدرے مرجھا گئی۔ وہ دوبارہ پلٹنے ہی والا تھا کہ سپاہی بلند آواز سے کہنے لگا:
”مجھے معقول تعداد میں ڈبے دو، نو یا دس۔”
نوجوان گاہشانے ڈھٹائی سے سرہلا دیا۔
”چلو سات سہی۔”
سپاہی کی آواز آئی۔
گاہشا نے دوبارہ اپنا سر ہلایا اور یوں ظاہر کیا جیسے وہ چلے جانے کا ارادہ کررہا ہے۔ سپاہی بولا کہ:
”میں چھے میں راضی ہوں۔”
پھر وہ پانچ پر آگیا۔ گاہشا ہاتھ کے اشارے سے اسے مایوسی کا عندیہ دیتے ہوئے ایک نشست کی طرف آیا اور وہاں بیٹھ گیا۔
”ادھر آؤ، چلو چار ہی منظور ہیں مجھے!”
دیوانہ سپاہی چلایا۔ گاہشا نے کوئی توجہ نہ دی اور صرف دکھانے کے لیے کہ وہ اس صورت حال سے کس قدر غیر متعلق ہے، اس نے ایک سگریٹ سلگایا اور نہایت سکون سے دھواں چھوڑنے لگا۔ سپاہی شدید غصے میں آگیا اور مکمل طور پر بے قابو ہو گیا۔ ایسے لگتا تھا جیسے سگریٹ کا حصول اس کے جینے کا واحد مقصد تھا۔ وہ اپنا مطالبہ پہلے تین اور پھر دو ڈبوں تک لے آیا۔
گاہشا اپنی نشست پر جما رہا۔ اس کے جذبے اس کے اندر تپ رہے تھے اور جیکٹ کی تمنا اسے چرکے لگا رہی تھی۔ اس وقت بھی اس نے اپنے آپ پر قابو رکھا۔ جب سپاہی دو ڈبوں پر آیا تو گاہشا نے غیرارادی طور پر خفیف سی جنبش کی جسے سپاہی بھی بھانپ گیا۔
”آؤ بھی!”
سپاہی نے اس کی طرف اپنی جیکٹ اچھالتے ہوئے کہا۔ گاہشانے دیکھا کہ اب اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ وہ اٹھے، ٹرین تک جائے، جیکٹ پکڑے اور دو ڈبے سپاہی کو تھما دے۔ اس نے بے پایاں مسرت و اطمینان سے جیکٹ پر نگاہ ڈالی۔ اس کے ہونٹوں پر فاتحانہ مسکراہٹ ظاہر ہوئی۔ اس نے اپنا خوانچہ ایک جگہ پر رکھا، جیکٹ پہنی اور بٹن بند کیے۔ جیکٹ اس کے بدن پر بہت بڑی تھی مگر اس نے اس کی طرف کوئی دھیان نہیں دیا۔ وہ اپنے آپ پر بہت فخر اور خوشی محسوس کررہا تھا۔
اس نے اپنا خوانچہ اٹھایا اور فاخرانہ مسرت سے پلیٹ فارم کے ساتھ ساتھ چل پڑا۔ وہ چشم تصور سے، حجاب اوڑھے ہوئے بنا دیہ کی تصویر دیکھ رہا تھا۔
”کاش وہ اس وقت مجھے دیکھ سکتی۔”
وہ زیر لب بولا۔
”ہاں حقیقتاً اب وہ مجھ سے گریز نہیں کرے گی یا حقارت سے منہ نہیں پھیرے گی۔ اب الغور بھی مجھ میں کوئی ایسی کمی نہ پاسکے گا جس کی بنا پر وہ شیخی بگھار سکے۔”
معاً اس کو یاد آیا کہ الغور صرف جیکٹ نہیں بلکہ مکمل سوٹ پہنتا ہے۔ اس نے لمحہ سوچا کہ اب وہ ایک پتلون کیسے حاصل کرسکتا ہے؟ اور پھر جنگی قیدیوں کے سروں کی جانب معنی خیز نظروں سے دیکھا جو کھڑکیوں میں سے باہر نکلے ہوئے تھے۔ تمنا ایک بار پھر اس کے دل میں مچل اٹھی اور پرسکون ہوتے ہوتے اس نے جو شیلا ہونا شروع کردیا۔ وہ گاڑی کی سمت دوڑ پڑا۔
”سگریٹ، سگریٹ… ایک پتلون کے بدلے میں ایک ڈبہ!”
وہ سرعت سے پکارنے لگا۔ اس نے مکرر اور سہ مکرر آواز لگائی۔
اسے خدشہ ہوا کہ سپاہی اس کا مطلب نہیں سمجھ پائے۔ لہٰذا اس نے پہنی ہوئی جیکٹ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے سگریٹوں کا ایک ڈبہ دکھایا جس نے مطلوبہ تاثر پیدا کیا۔ ایک سپاہی نے لمحہ بھر بھی ترددنہ کیا اور اپنی جیکٹ اتارنی شروع کردی۔ گاہشا اس کی جانب تیزی سے لپکا اور اسے رکنے کو کہا۔ اس نے اس کی پتلون کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا کہ وہ کیا چاہتا ہے؟ اس پر سپاہی نے اپنے کندھے مچکائے گویا اسے اپنی پتلون کی کوئی خاص پروا نہ تھی۔ سو اس نے اپنی پتلون اتار دی اور لین دین مکمل ہوگیا۔ گاہشا نے اس کے قریب کھڑے کھڑے نہایت سرخوشی کے عالم میں پتلون پکڑی۔ وہ اپنی سیٹ پر واپس گیا اور پتلون پہننے لگا۔ ایک منٹ سے بھی کم وقفے میں فارغ ہوکر وہ مکمل اطالوی سپاہی بن گیا۔
”کیا اب بھی کوئی کمی ہے؟”
اسے استعجاب ہوا۔
بدقسمتی سے قیدیوں نے اپنے سر ترکی ٹوپیوں سے نہیں ڈھکے ہوئے تھے، مگر ان کے پیروں میں جوتے ضرور تھے۔ اسے جوتے بھی درکار تھے تاکہ وہ الغور کی برابری کرسکے جو اس کی زندگی اجاڑ رہا تھا۔ اس نے اپنا خوانچہ پھر اٹھایا اور جلدی جلدی ٹرین کی طرف چل دیا۔
”سگریٹ… جوتوں کے جوڑے کے عوض ایک ڈبہ!”
وہ زور زور سے چلانے لگا۔ اس نے اپنی بات سمجھانے کے لیے اسی طرح کے اشارے کیے جس طرح کے وہ پہلے کر چکا تھا۔ مگر قبل اس کے کہ اسے نیا خیردار ملتا، گاڑی کی روانگی کی سیٹی بج گئی۔ اس پر گارڈ کے کام میں ایک برق رفتاری سی پیدا ہوگئی۔ اسٹیشن کے کچھ حصے اندھیرے میں ڈوبنے لگے اور رات کے پرندے ہوا میں پھڑ پھڑانے لگے۔
گاہشا اپنی آنکھوں میں اداسی اور غصہ لیے دل برداشتہ کھڑا تھا۔ جونہی گاڑی کو حرکت ہوئی، اگلی بوگی میں بیٹھے ایک گارڈ نے اسے دیکھ لیا جو بڑے غضب میں دکھائی دے رہا تھا اور اس سے پہلے انگریزی اور پھر اطالوی میں برس پڑا۔
”اوقیدی کے بچے! فوراً گاڑی کے اندر آ!”
وہ گارڈ چلایا۔
گاہشا کچھ نہ سمجھا جو وہ کہہ رہا تھا اور اسے ایسے لگا جیسے وہ شخص اپنی بھڑاس نکال رہا تھا، سو اس نے گارڈ کی نقل اتارنی شروع کردی اور اس کا منہ چڑانے لگا۔ اسے اطمینان تھا کہ گارڈ اتنی دور ہے کہ اسے پکڑ نہیں سکتا۔ گاڑی جب دور ہونے لگی تو گارڈ اس پر پھر چلایا:
”گاڑی میں سوار ہوجاؤ… میں تمہیں تنبیہ کرتا ہوں کہ فوراً گاڑی میں آجاؤ!”
گارڈ چیخا۔
گاہشا نے حقارت سے اپنے ہونٹ بھینچے اور گارڈ کی طرف سے رخ موڑ لیا۔ وہ رخصت ہونے والا تھا کہ گارڈ نے دھمکی کے سے انداز میں اپنی مٹھی بند کی اور پھر رائفل کا رخ نوجوان کی طرف کرکے گولی داغ دی۔ بہرا کردینے والا ایک فائر گونجا اور اس کے پیچھے درد کی ایک چیخ۔ گاہشا جہاں کھڑا تھا، وہیں اس کا وجود مصلوب ہوگیا۔ خوانچہ اس کے ہاتھ سے گر پڑا، سگریٹوں اور ماچسوں کے ڈبے پلیٹ فارم پر بکھر گئے۔
گاہشا منہ کے بل لڑھک گیا کہ وہ اب ایک بے جان لاشہ تھا۔
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

شکستہ آئینے — عمران لیاقت

Read Next

لفاظی — نعمان اسحاق

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!