قطرہ قطرہ بن میں نے چلنا سیکھا ہے ہوا کے ذروں میں مجھے سوارر ہنا ہے نزاکت لپیٹ کر شعاعوں سے ابھرناہے مگر پھوٹ پھوٹ مجھے بہنا ہے پر گھونٹ گھونٹ مجھے سہنا ہے میرے
”تمہیں پتا ہے امامہ! نوسال میں کتنے دن، کتنے گھنٹے، کتنے منٹ ہوتے ہیں؟” خاموشی ٹوٹ گئی تھی۔ اس کی آواز میں جسم کو چٹخا دینے والی ٹھنڈک تھی۔ امامہ نے ہونٹ بھنیچتے ہوئے نل
امامہ نے ابھی کافی نہیں پی تھی۔ کافی بہت گرم تھی اور وہ بہت گرم چیزیں نہیں پیتی تھی۔ اس نے کسی زمانے میں میز کے دوسری جانب بیٹھے ہوئے شخص کو آئیڈیلائز کیا تھا۔
اگر اُس کے پاس سو دلیلیں تھیں تو آپاؤں کے پاس ہزار تاویلیں۔ ہر تاویل اس کی دلیل پر ہتھوڑے کی ضرب ثابت ہوئی۔ ہتھوڑے کی ضرب لوہا برداشت نہیں کر پاتا آخر لوہار کی
وسیع سرخ اینٹوں کے صحن کے اطراف دیواروں کے ساتھ کیاریاں بنائی گئی تھیں جن میں لگے ہوئے سبز پودے اور بیلیں سرخ اینٹوں سے بنی ہوئی دیواروں کے بیک گراؤنڈ میں بہت خوب صورت
’’اللہ کے نام پر دے دو، معذور ہوں اللہ بھلا کرے گا۔‘‘ وہ خود کو سڑک پر تقریباً گھسیٹتے ہوئے ہماری گاڑی تک آیا تھا۔ ’’جاؤ دفع ہو جاؤ، نہیں ہے ٹوٹے ہوئے پیسے۔‘‘ میری
سکندر عثمان صبح ناشتے کی میز پر آئے تو بھی ان کے ذہن میں سب سے پہلے سالار کا ہی خیال آیا تھا۔ ”سالار کہاں ہے؟ اسے بلواؤ۔” انہوں نے ملازم سے کہا۔ ”سالار صاحب