آبِ حیات — قسط نمبر ۱ (آدم و حوّا)

پیر کاملؐ سے آبِ حیات تک
’’آب حیات‘‘ پیر کاملؐ کا دوسرا حصہ ہے جسے میں نے 2004ء میں پیر کاملؐ کی اشاعت کے فوراً بعد لکھنے کے بجائے کچھ سال بعد آپ کے سامنے لانے کا فیصلہ اس لئے کیا تھا کہ پیر کاملؐ کی کامیابی کی گرد اور بازگشت میں آبِ حیات کا موضوع نظر انداز نہ ہوجائے۔
’’آب ِ حیات‘‘ کا موضوع ’’سود‘‘ ہے… وہ فتنہ جسے نبی کریمؐ نے اپنے آخری خطبے میں حرام قرار دیتے ہوئے اس کی بیخ کُنی کا حکم دیا لیکن ان واضح احکامات کے باوجود آج بھی مسلمانوں کی زندگی کا بالواسطہ اور بلاواسطہ حصہ بنا ہوا ہے۔
بہت سے قارئین کو سود سے پاک ایک طاقتور اسلامی مالیاتی نظام کا وہ خاکہ جو ’’آبِ حیات‘‘ پیش کررہا ہے شاید ایک خیالی پلاؤ اور آئیڈیل ازم سے زیادہ کچھ نہ لگے، اس کے باوجود میں اپنے کرداروں اور کہانی کو اسی یقین اور آئیڈیل ازم کے ساتھ پیش کررہی ہوں کہ لکھے جانے والے الفاظ دنیا کی بڑی بڑی تحاریک کے آغاز کا باعث بنتے ہیں۔ کتابوں کے صفوں پر تخلیق ہونے والے ’’رول ماڈلز‘‘ حقیقی زندگی کے بہت سارے ’’ہیروز‘‘ کو جنم دینے کا باعث بنتے ہیں اور آنے والے زمانوں میں ایک زمانہ ایسا ضرور آئے گا جس میں سود سے پاک ایک اسلامی مالیاتی نظام سے دنیا بھر کے انسان اسی طرح مستفید ہوں گے جس طرح ہم آج مغرب کے دیئے ہوئے سودی نظام پر انحصار کررہے ہیں۔
سود میں استحصال ہے، فلاح نہیں ہے اور قرآن میں اس کی ممانعت انسانوں کی اپنی بھلائی کے لئے ہے… بالکل اسی طرح جیسے قرآن کے باقی تمام احکامات۔
لفظ آبِ حیات جن چھے حروف سے مل کر بنا ہے، ان میں ہر حرف انسانی زندگی کی ایک بنیادی اسٹیج کو بیان کرتا ہے :
آ: آدم و حوّا
ب: بیت العنکبوت
ح: حاصل و محصول
ی: یا مجیب السائلین
ا: ابداً ابداَ
ت: تبارک الّذی
یہ چھے الفاظ پوری انسانی زندگی کا خلاصہ کرتے ہیں۔
سالار اور امامہ آبِ حیات میں وہی سفر طے کرتے ہیں جو ہم سب کی زندگی کا سفر ہے۔
آدم و حوّا کا ایک دوسرے کی محبت میں گرفتار ہوکر زندگی بھر کا ساتھی بن جانا۔
دنیا میں اس جنت جیسا گھر بنانے کی خواہش اور سعی میں جت جانا جہاں سے وہ دونوں نکالے گئے تھے۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ ان کا گھر بیت العنکبوت (مکڑی کا جالا) جیسی ناپائیداری رکھتا ہے جو بننے میں عرصہ لیتا ہے اور ٹوٹنے میں لمحہ…
حاصل و محصول کا چکر… کیا کھویا کیا پایا؟ کیا پانے کے لئے کیا کیا کھویا؟ کامیابی، خواب، خواہشات اور تمناؤں کا ایک گرداب جو زندگی کو گھن چکر بنادیتا ہے۔
اس کے بعد اگلا مرحلہ جہاں آزمائشیں ہوتی ہیں… اتنی اور ایسی ایسی آزمائشیں کہ بس اللہ یاد آتا ہے اور وہی کام آتا ہے کیوں کہ وہ ہی مجیب السائلین ہے۔
اور پھر وہ مرحلہ جب انسان اپنی اگلی نسل کے ذریعے اپنے عروج کا دوام چاہتا ہے اور اسے احساس ہوتا ہے کہ اس زندگی کو زوال ہے۔
اور پھر وہ جو زندگی کے ان سارے مرحلوں سے نکل آتے ہیں، مومن بن کے انسانی پستیوں سے نکل کے۔ ان کے لئے تبارک الّذی… اللہ کی ذات جو تمام خوبیوں کی املک ہے۔ بزرگ و برتر ہے اور اپنے بندوں کو سب عطا کردینے پر قادر ہے… جس کی محبت ’’آبِ حیات‘‘ ہے جو انسان کو ابدی جنت میں لے جاتا ہے۔ دنیا ختم ہوجاتی ہے لیکن زندگی نہیں۔
چند الفاظ آپ سب کے لئے… آپ سب سے ملنے والی عزت اور محبت وہ بیج ہے جس سے میری ہر تحریر پھوٹتی ہے۔ آپ سب کا بہت شکریہ… میں آپ کی داد و ستائش کا بدلہ نہ پہلے کبھی دے سکی، نہ اب دے سکتی ہوں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو اپنی نعمتوں اور برکات سے نوازے اور وہی بہترین اجر دینے والا ہے۔
والسلام
عمیرہ احمد




Loading

Read Previous

ہدایت — ساجدہ غلام محمد

Read Next

آبِ حیات — قسط نمبر ۲ (آدم و حوّا)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!