ہدایت — ساجدہ غلام محمد

’’دیکھو تو ذرا اس کے کپڑے!‘‘ سمیرا نے خرد کی طرف اپنا موبائل بڑھایا۔ سکرین پر پاکستانی شوبز کا صفحہ کھلا تھا جس میں ملک کی معروف ایکٹریس شیمی کی قابلِ اعتراض تصویر کے ساتھ ایک کار حادثے میں زخمی ہوجانے کی خبر تھی۔
’’توبہ! حلیہ تو دیکھو ذرا۔ نجانے اس کے والدین کیا سوچتے ہوں گے جب انہیں اس کی فلموں اور حرکتوں کے بارے میں پتا چلتا ہوگا۔‘‘ خرد نے تصویر کو تعجب سے دیکھتے ہوئے تبصرہ کیا۔دونوں یونیورسٹی کینٹین کے سامنے بنے ایک بنچ پر بیٹھی تھیں۔
’’غیرت کہاں ہوتی ہے ان میں۔ ایک بار پیسے اور شہرت کا نشہ لگ جائیتو پھر کچھ قابلِ اعتراض نہیں لگتا۔ خیر! ہمیں کیا۔‘‘ سمیرا نے کیپری کٹ ٹراؤزر والی ایک ٹانگ پر دوسری ٹانگ رکھ کر جھلاتے ہوئے کہا۔ بائیں والے نے افسوس سے دائیں والے کو دیکھا اور رجسٹر کھول کر اس میں کچھ درج کرنے لگا۔
٭…٭…٭
’’اف!ان کا حلیہ دیکھو ذرا۔‘‘ شگفتہ نے حلیمہ کو ٹہوکا دیتے ہوئے کینٹین کے سامنے بنے بنچ پر بیٹھی خرد اور سمیرا کی طرف آنکھوں سے اشارہ کیا۔
’’توبہ! ٹراؤزر میں اتنا لمبا کٹ؟ حد ہی ہو گئی۔ کیا ان کے والدین کو اپنی بیٹیوں کا لباس نظر نہیں آتا ؟ نہ جانے ان کی مائیں انہیں اتنے واہیات فیشن کیسے کرنے دیتی ہیں۔‘‘ جینز کی پینٹ کے اوپر لمبی اور کُھلی سی قمیص پہنی حلیمہ نے ناگواری سے خرد اور سمیرا کی جانب دیکھا تھا۔
’’ سب تربیت کی بات ہوتی ہے۔ ہم بھی تو ہیں، ہم بھی فیشن کرتی ہیں لیکن ایک حد میں رہ کر۔ خیر! ہمیں کیا۔‘‘شگفتہ نے کہا اور دونوں کینٹین کے اندر چلی گئیں۔بائیں والے نے افسوس سے دائیں والے کو دیکھا اور رجسٹر کھول کر اس میں کچھ درج کرنے لگا۔
٭…٭…٭
’’حلیہ دیکھو ذرا ان کا۔‘‘کوثر نے چاٹ کھاتی اسود کو ایک جانب متوجہ کیا تو اسود نے بھی اس کی نظروں کے تعاقب میں کینٹین کے دروازے کی جانب دیکھا۔ وہاں سے شگفتہ اور حلیمہ اندر داخل ہوئی تھیں اور اب کینٹین والے سے چیزیں خرید رہی تھیں۔
’’توبہ! دوپٹہ بھی نہیں لیا ہوا انہوں نے تو۔اتنی بے شرمی!حد ہے بھئی۔‘‘اسود کی آنکھوں اور لہجے میں ناگواری در آئی۔
’’آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔ ان کے ماں باپ کو نظر نہیں آتا کہ اور کچھ نہیں تو کم از کم دوپٹا تو اوڑھا دیں انہیں۔‘‘کوثر نے سر کے کونے پر ٹکے دوپٹے سے جھانکتے بالوں کو کان کے پیچھے اڑسا۔
’’ خیر! ہمیں کیا۔ ابھی کلاس شروع ہونے میں تھوڑا وقت رہتا ہے۔ آؤ فوٹو کاپی شاپ سے ہو آئیں۔ میں نے کچھ نوٹس کی فوٹو کاپی کروانا تھے۔‘‘ اسود نے چاٹ کا آخری لقمہ لے کر اٹھتے ہوئے کہا تھا۔ کوثر بھی بیگ سنبھالتے اٹھ کھڑی ہوئی۔ بائیں والے نے افسوس سے دائیں والے کو دیکھا اور رجسٹر کھول کر اس میں کچھ درج کرنے لگا۔
٭…٭…٭
’’یہ دیکھو ذرا، دوپٹے کا مذاق۔‘‘ فوٹو کاپی دکان سے آتی ارم نے سامنے سے آتی کوثر اور اسود کو دیکھتے ہوئے منہ بنایا۔ اس کے ساتھ چلتی شمامہ نے بھی دونوں کو گھورا۔
’’بس دوپٹہ سر پر ڈال لیتی ہیں اور سمجھتی ہیں کہ یہ کافی ہے۔ سارے بال نظر آ رہے ہیں، سینہ بھی دوپٹے سے صحیح طرح نہیں ڈھانپتیں۔حیرت ہے ان کی امی کو نظر نہیں آتا کیا؟ یہ لمبا سا دوپٹا فیشن کے طور پر لے لیتی ہیں، سنبھالا جاتا نہیں ہے۔‘‘شمامہ نے بھی دبے دبے لہجے میں تبصرہ کیا تھا۔دونوں لڑکیاں ان کے پاس سے گزر چکی تھیں۔
’’دل تو میرا بھی کرتا ہے کہ بس دوپٹہ ہی لے لیا کروں۔ اتنی گرمی میں یہ عبایا اور پھر اس کے اوپر سکارف، ٹھیک ٹھاک پسینہ آ جاتا ہے لیکن پھر یہی سوچتی ہوں کہ اچھا نہیں لگتا۔ اب اتنی عادت ہو گئی ہے عبائے اور سکارف کی کہ ان کے بغیر اپنا آپ ادھورا سا لگتا ہے اور انہیں دیکھو تو اپنی طرف سے پردہ کیے بیٹھی ہیں۔ خیر! ہمیں کیا۔‘‘ ارم نے ٹشو سے ماتھے پر آتا پسینہ پونچھا اور دونوں کلاس روم کی جانب بڑھ گئیں۔ بائیں والے نے افسوس سے دائیں والے کو دیکھا اور رجسٹر کھول کر اس میں کچھ درج کرنے لگا۔
٭…٭…٭
’’لاحول ولا قوۃ الا باللہ۔‘‘ نورین کے منہ سے بے اختیار نکلا۔
’’کیا ہوا؟‘‘ طیبہ نے چونک کر اس کی جانب اور پھر اس کی نظروں کے تعاقب میں سامنے کی طرف دیکھا۔سامنے ارم اور شمامہ ہنستی بولتی ہوئی ایک کلاس روم میں داخل ہو رہی تھیں۔
’’عبایہ دیکھا تھا تم نے ان کا؟ اتنا چست اور فیشن ایبل سا۔ کہیں سے نہیں لگ رہا تھا کہ یہ پردے کے لیے پہنا گیا ہے۔‘‘ نورین نے چہرے سے کھسکتے نقاب کو دوبارہ سیٹ کرتے ہوئے کہا۔
’’اس طرح کے پردے کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس پردے کا بھی پردہ ہونا چاہیے۔‘‘ طیبہ تمسخرانہ لہجے میں ہنسی۔ اس کی بات سن کر نورین بھی ہنس پڑی۔
’’ہاں تو اور کیا۔ اتنے جھلمل کرتے عبائے سے کیا خاک پردے کا مقصد پورا ہو گا۔مجھے تو بس کالے رنگ کا سادہ سا عبایہ اور نقاب پسند ہے۔کسی کو بُرا لگے تو لگے، مجھے دنیا کو تھوڑی دکھانا ہے۔ افسوس تو ان لڑکیوں اور ان کے ماں باپ پر ہوتا ہے، پردے کے نام پر زیادہ پُرکشش عبائے پہن لیتی ہیں اور والدین سوچتے بھی نہیں۔‘‘نورین نے کہا تھا۔
’’خیر! ہمیں کیا۔قیامت کے دن پتا چل جائے گا کہ اس طرح کا شوخ پردہ کرنے سے کتنا ثواب کما لیا انہوں نے۔‘‘ طیبہ نے بھی اس کی ہاں میں ہاں ملائی تھی۔ بائیں والے نے افسوس سے دائیں والے کو دیکھا اور رجسٹر کھول کر اس میں کچھ درج کرنے لگا۔
٭…٭…٭
’’اللہ!!! میرے اللہ!!! ‘‘ اس کا وجود کانپ رہا تھا۔ وہ زاروقطار رو رہی تھی۔
’’میرے مالک! مجھے معاف کر دے! میرے مولا! بس مجھے معاف کر دے، میں بہت زیادہ بھٹک گئی تھی۔ اس دنیا کی لذت نے میری آنکھوں پر پٹی باندھ دی تھی۔ مجھے اس چمک دمک میں تُو یاد ہی نہ آیا، اس دنیا کی شہرت نے مجھے اپنے جال میں پھنسا لیا تھا۔ میرے رب! مجھے معاف کر دے۔ میں تیرے در پر سچی توبہ لے کر آئی ہوں، میں اس شوبز کی گند بھری دنیا سے توبہ کرتی ہوں۔ بس میرے مالک! میرے دل کو نور اور ہدایت سے بھر دے۔ میرے اللہ! مجھے معاف کر دے! مجھے بس ایک بار معاف کر دے۔ میں تجھ سے معافی کی، ہدایت کی طلب گار ہوں۔ اے اللہ! ‘‘ پٹیوں میں لپٹے ہاتھوں سے اپنا منہ ڈھانپے شیمی ہچکیوں کے ساتھ اللہ کی بارگاہ میں سچی توبہ کر رہی تھی۔ بائیں کندھے پر بیٹھے فرشتے نے خوشی سے دائیں کندھے پر بیٹھے فرشتے کی جانب دیکھا۔شیمی کا گناہوں سے بھرا ہوا سیاہ رجسٹر یک لخت بالکل صاف ہو گیا تھا!
اور اللہ جسے چاہے ہدایت سے نواز دے۔ ہمیں دوسروں کے لیے ہدایت کی دعا کرنے سے زیادہ پُرکشش کام ان پر منفی تبصرہ کرنا ہے۔کیا واقعی ان منفی تبصروں کی اللہ کے نزدیک کوئی اہمیت ہے؟
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

اخوّت و احساس — عمارہ کامران

Read Next

آبِ حیات — قسط نمبر ۱ (آدم و حوّا)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!