آبِ حیات — قسط نمبر ۲ (آدم و حوّا)

وہ پہلی صبح تھی جب اس کی آنکھ سالار سے پہلے کھلی تھی، الارم سیٹ ٹائم سے بھی دس منٹ پہلے۔ چند منٹ وہ اسی طرح بستر میں پڑی رہی۔ اسے اندازہ نہیں ہو رہا تھا کہ رات کا کون سا پہر ہے۔ بیڈ سائیڈ ٹیبل پر پڑا الارم کلاک اٹھا کر اس نے ٹائم دیکھا پھر ساتھ ہی الارم آف کر دیا۔ بڑی احتیاط سے وہ اٹھ کر بستر میں بیٹھی۔ سائیڈٹیبل کا لیمپ بڑی احتیاط سے آن کرتے ہوئے اس نے سلیپرز ڈھونڈے، پھر اس نے کھڑے ہوتے ہوئے سائیڈ ٹیبل کا لیمپ آف کیا۔ تب اس نے سالار کی سائیڈ کے لیمپ کو آن ہوتے دیکھا۔ وہ کس وقت بیدار ہوا تھا، امامہ کو اندازہ نہیں ہوا تھا۔
’’میں سمجھی تم سو رہے ہو۔‘‘ اس نے سالار کے سلام کا جواب دیتے ہوئے کہا۔
’’میں ابھی اٹھا ہوں، کمرے میں آہٹ کی وجہ سے۔‘‘
وہ اسی طرح لیٹے لیٹے اب اپنا سیل فون دیکھ رہا تھا۔
’’لیکن میں نے تو کوئی آواز نہیں کی۔ میں تو کوشش کر رہی تھی کہ تم ڈسٹرب نہ ہو۔‘‘ امامہ کچھ حیران ہوئی تھی۔
’’میری نیند زیادہ گہری نہیں ہے امامہ! کمرے میں ہلکی سے ہلکی آہٹ بھی ہو تو میں جاگ جاتا ہوں۔‘‘ اس نے گہرا سانس لیتے ہوئے سیل سائیڈ ٹیبل پر رکھا۔
’’میں آئندہ احتیاط کروں گی۔‘‘ اس نے کچھ معذرت خوانہ انداز میں کہا۔
’’ضرورت نہیں، مجھے عادت ہے اسی طرح کی نیند کی۔ مجھے اب فرق نہیں پڑتا۔‘‘ اس نے بیڈ پر پڑا ایک اور تکیہ اٹھا کر اپنے سر کے نیچے رکھا اور آنکھیں بند کر لیں۔ وہ واش روم میں جانے سے پہلے چند لمحے اسے دیکھتی رہی۔ ہر انسان ایک کتاب کی طرح ہوتا ہے۔ کھلی کتاب جسے کوئی بھی پڑھ سکتا ہے۔ سالار بھی اس کے لیے ایک کھلی کتاب تھا لیکن چائنیز زبان میں لکھی ہوئی کتاب۔
اس دن اس نے اور سالار نے سحری اکٹھے کی اور ہر روز کی طرح سالار، فرقان کے ساتھ نہیں گیا۔ وہ شاید پچھلے کچھ دنوں کی شکایتوں کا ازالہ کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ امامہ کا موڈ رات کو ہی بہت اچھا ہو گیا تھا اور اس میں مزید بہتری اس کی اس ’’توجہ‘‘ نے کی۔
مسجد میں جانے سے پہلے آج پہلی بار اس نے اسے مطلع کیا۔
’’امامہ! تم میرا انتظار مت کرنا۔ نماز پڑھ کر سو جانا، میں کافی لیٹ آوؑں گا۔‘‘
اس نے جاتے ہوئے اسے تاکید کی لیکن وہ اس کی تاکید کو نظر انداز کرتے ہوئے اس کے انتظار میں بیٹھی رہی۔
وہ ساڑھے آٹھ بجے اس کے آفس جانے کے بعد سوئی تھی۔ دوبارہ اس کی آنکھ گیارہ بجے ڈور بیل کی آواز پر کھلی۔ نیند میں اپنی آنکھیں مسلتے ہوئے، اس نے بیڈ روم سے باہر نکل کر اپارٹمنٹ کا داخلی دروازہ کھولا۔ چالیس، پینتالیس سالہ ایک عورت نے اسے بے حد پُرتجسس نظروں سے دیکھتے ہوئے سلام کیا۔
’’مجھے نوشین باجی نے بھیجا ہے۔‘‘ اس نے اپنا تعارف کروایا۔
امامہ کو ایک دم یاد آیا کہ اس نے نوشین کو صفائی کے لیے ملازمہ کو کل کے بجائے اگلے دن بھیجنے کے لیے کہا تھا۔ وہ اسے راستہ دیتی ہوئی دروازے سے ہٹ گئی۔
’’اتنی خوشی ہوئی جب نوشین باجی نے مجھے بتایا کہ سالار صاحب کی بیوی آگئی ہے۔ مجھے تو پتا ہی نہیں چلا کہ کب شادی کر لی سالار صاحب نے۔ ‘‘ امامہ کے پیچھے اندر آتے ہوئے ملازمہ کی باتوں کا آغاز ہو گیا تھا۔
’’کہاں سے صفائی شروع کرنی ہے تم نے؟‘‘
امامہ کی فوری طور پر سمجھ میں نہیں آیا کہ اسے صفائی کے بارے میں کیا ہدایات دے۔
’’باجی! آپ فکر نہ کریں۔ میں کر لوں گی، آپ چاہے آرام سے سو جاؤ۔‘‘ملازمہ نے اسے فوری آفر کی۔ یہ شاید اس نے اس کی نیند سے بھری ہوئی آنکھوں کو دیکھ کر کہا تھا۔
’’نہیں، تم لاؤنج سے صفائی شروع کرو، میں ابھی آتی ہوں۔‘‘
آفر بری نہیں تھی، اسے واقعی نیند آرہی تھی لیکن وہ اس طرح اسے گھر میں کام کرتا چھوڑ کر سو نہیں سکتی تھی۔
واش روم میں آکر اس نے منہ پر پانی کے چھینٹے مارے، کپڑے تبدیل کر کے بال سمیٹے اور لاؤنج میں نکل آئی۔ ملازمہ ڈسٹنگ میں مصروف تھی۔ لاؤنج کی کھڑکیوں کے بلائنڈز اب ہٹے ہوئے تھے،سورج ابھی پوری طرح نہیں نکلا تھا لیکن اب ھند نہ ہونے کے برابر تھی۔ لاؤنج کی کھڑکیوں سے باہر پودے دیکھ کر اسے انہیں پانی دینے کا خیال آیا۔
ملازمہ ایک بار پھر گفتگو کا آغاز کرنا چاہتی تھی لیکن وہ اسے بالکونی کی طرف جاتے دیکھ کر چپ ہو گئی۔
جب وہ پودوں کو پانی دے کر فارغ ہوئی تو ملازمہ لاؤنج صاف کرنے کے بعد اب سالار کے اس کمرے میں جا چکی تھی جسے وہ اسٹڈی روم کی طرح استعمال کرتا تھا۔
’’’سالار صاحب بڑے اچھے انسان ہیں۔‘‘
تقریباً ڈیڑھ گھنٹے میں اپارٹمنٹ کی صفائی کرنے کے بعد امامہ نے اس سے چائے کا پوچھا تھا۔ چائے پیتے ہوئے ملازمہ نے ایک بار پھر اس سے باتوں کا سلسلہ شروع کر دیا۔ امامہ اس کے تبصرے پر صرف مسکرا کر خاموش ہو گئی۔
’’آپ بھی ان کی طرح بولتی نہیں ہیں؟‘‘ ملازمہ نے اس کے بارے میں اپنا پہلا اندازہ لگایا۔
’’اچھا، سالار بھی نہیں بولتا۔‘‘ امامہ نے جان بوجھ کر اسے موضوع گفت گوبنایا۔
’’کہاں جی۔ حمید بھی یہی کہتا ہے صاحب کے بارے میں۔‘‘
ملازمہ نے شاید سالار کے ملازم کا نام لیا تھا۔
’’لیکن باجی! بڑی حیا ہے آپ کے آدمی کی آنکھ میں۔‘‘
اس نے ملازمہ کے جملے پر جیسے بے حد حیران ہو کر اس کا چہرہ دیکھا تھا۔ ملازمہ بڑی سنجیدگی سے بات کر رہی تھی۔
’’جیسے فرقان صاحب ہیں ویسی ہی عادت سالار صاحب کی ہے۔ فرقان صاحب تو خیر سے بال بچوں والے ہیں لیکن سالار صاحب تو اکیلے رہتے تھے ادھر۔ میں تو کبھی بھی اس طرح اکیلے مردوں والے گھروں میں صفائی نہ کروں۔ بڑی دنیا دیکھی ہے جی میں نے، لیکن یہاں کام کرتے ہوئے کبھی نظر اٹھا کر نہیں دیکھا صاحب نے مجھے۔ میں کئی بار سوچتی تھی کہ بڑے ہی نصیب والی عورت ہو گی، جو اس گھر میں آئے گی۔‘‘
ملازمہ فراٹے سے بول رہی تھی۔
ہیٹر کے سامنے صوفے پر نیم دراز زمامہ اس کی باتیں سنتی کسی سوچ میں گم رہی۔ ملازمہ کو حیرت ہوئی تھی کہ باجی اپنے شوہر کی تعریف پر خوش کیوں نہیں ہوئی۔ ’’باجی‘‘ کیا خوش ہوتی، کم از کم اسے اتنی توقع تو تھی اس سے کہ وہ گھر میں کام کرنے والی کسی عورت کے ساتھ کبھی انوالو نہیں ہو سکتا۔ وہ مردوں کی کوئی بری ہی بد ترین قسم ہوتی ہو گی، جو گھر میں کام کرنے والی ملازمہ پربھی نظر رکھتے ہوں گے اور سالار کم از کم اس قسم کے مردوں میں شمار نہیں ہو سکتا تھا۔
ملازمہ اس کی مسلسل خاموشی سے کچھ بے زار ہو کر جلدی چائے پی کر فارغ ہو گئی۔ امامہ اس کے پیچھے دروازہ بند کرنے گئی تو ملازمہ نے باہر نکلنے سے پہلے مڑ کر اس سے کہا۔
’’باجی! کل ذرا جلدی آجاؤں آپ کے گھر؟‘‘
امامہ ٹھٹک کر رک گئی۔ اس کے چہرے پر یقینا کوئی ایسا تاثر تھا جس نے ملازمہ کو کچھ بوکھلا دیا تھا۔
’’باجی! مجھے چھوٹے بچے کو ہسپتال لے کر جانا ہے، اس لیے کہہ رہی تھی۔‘‘ اس نے جلدی سے کہا۔
’’ہاں، ٹھیک ہے۔‘‘ امامہ نے بہ مشکل جیسے خود پر قابو پاتے ہوئے کہا اور دروازہ بند کر دیا۔ کل جلدی آنے کے مطالبے نے اسے ساکت نہیں کیا تھا بلکہ اسے ساکت کیا تھا اس کے تین لفظوں نے… ’’آپ کے گھر‘‘ یہ ’’اس کا گھر ‘‘ تھا جس کے لیے وہ اتنی سالوں سے خوار ہوتی پھر رہی تھی۔ جس کی آس میں وہ کتنی بار جلال انصر کے پیچھے گڑ گڑانے گئی تھی۔ وہ بے یقینی سے لاؤنج میں آکر ان دیواروں کو دیکھ رہی تھی جنہیں دنیا ’’اس کے گھر‘‘ کے نام سے شناخت کر رہی تھی، وہ واقعی اس کا گھر تھا۔ وہ پناہ گاہیں نہیں تھیں جہاں وہ اتنے سال سرجھکا کر ممنون و احسان مند بن کر رہی تھی۔ آنسوؤں کا ایک ریلا آیا تھا اس کی آنکھوں میں… بعض اوقات انسان سمجھ نہیں پاتا کہ وہ روئے یا ہنسے… روئے ، تو کتنا روئے… ہنسے، تو کتنا ہنسے… وہ بھی کچھ ایسی ہی کسی کیفیت سے گزر رہی تھی۔ وہ بچوں کی طرح ہر کمرے کا دروازہ کھول کھول کر ایک جگہ سے دوسری جگہ جا رہی تھی۔ وہ جا سکتی تھی وہاں… جو چاہے کر سکتی تھی… یہ اس کا گھر تھا۔ یہاں کوئی جگہ اس کے لیے ’’علاقہ غیر‘‘ نہیں تھی۔ اسے بس اتنی سی دنیا ہی چاہیے تھی اپنے لیے… کوئی ایسی جگہ جہاں وہ استحقاق کے ساتھ رہ سکتی ہو… سالار یک دم جیسے کہیں پیچھے چلا گیا تھا۔ گھر کے معاملے میں عورت کے لیے ہر مرد پیچھے رہ جاتا ہے۔
سالار نے اسے دوبار وقفے وقفے سے سیل پر کال کی لیکن امامہ نے ریسیو نہیں کی… سالار نے تیسری بار پھر پی ٹی سی ایل پر کال کی، اس بار امامہ نے ریسیو کی لیکن اس کی آواز سنتے ہی سالار کو اندازہ ہو گیا تھا کہ وہ رو رہی تھی۔ اسے اس کی آواز بھر آئی ہوئی لگی۔ وہ بہت پریشان ہوا۔
’’کیا ہوا؟‘‘
’’کچھ نہیں۔‘‘
وہ دوسری طرف جیسے اپنے آنسوؤں اور آواز پر قابو پانے کی کوشش کر رہی تھی۔
’’کیوں رو رہی ہو؟‘‘
سالار کی واقعی کچھ سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ کیوں رو رہی ہے۔ رات ہر جھگڑے کا اختتام بے حد خوشگوار انداز میں ہوا تھا۔ وہ صبح دروازے تک مسکرا کر اسے رخصت کرنے آئی تھی۔ پھر اب… ؟ وہ اُلجھ رہا تھا۔
دوسری طرف امامہ کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ اسے اپنے رونے کا کیا جواز پیش کرے۔ اس سے یہ تو نہیں کہہ سکتی تھی کہ وہ اس لیے رو رہی ہے کہ کسی نے اسے ’’گھر والی‘‘ کہا ہے۔ سالار یہ بات نہیں سمجھ سکتا تھا… کوئی بھی مرد نہیں سمجھ سکتا۔
’’مجھے امی اور ابو یاد آرہے رہیں۔‘‘ سالار نے بے اختیار ایک گہرا سانس لیا۔
یہ وجہ سمجھ میں آتی تھی… وہ یک دم پر سکون ہوا۔ ادھر وہ بالکل خاموش تھی۔ ماں باپ کا ذکر کیا تھا، جھوٹ بولا تھا لیکن اب رونے کی جیسے ایک اور وجہ مل گئی تھی۔ جو آنسو پہلے تھم رہے تھے، وہ ایک بار پھر سے برسنے لگے تھے۔ کچھ دیر وہ چپ چاپ فون پر اس کی سسکیاں اور ہچکیاںسنتا رہا۔
وہ اس غیر ملکی بینک میں انویسٹمنٹ بینکنگ کو ہیڈ کرتا تھا۔ چھوٹے سے چھوٹا investment scam پکڑ سکتا تھا، خسارے میں جاتی بڑی سے بڑی کمپنی کے لیے بیل آؤٹ پلان تیار کر سکتا تھا۔ کمپنیز کے مرجر پیکجز تیار کرنا اس کے بائیں ہاتھ کا کام تھا۔ وہpoint one percentکیprecision کے ساتھ ورلڈ اسٹاک مارکیٹیں کے ٹرینڈز کی پیش بینی کر سکتاتھا۔ مشکل سے مشکل سرمایہ کار کے ساتھ سودا طے کرنے میں اسے ملکہ حاصل تھا لیکن شادی کے اس ایک ہفتے کے دوران ہی اسے یہ اندازہ ہو گیا تھا کہ وہ امامہ کو روتے ہوئے چپ نہیں کرا سکتا، نہ وہ ان آنسوؤں کی وجہ ڈھونڈ سکتا تھا، نہ انہیں روکنے کے طریقے اسے آتے تھے۔ وہ کم از کم اس میدان میں بالکل اناڑی تھا۔
’’ملازمہ نے گھر صاف کیا تھا آج؟‘‘ ایک لمبی خاموشی کے بعد اس نے امامہ کی توجہ رونے سے ہٹانے کے لیے جس موضوع اور جملے کا انتخاب کیا وہ احمقانہ تھا۔ امامہ کو جیسے یقین نہیں آیا کہ یہ بتانے پر کہ اسے اپنے ماں باپ یاد آرہے ہیں، سالار نے اس سے یہ پوچھا ہے۔ پچھلی رات کے سالار کے سارے لیکچرز کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اس نے ریسیور کریڈل پر پٹک دیا اور فون منقطع ہوتے ہی سالار کو اپنے الفاظ کے غلط انتخاب کا احساس ہو گیا تھا۔ اپنے سیل کی تاریک اسکرین کو دیکھتے ہوئے اس نے بے اختیار گہرا سانس لیا۔
اگلے پانچ منٹ وہ سیل ہاتھ میں لیے بیٹھا رہا۔ اسے پتا تھا اس نے اب کال کی تو وہ ریسیو نہیں کرے گی۔ پانچ منٹ کے بعد اس نے دوبارہ کال کی۔ خلاف توقع امامہ نے کال ریسیو کی۔ اس بار اس کی آواز میں خفگی تھی لیکن وہ بھرائی ہوئی نہیں تھی۔ وہ یقینا رونا بند کر چکی تھی۔
’’آئی ایم سوری!؟‘‘ سالار نے اس کی آواز سنتے ہی کہا۔
امامہ نے جواب نہیں دیا۔ وہ اُس وقت اس کی معذرت نہیں سن رہی تھی۔ وہ صرف ایک ہی بات کا جواب ڈھونڈنے کی کوشش کر رہی تھی، اسے سالار پر غصہ کیوں آجاتا تھا…؟ یوں چھوٹی چھوٹی باتوں پر… اتنے سالوں میں جس ایک احساس کو وہ مکمل طور پر بھول گئی تھی، وہ غصے کا احساس ہی تھا۔ یہ احساس اس کے لیے اجنبی ہو چکا تھا۔ اتنے سالوں سے اس نے اللہ کے علاوہ کسی سے بھی کوئی گلہ، کوئی شکایت نہیں کی تھی۔ کسی سے ناراض ہونا یا کسی کو خفگی دکھانا تو بہت دور کی بات ہے، پھر اب یہ احساس اس کے اندر کیوں جاگ اٹھا تھا۔ سعیدہ اماں، ڈاکٹر سبط علی اور ان کی فیملی… اس کے کلاس فیلوز… کولیگز… ان میں سے کبھی کسی پر اسے غصہ نہیں آیا تھا۔ ہاں، کبھی کبھار شکایت ہوتی تھی لیکن وہ شکایت کبھی لفظوں کی شکل اختیار نہیں کر سکی، پھر اب کیا ہو رہا تھا اسے؟
’’امامہ پلیز بولو… کچھ کہو۔‘‘ وہ چونکی۔
’’نماز کا وقت نکل رہا ہے، مجھے نماز پڑھنی ہے۔‘‘ اس نے اسی الجھے ہوئے انداز میں اس سے کہا۔
’’تم خفا نہیں ہو؟‘‘ سالار نے اس سے پوچھا۔
’’نہیں۔‘‘ اس نے مدھم آواز میں کہا۔
وہ نماز کے بعد دیر تک اسی ایک سوال کا جواب ڈھونڈتی رہی اور اسے جواب مل گیا… نو سال میں اس نے پہلی بار اپنے لیے کسی کی زبان سے محبت کا اظہار سنا تھا۔ وہ احسان کرنے والوں کے ہجوم میں تھی، پہلی بار کسی محبت کرنے والے کے حصار میں آئی تھی۔ گلہ، شکوہ، ناز، نخرہ، غصہ، خفگی یہ سب کیسے نہ ہوتا، اسے ’’پتا‘‘ تھا کہ جب وہ روٹھے گی تو وہ اسے منا لے گا، خفا ہو گی تو وہ اسے وضاحتیں دے گا، مان تھا یا گمان… لیکن جو کچھ بھی تھا، غلط نہیں تھا۔ اتنے سالوں میں جو کچھ اس کے اندر جمع ہو گیا تھا، وہ کسی لاوے کی طرح نکل رہا تھا۔ آہستہ آہستہ وہ نارمل ہو رہی تھی۔
٭٭٭٭




Loading

Read Previous

آبِ حیات — قسط نمبر ۱ (آدم و حوّا)

Read Next

چڑیا جیسی عورت — روحی طاہر

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!