سالار نے سورۃ رحمن کی تلاوت ختم کرلی تھی۔ چند لمحوں کے لئے وہ رکا، پھر سجدے میں چلا گیا۔ سجدے سے اٹھنے کے بعد وہ کھڑا ہوتے ہوتے رک گیا۔ امامہ آنکھیں بند کئے
’’چلو خیر جیسے تمہاری مرضی مجھے ناشتہ تو بنا دو، میرا بی پی لو ہورہا ہے۔‘‘اس نے بے زاری سے بات ختم کرنے کے لیے کہا۔ ’’او معاف کرنا باجی بس ابھی لائی، آپ دکھ
ڈاکٹر سبط علی اگلے چار دن اس کا انتظار کرتے رہے۔ وہ نہیں آیا، نہ ہی اس نے انہیں فون کیا۔ انہیں خود اسے فون کرنے میں عار تھا۔ انہیں کہیں نہ کہیں یہ توقع
’’رول نمبرچار! عمر صدیق ۔۔کہو آج کیا نیا بہانہ ہے ؟ ‘‘ ’’استاد جی! ابھی چوہدری صاحب نے کٹائی کی رقم نہیں دی۔جیسے ہی پیسے ملتے ہیں، میں آپ کو فیس دے دوں گا۔‘‘ عمر
اماں کے گھر آئے ہوئے عمیرہ کو دوسرا دن تھا اور وہ کچن میں عائزہ کی مدد کرکے نکل رہی تھی کہ دروازے پر بجتی ہوئی گھنٹی نے اس کو اپنی طرف متوجہ کرلیا۔ ابھی
عام سے گھر کے عام سے کمرے میں دوپلنگ ساتھ ساتھ بچھے ہوئے تھے۔ ایک پر چھے سالہ گڈی اور پانچ سالہ ننھی لیٹی ہوئی تھیں۔ پپو امی کے ساتھ چپک کر چھوٹے چھوٹے سوال