آبِ حیات — قسط نمبر ۳ (بیت العنکبوت)

’’بیت العنکبوت ‘‘
وہ اس ہفتے پھر اسے اپنے ساتھ کراچی لے کر گیا لیکن اس بار وہ رات کی فلائٹ سے واپس آگئے تھے۔ پہلے کی طرح اس بار بھی وہ اسی ہوٹل میں رہے۔ سالار اپنے آفس میں مصروف رہا، جبکہ وہ انیتا کے ساتھ گھومتی پھرتی رہی۔
سالار سے اس کی دوبارہ ملاقات اسی طرح رات فلائٹ سے پہلے ہوئی تھی، و ہ کچھ چپ تھی۔ سالار نے نوٹس کیا تھا مگر اس کے ساتھ اس فلائٹ میں اس کے بینک کے کچھ غیر ملکی عہدے داران بھی سفر کررہے تھے۔ وہ لاؤنج میں ان کے ساتھ مصروف رہا۔ فلائٹ میں بھی وہ سیٹ بدل کر ان کے پاس چلا گیا۔
امامہ سے اس کو بات کرنے کا موقع ائیر پورٹ سے واپسی پر ملا تھا۔ کار پارکنگ میں پڑی اپنی گاڑی میں بیٹھتے ہی اس نے امامہ سے پہلا سوال یہی کیا تھا۔
’’تم اتنی خاموش کیوں ہو؟‘‘
’’کس سے باتیں کروں… اپنے آپ سے؟ تم تو مصروف تھے۔‘‘ امامہ نے جواباً کہا۔
’’چلو، اب بات کرو۔‘‘ سالار نے موضوع بدلتے ہوئے کہا۔
’’کیسا رہا آج کا دن؟‘‘
’’بس ٹھیک تھا۔‘‘
’’بس ٹھیک تھا… کہاں گئی تھی آج تم؟‘‘
اس نے سالار کو ان دو تین جگہوں کے نام بتائے، جہاں وہ انیتا کے ساتھ گئی تھی، مگر سالار کو اس کے انداز میںexcitement کا وہ عنصر اب نظر نہیں آیاتھا جو پچھلی بار تھا۔
’’تمہاری پے کتنی ہے سالار؟‘‘ وہ چند لمحوں کے لئے ٹھٹکا۔
وہ بے حد سنجیدہ تھی۔ وہ بے اختیار ہنس دیا۔ فوری طور پر اس سوال کی وجہ اس کی سمجھ میں نہیں آئی تھی۔
’’No comments.‘‘
’’میں سیریس ہوں۔‘‘
’’میں بھی سیریس ہوں۔ میں شوہر ہوں تمہارا، لیکن بے وقوف نہیں ہوں۔‘‘
’’جس اپارٹمنٹ میں ہم رہ رہے ہیں، وہ تمہارا ذاتی ہے؟‘‘





اگلے سوال نے سالار کو اور حیران کیا تھا۔ وہ اب بھی بے حد سنجیدہ تھی۔
’’نہیں، یہrented ہے لیکن تم کیوں پوچھ رہی ہو یہ سب کچھ…؟‘‘
اپنے جواب پر اسے امامہ کے چہرے پر مایوسی اتنی صاف نظر آئی کہ وہ بھی یک دم سنجیدہ ہوگیا۔
’’ایسے ہی پوچھ رہی تھی۔ میں سمجھ رہی تھی ، تمہارا اپنا ہوگا۔‘‘
وہ اب اسے کچھ سوچتی ہوئی لگی۔ سالار بہت غور سے اس کا چہرہ دیکھتا رہا۔
’’میں سوچ رہی تھی کہ تم نے مجھے جو پیسے دیئے ہیں، اس سے کوئی پلاٹ لے لیں۔‘‘
’’امامہ… کیا پرابلم ہے؟‘‘ سالار نے اس بار اس کے کندھوں کے گرد اپنا بازو پھیلاتے ہوئے کہا۔
’’کوئی پرابلم نہیں ہے، اپنا گھر تو بنانا چاہیے نا ہمیں۔‘‘ وہ اب بھی سنجیدہ تھی۔
’’تم انیتا کا گھر دیکھ کر آئی ہو؟‘‘ ایک جھماکے کی طرح سالار کو ایک خیال آیا تھا۔ انیتا کچھ عرصے تک اپنے نئے گھر میں شفٹ ہونے والی تھی اور ان دنوں اس کے گھر کا انٹیرئیر ہورہا تھا۔
’’ہاں۔‘‘ امامہ نے سرہلایا، سالار نے گہرا سانس لیا۔ اس کا اندازہ ٹھیک نکلا تھا۔
’’بہت اچھا گھر ہے نا اس کا ؟‘‘ وہ اب سالار سے کہہ رہی تھی۔ اس کے لہجے میں بے حد اشتیاق تھا۔
’’ہاں، اچھا ہے۔‘‘ سالار نے ہاتھ ہٹاتے ہوئے کہا۔
چار کنال پر محیط انیتا کے گھر کو کراچی کے ایک معروف آرکیٹیکٹ نے ڈیزائن کیا تھا۔ اس کے برے ہونے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔
’’تم نے سوئمنگ پول کی بوٹ دیکھی ہے؟‘‘
’’نہیں، میں نے کافی مہینوں پہلے اس کا گھر دیکھا تھا، تب انٹیرئیر شروع نہیں ہوا تھا۔‘‘
’’ویسے سوئمنگ پول میں بوٹ کا کیا کام؟‘‘
’’اصلی والی نہیں ہے، چھوٹی سی ہے، لکڑی کی لگتی ہے لیکن کسی اور مٹیریل کی ہے۔ اس پر ایک چھوٹی سی ونڈمل ہے اور وہ ہوا سے اس سارے سوئمنگ پول میں حرکت کرتی رہتی ہے۔‘‘ وہ مسکراتے ہوئے اس کا چہرہ دیکھتا، اس کی بات سنتا رہا۔ وہ اسے اس کشتی کی ایک ایک چیز بتارہی تھی۔
’’انیتا نے بڑا ظلم کیا ہے مجھ پر۔‘‘ اس کے خاموش ہونے پر سالار نے کہا۔
’’کیوں؟‘‘ وہ چونکی۔
’’میری شادی کے تیسرے ہی ہفتے میری بیوی کو اپنا گھر دکھا دیا۔‘‘ وہ بڑبڑایا۔
’’کہیں زمین خرید لیتے ہیں سالار!ـ‘‘ امامہ نے اس کی بات نظر انداز کی۔
’’امامہ میرے پاس دو پلاٹ ہیں، پاپا نے دیئے ہیں۔ اسلام آباد میں تو گھر بنانا اتنا بڑا مسئلہ نہیں ہے۔ جب بنانا ہوگا، بنالیں گے۔‘‘ سالار نے اسے تسلی دینے کی کوشش کی۔
وہ یک دم پرجوش ہوئی۔ ’’کتنے بڑے پلاٹ ہیں؟‘‘
’’دس دس مرلے کے ہیں۔‘‘
’’بس…؟ کم از کم ایک ، دو کنال تو ہونا چاہیے۔‘‘ وہ مایوس سی ہوئی تھی۔
’’ہاں، دس مرلے کم ہیں۔ دو کنال تو ہونا ہی چاہیے۔‘‘ سالار نے تائید کی۔
’’نہیں، دو نہ ہو، ایک ہی ہوجائے۔ ایک بھی بہت ہے… اس میں ایک سبزیوں کا فارم بنائیں گے، جانور بھی رکھیں گے۔ ایک سمر ہاؤس بنائیں گے، ایک گزیبو بنائیں گے اور ایک فش فارم بھی بنالیں گے۔‘‘
سالار کو لگا کہ امامہ کو جگہ کا اندازہ کرنے میں غلطی ہوئی تھی۔
’’ایک کنال میں یہ سب کچھ نہیں بن سکتا امامہ!‘‘ اس نے مدھم آواز میں اس سے کہا ، وہ چونکی۔
’’لیکن میں تو ایکڑ کی بات کررہی تھی۔‘‘
وہ چند لمحے بھونچکا سارہ گیا۔
’’اسلام آباد میں تمہیں ایکڑ زمین کہاں سے ملے گی؟‘‘ چند لمحوں کے بعد اس نے سنبھل کر کہا۔
’’اسلام سے باہر تو مل سکتی ہے نا؟‘‘ امامہ سنجیدہ تھی۔
’’تم پھر گھر نہ کہو، یہ کہو کہ فارم ہاؤس بنانا چاہتی ہو تم۔‘‘
’’نہیں، فارم ہاؤس نہیں، ایک بڑی سی کھلی سی جگہ پر ایک چھوٹا سا گھر … جیسے کوئی وادی… اس طرح کی وادی میں گھر ۔‘‘
’’پاپا کا بھی ایک فارم ہاؤس ہے، کبھی کبھار جاتے ہیں ہم لوگ… تمہیں بھی لے جاؤں گا وہاں ۔‘‘
سالار نے اسے پھر ٹالا۔
’’میں فارم ہاؤس کی بات نہیں کررہی، اصلی والے گھر کی بات کررہی ہوں۔‘‘
امامہ اب بھی اپنی بات پر اڑی ہوئی تھی۔
’’جس طرح کا میرا پروفیشن ہے امامہ۔ اس میں میں فارم ہاؤس یا شہر سے باہر رہائش رکھنا افورڈ نہیں کرسکتا۔ کم از کم جب تک میں کام کررہاہوں، تب تک مجھے بڑے شہروں میں رہنا ہے اور بڑے شہروں میں اب بہت مشکل ہے ایکڑز میں شہرکے اندر کوئی گھر بنانا۔ یہ تمہارے ان رومانٹک ناولز میں ہو سکتا ہے لیکن رئیل لائف میں نہیں، جو چیز ممکن اور پریکٹیکل ہے وہ یہ ہے کہ چند سالوں کے بعد کوئی لگژری فلیٹ لے لیا جائے یا دو چار کنال کا کوئی گھر بنالیا جائے یا چلو پانچ چھے کنال بھی ہوسکتا ہے، لیکن کسی اچھی جگہ پر اس سے بڑا گھر افورڈ ایبل نہیں ہوگا۔ ہاں! یہ ضرور کرسکتا ہوں کہ پانچ دس سال بعد لاہور یا اسلام آباد سے باہر کہیں ایک فارم ہاؤس بنالیا جائے، لیکن میں جانتا ہوں، بیس یا تیس سال میں ہم دس یا بیس بار سے زیادہ نہیں جا پائیں گے وہاں۔ وہ بھی چند دنوں کے لئے، لیکن وہ ایک سفید ہاتھی ثابت ہوگا ہمارے لئے، جس پر ہر ماہ ہمارے اخراجات ہوں گے۔‘‘
سالار کو اندازہ نہیں ہوا کہ اس نے ضرورت سے کچھ زیادہ ہی صاف گوئی کا مظاہرہ کردیا ہے۔ امامہ کا رنگ کچھ پھیکا سا پڑگیا تھا۔ وہ حقیقت تھی، جو وہ اسے دکھا رہا تھا۔ سالار نے اسے دوبارہ بولتے نہیں دیکھا۔ گھر پہنچنے تک وہ خاموش رہی اور پورا راستہ اس کی خاموشی اسے چبھی تھی۔
’’اچھا، تم گھر کا ایک اسکیچ بناؤ، میں دیکھوں گا اگر فیز یبل ہوا تو بنایا جاسکتا ہے۔‘‘
یہ اس نے سونے سے پہلے سرسری انداز میں امامہ سے کہا تھا اور ایک سیکنڈ میں امامہ کے چہرے کا رنگ تبدیل ہوتے دیکھا۔ ایک چھوٹی سی بات اسے اتنا خوش کردے گی، اسے اس کا اندازہ نہیں تھا۔
سحری کے وقت وہ جب الارم کی آواز پر اٹھا تو وہ بستر میں نہیں تھی۔
’’تم آج پہلے اٹھ گئیں۔‘‘
وہ کچن میں کام کررہی تھی جب سالار سحری کے لئے وہاں گیا۔ وہ جواب دینے کے بجائے مسکرائی تھی۔ سالار کو حیرت ہوئی، آج اس نے سحری ختم کرنے میں بڑی عجلت دکھائی تھی اور کیوں دکھائی تھی، یہ راز زیادہ دیر تک راز نہیں رہا تھا۔ کھانا ختم کرتے ہی وہ اپنی اسکیچ بک اٹھا لائی تھی۔
’’یہ میں نے اسکیچ کرلیا ہے جس طرح کا گھر میں کہہ رہی تھی۔‘‘
سحری کرتے ہوئے سالار بری طرح چونکا تھا۔ وہ اپنی کسی ہدایت پر اتنے فوری عمل درآمد کی توقع نہیں کررہا تھا۔ وہ اسکیچ بک اس کے سامنے کھولے بیٹھی تھی۔ ٹشو سے ہاتھ پونچھتے ہوئے،ا س اسکیچ بک کو تھامے، سالار نے ایک نظر اس پر ڈالی اور دوسری اس گھر پر ، جو سامنے اسکیچ میں نظر آرہا تھا۔ گھر سے زیادہ اسے ایک اسٹیٹ کہنا زیادہ بہتر تھا۔ اس نے گھر میں ہر وہ چیز شامل کی تھی جس کا ذکر اس نے اس رات کو کیا تھا۔ فرق صرف یہ تھا کہ پہلے وہ اسے زبانی بتارہی تھی، اب وہی سب کچھ ایک ڈرائنگ کی شکل میں اس کے سامنے تھا۔
پہاڑوں کے دامن میں، کھلے سبزے میں، ایک چھوٹا سا گھر، جس کے سامنے ایک جھیل تھی اور اس کے اردگرد وہ چھوٹے چھوٹے اسٹرکچرز تھے جس کا وہ ذکر کررہی تھی، گزیبو اور سمر ہاؤس۔ اس نے اپنے اسکیچز کو کلر بھی کیا ہوا تھا۔
’’اور یہ آگے بھی ہے…‘‘ اس نے سالار کو اسکیچ بک بند کرتے دیکھ کر جلدی سے اگلا صفحہ پلٹ دیا۔
وہ اس کے گھر کا یقینا عقبی حصہ تھا جہاں پر ایک اصطبل اور پرندوں کی مختلف قسم کی رہائش گاہیں بنائی گئی تھیں۔ اس میں وہ فش فارم بھی تھا، جس کا وہ رات کو ذکر کررہی تھی۔
’’تم رات کو سوئی نہیں؟‘‘ اسکیچ بک بند کرتے ہوئے سالار نے اس سے پوچھا۔
وہ اسکیچز گھنٹوں کی محنت کے بغیر نہیں بن سکتے تھے۔ امامہ کو اس تبصرے نے جیسے مایوس کیا۔ وہ اسکیچز دیکھنے پر سالار سے کسی اور بات کے سننے کی توقع کررہی تھی۔
’’اچھا ہے نا؟‘‘ اس نے سالار کے سوال کا جواب دیئے بغیر کہا۔
کانٹا ہاتھ میں لئے وہ بہت دیر تک اس کا چہرہ دیکھتا رہا۔ جو اس کے لئے گھر تھا، وہ اس کے لئے اب بھی فارم ہاؤس ہی تھا اور آسان نہیں تھا لیکن وہ ایک بار پھر اس بات پر بحث نہیں کرنا چاہتا تھا۔
’’بہت اچھا ہے۔‘‘ ایک لمبی سی خاموشی کے بعد کہے جانے والے اس جملے پر وہ بے اختیار کھل اٹھی تھی۔
’’تمہارے دونوں پلاٹس بیچ کر ہم کسی جگہ پر، ذرا بڑی جگہ…‘‘
’’ذرا بڑی جگہ…؟ ایک ایکڑ کی بات کررہی ہو کم از کم تم… اور زمین تو چلو کسی نہ کسی طرح آہی جائے گی لیکن اس گھر کی مینٹی نینس کے اخراجات… ویل… مجھے کم از کم کروڑ پتی ہوکر مرنا پڑے گا اگر ارب پتی نہیں تو…‘‘ سالار نے اس کی بات کاٹ کر کہا۔
امامہ نے بے حد خفگی سے اسکیچ بک بند کردی۔
’’ٹھیک ہے، میں نہیں کروں گی اب گھر کی بات۔‘‘
وہ پلک جھپکتے میں اٹھ کر، اپنی اسکیچ بک کے ساتھ غائب ہوگئی تھی۔
وہ کانٹا ہاتھ میں پکڑے بیٹھا رہ گیا۔ یہ ایک بے حد مضحکہ خیز صورت حال تھی جس کا وہ سامنا کررہا تھا۔
سالار سحر ی ختم کرکے بیڈ روم میں آگیا۔ امامہ صوفے پر اسکیچ بک کھولے بیٹھی تھی۔ سالار کو دیکھ کر اس نے اسکیچ بک بند کرکے سائیڈ ٹیبل پر رکھ دی۔
’’اگر تمہیں فوری طور پر گھر چاہیے تو میں خرید دیتا ہوں تمہیں۔‘‘
اس نے بے حد سنجیدگی سے اس کے پاس صوفے پر بیٹھتے ہوئے کہا۔
’’مجھے اس طرح کا گھر چاہیے۔‘‘ اس نے پھر اسکیچ بک اٹھالی۔
’’ایک ایکڑ ہو یا نہ ہو، لیکن ایسا ایک بنادوں گا میں تمہیں۔ وعدہ … لیکن اب یہ ہوم مینیاکو اپنے سر سے اتار دو۔‘‘ وہ امامہ کا کندھا تھپکتے ہوئے اٹھ کیا۔
وہ بے اختیار مطمئن ہوگئی۔ وعدہ کا لفظ کافی تھا فی الحال اس کے لئے… ’’وعدہ‘‘ کو ’’گھر‘‘ بنانا زیادہ مشکل نہ ہوتا اس کے لئے۔
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

صراطِ مستقیم — نوریہ مدثر

Read Next

آبِ حیات — قسط نمبر ۴ (بیت العنکبوت)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!