سرہانے کا سانپ — شاذیہ خان

صبح اُٹھ کر اس نے مُندی مُندی آنکھوں سے موبائل اُٹھایا اور Inboxمیں آئے ہوئے بہت سے میسجز کو چھوڑ کر احسن کا میسج پڑھا…
’’پیاری ربیعہ خوش رہو!
آج کے بعد احسن نام کا کوئی شخص تمہاری زندگی میں نہیں رہے گا… بچپن سے اب تکبہت چاہا ہے میں نے تمہیں ۔ تمہارے سوا کبھی کسی کے بارے میں نہیں سوچا… اور تم نے ہی مجھے ٹھکرا دیا… یہ میں برداشت نہ کر پایا۔ میں جلد تمہاری دنیا سے دور چلا جائوں گا… خوش رہو… امید تو نہیں ہے کہ اللہ مجھے اس بات پر معاف کرے گا لیکن تم اللہ سیمیرے اس گناہ کی معافی ضرور طلب کرنا پلیز ربیعہ یہ میری آخری خواہش ہے۔
احسن
ربیعہ کی آنکھیں اس مسیج پر پوری طرح کھل گئیں۔یہ کیا کیا بے وقوف تم نے؟ وہ ہڑبڑا کر اُٹھ بیٹھی اور فون پر کال ملائی۔ دوسری طرف سے مطلوبہ نمبر بند آنے کی نوید سنائی دے رہی تھی…اس نے کافی دیر ٹرائی کیا، پھر خالا جی کے گھر کا نمبر ملایا جو کسی نے اٹینڈ نہ کیا۔ اس پر ربیعہ ہڑبڑا کر دروازے کی سمت بھاگی۔ جیسے ہی دروازہ کھولا دروازے پر اماں بوکھلائی ہوئی کھڑی تھیں۔
’’ربیعہ احسن نے نیند کی گولیاں کھالیں… ابھی باجی کا فون آیا تھا جلدی سے گاڑی نکالو۔‘‘ ان کے منہ سے آواز نہیں نکل رہی تھی۔
’’لیکن اماں کیوں کیا احسن نے ایسا…؟‘‘اس نے بھی بوکھلا کر پوچھا۔
’’یہ تو پوچھ رہی ہے؟ دیکھ ربیعہ اگر میرے احسن کو کچھ ہوا تو میں تجھے کبھی معاف نہیں کروں گی۔‘‘انہوں نے انگلی اُٹھا کر اُسے وارن کیا۔ اماں کی آنکھوں میں اس وقت وحشت ناچ رہی تھی… اور وہ اندر ہی اندر احسن کے لیے دعائیں کررہی تھی۔’’یا میرے مالک !احسن کو زندگی دے دے۔‘‘





معمولی سی شکل صورت والا احسن ربیعہ کا خالہ زاد تھا۔ بچپن سے اس کے لیے بہت جذباتی اور بہت خیال رکھنے والا لیکن وہ اس کی حد سے زیادہ پروا کرنے کی وجہ سے اکثر چڑ جاتی… بے تحاشا حسین اور خوب صورت ربیعہ نے کبھی احسن کو اپنے ایک اچھے دوست سے زیادہ اہمیت نہ دی تھی… لیکن وہ اچھے دوست سے ایک خاص دوست بننے کی ہرممکن کوشش کرتا رہا۔ ہر جگہ جہاں ربیعہ کو اس کی مدد کی ضرورت ہوتی وہ بنا کہے پہنچ جاتا اور وہ حیران رہ جاتی کہ اس کو کیسے خبر ہوئی؟ وہ ربیعہ کے لیے اپنے دل میں جیسے بھی جذبات رکھے لیکن ربیعہ کے دل میں اس کے لیے کسی خاص جگہ کی گنجائش نہ تھی۔ وہ چاہ کر بھی اس سے محبت نہ کر پائی… اپنے آگے پیچھے پھرتے احسن سے اُسے چڑ ہونے لگی۔ خوامخوا ہر بات میں ٹانگ اڑاتا، اب اکثر وہ اسے چڑانے لگاتھا۔ اس نے اسی بات کا اظہار اپنی ماں سے بھی کردیا تو وہ ہنس پڑیں۔
’’پگلی ہم دونوں بہنیںتیرے اور اس کے بارے میں بہت کچھ سوچے بیٹھے ہیں۔ تیری خالہ تو تیرے لیے رشتہ بھی دے چکی ہیں۔‘‘انہوں نے انکشاف کیا۔
’’کیا سوچے بیٹھی ہیں اماں؟‘‘ اس نے حیرانی سے آنکھیں پھاڑتے ہوئے پوچھا۔
’’یہی کہ ہم دونوں بہنیں تم دونوں کی وجہ سے ایک نئے رشتے میں بندھ جائیں۔‘‘
’’No Never اماں کبھی سوچئے گا بھی مت کہ میں آپ کی بات پر سر جھکا دوں گی۔‘‘
’’کیوں کیا برائی ہے احسن میں؟‘‘انہیں حیرانی ہوئی۔
’’برائی تو کچھ نہیں، بس وہ مجھے پسند نہیں اور آپ کو پتا ہے بچپن سے ایک چیز اگر مجھے پسند نہیں تو کوئی قوت اس کے لیے مجھے راضی نہیں کرسکتی۔‘‘
’’احسن کوئی چیز نہیں ہے ربیعہ، ایک جیتا جاگتا انسان ہے اور بچپن سے تم دونوں ایک ساتھ پلے بڑھے ہو، ایک دوسرے کو اچھی طرح سمجھتے ہو۔‘‘انہوں نے سمجھایا۔
’’یہی تو مسئلہ ہے اماں کہ میں اُسے اچھی طرح سمجھتی ہوں، مجھے شوہر چاہیے ایک Puppyنہیں جو دم ہلائے میرے آگے پیچھے پھرتا رہے، میری ہر غلطی کو صحیح کہتا ہوا ہر بات مانتا ہوا… میں نے شوہر کے لیے بالکل الگ سا تصور بنایا ہوا ہے۔‘‘وہ چڑ گئی ان کی بات پر۔
’’ جب وہ شوہر بنے گا تو اس میں ساری خصوصیات شوہروں والی آجائیں گی یہ تو دیکھو کہ وہ کتنا چاہتا ہے تمہیں۔‘‘انہوں نے پیار سے اُس کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔
’’اماں آپ خالہ جی کو منع کردیں، میں نے نہیں کرنی احسن سے شادی…‘‘اس نے منہ بنایا۔
’’دیکھو ربیعہ جذباتی فیصلہ مت کرو… تھوڑا ٹائم لے لو سوچو اس سے بات کر لو پھر…‘‘
’’اماں میں نے کہہ دیا نا میرا فیصلہ تب بھی یہی ہوگا اور اب بھی یہی ہے، آپ صاف صاف خالہ جی کو منع کردیں کہ میں ان کی یہ خواہش پوری نہیں کرسکتی۔‘‘اس نے اماں کی بات کاٹ دی۔
’’تم بہت بڑی غلطی کررہی ہو ربیعہ اتنا چاہنے والا لڑکا قسمت والوں کو ملتا ہے۔‘‘وہ تاسف سے بولیں۔
’’ہاں تو ملنے دیں، کسی اور کی قسمت سنورنے دیں، جو میری قسمت میں ہوگا مجھے مل جائے گا۔‘‘اس نے تنفر سے جواب دیا اور وہ اُسے دیکھ کر رہ گئیں۔
یہ کل کی بات تھی کہ کس دل سے انہوں نے بہن کو انکار کیا اور آج یہ خبر آگئی۔
وہ دونوں ہسپتال پہنچیں تو خالہ کوریڈور میں ہی کھڑی رو رہی تھیں۔ وہ دونوں ان کے پاس آگئیں۔
’’دیکھ لیا تم نے اس انکار کا انجام میرا بیٹا آج موت کی کش مکش میں ہے۔… اگر اس کو کچھ ہوگیا تو ربیعہ یاد رکھنا ساری عمر میری بددعائوں کے سائے میں رہو گی۔‘‘ ان کے لہجے کی آگ ربیعہ کو جلا گئی۔ وہ خالہ جی جو کبھی دعائیں دیتے نہیں تھکتی تھیں اب منہ بھر بھر کر کوسنے دے رہی تھیں۔
’’خالہ جی کیسا ہے وہ؟‘‘ اب اُسے واقعی دکھ ہورہا تھا۔
’’مرنے کے قریب ہے ڈاکٹر نے کہا ہے کہ چوبیسگھنٹے اہم ہیں اس کے لیے کچھ بھی ہوسکتا ہے۔‘‘ یہ کہتے ہوئے وہ بہت کرب سے رو پڑیں اور پھر اس نے چوبیسگھنٹے صرف ایک دعا مانگنے میں وقف کردیئے کہ’’ اے میرے مالک اسے بچا لے۔‘‘ نہ جانے اللہ نے کہاں سے اس کے دل میں احسن کے لیے اتنی اپنائیت بھر دی تھی۔ اگلے دن چوبیسگھنٹے پورے ہوئے تو احسن نے آنکھیں کھول دیں اور اس نے بھی سکون کی سانس لی کہ ایک بے گناہ کا خون اس کے سرپر نہیں۔ورنہ وہ ساری عمر خالہ جی اور اپنے گھر والوں سے نظریں نہیں ملا سکتی تھی۔
ان دونوں کی منگنی اگلے مہینے ہی طے پا گئی۔ منگنی کی رات احسن بہت خوش نظر آرہا تھا اور یہ خوشی اس کے چہرے پر بھی پوری طرح نظر آرہی تھی۔ ربیعہ بھی خوش تھی لیکن کہیں اندر ایک گہری سی اُداسی بھی تھی۔ شاید اس کے ذہن میں اپنے شوہر کے لیے جو خاکہ تھا احسن اس پر پورا نہیں اترتا تھا لیکن اس کی خودکشی نے ربیعہ کے دل میں کہیں نہ کہیں ایک نرم گوشہسا پیدا کردیا تھا کہ ایک شخص جو آپ کے لیے اپنی زندگی کو بھی خاطر میں نہیں لارہا اور زندگی جیسی چیز اس نے کتنی آسانی سے اس پر نثار کردی، کچھ تو ہے اس کی محبت میں… اور پھر اس نے بھی اپنی پوری زندگی اسی ایک شخص کے لیے وقف کرنے اور لُٹا نے کا فیصلہ کرلیا۔
شادی کی ساری تیاریاں ان دونوں نے مل کر کیں۔ ساری چیزیں ربیعہ کی پسند سے خریدی گئیں اور بڑی دھوم دھام سے ربیعہ اس کی زندگی میں چلی آئی۔ اس کی خوشی چھپائے نہیں چُھپ رہی تھی۔ خالہ جی ہاتھ اُٹھا اُٹھا کر ان کے لیے دعائیں کررہی تھیں۔
شوہر بننے کے بعد جیسے وہ اس کے بارے میں اور زیادہ possiveہوگیا تھا۔ربیعہ کی چھوٹی چھوٹی باتوں کا خیال رکھتا، اُسے کیا کھانا ہے؟ کیا پہننا ہے؟ کب سونا ہے؟ یہ ساری تفصیلات اُس سے زیادہ احسن کو پتا ہوتیں۔ آفس جانے سے پہلے ربیعہ کو کبھی نہیں اٹھاتا بلکہ اکثر اس کا ناشتہ بنا کر بھی رکھ جاتا۔ وہ روز بہت شرمندہ شرمندہ سی اٹھتی اور خود کو بُرا بھلا کہتی کہ یار وہ تمہارا شوہر ہے اس کو تمہاری توجہ چاہیے، ٹائم چاہیے۔ صُبح اٹھنا اور اٹھ کر ناشتہ بنانا اس کو کبھی پسند نہ تھا لیکن آہستہ آہستہ اس نے احسن کے لیے اُٹھنا شروع کردیا۔ اس کی پسند کا ناشتہ بناتی اور دوپہر کے کھانے کے لیے بھی پوچھتی، پہلے تو وہ دوپہر کا کھانا آفس سے ہی منگوالیتا تھا لیکن اب وہ خود لنچ بکس بنا کر اُسے بھیجتی۔ جتنی محبت وہ اس سے کرتا تھا اس کی تھوڑی بہت مقدار تو وہ بھی اس کو لوٹا سکتی تھی۔ اکثر وہ رات کو باہر ہی کھانا کھاتے۔ گھر میں ایک کام والی آتی تھی۔ جو کچن اور صفائی کے کام کرتی اور ربیعہ کو اس سے کافی سہولت تھی۔
خالہ اس کی شادی کے بعد بڑے بھائی کے پاس شفٹ ہوگئیں تھیں تاکہ ان دونوں کے درمیان under standingپیدا ہو جائے اور ان کی سٹریٹیجی کامیاب بھی ہوگئی۔ دونوں کے درمیان ایک دوسرے کی محبت اور خیال پختہ ہوتا جارہا تھا۔ محبت ’’خیال‘‘ کا نام ہی تو ہے کسی کا بے تحاشا خیال رکھنا، اس کے اُٹھنے، بیٹھنے، چلنے پھرنے، کھانے پینے یا اس کے ناراض ہونے پر دُکھی ہو جانا اور منانے کی ہرممکن کوشش کرنا اس کی چھوٹی سی بیپروائی کو بھی بہت زیادہ محسوس کرنا یہی تو محبت کی روح ہے۔
وہ دونوں ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم بن گئے تھے اب کبھی کبھی ربیعہ کو ہنسی آتی کہ کس طرح احسن کی جو باتیں اُسے Irretateکرتی تھیں اور آج اس رشتے نے انہی باتوں کو محبت کا روپ دے دیا۔ اب اگر ایک لمحہ بھی وہ اُس کی کسی بات کو بھول جاتا تھا تو وہ دُکھی ہو جاتی کہ اس نے خیال کیوں نہ کیا۔ جیسے آج دونوں بازار گئے اور دکان دکان پھرتے اُسے ایک انگوٹھی بہت پسند آئی۔ پسند کے رنگ ربیعہ کے آنکھوں میں اپنی پوری قوت سے جھلملائے جسے احسن نے بھی پوری طرح محسوس کرلیا لیکن مہینے کے آخری دنوں میں چالیس ہزار کی رقم نے اسے ایک لمحہ سوچنے پر مجبور کردیا۔ بہت بے دلی سے ربیعہ نے اس کی طرف دیکھا اور اس کی کش مکش کو محسوس کرتے ہوئے انگوٹھی واپس رکھ دی۔ دل میں تھوڑا غبار سا آگیا۔گھر آکر بھی وہ تھوڑا اُکھڑی اُکھڑی سی تھی۔ جسے وہ شدت سے محسوس کررہا تھا… کھانا بھی ربیعہ نے بے دلی سے کھایا۔ کمرے میں آتے ہی اس نے کپڑے چینج کیے اور ڈریسنگ پر بیٹھی منہ ہاتھ دھو کر لوشن لگا رہی تھی کہ وہ پاس ہی آکر کھڑا ہوگیا۔اور بہت غور سے اس کو دیکھتا رہا۔
’’کیا ہوا ناراض ہو؟‘‘ربیعہ کو اپنی طرف گھماتے ہوئے اُس نے پوچھا۔
’’نہیں ناراضگی کیسی؟‘‘ہاتھ میں موجود لوشن کہنیوں پر ملتے ہوئے وہ اپنے لہجے کے روکھے پن پر قابو نہ پاسکی۔
’’کیوں کہ تمہیں تمہاری پسند کی چیز نہیں لے کر دی۔‘‘وہ نہ جانے کیا پوچھنا چاہ رہا تھا۔
’’اتنا سب کچھ تو لے دیا ایک چیز رہ گئی تو کوئی بات نہیں‘‘ اس نے بے پروائی ظاہر کرنے کی پوری کوشش کی۔
’’بات کیسے نہیں تمہاری آنکھوں میں اس انگوٹھی کو دیکھ کر جو چمک ابھری تھی اتنا تو مجھے دیکھ کر بھی نہیں آتی۔‘‘ اس نے مزاحیہ انداز میں کہا۔
’’Very funny احسن زیادہ بکواس نہ کرو۔ ایسا کچھ نہیں تھا۔‘‘اس نے آنکھیں نکالیں۔
’’ایسا تھا میں تمہیں جانتا ہوں۔‘‘وہ بہت پختہ تھا اپنی بات میں اسی لیے پُریقین انداز میں بولا۔
’’کیا جانتے ہو؟‘‘اُس نے اسی انداز میں پوچھا۔
’’یہی کہ اول تو تمہیں کوئی چیز پسند نہیں آتی اور اگر آجائے تو تمہارے دل سے مشکل سے نکلتی ہے۔‘‘
’’تمہاری خام خیالی ہے، مجھے تو یاد بھی نہیں۔‘‘بے پروائی سے کندھے اُچکا کر بولی۔
’’ادھر دیکھو میری طرف۔‘‘ اس نے ربیعہ کا چہرہ اپنی طرف گھمایا تو ربیعہ نے ایک نظر ڈال کر اپنی نظریں جھکا لیں۔
‘‘جھوٹ بول رہی ہونا، جب ہی نظریں نہیں ملا رہیں۔‘‘وہ بہت پیار سے بولا۔
اففف! احسن تمہاری آنکھوں میں detactor لگے ہوئے ہیں، کتنی آسانی سے سکین کرلیتے ہو بندے کے اندر اُتر کر کوئی جھوٹ بول ہی نہیں سکتا۔‘‘وہ ہتھیار ڈالنے والے انداز میں بولی۔
’’اچھا! جلدی سے آنکھیں بند کرو۔‘‘وہ زور دے کر بولا۔
’’کیوں؟‘‘اس نے حیرانی سے پوچھا۔
’’یار بند کرو آنکھیں پلیز!‘‘اس نے التجا کی۔




Loading

Read Previous

تمہارے بغیر — زلیخا ناصر

Read Next

آبِ حیات — قسط نمبر ۵ (بیت العنکبوت)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!