اردو سے پرہیز کریں۔ انگریزی لکھیں، انگریزی پڑھیں۔ انگریزی سنیں، انگریزی بولیں، انگریز بنیں، ترقی کریں۔ یہ نعرہ ہے ہمارے انگلش میڈیم نجی تعلیمی اداروں کا اور غلامانہ ذہن کے پڑھے لکھے لوگوں کا اور
وہاں تو یہ لڑکے فخر نشے میں مخمور ، بوتلیں اور چپس کے پیکٹ ہاتھ میں لیے پاؤں اگلی سیٹوں کے پشت پر چڑھائے وہ بکواس فلم دیکھنے میں مگن تھے ۔ ادھر کسی بد
تو جناب جب میرم پور میں بھی میرا دھندا کسی طرح سے نہ چلا فاقے پر فاقے ہونے لگے اور جیب میں آخری اٹھنی رہ گئی تو میں اپنی بیوی سے پوچھا ’’گھر میں تھوڑا
پولیس نے مار مار کر اظہر کا حلیہ بگاڑ دیا۔ اظہر نے اپنا جرم قبول کرلیا سزا کا خوف اسے کھائے جارہا تھا۔ ’’ابا… مظہر بھائی… مجھے یہاں سے نکالیں…‘‘ اظہر سلاخوں کے پیچھے کھڑا
تین جنوری بروز منگل (2014ء) میں آج آخری بار اس ہوٹل کی صبح دیکھ رہا تھا ۔میں نے مرتضیٰ کو بتا دیا تھا کہ کل میں واپس چلا جاؤں گا۔ اسے کوئی فرق نہیں پڑا
میں نے آنکھیں کھول کر دیکھا تھا۔ ائیر ہوسٹس مجھ سے کچھ پوچھ رہی تھی پتا نہیں شاید وہ کچھ کھانے پینے کے بارے میں پوچھ رہی تھی۔ میرا ذہن اس کی بات سمجھنے سے
وہ ملنگ چلا جارہا تھا بغیر کوئی صدا لگائے۔ کشکول ہاتھ کی بہ جائے گردن میں لٹک رہا تھا جیسے کوئی طوق پہن رکھا ہو۔ بکھرے ہوئے لمبے گرد سے اٹے بال شانوں تک آرہے