داستانِ محبت — سارہ قیوم (حصّہ اوّل)

پس لفظ
سارہ قیوم

یہ فیصل کی کہانی ہے۔ اس کہانی میں نہ ڈرامائی موڑ ہیں، نہ سازشیں، نہ ہی کوئی ولن ہے۔ بس ایک ہنستا کھیلتا زندگی سے بھرپور ہیرو ہے اور محبت کے رنگ ہیں۔
فیصل سے میری پہلی ملاقات تب ہوئی تھی جب وہ آٹھ سال کا تھا اور اپنی سرخ رنگ کی سائیکل پر سکول آیا جایا کرتا تھا۔ زونیرہ کالج میں میری دوست تھی۔ فیصل اس کا چھوٹا بھائی تھا اور آپ تو جانتے ہی ہیں کہ دوستوں کے چھوٹے بہن بھائی اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کی طرح پیارے ہوتے ہیں۔ جب کبھی میں زونیرہ کے گھر جاتی تو میرا پہلا کام اسے Math پڑھانا ہوتا جو وہ رشوت لیے بغیر کبھی نہ پڑھتا۔ ہم اس سے کبھی چپس اور بوتلیں منگواتے کبھی ویڈیو فلمز اور وہ اپنی عزیز سرخ سائیکل پر ہمارے کاموں کے لیے بھاگتا پھرتا۔ میں وہ آپا تھی جو زونیرہ کی طرح اسے اپنا بیٹا کہتی تھی۔ زونیرہ کی شادی پر اس نے میرے ساتھ رقص کیا کیوں کہ باقی تمام لڑکیوں سے اسے شرم آتی تھی۔ میرے بچوں کے لیے وہ فیصل ماموں تھا جس کی پی ایم اے سے بھیجی گئی تصویریں وہ بڑے شوق سے دیکھتے تھے۔
ثنا سے شادی اس نے بہت ضد سے کی۔ شادی پر وہ بہت خوش تھا۔ ثنا بے حد حسین لگ رہی تھی۔ میں نے اسے اتنا حسین لگتے دو موقعوں پر دیکھا۔ ایک جب وہ دلہن بنی، دوسرا جب وہ بیوہ ہوئی۔ سن رکھا تھا کہ دولہنا پے کے روپ کی طرح بیوگی کا بھی روپ ہوتا ہے۔ ثنا کو دیکھ کر یقین آگیا۔ جب اسے نیم بے ہوش حالت میں فیصل کے جنازے کے پاس بٹھایا گیا تو اس پر اسقدر روپ تھا کہ نظر نہ ہٹتی تھی۔ فیصل کی شہادت کے چار مہینے بعد اس کے گھر بیٹی پیدا ہوئی۔ جب ثنا کو لیبر روم لے جایا رہا تھا تو اس نے چپکے سے ڈاکٹر کا ہاتھ پکڑ لیا۔ ’’وہ مجھے لینے آئے گا‘‘ اس نے سرگوشی میں کہا۔ ’’کون؟‘‘ ڈاکٹر نے حیران ہوکر پوچھا۔ ’’فیصل‘‘ ثنا نے بچوں کی سی ایکسائٹمنٹ سے کہا۔
ڈاکٹر نے شفقت سے اس کا ہاتھ تھپکا ’’فکر مت کرو۔ ایسا کچھ نہیں ہوگا۔‘‘
’’نہیں۔ وہ آئے گا‘‘ ثنا نے اصرار کیا ’’اس نے وعدہ کیا تھا کہ مجھ سے کبھی جدا نہیں ہوگا۔ میری آپ سے التجا ہے کہ جب ایسا ہو، تو مجھے روکیے گا مت، جانے دیجئے گا۔‘‘
ڈاکٹر نے اپنے آنسو چھپانے کے لیے منہ پھیر لیا۔
فیصل ثنا کو لینے نہیں آیا۔ بیوگی کے چار مہینے ثنا نے جس آس کے سہارے گزارے تھے۔ وہ ٹوٹ گئی۔ آج جب میں یہ سطور لکھ رہی ہوں تو میرے پاس وہ الفاظ نہیں جو میں ثنا کا غم، اس کا کرب بیان کرنے کے لیے لکھ سکوں۔ کیا آنسو وہ لفظ ہے جو اس درد کو بیان کرے جو اس کی آنکھوں سے ٹپکتا تھا؟ کیا حزن اس کیفیت کے نام کے لیے کافی ہے جو اس کے چہرے پر رقم تھی؟ کیا وہ کپکپاہٹ تھی جو اس کے ہاتھوں میں تھی؟ کیا وہ چیخیں تھیں جو اس کے سینے میں گھٹ رہی تھیں؟ یہ تمام الفاظ بہت چھوٹے ہیں، بہت کم ہیں۔
بچپن میں فیصل کی کلاس میں ایک لڑکی پڑھتی تھی جسے وہ چپکے چپکے بہت پسند کرتا تھا۔ ہنی مون پر اس نے ثنا کو اس کے بارے میں بتایا ’’بڑی پیاری تھی عائلہ‘‘ فیصل نے معصومیت سے ثنا کو بتایا ’’اگر تم مجھے نہ ملتیں تو میں کسی طرح عائلہ کو ڈھونڈ ڈھانڈ کے اسی سے شادی کرتا۔‘‘ اس وقت ثنا اس سے خفا ہوگئی۔ بھلا ہنی مون پر بھی کوئی اپنے بچپن کی محبت کا ذکر کرتا ہے؟ لیکن جب فیصل کی بیٹی اس کی گود میں آئی تو اس نے اس کا نام عائلہ رکھا۔
آج عائلہ دس سال کی ہے۔ ہوبہو فیصل کی تصویر۔ وہی صورت، وہی دراز قد، ویسی ہی سبز آنکھیں اور وہی ان میں ناچتی شرارت۔ ثنا آج بھی اتنی ہی حسین ہے، صرف اس کی آنکھوں میں جوت نہیں ہلو کرتی تھی۔ عادل نے آج بھی شادی نہیں کی۔ زونیرہ آج بھی بے اولا ہے۔ وہ فیصل کو اپنا بیٹا کہتی تھی۔ فیصل کے بعد وہ اس رشتے سے اس قدر ڈر گئی کہ کسی کے ننھے ہاتھوں میں اپنا دل اور اپنے ہاتھ نہ دے سکی۔ یہ ہاتھ جب ہاتھوں سے چُھٹ جاتے ہیں تو کہیں کا نہیں چھوڑتے۔
فیصل کے کمرے میں اس کی ایک بڑی سی تصویر لگی ہے۔ اس کے خوبصورت چہرے کا کلوز اپ اس کی سبز آنکھیں مسکرا رہی ہیں۔ باتیں کرتے کرتے جب ثنا کی نظر اس تصویر پر پڑتی ہے تو خاموش ہوجاتی ہے۔ کیا کہہ رہی تھی، بھول جاتی ہے اور فیصل کی تصویر کو دیکھنے لگتی ہے۔ اس کی آنکھوں میں کوئی جگنو سا چمکتا ہے، اور وہ نظریں جھکا لیتی ہے اور اگر کبھی وہ نظریں اٹھالے تو ان آنکھوں میں دیکھنے کی تاب میں خود میں نہیں پاتی۔ وہ آنکھیں مجھ سے سوال کرتی ہیں ’’میرے محبوب نے تمہارے لیے جان دی۔ تاکہ تمہارے سہاگ سلامت رہیں اور تمہارے بچے کسی غم کی آگ میں نہ جھلسیں۔ تم نے اس کے صلے میں کیا کیا؟‘‘
میرے پیارے فیصل، میرے بیٹے، یہ کہانی تمہاری خوب صورت یاد کو زندہ کرنے کی ایک چھوٹی سی کوشش ہے۔ نہ میں تمہارے عظیم کردار کا احاطہ کرسکی۔ نہ تمہاری بے مثال قربانی کا۔ مگر وہ جو ایک پہاڑ سا قرض تمہارے ایثار کا مجھ پر واجب تھا، اس کا ایک چھوٹا سا حصہ اس کہانی کی صورت میں نے ادا کردیا۔
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

تھالی کا بینگن — کرشن چندر

Read Next

اردو سے پرہیز کریں — نوید اکرم

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!