سرد سورج کی سرزمین — شاذیہ ستّار نایاب

سرمد آفس سے باہر نکلا تو لو کے گرم تھپیڑوں نے اس کا استقبال کیا۔ اگرچہ شام ڈھل رہی تھی لیکن جون کا مہینہ تھا اور گرمی اپنے پورے جوبن پر تھی، ائیر کنڈیشنڈ دفتر سے نکل کر تو گرمی کی شدت اور زیادہ محسوس ہورہی تھی۔ پارکنگ تک پہنچتے پہنچتے وہ پسینے سے شرابور ہوگیا اس پر جھنجھلاہٹ طاری ہوگئی۔ اس نے ٹوپی سرپر جمائی اس کا گورا چٹا چہرہ اب گرمی سے لال ٹماٹر ہورہا تھا۔ اس نے موٹر سائیکل کو کِک لگائی اور تیزی سے سڑک پر لے آیا ہوا لگنے سے پسینہ خشک ہونے لگا لیکن ابھی تھوڑی دور ہی گیا تھا کہ موٹر سائیکل پنکچر ہوگیا۔
جھنجھلاہٹ چڑچڑاہٹ میں تبدیل ہوگئی۔ بادلِ نہ خواستہ موٹر سائیکل سے نیچے اُترا اور اسے گھسیٹتا ہوا پنکچر لگانے والے کے پاس لے آیا۔ پنکچر لگانے والا لڑکا ٹین کے شیڈ کے نیچے ایک چھوٹا سا پیڈسٹل فین لگائے پنکچر لگانے میں مصروف تھا۔
پنکچر لگوا کر نکلا تو سورج غروب ہونے کو تھا اس نے ایسے ہی سورج کی طرف نگاہ اٹھائی تو اس کی نظریں چندھیا سی گئیں۔
’’اف میرے خدا اس موسم میں تو ڈوبتا ہوا سورج بھی کسی کو یہ اجازت نہیں دیتا کہ اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھا جاسکے‘‘ سرمد نے سوچا اور موٹر سائیکل پر بیٹھ کر گھر کی راہ لی۔
گھر میں داخل ہوتے ہیں حسب معمول امی سے ٹاکرا ہوا وہ سلام کرتا ہوا دھم سے صوفے پر آبیٹھا۔ امی نے تسبیح پڑھتے ہوئے اشارے سے سلام کا جواب دیا اور اپنے خوبرو اور وجیہہ بیٹے کو دیکھا جس کے چہرے پر تھکن اور بے زاری تھی۔ پھر اسے سکنجبین لاکردی۔ کولر کی ہوا میں بیٹھ کر اور دوگلاس سکنجبین پی کر ذرا اس کے ہوش ٹھکانے آئے۔
بیٹے کو پرُسکون دیکھ کر ماں کے دل کو بھی سکون ملا تو پوچھا: ’’آج اتنی دیر کیوں کردی؟‘‘
یہ راحت بیگم کی بہت اچھی عادت تھی خواہ شوہر لیٹ آئے یا اولاد فوراً سوالوں کی بوچھاڑ نہیں کرتی تھیں پہلے گھر آنے والے کو پرُسکون کرنے کی کوشش کرتیں پھر اپنی تشویش سے آگاہ کرتیں۔
’’موٹر سائیکل پنکچر ہوگیا تھا اتنی دور تک گھسیٹ کر لانا پڑا۔‘‘ سرمد نے جواب دیا۔
“ہر روز ہی موٹر سائیکل کو کچھ نہ کچھ ہوجاتا ہے کبھی پلگ خراب تو کبھی پنکچر تو کبھی کچھ اور … ایک ہی بار اس کی صحیح طرح مرمت کرواؤ۔‘‘ امی نے مشورہ دیا۔
’’امی یہ ابو کا موٹر سائیکل ہے اتنے سال انہوں نے استعمال کیا اصولاً تو اسے بھی ابو کی ریٹائرمنٹ کے بعد ریٹائر ہوجانا چاہیے تھا سوچا تھا کہ نوکری ملے گی تو نیا خریدوں گا مگر اس تنخواہ میں……‘‘ سرمد نے فقرہ ادھورا چھوڑا۔
’’اللہ کا شکر ادا کرو بے روزگار نہیں ہو تنخواہ تھوڑی سہی مل تو رہی ہے اور بھی نئی نئی نوکری ہے آہستہ آہستہ تنخواہ بڑھ جائے گی۔‘‘ راحت بیگم نے بیٹے کو حوصلہ دیا۔
“توبہ… یہ امی کی قناعت پسندی اور شکر گذاری… ساری عمر ابو نے سرکاری محکمے میں نوکری کرکے صرف نیک نامی کمائی۔ امی نے کبھی شکایت نہیں کی۔ وہ تو اچھا ہوا کہ دادا کے چھوڑے ہوئے ترکے اور محکمے سے لون لے کر یہ گھر بنالیا ورنہ…‘ سرمد نے سوچا مگر منہ سے کچھ نہ بولا کیوں کہ پھر امی سے لمبا لیکچر سننا پڑجاتا۔
’’تم کیا سوچنے لگے…‘‘ راحت بیگم نے پوچھا۔
’’کچھ نہیں… میں ذرا کپڑے تبدیل کرلوں۔‘‘ سرمد نے کہا۔
’’ہاں جاؤ اور سنو تمہاری خالہ فرحت کی فیملی آرہی ہیں۔‘‘ امی نے کہا۔
’’خالہ فرحت… ڈنمارک سے…‘‘
’’وہ لوگ کیا کرنے آرہے ہیں؟‘‘ سرمد اکتا کر بولا۔
’’لوگ اپنے ملک کیا کرنے آتے ہیں؟‘‘ امی چڑ کر بولیں۔
’’ساری عمر باہر گزار کر مرنے آتے ہیں یا پھر بچوں کی شادیاں کرنے۔‘‘ توقیر صاحب نے تلخ لہجے میں اندر آتے ہوئے کہا۔
’’کیسی باتیں کررہے ہیں آپ اللہ میرے بہن بہنوئی کو زندگی اور تندرستی دے۔ ہاں شاید رانیہ کی شادی کے سلسلے میں آنا ہو۔‘‘ راحت بیگم نے کہا۔
’’کیا خالہ ہمارے گھر رہیں گی آکر؟‘‘ سرحد سے چھوٹی نزہت نے اشتیاق سے پوچھا۔
’’ہمارا گھر اس قابل ہے۔‘‘ سرمد نے کہا۔
’’میری بہن گھر سے ملنے نہیں مجھ سے ملنے آرہی ہے۔ رہے گی تو اپنے دیور کے گھر لیکن یہاں ایک دو دن تو ٹھہرے گی…‘‘ امی نے کہا۔
سرمد نے امی کو دیکھا وہ بہن کے آنے پر خوش تھیں اور اس نے مزید کچھ کہہ کہ ان کی خوشی کو خراب کرنے کی کوشش نہ کی۔
٭٭٭٭
فرحت خالہ نے آتے ہی رینٹ اے کار سے ایک گاڑی مع ڈرائیور لی اور سب رشتہ داروں کے ہاں آنا جانا شروع کیا۔ ان کے پاس دن بہت کم تھے وہ سب سے ملنا چاہتی تھیں اور رانیہ کی شادی کا مسئلہ بھی درپیش تھا۔ سسرال میں سب سے مل کر وہ راحت بیگم کے گھر پہنچی، بے شمار تحفے ان کے ساتھ تھے۔
سرمد اور اس کے چھوٹے بہن بھائیوں کا خیال تھا کہ وہ ان کے چھوٹے سے گھر میں آکر تنگ ہوں گی مگر وہ تینوں تو نہایت آرام سے بیٹھے تھے۔
’’پاکستان کیسا لگا تمہیں؟‘‘ رانیہ سے نزہت نے پوچھا۔
’’اچھا ہے لیکن بہت گرمی ہے۔‘‘ رانیہ مسکرائی۔
’’آپ لوگ دسمبر جنوری میں آتے نا۔‘‘ نگہت نے کہا۔
’’ارادہ تو یہی تھا مگر ممی ڈیڈی کو آم کھانے تھے۔‘‘ رانیہ مسکرائی
’’تم اردو اچھی بول لیتی ہو‘‘۔ سرمد سے چھوٹے اظہر نے کہا۔
’’وہاں گھر میں ہم اردو بولتے ہیں اور باہر ڈینش اس لیے اردو آتی ہے اور تھوڑی تھوڑی پنجابی بھی‘‘۔ رانیہ بولی۔
’’السلام علیکم…‘‘ سرمد نے اندر داخل ہوتے ہوئے کہا اور اسے دیکھ کر حیرت ہوئی کہ رانیہ سب کے ساتھ بڑی بے تکلفی سے بیٹھی تھی۔
فرحت خالہ نے بے اختیار اسے دیکھ کر گلے لگایا۔ ماتھا چوما۔ ’’ماشاء اللہ میرا بیٹا۔‘‘ خالو نے بھی گلے لگایا۔
’’ممی آپ ٹھیک کہتی تھیں پاکستانی مرد بے حد خوبصورت ہوتے ہیں۔‘‘ رانیہ نے خوبرو اور وجیہہ سرمد کو دیکھتے ہوئے کہا۔ سرمد کو اپنی وجاہت کا پورا احساس تھا یونیورسٹی میں سینکڑوں لڑکیاں اس پر مرتی تھیں لیکن اپنے والدین اور چھوٹے بھائی بہنوں کے سامنے اس بے باکی سے کی گئی تعریف سُن کر وہ جھینپ گیا۔
خالہ اور خالو نے قہقہہ لگایا۔ تھوڑی دیر بعد سب گُھل مل کر باتیں کررہے تھے اس کی وجہ خالو، خالہ اور رانیہ کا بے تکلف رویہ تھا۔
’’میں لاہور کی سیر کرنا چاہتی ہوں۔‘‘ رانیہ نے فرمائش کی۔ ’’ضرور بیٹا ضرور دیکھو۔‘‘ راحت بیگم نے کہا۔




Loading

Read Previous

داستانِ محبّت — سارہ قیوم (دوسرا اور آخری حصّہ)

Read Next

لبِ قفل — راحیلہ بنتِ میر علی شاہ

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!