داستانِ محبّت — سارہ قیوم (دوسرا اور آخری حصّہ)

’’ میرے پا س تمہارے لیے ایک سرپرائز ہے۔ ‘‘ مریم نے کمرے میں آکر ہاتھ میں پکڑا ہوا لفافہ لہراتے ہوئے کہا ۔
’’کیسا سرپرائز؟‘‘ شیلف پر کتابیں ٹھیک کرتی ثنا کے ہاتھ رک گئے ۔
’’یہ دیکھو۔‘‘ مریم نے لفافہ اس کی طرف بڑھادیا۔ ثنا ء نے لفافہ کھول کر اندر سے کاغذ نکال لیا۔ بے ساختہ بولی:
’’پی ایم اے ۔۔۔۔‘‘ اس کا جملہ ادھورا رہ گیا ۔سرخ چہرے کے ساتھ وہ ہنس پڑی ۔ اس نے رخ موڑ لیا اور دوبار ہ سے شیلف پررکھی ہوئی کتابیں ٹھیک کرنے لگی ۔ مریم نے اس کے ہاتھ سے لفافہ اچک لیا ۔
’’ہمارے فوجی برادران نے ترک سفید کے اعزاز میں ایک تقریب پر وقار کا اہتمام کیا ہے ۔ ازراہِ کرم ہمیں بھی دعوت نامہ بھیج دیا ۔ لیکن ہم تو جا نہیں رہے ۔دعوت نامہ ضائع ہو گیا بے چاروں گا ۔‘‘ مریم دھم سے بستر پر گر پڑی ۔
’’کیوں کیوں نہیں جارہے ؟ ابو کی جاب کا تقاضہ ہے جانا۔‘‘ثنا ء تیزی سے اس کی طرف گھومی۔
’’ہاں تو وہ چلے جائیں گے ۔ امی کا کہنا ہے ہمیںجانے کی کوئی ضرورت نہیں ۔‘‘ مریم نے بے نیازی سے کہا۔ ثنا کا چہرہ اتر گیا ۔ وہ خاموش ہو گئی ۔مریم کو اس پر ترس آگیا ۔
’’اچھا اب رونا نہ شروع کردینا ۔ چپ کر کے دیکھتی جاؤ میں کیا کرتی ہوں ۔‘‘ اس نے چٹکی بجاتے ہوئے کہا ۔
شام کو اس کی لیڈیز کلب کی فرینڈ مسز اطہر کا فون آگیا ۔
’’میں نے سنا ہے آپ لوگ پی ایم کے فنکشن میں نہیں آرہے؟‘‘ انہوں نے پوچھا ۔
’’آپ کو کس نے بتایا ؟‘‘امی حیران ہوئیں ۔
’’صبح مریم سے بات ہوئی تھی اس نے بتایا ۔ مسز قریشی تھوڑے سے تو ہم یہاں لوگ ہیں ۔ مل بیٹھنے کا بہانہ چاہیے اور میرا سکندر بھی بڑا پُرجوش ہے کہ علی سے ملے گا ۔آپ لوگ ضرور آئیے گا ۔‘‘
اگلے دن دوپہر تک چار مزید خواتین کے فون آگئے تو امی مجبور ہو گئیں ۔ انہیں تقریب پر سب کو لے کر جانا پڑا۔ ثنا نے بہت خوب صورت گلابی لباس پہنا ، فنکشن خاصا بورنگ تھا ۔ کچھ تقریریں ہوئیں ، چند گیت گائے گئے پھر ڈنر ہوا ۔ فیصل دوردور سے ثنا کو دیکھتا رہا ۔وہ یہ دیکھ کر محظوظ ہورہا تھا کہ ثنا کی نظریں کسی کو ڈھونڈھ رہی ہیں ۔ثنا پورے ہال میں ایک ہی چہرہ دیکھنے کی کوشش کرتی رہی۔ سب ٹوپیوں والے ایک جیسے نظر آتے تھے اور جنہوں نے ٹوپیاں نہیں پہن رکھی تھیں ، ان کے پیالا کٹ بال ایک ہی مشین سے نکلے ماڈل لگتے تھے ۔ لیکن ڈنر کے بعد جب سب مہمان ٹولیوں کی صورت میں اِدھر اُدھر کھڑے ہو کر باتیں کرنے لگے تو ثنا کو وہ نظر آگیا ۔ نظر آنا مشکل بھی نہ تھا ۔اس نے تو بس یہ کیا کہ پورے ہال میں سب سے لمبے شخص کو ڈھونڈا اور وہ وہی نکلا ۔ ثنا کی اس سے نظریں ملیں تو وہ مسکرایا اور چپکے سے ہاتھ اٹھا کر اسے سیلوٹ کیا ۔ ثنا مسکرائی، وہ خواتین کے ایک گروپ کے ساتھ کھڑی تھی ۔ غیر محسوس طریقے سے وہ ان سے الگ ہوئی اور مریم کی طرف چلی ۔ ابھی آدھا راستہ ہی طے کیا تھا کہ وہ بھاری قدم اس کے ساتھ چلنے لگے۔
’’ہیلو۔‘‘ فیصل نے مسکرا کر کہا۔
’’ہیلو!‘‘ ثنا بھی مسکرائی۔
’’کیسی ہیں آپ؟‘‘





’’بہت اچھی۔‘‘ اس نے شوخ و چنچل لہجے میں کہا۔
’’کوئی شک نہیں! ‘‘ وہ بھی اسے چھیڑتے ہوئے بولا تو دونوں ہنس پڑے ۔
’’آپ نے میرے سلام کا جواب نہیں دیا۔‘‘ فیصل نے کہا۔
’’آپ نے سلام کب کیا؟‘‘ ثنا نے حیران ہو کر پوچھا۔
’’وہاں کھڑے ہوئے۔ ‘‘ فیصل نے انگلی سے اشارہ کیا ۔
’’وہ تو سیلوٹ تھا۔‘‘ اس نے معصومیت سے کہا۔
’’سیلوٹ ویسا تھوڑی ہوتا ہے۔‘‘
’’پھر کیسا ہوتا ہے ؟‘‘
’’آئیے میں آپ کو دکھاتا ہوں ‘‘۔ وہ جس دیوار کے ساتھ چل رہے تھے اس میں فاصلے سے کئی دروازے برآمدے کھلتے تھے ۔ فیصل نے ایک دروازہ کھولا اور دونوں باہر برآمدے میں نکل آئے ۔ آوازوں کے شور سے نکل کر برآمدہ بہت خاموش معلوم ہوا۔ فیصل اس کے سامنے سینے پر ہاتھ باندھ کر کھڑا ہو گیا اور مسکراتی نظروں سے اسے دیکھنے لگا ۔
’’آپ بہت اچھی لگ رہی ہیں۔‘‘ اس نے دھیمی آواز میں کہا ۔
’’شکریہ!‘‘ وہ کچھ دیر خاموش رہی ۔
آپ نے کھانا ٹھیک سے کھایا؟‘‘ فیصل نے آداب میزبانی نبھائے ۔
’’جی۔‘‘ ایک بار پھر طویل خاموشی ۔
’’ایک بات بتائیے، یہ جو آپ گردن میں اس قدر اکڑا ہو ا کالر پہنتے رہتے ہیں ، اس سے آپ کی گردن ہلنے جلنے کے قابل رہتی ہے ؟‘‘آخر ثنا نے کہا۔
جواب میں اس نے مسکراتے ہوئے اسے دائیں سے بائیں گردن ہلا کر دکھائی ۔
’’ویسے گردن اس طرح ہلتی اچھی نہیں لگتی۔ ایسے ہلتی اچھی لگتی ہے۔‘‘ اس نے گردن ہاں کے انداز میں اوپر نیچے ہلائی۔
ثنا ہنس پڑی۔ وہ دونوں برآمدے میں آہستہ قدموں سے چلنے لگے ۔
’’اکیڈمی کیسی لگی آپ کو ہماری؟‘‘ فیصل نے پوچھا۔
’’اچھی ہے مگر یہ جو اس کے درودیوار ان نعروں سے بھرے ہیں۔ ‘‘ ثنا نے دیوار پر ایک پوسٹر کی طرف اشارہ کیا جس پر بڑے بڑے الفاظ میں ’شہید کی جو موت ہے وہ قوم کی حیات ہے‘ لکھا تھا ۔ ثنا نے اپنی بات جاری رکھی :
’’انہیں دیکھ کر خواہ مخواہ شہید ہونے کو دل چاہتا ہے ۔‘‘
’’یہ ہماری ٹریننگ کا حصہ ہے۔ ابھی تو آپ نے رسال پور اکیڈمی نہیں دیکھی ۔ وہاں تو کوئی کونا بھی اس یادہانی سے خالی نہیں۔‘‘ فیصل مسکرایا۔
’’وہ تو ائیر فورس کی اکیڈمی ہے نا؟ آپ وہاں بھی رہ چکے ہیں ؟‘‘ ثنا نے پوچھا ۔
’’میں اصل میں Army Aviation میں ہوں۔ فلائنگ ٹریننگ کے لیے کچھ عرصہ وہاںگزار چکا ہوں۔‘‘
’’رئیلی؟‘‘ کیا اُڑاتے ہیں آپ ؟‘‘ اس نے حیرانی سے اس سے پوچھا۔
’’گپیں !‘‘ اس کی آنکھیں شرارت سے چمک رہی تھیں ۔
’’ان کے علاوہ ؟‘‘ ثنا نے ہنستے ہوئے پوچھا ۔
’’ہیلی کاپٹر! ‘‘
’’wow!‘‘ اس نے سراہنے والے انداز میں کہا۔
’’اور آپ کیا کرتی ہیں ؟‘‘ فیصل نے پوچھا۔
’’پڑھتی ہوں، فائن آرٹس۔‘‘
’’ارے واہ یعنی آرٹسٹ ہیں ۔ کیابناتی ہیں آپ ؟‘‘
’’باتیں! ‘‘ثنا نے مسکرا کر کہا
’’ان کے علاوہ ؟‘‘ فیصل کی ہنسی میں کھنک تھی ۔
’’Miniature paintings ‘‘
’’میرا miniature بنائیں گی آپ؟‘‘
’’ہیلی کاپٹر میں ride دیں گے آپ؟‘‘ اس نے الٹا سوال داغا۔
’’افسوس! میں civilians کو ride نہیں دے سکتا۔ ‘‘ اس نے سر جھکا کرکہا ۔
’’افسوس! میں اتنے لمبے آدمیوں کے miniature نہیں بنا سکتی ‘‘ فوراً جواب آیا۔
دونوں پھر سے ہنسنے لگے ۔ ٹہلتے ٹہلتے وہ ایک چکر لگا کرپھر اسی دروازے کے پاس آنکلے جہاں سے و ہ برآمدے میں نکلے تھے ۔ تا دیر وہ وہاں خاموشی سے کھڑے رہے ۔ اندر ہال سے ہنسنے بولنے کی آوازیں آرہی تھیں اور ان دونوں کے بیچ بہت بولتی ہوئی خاموشی آن ٹھہری تھی ۔
’’مجھے چلنا چاہیے۔‘‘ آخر ثنا نے کہا۔
’’پھر کب ملیں گی؟‘‘ فیصل نے بے تابی سے پوچھا۔
’’جب قسمت میں ہوا ۔‘‘ ثنا نے گویا بے نیازی دکھائی۔
’’خدا حافظ!‘‘ ثنا نے کہا۔
’’خدا حافظ ‘‘ فیصل نے بجھے دل سے جواب دیا ۔
ثنا مڑ کر دروازے تک گئی تب اچانک اسے خیال آیا۔
’’ارے ہاں ! وہ سیلوٹ تو رہ ہی گیا۔‘‘ اس نے مڑ کر کہا۔
فیصل جو پشت پر ہاتھ باندھے کھڑا تھا، مسکرایا، بازو سیدھے کیے ، سر اونچا کیا اور زور دار قدم فرش پر دھمک کر سیلوٹ کیا ۔ بڑی پیاری مسکراہٹ ثنا کے چہرے پر طلوع ہوئی ۔ وہ مڑی اور دروازہ کھول کر اندر چلی گئی۔
٭…٭…٭
عطیہ نے زنیرہ کے کمرے پر دستک دی ۔ زنیرہ نے اٹھ کر دروازہ کھولا ۔
’’دروازہ لاک کر کے کیوں بیٹھی تھیں بیٹا ؟‘‘ عطیہ نے پوچھا ۔ جب کہ زنیرہ نے خالی خالی نظروں سے انہیں دیکھا۔
’’ویسے ہی لاک ہو گیا امی۔ مجھے پتا نہیں چلا۔‘‘ اس نے با ت ادھوری چھوڑ دی
’’آؤ کھانا کھا لو! ‘‘ عطیہ نے اس کے ماتھے پر آئے بال پیچھے کرتے ہوئے کہا ۔
’’آپ جائیں میں آتی ہوں ‘‘ وہ مڑتے ہوئے بولی
’’نہیں! تمہیں ساتھ لے کر جاؤں گی ۔ دادی انتظار میں بیٹھی ہیں ۔‘‘ انہوں نے آگے بڑھ کر اس کا بازو تھام لیا۔
عطیہ اسے لیے ڈائننگ روم میں آئیں تو دادی نے عینک کے پیچھے سے اسے غور سے دیکھا۔
’’ادھر آؤ زنیرہ میرے پا س بیٹھو۔‘‘ انہوں نے اپنی ساتھ والی کرسی تھپتھپائی ۔زنیرہ خاموشی سے ان کے پاس بیٹھ گئی ۔
’’بڑی کم زور ہو گئی ہے، سالوں کی مریض لگتی ہے ۔‘‘وہ اس کی پلیٹ میں کھانا ڈالتے ہوئے بڑبڑانے لگیں۔
’’بس آپ کو پتا ہے اماں یہ آج کل کی لڑکیاں کہاں اپنے کھانے پینے کا خیال کرتی ہیں ۔‘‘ عطیہ نے سلاد کی ڈش ان کے آگے کرتے ہوئے کہا ۔
’’بس اب یہ جتنے دن یہاں ہے اسے خوب کھلاؤ پلاؤ ۔ ہائے ہائے مجھے تو وہ بھینس بڑی یاد آتی ہے۔ وہ ہوتی تو اس کو خوب دودھ بالائی کھلاتے۔‘‘ دادی کی گاڑی یونہی کہیں سے کہیں جا نکلتی تھی۔
’’لو! وہ تو جب فیصل ہاسٹل گیاتھا تب ہی بیچ دی تھی ۔ایک وہی تھا دودھ کا شوقین ۔‘‘عطیہ نے پیار سے فیصل کا نام لیا۔
’’اے زنیرہ کب تک ہے تو یہاں؟ کتنے دن کے لیے آئی ہو ؟‘‘ دادی نے پوچھا
’’رہوں گی دادی کچھ دن ۔‘‘ زنیرہ نے آہستہ سے کہا۔
دادی کچھ دیر اسے پرسوچ نظروں سے دیکھتی رہیں پھرآگے بڑھ کر اس کا سر دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر اپنے کندھے سے لگا لیا۔
’’تو کیوں پریشان رہتی ہے میری بچی ؟اللہ کے گھر دیر ہے اندھیر نہیں ۔ وہ دے گا تجھے اولاد۔ اس طرح دل سے لگا بیٹھے گی تو شوہر سے بھی دور ہو جائے گی۔ ‘‘ انہوں نے اس کی دل جوئی کی۔
زنیرہ کی آنکھیں بھر آئیں ۔ کیا کہے کس فاصلے پر کھڑی تھی وہ اپنے شوہر سے اور کسی وجہ سے؟‘‘
’’ہر طرح کا علاج کر وا کر دیکھ لیا ۔ کبھی آئی وی ایف تو کبھی ہارمونز ، اب ریلکس کرو ۔ اللہ کرم کرے گا۔‘‘ عطیہ نے اسے تسلی دیتے ہوئے کہا۔
زنیرہ خاموشی سے کھانا کھاتی رہی ۔ کیوں نہیں بتادیتی وہ اپنے گھر والوں کو کہ وہ عامر کو چھوڑ آئی ہے ؟ وہ اپنے آپ سے ہی پوچھتی ۔ شاید اس وجہ سے کہ وہ ان کو پریشان نہیں کرنا چاہتی ؟ شاید اس لیے کہ اس کے گھر والوں نے عامر کو عزت کے بہت اونچے درجے پر بٹھا رکھا تھا ۔ ان کی بیٹی اسے اولاد نہیں دے سکی اس نے اسے عزت سے گھر میں بسائے اور ہر طرح کا عیش فراہم کیا ۔ وہ جانتی تھی کہ اپنا کیس لڑنے کے لیے شاید اسے اپنے گھر والوں سے کوئی سپورٹ نہ ملے ۔ انہیں یہ بتانا کہ اس کا شوہر اس پر کسی دوسری عورت کو فوقیت دے رہا تھا ۔ اس کے پندار کے لیے ایک بہت بڑا تازیانہ تھا جو وہ اپنے ہاتھوں سے اپنے اوپر نہیں برسا سکتی تھی ۔ وہ گومگو کے عالم میں سب کی باتیں سنتی رہتی اور ایک ایک کی شکل دیکھتی رہتی ۔
حمیرا اسے روز فون کرتی تھی۔ اس کی ایک ہی رٹ تھی: ’’اپنا گھر مت چھوڑو ۔واپس چلی جاؤ ‘‘
زنیرہ نے اس کا فون اٹھانا چھوڑ دیا ۔ کمرے میں بندرہنے لگی ۔ نہ کہیں آتی جاتی ، نہ کسی آئے گئے کا سامنا کرتی ۔ عطیہ کو تشویش ہونے لگی ۔ انہوں نے کرید کرید کر پوچھنا شروع کیا ، نتیجہ یہ ہوا کی وہ ان کے پاس بیٹھنے سے بھی کترانے لگی ۔ عطیہ کا دل اسے دیکھ دیکھ کر پگھلتا تھا ۔ وہ ان کی پہلوٹھی کی اولاد تھی ۔ وہ ان عورتوں میں سے تھیں جو اپنے تواپنے، پرائے بچوں پر بھی جان چھڑکتی تھیں ۔ انہوں نے کبھی اپنے بچوں کو پھولوں کی چھڑی بھی نہ لگائی تھی ۔ زنیرہ ان کی شادی کے تین سال بعد پیدا ہو ئی تھی اور ان کی روکھی پھیکی زندگی میں بہار کا سندیسہ لائی تھی ۔ انہوں نے اسے بے حد لاڈ سے پالا تھا ۔ اس پر ذرا سی بھی آنچ برداشت نہ تھی ان کو اور صرف اسی پر کیوں ؟ اپنے تینوں بچوں کیلئے ان کایہی عالم تھا ۔ ہر ماں کا ہوتا ہے ۔ عادل سے ان کی اتنی دوستی تھی کہ وہ اپنی گرل فرینڈز سے انہیں ملوایا کرتا تھا اور فیصل، ان کا سب سے لاڈلا بچہ تھا۔ عادل کے برعکس وہ صرف پیار لیناہی نہیں جانتاتھا ، اسے پیار کرنا بھی آتا تھا ۔ جب کالج میں زنیرہ شدید بیمار ہوئی تھی تو چھٹیوں میں گھر آیا ہوا تھا ۔ اپنی ساری چھٹیاں اس نے اپنی آپی کی پٹی سے لگ کر گزار دی تھیں ۔وہ ہسپتال جاکر بیٹھا رہتا ۔ ڈاکٹروں سے اس کی طبیعت کے بارے میں معلومات لیتا اور اس کی رپورٹس ڈسکس کرتا ۔ زنیرہ کی بیماری کی سمجھ نہ آتی تھی ۔ اس کے سب ٹیسٹ کلیئر تھے ۔ ان دنوں سرور کی پریشانی کا یہ عالم تھا کہ اکثر پورا پورا دن ایک چائے کے کپ کے سوا ایک کھِیل بھی ان کے منہ میں نہ جاتی ۔ عطیہ نماز پڑھنے کھڑی ہو تیں تو آنسوؤں سے ان کا دوپٹہ بھیگ جاتا ۔ دادی لمبے لمبے سجدے کرتیں لیکن بیماری پکڑ میں نہ آتی تھی ۔ان کے جگر کا ٹکڑا ان کے سامنے گھل گھل کر ختم ہورہا تھا۔
پھر اللہ نے ایک فرشتہ بھیجا۔ اس کی دوست حمیرا سید خاندان سے تھی ۔ نیکوکاروں ، بزرگوں اور ، اولیاء کا خاندان اور وہ اپنی امی کے ساتھ زنیرہ کا حال پوچھنے آئی ۔ اس کا حال تھا ہی کیا جو پوچھا جاتا؟ انہوں نے عطیہ اور سرور سے التجا کی:
’’پتا نہیں آپ لوگ ان چیزوں کو مانتے ہیں یا نہیں لیکن ہر طرح کا علاج آپ کروا چکے ہیں۔ علاج ضرور جاری رکھیے لیکن ایک دفعہ میرے ساتھ چل کر سید صاحب سے ضرور مل لیجئے ۔ میرے سسر کے بھائی ہیں ، نیک بزرگ ہیں ۔ شاید اللہ ان کی دعا میں برکت ڈال دے ۔‘‘
ڈوبتے کو تنکے کا سہارا ،عطیہ زنیرہ کو سید صاحب کے پاس لے گئیں ۔انہوں نے زنیرہ پر دم کیا اور پنج وقتہ نماز کے ساتھ نظرکی دعا پڑھنے کی تاکید کی ۔ خوراک میں کچھ احتیاط بتائی اور صبر کے ساتھ علاج جاری رکھنے کو کہا ۔
الگے ہی دن زنیرہ کی طبیعت سنبھلنے لگی ۔ ماں باپ کے لیے یہ معجزہ تھا ۔ انہوں نے کبھی دم درود ، جھاڑ پھونک پر یقین نہ کیا تھا۔ اب اپنی اولاد کے لیے ہر جگہ ٹکریں مارتے رہے تھے ۔سید صاحب کے لیے ان کی شکر گزاری کی کوئی انتہا نہ تھی۔ دو تین مرتبہ وہ مزید ان کے پاس گئے۔ حتیٰ کہ زنیرہ مکمل طور پر صحت مند ہو گئی اور کالج جانے لگی ۔آہستہ آہستہ وقت نے ان کرب ناک یادوں کو دھندلا دیا۔
عطیہ زنیرہ کو یوں گھلتے دیکھتی تھیں تو ان کا کلیجہ منہ کو آتا تھا ۔ وہ اس کی اداسی اور ڈپریشن کو اولاد سے محرومی کے دکھ کے کھاتے میں ڈالتی تھیں اور یہ وہ چیز نہیں تھی جو وہ اسے کہیں سے بھی لا دیتیں ۔
بڑے دنوں بعد زنیرہ لاؤنج میں آکر ان کے پاس بیٹھی تھی تو عطیہ کھل اٹھیں ۔ فوراً ملازم کو چائے کا آ رڈر دیا ۔ سموسے لاؤ، رول فرائی کرو، وہ کیک بھی پڑا ہے فریج میں ۔۔۔
’’امی ! میں نے کل سید صاحب کو خواب میں دیکھا۔‘‘ زنیرہ نے ان کی بات کاٹ دی ۔
’’ کیا دیکھا ؟‘‘ عطیہ جہاں تھی وہاں رک گئیں۔
’’ میں نے دیکھا کہ وہ صحن دھو رہے ہیں۔‘‘ زنیرہ نے کچھ الجھے ہوئے انداز میں کہا تو عطیہ اور سرور نے ایک دوسرے کو دیکھا ۔
’’ہمیں ان سے ملنا چاہیے ۔ ‘‘ عطیہ نے کہا ۔
’’ چلو میں لے چلتا ہوں ۔‘‘ سرور نے اس کا چہرہ پڑھنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔
’’ نہیں ابو! میں ان کے پاس اکیلے جانا چاہتی ہوں۔‘‘ زنیرہ نے اپنی بجھی ہوئی آنکھیں جھکا لیں۔
عطیہ نے آنکھوں ہی آنکھوں میں سرور کو اشارہ کیا ۔ یہ ان کی چھوٹی سی بیٹی نہیں تھی جسے وہ ہاتھوں پر اٹھائے پھرتے تھے ۔ وہ اب خود مختار عورت تھی۔ اب اس کے معاملات میں دخل اندازی کرنا کرنا مناسب نہیں تھا۔
’’ ٹھیک ہے بیٹا جیسے تمہارا دل چاہے ۔ آج تو گاڑی فارٖغ نہیں ہے۔دادی کو ڈاکٹر کے پاس لے کر جانا ہے ۔کل فیصل آ رہا ہے، تم چاہو تو اس کے ساتھ چلی جانا ورنہ خود ہی ہو آنا۔‘‘عطیہ نے تسلی دینے والے انداز میں کہا۔
اگلے دن فیصل آیا تو ایک نئی خبر لایا۔
’’آپی میں آپ کے گھر سے ہوتا ہوا آرہا ہوں ، عامر بھائی سے کام تھا مجھے۔ وہ تو بڑے سخت بیمار ہیں۔‘‘
زنیرہ خاموش رہی ۔ اس کی خاموشی کو سب نے محسوس کیا ۔
‘‘کیا ہوا عامر کو؟ ‘‘ عطیہ نے پوچھا
’’ٹائی فائیڈ!‘‘ اس نے اطلاع دی ۔
’’ ہائے! زنیرہ تمہیں اس نے نہیں بتایا کہ وہ اتنا بیمار ہے؟ تم یہاں سکون سے بیٹھی ہوں ۔ تمہیں فوراً اس کے پاس جانا چاہیے۔‘‘عطیہ نے بے اختیار سینے پر ہاتھ رکھا۔
زنیرہ سر جھکائے بیٹھی رہی۔ عطیہ نے آنسوٹپ ٹپ اس کی گود میں گرتے دیکھا ۔
’’ زنیرہ!!!‘‘
ان کی بات مکمل ہونے سے پہلے ہی وہ جھٹکے سے اٹھی اور بھاگ کر انپے کمرے میں چلے گئی۔
’’فیصل!‘‘ تم آج ہی اس کو سید صاحب کے پاس لے جاؤ ۔پتا نہیں کیا بات دل میں چھپائے بیٹھی ہے۔ نہ منہ سے کچھ کہتی ہے نہ دل کا حال بتاتی ہے ‘‘۔انہوں نے ہول کر کہا۔
فیصل بھی تشویش سے زنیرہ کے کمرے کے بند دروازے کو دیکھتا رہا ۔
’’ میں بات کرنے کی کوشش کرتا رہا ہوں ۔ آپ فکر نہ کریں ‘‘۔اس نے انہیں تسلی دی۔
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

اردو سے پرہیز کریں — نوید اکرم

Read Next

سرد سورج کی سرزمین — شاذیہ ستّار نایاب

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!