گھر — مدیحہ ریاض

میں چھے سال کی تھی جب ’’اپنے‘‘گھر کے خواب دیکھنے شروع کیے۔ ’’اپنا‘‘ گھر،ایک خوبصورت، چھوٹا سا ، سرخ اینٹوں والا گھر جس کا صحن میں روز صبح پائپ لگا کر دھویا کروں گی اور جس کے اطراف میں سبز پودوں کی قطار ہو گی۔ اس گھر کا نقشہ میرے ذہن میں کبھی نہیں بدلا۔ ایک وقت ایسا بھی آیا جب وہ گھر میرے لیے اس مکان سے زیادہ حقیقی ہو گیا تھا جس میں، میں رہ رہی تھی۔
وہ مکان بھی برا نہیں تھا۔ ٹھیک تھا۔ مجھے کبھی بھی بڑے گھروں کی خواہش نہیں رہی۔ اس لیے وہ دو کمرے کا مکان مجھے کچھ زیادہ برا نہیں لگتا تھا، لیکن وہ ’’اپنا ‘‘ نہیں تھا اور ’’گھر‘‘ بھی نہیں تھا۔ وہ بس ایک جگہ تھی جہاں ہم رہتے تھے۔
’’گھر وہ ہوتا ہے جہاں سب ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں۔ ‘‘بہت روایتی جملہ ہے۔ لیکن میں نے بہت سوچ کر لکھا ہے۔
میں سوچتی رہی کہ گھر کیا ہوتا ہے، کیا تعریف ہے گھر کی۔ اُسے کیسے بیان کر سکتے ہیں؟ کیا چیزیں ہوں گی جن کی موجودگی کی وجہ سے کوئی مکان گھر کہلائے گا؟
گھر وہ ہوتا ہے جہاں شام کو تھکے ہارے واپس لوٹنے کو دل کرے۔ جہاں وہ چند لوگ رہتے ہیں جو آپ کی پوری دنیا ہوتے ہیں۔جہاں آپ سب سے اہم، ضروری اور معتبر ہوتے ہیں۔




گھر میں آپ کا خیال رکھا جاتا ہے، آپ کی پروا کی جاتی ہے، آپ کی پسند نا پسند کوئی معنی رکھتی ہے اور اس مکان میں ایسا کچھ نہیں تھا۔ وہ جگہ ہماری پناہ گاہ تو تھی، اتنی بڑی دنیا میں اپنی ایک چھت، لیکن وہ چھت چھن جانے کا دھڑکا اسے کبھی ’’اپنا‘‘ نہیں ہونے دیتا تھا اور یہ دھڑکا ہمیشہ لگا رہتا تھا۔امی ابو سے ہر لڑائی میں انہیں گھر چھوڑ جانے کی دھمکی دیتیں اور ابو ڈھیلے پڑ جاتے۔ لڑائی ختم ہو جاتی۔ کم سے کم اگلی بار تک کے لیے، لیکن ہمارے دل سے گھر چھُٹ جانے کا خوف نہ جاتا۔
’’میں رہوں گی تم جیسے آدمی کے ساتھ؟‘‘وہ سوال نہیں طمانچہ ہوتا تھا۔’’نہ تمہاری شکل نہ صورت اور نہ کرتوت!‘‘ وہ کہتیں تو ابو کو تھیں، لیکن یہ سب جملے مجھے خود پر تنے ہوئے لگتے۔ میں اور ماند پڑتی اور چھوٹی اور خوف زدہ۔ دماغ سے سرخ اینٹوں والا وہ گھر غائب ہو جاتا اور میں خوف زدہ آنکھوں سے چھپ چھپ کر ابو کو دیکھتی رہتی۔ وہ کبھی رو کر منت سے امی کو روکتے، کبھی جھنجلا جاتے اور کبھی تنگ آ کر ہاتھ جوڑ دیتے۔ لڑائی کے دوران کچھ جملے ایسے تھے جو ہر بار کہے جاتے۔ وہ ہمیں اتنے ازبر ہو چکے تھے کہ لڑائی میں کس موقع پر اب بس وہ کہے جانے والے تھے، ہمیں پتا ہوتا تھا۔ ان جملوں میں ابو کی شکل و صورت اور کردار کے علاوہ پاکستان کے فیملی کورٹ لا کی بھی کچھ شقیں شامل ہوتی تھیں۔
’’اتنے چھوٹے بچے کوئی عدالت تمہیں رکھنے نہیں دے گی۔ میں اپنے بچے ساتھ لے کے جاؤں گی۔ ‘‘ اور ابو کی رہی سہی ہوا بھی نکل جاتی۔ کیوں کہ ہم بچوں میں، خاص طور پر مجھ میں، ان کی جان تھی۔ بعض اوقات لڑائی اس نہج پر پہنچ جاتی جہاں انہیں لگتا کہ اب ان کی منت زاری بھی کام نہیں آئے گی اور اس بار تو گھر ٹوٹا ہی ٹوٹا۔ ایسے چند مواقع پر ایک دو بار انہوں نے روتے ہوئے چپکے سے مجھے اپنے پاس بلا کر پوچھا تھاکہ میں کس کے ساتھ رہنا چاہوں گی۔
میں ایک بات آپ سب سے کہنا چاہتی ہوں۔ جب آپ اپنے چھوٹے بچوں کے سامنے لڑیں تو کچھ بھی ہو جائے، ان سے یہ کبھی نہ پوچھیں کہ وہ ماں اور باپ میں سے کس کے ساتھ رہنا چاہیں گے۔ اس سوال سے زیادہ خود غرضانہ، ظالم اور خوف زدہ کر دینے والی ایسی کوئی بات نہیں جو آپ اپنی اولاد سے کہہ سکتے ہیں۔
میں اپنے ابو سے بہت پیار کرتی تھی، لیکن ایک دو بار جب انہوں نے مجھ سے یہ سوال کیا، مجھے ان سے سخت نفرت محسوس ہوئی اور ان پر ترس بھی آیا۔
وہ ہمارے والدین تھے۔ ہماری حفاظت کرنا، ہمیں محبت دینا، تحفظ کا احساس دلانا، ہمارے لیے قربانی دینا ان کی ذمے داری تھی۔ جب آپ پیرنٹ بن جاتے ہیں، تو آپ کے پاس خود غرض ہونے کا کوئی راستہ نہیں بچتا۔ آپ کی ہمت کیسے ہوئی کہ آپ چھے سال کے بچے سے اتنا تلخ اور قیامت ڈھا دینے والا سوال کریں! ایک ایسا سوال جس کا جواب انہیں ساری زندگی کنفیوز رکھے گا۔ زندگی کی کوئی خوشی، کوئی موڑ ،کوئی کامیابی ان کی یہ الجھن دور نہیں کر پائے گی۔
اور مجھے ان پر ترس آتا تھا کہ وہ اتنے کمزور ، بے بس اور خوف زدہ انسان کیوں تھے۔ کیوں انہوں نے کبھی امی کو یہ نہیں کہا کہ جانا ہے تو جاؤ۔ اب بس!
کیوں کبھی اپنے حق کے لیے کھڑے نہیں ہوئے؟کیوں اپنی عزت نہیں کروائی؟
اور میرے ذہن میں اس کا بس ایک جواب ابھرتا۔ امی کی ہر بدتمیزی ، بد کلامی ، طنز، تضحیک اور ذلت بھرا رویہ سہ کر بھی وہ امی کے ساتھ، کسی نہ کسی طرح ،اس رشتے کو قائم رکھنا چاہتے تھے۔
ہم تینوں بہن بھائیوں نے چند مرتبہ اس بات کو ڈسکس بھی کیا، لیکن ہر نئی سوچ سلجھانے کے بجائے اور الجھا دیتی۔ ماں باپ کی عزت دل سے کم ہو جاتی۔ دنیا میں اکیلے ہونے کا احساس ہونے لگتا۔ سکول سے واپسی پر گھر آ کر سونے کی خوشی تو ہوتی، لیکن ذہن کا ایک کونا ہر وقت امی کے موڈ پر اٹکا رہتا۔ انہیں ناراض نہ کردینے کے جتن کیے جاتے، لیکن ہر ایک دو دن بعد صبح صبح ان دونوں کی لڑائی ہر احتیاط، ہر تسلی پر پانی پھیر دیتی۔
پتا نہیں و ہ دونو ں صبح صبح ہی کیوں لڑتے تھے۔
اپنے دونوں بہن بھائیوں کا تو مجھے پتا نہیں، لیکن آہستہ آہستہ میں نے ان لڑائیوں کے اثرات سے بچنے کے لیے اپنے اندر پناہ ڈھونڈنا سیکھ لیا۔ کتابیں پڑھنے کا شوق تو مجھے نہ جانے کب سے تھا، لیکن اب کتابیں میرے ذہن میں اپنی اپنی دنیائیں بنانے لگ گئی تھیں۔ عمران سیریز میں ان کے ایڈونچرز پڑھتے پڑھے میں بھی ان کے ساتھ مہم جوئی پر نکل پڑتی۔ الف لیلیٰ کی کہانیوں میں شہزادی جہاں کہیں پھنستی، میرے پیٹ میں بل پڑنے لگتے اور کہانی کا نیک دل انسان جب اُسے اُس مصیبت سے بچا کر نکال لے جاتا، میرے ذہن میں ’’اپنے‘‘ شہزادے کا تصور شکل لینے لگتا۔ وہ ایک بہت مہربان، نرم گو اور خیال رکھنے والا شخص ہو گا۔ میں فیصلہ کرتی۔
اور میں بھی شہزادی کی طرح بہت ہمت والی اور نڈر بنوں گی۔
یہ خیالی ہیولے اور fantasies کب میرے لیے اپنی اصل زندگی سے زیادہ اصلی ہو گئے مجھے اندازہ نہیں ہوا۔
اب جب بھی امی چیخنا شروع کرتیں، وہ سرخ اینٹوں والا گھر خوف کے دھوئیں میں غائب ہونے کے بہ جائے ایک نئی ترنگ سے اور واضح ہو کر سامنے آتا۔ ہر لڑائی اس گھر کے آرکیٹکچر میں اضافہ کر دیتی۔
اب اس گھر میں ایک برآمدے کا اضافہ بھی ہو چکا تھا۔ وہ برآمدہ تین بڑے بڑے کمروں کے سامنے تھا۔ بہت سوچ بچار کے بعد ان میں سے ایک کمرے کو میں نے نماز اور قرآن کے لیے مخصوص کر دیا۔ گھر میں داخل ہوتے ہی صحن پار کر کے جو سب سے بڑا کمرا تھا، وہ میرا بیڈ روم تھا۔ اس کی بائیں جانب ڈائننگ روم اور اس کے ساتھ ایک چھوٹا سا کچن۔ جس کے ساتھ اور ڈیوڑھی کی سیڑھیوں کے بیچ ایک نیلے رنگ کا واش بیسن تھا جس کے اوپر دیوار پر ایک آئینہ بھی ٹنگا ہوا تھا۔ اس واش بیسن کے نیچے وہ نل تھا جہاں سے پائپ لگا کر میں روزانہ وہ سرخ اینٹوں والا فرش دھوتی تھی۔
میرے بیڈ روم کی دوسری طرف ڈرائنگ روم تھا جہاں ہر وقت کوئی نہ کوئی مہمان آیا ہوتا۔ میں خود کو تسلی دیتی کہ جب تک میں اتنی بڑی ہوں گی کہ میرا اپنا الگ گھر ہو گا، مجھے لوگوں سے سوشل ہونا آ چکا ہو گا اور میں اب لوگوں سے بات کرتے ہوئے جتنی کنفیو زہوتی ہوں، تب نہیں ہوں گی۔ میں ایک پرفیکٹ میزبان ہوں گی اور میرے بہت سارے دوست اور جاننے والے ہوں گے اور ان میں سے کوئی نہ کوئی اکثر میرے گھر آیا کرے گا۔
کچن اور واش بیسن کے درمیان سے سیڑھیاں چھت کی طرف جاتی تھیں جہاں میں ہر ہفتے کپڑے دھونے کے بعد پھیلانے کے لیے جاتی۔ ایک ٹب جو میری کمر سے ٹکا ہوتا، اور کپڑے دھو دھو کر میرے اپنے کپڑے بھیگ چکے ہوتے، لیکن میرے چہرے پر ہزار واٹ کی مسکراہٹ ہوتی اور دل میں ایسی خوشی کہ اب پھٹا کہ تب۔
گھر کا نقشہ میرے ذہن میں جتنا واضح تھا، گھر والے کا اتنا ہی مدھم۔ میں نے کبھی سوچنے کی کوشش نہیں کی کہ سرخ اینٹوں والے اس گھر میں، میں جس کے ساتھ رہ رہی ہوں گی اور اتنا ہنس ہنس کے جس کے کپڑے دھو رہی ہوں گی، وہ کیسا ہو گا۔ اس کی آنکھیں کیسی ہوں گی، چلتا کیسے ہو گا، بولتا کیسے ہو گا، اس کی پسند نا پسند کیا ہوگی، اقدار کیا ہوں گی۔ مجھے بس یہ معلوم تھا کہ اس کے چہرے پر ہمیشہ مسکراہٹ رہتی تھی اور میری ہر خواہش کو وہ پورا کرنے کی ضرور کوشش کرتا تھا۔
اپنی فینٹسی لائف میں بھی میں حقیقت کی قیود کے اندر رہنے کی کوشش کر رہی تھی۔ میری سوچوں کا وہ شخص مجھ سے بہت محبت کرتا تھا اور ہر وقت میرے آس پاس رہنا چاہتا تھا۔ میری بھی کوشش ہوتی تھی کہ میں اس کے آنے سے پہلے سارا کام کر کے تیار ہو جاؤں تا کہ وہ تھکا ہارا آفس سے آئے تو میں اسے مسکراتی ہوئی ملوں۔
ایک چھے سات سال کی بچی کے دماغ میں پتا نہیں یہ کہاں سے آ گیا تھا کہ شوہر گھر آئے توبیوی کو اسے مسکرا کر ملنا چاہیے۔ شاید اس لیے کہ ابواکثر جب گھر آتے امی محلے میں کسی نہ کسی سے ملنے گئی ہوتی تھیں اور جب گھر پر ہوتیں تب بھی ابو کا آفس سے واپس آنا ان کے لیے کوئی خاص واقعہ نہیں ہوتا تھا۔ وہ ویسے ہی برے حال میں گھر میں گھوم رہی ہوتیں۔




Loading

Read Previous

رانی سے گرانی تک — عائشہ تنویر

Read Next

اناہیتا — تنزیلہ احمد

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!