پھوہڑ — ثمینہ طاہر بٹ

’’اُف! تو بہ ہے۔ یہ سالن ہے یا زہر؟ بھابی، تمہیں اتنا عرصہ ہو گیا ہمارے گھر آئے، مگر مجال ہے جو اس گھر کا ایک بھی اصول اپنانے کی کوشش کی ہو۔ آج بھی پہلے دن والی غلطیاں کرتی ہو اور پھر منہ بسور کر سب کی ہمدردیاں سمیٹنے کی کوشش کرتی ہو۔ کمال ہے بھئی۔ والدہ صاحبہ نے تو بیٹی کے سگھڑاپے کے جھنڈے زمانے بھر میں گاڑ رکھے ہیں اور بیٹی صاحبہ ہیں کہ ڈھنگ سے دال کو بھگار بھی نہیںلگا سکتیں۔ اونہہ، اماں ۔تم نے تو بھائی کی لٹیا ہی ڈبو دی۔ بس بہو کی ’’چٹی چمڑی‘‘ دیکھی اور کسی گن کو دیکھنے کی ضرورت محسوس کی اور نہ ہی کوشش کی۔ ‘‘ گڑیا کی پاٹ دار آواز پورے گھر میں گونج رہی تھی اور کوئی اسے روکنے ٹوکنے والا نہیں تھا۔ ہوتا بھی کیسے، گڑیا گھر بھی لاڈلی اور ماں کی سر چڑھی تھی۔دو بہنوں اور تین بھائیوں سے چھوٹی ، مگر رتبے کے لحاظ سے سب کی اماں لگتی تھی۔ نین تارہ کو اس گھر میں بیاہ کر آئے چھے ماہ ہونے کو آئے تھے اور اس سارے عرصے میں اس کے سارے گن ایک ایک کر کے گہنائے جا چکے تھے۔ گڑیا کی زبان کے آگے واقعی کوئی گہری خندق ہی تھی کہ وہ بولنے سے پہلے نہ تو کچھ سوچتی اور نہ ہی بولنے کے بعد اگلے کے تاثرات دیکھنے کی عادی تھی۔اس کے دل میں جو آتا کر ڈالتی اور منہ میں جو آتا کہہ کر دل کی بھڑاس نکال لیتی چاہے اس کے نتیجے میں سامنے والے کی عزت دو کوڑی کی ہی کیوں نہ ہو جاتی۔
نین تارہ بے حد سگھڑ اور سلیقہ شعار لڑکی تھی۔اس سے بڑی ایک بہن اور دو بھائی تھے۔ سب شادی شدہ اور اپنی اپنی فیملیز میں مگن تھے۔ جب تک نین تارہ کے ابا جی حیات تھے، اسے اور اس کی امی کو کوئی پریشانی لاحق نہیں تھی، مگر کچھ عرصہ پہلے والد کے انتقال کے بعد ان کی زندگی کی سبک رفتار ناؤ جیسے ہچکولے کھانے لگی تھی۔یوں تو دونوں بھائی بھی اچھے تھے اور بھابھیوں کو بھی ان دونوں سے کوئی مسئلہ نہ تھا، مگر اصل مسئلہ تو یہی بنا تھا کہ نین تارہ کا وجود اس کے بھائیوں اور بہن کے مابین دراڑ بنتا جا رہا تھا۔ اس کی خاموش اور سلجھی ہوئی طبیعت ، سلیقہ اور سگھڑاپا دیکھتے ہوئے بہنوئی صاحب نے اپنے چھوٹے بھائی کے لیئے دست سوال دراز کیا تو بڑی بھابی نے یہ کہتے ہوئے دو ٹوک انکار کر دیا کہ مرحوم ابا جی نین تارہ کو اپنی زندگی ہی میں اس کے بھائی کے ساتھ منسوب کر چکے تھے۔ بس اعلان کرنا باقی تھا۔ ورنہ باقی کی کارروائی تو سمجھو ہو ہی چکی تھی۔بڑی بھابھی کی باتوں نے جہاں آپا کو حواس باختہ کیا تھا، وہیں چھوٹی بھابی کے ہوش بھی اُڑا دیے تھے کیوں کہ چھوٹی بھابی بھی اسے اپنی بھاوج بنانے کا دل ہی دل میں پکا منصوبہ بنا چکی تھیں، مگر اب انہیں اپنے سارے ارمان مٹی میں ملتے دکھائی دے رہے تھے۔
٭…٭…٭





’’امی! یہ سب لوگ کیسی باتیں کر رہے ہیں۔ ابا کی زندگی میں تو کسی کو ایسا خیال بھی نہیں آیا تھا۔ بے چارے میرے اباجی، میری شادی کا ارمان دل ہی میں لیے دنیا سے رخصت ہو گئے، مگر اب ایسا کیا ہوگیا کہ بھابھیوں اور بھائی صاحب کی محبت نے جوش مارنا شروع کر دیا ہے۔؟ ‘‘ حالات جب حد سے زیادہ خراب ہونے لگے، تو نین تارہ کی ہمت بھی جواب دے گئی۔وہ ماں سے لپٹ کر رودی اور ماں بے چاری کیا کہتیں۔ انہیں سمجھ تو سب آرہا تھا، مگر یقین کرنے کو دل نہیں چاہ رہا تھا کہ قریبی رشتوں کا یہ فریب ان سے برداشت ہی نہیں ہو رہا تھا۔
’’تارہ! بیٹی یہ سب ایک دوسرے کو نیچا دکھانے اور ہمارے سر پر احسان کا بوجھ رکھنے کے لیے کر رہے ہیں۔ تمہاری آپا نے تو اکیلے میں مجھے صاف صاف کہہ دیا تھا کہ اس کے نکھٹو دیور سے بیاہنے کی بہ جائے میں تمہارا گلا دبا دوں تو زیادہ بہتر ہے۔ اور رہ گئیں تمہاری بھابھیاں تو وہ بھی اسی کوشش میں ہیں کہ کسی نہ کسی طرح تمہیں اپنے میکے کی چاکری کے لیے بھابی بنا نے میں کامیاب ہو جائیں۔ اس طرح دوہرے رشتے کی وجہ سے ان کا کھونٹا بھی مضبوط ہو جائے گا اور میرے سر ہمیشہ کا احسان بھی آ جائے گا۔‘‘ امی نے اپنے بہتے آنسو صاف کرتے ہوئے کہا، تو وہ شاک کی کیفیت میں انہیں دیکھتی چلی گئی۔
’’ اور پھر انہیں شاید یہ بھی پتا چل چکا ہے بیٹی کہ تمہارے ابا نے تمہارے نام کچھ جائیداد بھی کر دی تھی۔ وہ اس جائیداد کے لالچ میں بھی ایک دوسرے سے الجھ رہے ہیں۔‘‘ نین تارہ حیران کھلی آنکھوں سے ماں کو دیکھتی ان کے انکشافات سن رہی تھی۔ اس کے دل پر چھریاں چل رہی تھیں، مگر وہ بے بس تھی۔ کچھ کر نہیں سکتی تھی سوائے رونے کے۔ سو، رو کر ہی دل کی بھڑاس نکال رہی تھی۔
’’نین تارہ! میں نے تمہارا رشتہ طے کر دیا ہے۔ صغریٰ کے جاننے والے ہیں وہ لوگ۔ کبیر کی اپنی کپڑے کی دکان ہے۔ کبیر سے بڑے دو بھائی ہیں اور دو بہنیں۔ وہ سب شادی شدہ اور اپنے اپنے گھر بار والے ہیں۔ کبیر اپنی ماں اور چھوٹی بہن کے ساتھ رہتا ہے۔صغریٰ نے ان کے آگے تمہاری بہت تعریفیں کی تھیں۔ بس، انہوں نے رشتہ مانگا، تو میں نے ہاں کر دی۔‘‘ امی نے ایک دن اسے سامنے بٹھاتے ہوئے پیار سے کہا، تو وہ سر جھکا کر رہ گئی۔ کیا عجیب وقت آ گیا تھا کہ سر چھپانے کو اپنے باپ بھائی کا گھر ہی کم پڑنے لگا تھا۔اس کی آنکھوں میں آنسو بھرتے جارہے تھے، مگر وہ ماں کی آزردگی کے خیال سے انہیں بہنے سے روکے ہوئے تھی۔
٭…٭…٭
جلد ہی نین تارہ ماں کی دعائیں اور بھابھیوں کی آہیں سمیٹے ہوئے پیا دیس سدھارگئی۔ شادی کے شروع دن تو جیسے پنکھ لگا کر رخصت ہوئے اور پھر اس کے سامنے آئیں زندگی کی تلخ حقیقتیں۔
’’بہو! تمہاری شادی کو دس روز ہو گئے۔ اب تم میٹھے میں ہاتھ ڈالو اور اپنی گھرداری سنبھالو۔ مجھ سے اس بڑھاپے میں تم لوگوں کی خدمتیں نہیں کی جاتیں۔ ‘‘ شادی کے دسویں روز ہی ساس صاحبہ نے صبح ہی صبح آرڈر جاری کیا اور خود اپنے کمرے کی راہ لی۔ کبیر اس وقت کام پر جانے کی تیاریوں میں تھا۔ ماں کے کمرے سے نکلتے ہی وہ محبت بھرے انداز سے اسے دیکھنے لگا۔
’’اچھا، تو آج سے کھانا تم بناؤ گی۔ چلو اچھا ہے ۔ ہم بھی تو دیکھیں کہ تمہارے ہاتھ کا ذائقہ کیسا ہے۔ بھئی، تعریف تو بہت سنی ہے ۔اب ٹرائی کرکے دیکھیں گے، تو پتا چلے گا نا۔‘‘ کبیر نے ہنستے ہوئے شرارت سے کہا، تو وہ بھی خوش دلی سے مُسکرانے لگی۔
’’امی! کھانے میں کیا بنانا ہے۔ بتا دیں مجھے ، میں بنا لوں گی۔‘‘ میٹھے میں فرنی بنانے کے بعد اس نے ساس سے اگلے کام کی بابت پوچھا، تو وہ گڑیا کو سوالیہ نگاہوں سے دیکھنے لگیں۔
’’بھابی!آج کچھ اسپیشل بناؤ۔ سمجھو، آج تمہارا امتحان ہے اور ہاں یہ دھیان میں رکھنا کہ تمہارے دونوں جیٹھ اور دونوں بڑی نندیں بھی کھانے پر آ رہی ہیں۔ ‘‘ گڑیا نے مزے سے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کچھ اس طرح کہا کہ وہ چونک کر اسے دیکھنے لگی۔اس نے اپنی ساس کی طرف دیکھا ،وہ بھی اسے عجیب سی نگاہوں سے دیکھ رہی تھیں۔ ایک لمحے کو تو نین تارہ کی نگاہوں کے سامنے رنگ بہ رنگے تارے ہی ناچ گئے۔ وہ سلیقہ شعار اور سمجھ دار ہونے کے ساتھ ساتھ بہت حساس بھی تھی۔ فوراً سمجھ گئی کہ اب اس کے سختی کے دن شروع ہوا چاہتے ہیں۔
’’ ٹھیک ہے ۔ آپ مجھے بتا دیں کہ کیا کیا بنانا ہے۔ میں سب بنا لوں گی۔‘‘ اس نے بے دلی سے مُسکراتے ہوئے کہا ۔
’’بھئی، دعوتی کھانا بنانا ہے اور وہ بھی ساری فیملی کے لیے۔ تو ایسا کرو بھابی کہ تم بریانی کے ساتھ قورمہ بھی بنا لینا۔ شامی کباب بنا کے میں نے فریز کیے ہوئے ہیں اور نان بھائی بازار سے لے آئیں گے۔ کیوں امی، یہ مینیو ٹھیک رہے گا نا؟ ‘‘ گڑیا نے خود ہی ساری لسٹ ترتیب دی اور پھر خود ہی اسے فائنل کرتے ہوئے ماں سے تائید چاہی، تو انہوں نے بھی اثبات میں سر ہلا دیا۔
’’ٹھیک ہے امی، میں بنا لوں گی سب کچھ۔آپ فکر مت کریں۔‘‘ نین تارہ نے فرماں برداری سے کہا، تو گڑیا بھی اپنی جگہ سے اُٹھ کھڑی ہوئی۔
’’دیکھتے ہیں، تم کیا کمال کرتی ہو بھابی۔ دھوم تو بہت سنی ہے تمہارے سگھڑاپے کی۔‘‘ گڑیا نے طنزیہ نگاہوں سے اسے دیکھتے ہوئے چبھتے ہوئے انداز سے کہا، تو نین تارہ کا دم جیسے گھٹنے لگا۔ اُس کی ساس بیٹی کی بات کا مزہ لیتے ہوئے ہنس رہی تھیں۔وہ گڑیا کی معیت میں کچن میں داخل ہوئی اور پھر شام سے پہلے اسے کچن سے نکلنا نصیب نہیں ہوا۔ اس دوران اس کے دونوں جیٹھ اور نندیں بھی اپنے اپنے بال بچوں سمیت پہنچ چکے تھے۔ کھانے کی تیاری کے ساتھ ساتھ ان کی مہمان نوازی بھی اسے ہی کرنی پڑی تھی کہ گڑیا تو بہنوں کو دیکھتے ہی اُن کے ساتھ جڑ کر جا بیٹھی تھی اور پھر وہ چاروں ماں بیٹیاں تھیں اور ان کی نہ ختم ہونے والی باتیں۔ البتہ اس کی جیٹھانیوں نے رسماً ہی سہی اس کی تھوڑی بہت مدد ضرور کروائی تھی بلکہ بڑی بھابی نے تو اسے اتنے بڑے بڑے پتیلوں کے سامنے جھلستے دیکھ کر سخت افسوس کا اظہار بھی کیا تھا اور کبیر کو ڈانٹا بھی تھا کہ وہ نئی نویلی دلہن پر اتنا بوجھ ڈالنے کی بہ جائے کھانا باہر سے آرڈر کروا سکتا تھا۔اب کبیر بے چارہ کیا کہتا۔ اسے تو خود گھر آنے کے بعد ساری صورت حال کا پتا چلا تھا۔ وہ خود بھی بہت پریشان تھا، مگر ماں کو کچھ کہہ نہیں سکتا تھا اور نہ ہی گھر آئے مہمانوں کو کچھ بتا سکتا تھا۔
’’کبیر! میری مانو تو تم بازار سے کچھ اور بھی کھانے پینے کا سامان لے آؤ۔‘‘ بڑی بھابی نے تشویش سے بریانی اور قورمے کے دیگچوں میں جھانکتے ہوئے کہا، تو نین تارہ کے ساتھ ساتھ کبیر بھی حیرت سے انہیں دیکھنے لگا۔
’’کیوں بھابی۔ کھانا اچھا نہیں بنا کیا؟‘‘ نین تارہ نے ڈوبتے دل کو بہ مشکل سنبھالتے ہوئے پوچھا۔
’’نہیں ۔نہیں تارہ! تم نے کھانا تو ماشااللہ بہت اچھا بنایا ہے، مگر یہ سب پورا نہیں ہوگا بہنا اور پھر اگر گڑیا کو ایک چیز میں بھی کوئی نقص نظر آگیا، تو سمجھو سب ہی دسترخوان سے بھوکے اُٹھیں گے۔ تمہاری محنت بھی اکارت جائے گی اوربد مزگی علیحدہ سے ہو جائے گی۔ اسی لیے کہہ رہی ہوں کہ کچھ اور ورائٹی بھی ہونی چاہیے کھانے میں۔ ‘‘ بھابی نے مفصل جواب دیا، تو بات کبیر کی سمجھ میں بھی آ گئی۔ اس پر چھوٹی بھابی نے بھی پُر زور تائید کی تو کبیر چھوٹے بھیا کو ساتھ لیے بازار روانہ ہوا۔ خیریت رہی کہ امی اور بہنوں کو اس کارروائی کا پتا ہی نہیں چل سکا ، ورنہ جانے وہ کبیر اور تارہ کا کیا حال کرتیں۔




Loading

Read Previous

ہم رکاب — عرشیہ ہاشمی

Read Next

رانی سے گرانی تک — عائشہ تنویر

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!