ہم رکاب — عرشیہ ہاشمی

وہ کافی دیر سے آنکھیں بند کیے بانسری بجا رہاتھا جس کی مدھر تان ہولے ہولے میرے دل پر دستک دینے لگی تھی۔ کچھ ہی دیر گزری تھی کہ اس نے اپنی رس بھری سرگوشی سے مجھے اپنی طرف مائل کرنا چاہا۔ میرا دل دھک دھک کرنے لگا۔ دل تھا کہ اس کی طرف کھنچا چلا جا رہا تھا اور دماغ ’’یہ غلط ہے‘‘ کی گردان الاپے جا رہا تھا۔ کچھ پل کی نادیدہ سلاسل میں قید سکون کے علاوہ مجھے اس سے کچھ نہ ملا تھا۔
عجیب کشمکش میں آن پڑی تھی میں۔ اس نے تو مجھے ہمیشہ مشکل ہی میں ڈالا تھا لیکن میں تھی کہ ریشم کے دھاگے کی طرح اس کی طرف کھنچی چلی جا رہی تھی۔
جب سے ہوش سنبھالا، میں نے اسے اپنا ہم رکاب پایا۔ عجیب رشتہ تھا ہم دونوں کا بھی۔ وہ میرے لیے زہرِ قاتل تھا اور میں اسے تریاق کی طرح سنبھالے رکھتی تھی۔ ہر دم اس کی جی حضوری کرتی، اس کی ہاں میں ہاں ملاتی اور اس کی اس طرف داری کا صلہ مجھے ہمیشہ دکھ ہی دیتا۔
مجھے یاد ہے ایک بار جب ندی کنارے چلتے ہوئے عینی بھی میرے برابر آن پہنچی تو اس نے میرے دماغ کی ڈوری کھینچی اور دھیان کا دامن پکڑے اس طرف لے گیا۔ یہ صحیح ہے کہ میری عینی کے ساتھ کبھی نہ بنی تھی اور عینی ہمیشہ ہی مجھے چڑاتی رہتی تھی۔ میرے گھنگھریالے بالوں کی وجہ سے ہمیشہ وہ میرا مذاق اڑایا کرتی تھی لیکن اس کا یہ مطلب نہیں تھا کہ بدلے میں اسے نقصان پہنچاوؑں۔ اسے جسمانی تکلیف کا مزہ چکھاوؑں۔ لیکن اس روز، اس کے پرزور اصرار پر میں نے عینی کو دھکا دے کر ندی میں گرا دیا۔ ندی میں بپا ہونے والے ہیجان نے میرے اندر کے احساس کو جگانا شروع کیا تو میں نے چلاچلا کر آس پاس کے لوگوں کو اکٹھا کر لیا۔ عینی کی جان تو بچ گئی لیکن میری شامت آگئی۔ چاچا چاچی کی لعنت ملامت کے بعد اماں ابا اور اوراستانی جی کی ڈانٹ اور بِے عزتی کے بعد مجھے احساس ہواکہ مجھے اس کی بات نہیں ماننا چاہیے تھی۔ میں نے خود سے وعدہ کیا کہ آئندہ کبھی اس کی بات نہیں سنوں گی۔




پھر ایک روز جب میں اماں کے ساتھ بازار گئی تو خواہشوں کی ننھی تتلی لہک لہک کر کبھی سرخ لہنگے پر جا بیٹھتی تو کبھی سنہری جوتی پر۔
’’شش… چپ! اگر اماں کو تیری خبر ہو گئی تو اگلی بار ساتھ بازار نہیں لائیں گی۔‘‘ میں نے خواہشوں کی تتلی کو آہستہ سے تنبیہ کی۔
لیکن وہ بھی اپنی فطرت سے مجبور، ضبط کے آگے سر پٹختے پٹختے تھک گئی تھی شاید۔ پھر سے ایک ست رنگی دوپٹے پر جا بیٹھی تو میں اسے گھور کر ہی رہ گئی۔ ہم دونوں کی اڑان بلند ہوتی اور پھر سمجھوتے کی گہری پاتال کا رخ کرتی۔
اماں جب کتابوں کی دکان پر میری کاپیاں خریدنے کے لیے رکیں تو میری نگاہ سامنے ہی کھلے جیومیٹری باکس پر جم گئی۔ گلابی رنگ کی وہ جیومیٹری،نازک سی پرکار، ڈی،پنسل اور سکیل پر مشتمل تھی۔ اس کی سب سے زیادہ خاص بات یہ تھی کہ اس میں باربی گڑیا کی شکل کی پنسل موجودتھی اور باہر کی طرف بنی گلابی رنگ کی باربی کی آنکھیں ستاروں کی طرح چمک رہی تھیں۔
’’یہ جیومیٹری بھی لینی ہے خالہ جی؟‘‘ دکان والے نے میری نظروں کا ارتکاز دیکھتے ہوئے اماں سے سوال کیا۔
’’ارے نہیں بیٹا، یہ فضول خرچیاں ہم جیسے لوگ نہیں کر سکتے۔‘‘ اماں نے آہستگی سے کہا تو میں نے حسرت سے اسے دیکھتے ہوئے نگاہ چرا لی لیکن خواہش کی ننھی تتلی کافی دنوں تک اس کے گرد منڈلاتی رہی۔
’’مینا مینا! دیکھو تو ذرا شیزا کے پاس بالکل ویسی ہی جیومیٹری ہے جو اس روز دکان میں دیکھی تھی تم نے۔‘‘ سکول میں تفریح کا وقت گزرنے کے بعد وہ میرے دھیان کا ہاتھ پکڑے زور سے بولنے لگا۔
’’اوہو! تو کیا ہوا۔وہ یہ فضول خرچی کر سکتی ہے۔ اس کا باپ ہزاروں کماتا ہے۔ ‘‘میں نے شیزا کے ہاتھ میں تھامی جیومیٹری پر نگاہ ڈالتے ہوئے قدرے اُداسی سے کہا۔
’’اداس مت ہو میری جان! ہمیں اپنی خواہش پوری کر لینی چاہیے۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ طریقہ کیا ہے۔ چھین لو اس سے یہ جیومیٹری۔ یہ صرف تمہارے لیے بنی ہے۔‘‘ اس نے مجھے راہ سجھائی تھی۔
’’نہیں! وہ کیا کہے گی کہ مینا چیزیں چھینتی ہے۔ نہیں!‘‘ میں نے اس کے مشورے کو پسِ پشت ڈال دیا لیکن جب شیزا پانی پینے اٹھی تو اس نے پھر میرے دھیان کا پلو تھاما اور سامنے ڈیسک پر رکھی جیومیٹری کی طرف لے گیا۔ اتنے میں چھٹی کی گھنٹی بجی اور میرے ہاتھ خود بہ خود اس جومیٹری کی طرف بڑھ گئے۔ سکول سے گھرواپسی کا سفر میرے لیے بے حد حسین تھا۔ خواہش کی ننھی پری یہاں سے وہاں اٹکھیلیاں کرنے لگی تھی۔ کبھی میرے دل کے تار چھیڑتی تو کبھی آنکھوں میں ڈھیر سارے رنگ بکھیر دیتی۔
ہاں میری اس خوشی کا سارا کریڈٹ اسے ہی جاتا تھا۔ اگر وہ میری ہمت نہ بندھاتا تو میری یہ خواہش کبھی پوری نہ ہوتی۔ اسی طرح میری ہر خواہش پوری کرنے کے لیے وہ ہر جتن کرتا تھا۔ کبھی کبھار تو بنا خواہش کے ہی مجھے مشکلات سے بچانے میدان میں کود پڑتا۔
٭…٭…٭
رمضان المبارک کے آخری روز تھے۔ سکول میں ہر روز ہی سہیلیاں ایک دوسرے کو تحفے اور عید کارڈ دیتی نظر آتیں اور میں ہمیشہ کی طرح حسرت کو گلے لگائے یہ تماشا دیکھتی۔
’’پیشگی عید مبارک!‘‘ شیزا نے کارڈ میرے ہاتھ میں تھمایا اور سرخ کاغذ میں لپٹا تحفہ میری جھولی میں ڈالتے ہوئے کہا۔ حیرت اور خوشی کے مارے میں کچھ دیر تو بول ہی نہ پائی تھی۔ بنا خواہش کے ملنے والی خوشی کا تجربہ پہلی بار ہوا تھا۔ گھر آ کر اماں کو کارڈ اور گفٹ دکھایا تو وہ ڈانٹنے لگیں۔
’’ارے کیوں لیا یہ تحفہ؟اب بدلے میں کیا دو گی اسے؟ یہ سب امیروں کے چونچلے ہیں، ہم جیسوں کو راس نہیں آتے۔‘‘ خوشی ایک دم سے اڑن چھو ہو گئی تھی۔ نم آنکھوں سے تحفے کا لبادہ اتارا تو اندر سے ست رنگی کانچ کی جھلمل کرتی چوڑیاں بر آمد ہوئیں جنہیں دیکھ کر مسکراہٹ خود بہ خود میرے چہرے پر در آئی۔
’’ہو جائے گا سب۔ فکر نہ کرو۔ کتنا پیارا تحفہ دیا ہے شیزا نے،اسے بھی تو ملنا چاہیے ایسا ہی تحفہ۔‘‘ اس نے ایک بار پھر آنکھوں میں امید کے جگنوسجائے تو میں بے فکر ہو گئی۔
شام کو جب اماں نے حلوے کی پلیٹ ڈھانپ کر ہاتھ میں تھمائی اور مولوی صاحب کے گھر بھیجا تو وہ بھی میرے ساتھ ہو لیا۔
’’شیزا کو کیا تحفہ دینا ہے؟‘‘ گہری خاموشی میں اچانک اس کی آواز ابھری ۔
’’سوچوں گی۔‘‘
’’ارے! سوچنے کا وقت کہاں ہے؟ کل جانا ہے اسکول اور پھر عید کی چھٹیاں ہو جائیں گی۔‘‘ اس نے مجھے وقت کی کمی کا احساس دلایا تو میں حقیقتاً پریشان ہو گئی۔ انہی سوچوں میں گھرے وقت کا پتا ہی نہ چلا اور میں استانی جی کے سامنے کھڑی تھی۔
’’استانی جی! اماں نے یہ حلوہ بھیجا ہے اورکہا ہے کہ پلیٹ ابھی خالی کردیں۔‘‘ استانی جی تو باورچی خانے میں چلی گئیں اور میں باہر ہی تخت کے پاس کھڑی رہ گئی۔ دفعتاًمیری نگاہ تکیے کے نیچے سے جھلکتی سنہری مندریوں پر پڑی۔
’’دیکھ تو اللہ پاک نے شیزا کو دینے کے لیے کیساانتظام کیا۔ کتنی پیاری مندری ہے نا۔ جلدی سے اٹھا لو۔‘‘ وہ مجھ سے پہلے ہی ان سنہری مندریوں کودیکھ چکا تھا، سو مجھے کہنے لگا۔
’’نن نہیں! یہ چوری ہے، انہوں نے اماں کو بتایا تو میری چمڑی اتار دیں گی وہ۔‘‘ شعور نے اس کی بات نظر انداز کر دی۔
’’استانی جی کے پاس کس چیز کی کمی ہے؟ اور اگر یہ موقع بھی ہاتھ سے چلا گیا توکل شیزاکوکیا دو گی تحفے میں؟ اس نے تیزی سے کہا تو شعور نے اس کے آگے سر جھکا دیا۔
اگلے دن استانی جی اماں کے سامنے موجود تھیں۔
’’باجی آپ اس سے لاڈ پیار سے پوچھو،بڑی قیمتی مندری تھی میری۔‘‘
’’استانی جی! سنہری مندری کی بات کر رہی ہیں نا آپ؟‘ وہ تومیں نے عینی کے پاس دیکھی تھی۔ کل جب حلوہ دے کر واپس گھر جا رہی تھی،تومیرے ساتھ ہی توتھی عینی بھی۔ ‘‘ان کی پریشانی اور اماں کے ہاتھوں بننے والی درگت کا خیال آتے ہی میں نے خودہی بولنا شروع کر دیااور پھر میرے نصیب کی سزا عینی کو ملی۔ اس کے جسم پر پڑے نیل مجھے پشیمان کرنے لگے تومیرے اندر اور باہر خاموشی نے ڈیرے ڈال لیے۔
پیسہ ہو تو زندگی میں رنگ بھر جاتے ہیں ورنہ تو زندگی بلیک اینڈ وائٹ ٹی وی جیسی ہے۔ کچھ روز بعد وہ پھر میرے سامنے چلا آیا۔




Loading

Read Previous

فیصلہ — محمد ظہیر شیخ

Read Next

پھوہڑ — ثمینہ طاہر بٹ

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!