اس واقعہ کے بعد اتی نے دارالامان کی دیواروں کا سہارا لینا چھوڑ دیا اور نا معلوم یا پھر نا ممکن منزل کے حصول کی طرف روانہ ہوا۔ لمحہ لمحہ اس نے وقت کی گردش
میری یادداشت میں ایک چھلنی نصب ہے جس میں صرف خوشی دینے والی باتیں رہ جاتی ہیں اور باقی باتیں آپ ہی آپ چھن کر زائل جاتی ہیں۔“ وہ بولتا جارہا تھا اور ڈشز مجھے
وہ لوگ کیفے سے باہر اۤرہے تھے۔ عمر سمیت وہ سب لوگ کراچی واپس جا رہے تھے وہ سب اۤپس میں مل رہے تھے۔ چہروں پر لازوال سی مسکراہٹ لئے۔ ارمش نے بھی اپنا سفر
یہ مقبرہ بلند چبوترے پر ہے۔ اس سے مغرب کی جانب بیگم پورہ تھی جس کے دس مغربی دروازے تھے جن کا اب نام و نشان نہیں ملتا۔ اُن دنوں پنجاب کا گورنمنٹ ہاؤس بیگم