ایک لمحہ کمزور

ایک لمحہ کمزور

قوسیہ ہما زئی

 

زندہ رہنا تب بہت مشکل ہو جاتا ہے جب انسان کی اُس کے اپنوں میں کوئی اہمیت نہ ہو یا بعض اوقات اپنے کردہ اور ناکردہ  گناہ کی سزا اکیلا ہی بھگتتا رہے۔
وہ آپا بی کے نام سے محلے میں مشہور تھیں، شاید کچھ پڑھی لکھی بھی ہوں گی، محلے کے ہر غم و خوشی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتیں، ضرورت مندوں کی ہر طرح مدد کرتیں، چہرے پہ ایک پُرخلوص سی مسکراہٹ سجائے وہ سب سے ملتیں، سب کے کام آتیں،آپا بی ان سب کے لیے آسانیاں بانٹتی پھرتیں۔
آپا بی اپنے گھر میں اکثر قرآن خوانی یا محفل میلاد وغیرہ منعقد کرواتی رہتی تھیں، جس سے محلے کی خواتین کو مل بیٹھنے کا موقع ملتا۔ سب خواتین کو ان کی ایسی سرگرمیاں بہت بھاتی تھیں مگر مجھے ان کے گھر میں ہونے والا پتلی تماشا اکثر یاد آتا ہے۔ یہ میرے بچپن کی حسین یادوں میں سے ایک یاد ہے۔ وہ اپنے گھر کے صحن میں چار پائی کھڑی کرتے ہوئے اس پر پردہ ڈال کر ایک چھوٹا سا اسٹیج تیار کرتیں۔ ایک طرف تماشا کرنے والے بیٹھتے اور سامنے کی جانب ننھے تماشائی جو تماشا دیکھتے ہوئے زور زور سے تالیاں بجاتے اور خوش ہوتے۔آپا بی ان کے سامنے تازہ بنی ہوئی گڑ کی میٹھی روٹی اور کھانے پینے کی دیگر چیزیں رکھتی جاتیں۔ بچوں کے لیے یہ ان کی پُر شفقت شخصیت کا حصہ تھا۔
اپنے گھر کی چھت کے لیے خود ہی کلہاڑے سے لکڑیاں چیرتی اور تندور میں روٹیاں پکاتی سانولی سے آپا بی مجھے ایک پری جیسی لگتیں۔ میں نے اکثر آپا ہی کو جا نماز پہ بیٹھے دیر تک اللہ سے گڑاگڑا کر روتے ہوئے دعائیں مانگتے دیکھا……
آپا بی کے دو بیٹے تھے ایک بہت گورا چٹا سا اور ایک سانولا سا، اُن کے دونوں بیٹے ماں سے کوئی لگاؤ رکھتے اور نہ ہی کوئی بات چیت کرتے۔ آپا بی ان کے لیے کھانا پکاتیں، ان کے کپڑے دھوتیں اور دیگر ضروریات زندگی بہم پہنچاتیں، پر ان کے دونوں بیٹے ان سے ہتک آمیز رویہ روا رکھتے۔ آپا بی ماتھے پہ کوئی شکن لائے بغیر خاموشی سے سارے کام کرتی رہتیں۔
ایک روز میں نے اپنی امی سے پوچھ ہی لیا کہ اتنی اچھی آپا بی سے ان کے بیٹے بات کیوں نہیں کرتے؟ وہ جو سب کے لیے ٹھنڈی چھاؤں کا درجہ رکھتی ہیں آخر کیا وجہ ہے کہ ان کے اپنے بیٹے ہی ان سے اتنے متنفر ہیں؟ میرے بہت اصرار کرنے پہ میری اماں نے بتایا کہ …… آپا بی کا جرم یہ ہے کہ انہوں نے گھر سے بھاگ کر شادی کی تھی! حیرانی کی وجہ سے میری آنکھیں کھل کر رہ گئیں تو امی نے میرے سر پہ ایک ہاتھ مارا اور بولیں: ”تمہیں کیا ہو گیا ہے؟“ میں نے اپنے حواس قابو کیے اور اماں سے کہا:
”پوری بات بتائیے“۔ تو اماں گویا ہوئیں:

”محلے کے سید صاحب کے بیٹے پہ آپا بی عاشق ہو گئیں بہت زور دار عشق تھا، پر سید نہ ہونے کی وجہ سے ان کا رشتہ اس گھرانے میں نہیں ہو سکتا تھا۔ تب آپا بی اور سید صاحب کے بیٹے حسن نے گھر سے بھاگ کر شادی کر لی، اور ایک دوسرے گاؤں میں جا بسے۔ بہت عرصہ چھپ چھپا کر رہے۔ دو بیٹے بھی ہو گئے، کہ آپا کے شوہر حسن، بیمار پڑ گئے ایسا بیمار پڑے کہ ان کی قوت گویائی ختم ہو گئی۔ اس وقت انہوں نے اپنے والد سے معافی تلافی کی تگ و دود کی۔ محلے والوں نے بیچ میں پڑ کر صلح کروا دی۔ تب بڑے سید صاحب نے معاف تو کیاکرنا تھابیٹے کی بیماری کے پیش نظر ایک گھر ان کی رہائش کے لیے دیا اور اس کے ساتھ سال بھر کا راشن دینے کا اہتمام کر دیا۔ کچھ عرصے بعد حسن کا انتقال ہو گیا تو بیوہ اماں بی بیٹوں کو سنبھال کر بیٹھ گئیں۔ وقت گزرا آپا بی کے بیٹے بڑے ہو گئے، تب محلے والوں میں سے چند کینہ پرور افراد نے آپا بی کے جوان بیٹوں کو تمام پرانے واقعات استہزائیہ انداز میں سنائے، ان کا مذاق اُڑایا اور طعنے دیے کہ تمہاری ماں نے بھاگ کر شادی کی تھی۔ تب سے ان کے بیٹے اپنی ماں سے متنفر ہو چکے ہیں اور ان سے بات کرنا اپنی بے عزتی سمجھتے ہیں“۔
انہیں تویہ بھی لحاظ نہیں کہ ان کی ماں نے ان کے گونگے اور معذور باپ کی کس قدر خدمت کی اور انہیں کن مشکلات سے پالا پوسا۔ آپا بی اپنے اس کمزور لمحے کی آگ میں جل رہی ہیں …… پتلی تماشا کرواتی گڑ کی میٹھی روٹیاں پکاتی، خلقِ خدا کے ہر دم کام آتی آپا بی ہر دم اللہ سے اپنے گناہ کی معافی مانگتی رہتی ہیں ……
اللہ تو اپنے بندوں کی توبہ قبول کرتے ہوئے انہیں معاف کر دیتا ہے مگر یہ جو اللہ کے بندے ہیں، ان کے لیے معاف کرنا، درگزر کرنا بہت مشکل ہو جاتا ہے، چاہے سگی اولاد ہی کیوں نہ ہو۔
میں حیران سا اماں کی باتیں سن کر سوچ رہا تھا کہ ماں اپنے بچوں کی کتنی غلطیاں معاف کر دیتی ہے ہر بات سہہ جاتی ہے مگر یہ اولاد کتنی کم ظرف ہے ماضی میں کی گئی ایسی غلطی جو کہ قطعاً غلطی نہ تھی کی بنا پر اپنی ماں کو معتوب ٹھہرا رہی ہے۔

Loading

Read Previous

ادھورا کردار

Read Next

باہر کا آدمی

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!