بڑی آنٹی —– زرین جوشیل

شگفتہ نازایک نرم ونازک احساس ، جس نے 1950ء میں تقسیمِ ہند کے بعد دہلی سے لاہور منتقل ہوئے ایک متوسط گھرانے میں جنم لیا ۔ یوں تو رشید میاں کے ہاں سات بچیوں کی ولادت ہوئی جن میں سے تین توبچپن ہی میں اللہ کو پیاری ہو گئیں ۔ شاید بیٹا نہ ہونے کے غم نے رشید میاں کو ساری زندگی اپنی زوجہ ، بیگم سیدہ سے دور رکھا ۔پہلوٹھی کی اولاد ہونے کے ناطے شگفتہ ناز نے اپنے والدین کے رشتے میں کشیدگی کو بھانپ لیا تھا۔ وہ شروع ہی سے انتہائی مدّبر اور خاموش طبعتھی ۔ رشید میاں کی اردو بازار میں کتابوں ایک بڑی کی دکان تھی، جس پر وہ اپنے چھوٹے بھائی سید نور کے ساتھ بیٹھا کرتے تھے۔نور صاحب کم عمری کے باعث تھوڑی چلبلی طبیعت کے مالک تھے جب کہ رشید میاں تو مُسکرانا بھی شاید گناہ سمجھتے تھے۔ بچے ابھی زیادہ بڑے نہیں ہوئے تھے کہ اُن کی امی جان کو ٹی بی جیسا جان لیوا مرض لاحق ہو گیا۔ بس پھر کیا تھا ، ساری ذمے داری شگفتہ ناز کے کمزور کاندھوں پر آپڑی۔ اسکول کے بعد گھر کا کام، امی کی تیمارداری ، بہنوں کی دیکھ بھال، یہ سب کچھ فریضہ اوّل بن گیا تھا، لیکن دن بھر کی تگ ودو کے بعد جب شگفتہ بی بی اپنی دادی کے پاس بیٹھ کر تقسیمِ ہندسے پہلے کے وا قعات اور ہندوستان میں مقیم اپنے رشتہ داروں کے قصے سنتیں ، تو اُن کی ساری تھکن مٹ جاتی ۔ وہ ان کہانیوں میں یوں کھو جاتیں، گویا وہ خود بھی اُن کا حصہ ہو۔ اُردو ادب پر اُنہیں باقی بہنوں کی نسبت خاصا کافی عبور حاصل ہوگیا تھا۔ جب بھی کسی بہن کو لغت کا کوئی مسئلہ درپیش ہوتا وہ سیدھا بڑی باجی سے رجوع کرتی۔ بڑی باجی کہلوانا پسند جو تھا اُسے۔ بھئی بڑے ہونے کے لیے کچھ رعب اور آداب بھی ملحوظِ خاطر رکھنے چاہئیں کہ نہیں؟ شاید یہی وجہ تھی جو تمام بہنیں اُس کی بے پناہ عزت کرتی تھیں یا پھر اُس کے رعب ودبدبے کی وجہ سے اُس سے دل کی بات کرنے سے بھی کترایا کرتی تھیں۔
رشید میاں دکان بند کرنے کے بعد اپنا زیادہ تر وقت دوست و احباب کی محفلوں میں گزارنا پسند کرتے تھے ۔ کبھی دعوتِ عام کسی کے ہاں ہوتی تو کبھی اپنے یہاں ۔ دستر خوان طرح طرح کے کھانوں سے بھرا رہتا تھا ۔ دادی کے منع کرنے پر اکثر کہا کرتے ۔ امی جان! یہ دستر خوان او ر میری جیب کبھی خالی نہیں رہیں گے۔ دادی جان استغفار پڑھ کر بات آئی گئی کردیتی تھیں،لیکن وقت کبھی ایک سا نہیں رہتا۔ کون جانے کب کس کی خوشیوں کو نظربد لگ جائے۔ اس خاندان پر سب سے پہلا صدمہ تب گزرا، جب سید نور صاحب کے کسی دوست نے اُنہیں ثریا نامی بیوہ خاتون اور تین عدد بچوں کی ماں سے، انسانی ہمدردی کے ناطے متعارف کروایا۔ ملاقاتوں کا یہ سلسلہ نہ جانے کب بے جوڑ محبت میں تبدیل ہوگیا یہ کوئی نہیں جانتا، لیکن اجازت نہ ملنے پر نور صاحب نے ایک فلمی ہیرو کی طرح بغاوت کی راہ اپنائی اور ثریا سے خفیہ نکاح کر ڈالا۔
نو بیاہتا جوڑا جب اپنے بڑوں کی دعائیں لینے گھر پہنچا، تو دادی جان نے نا صرف منہ پھیرا بلکہ ثریا پر تعویذ گنڈوں کے الزامات لگاکر اُن کا بیٹا پھنسانے کے جرم میں دھکے دے کر گھر سے نکال دیا لیکن ثریا بی کہاں دودھ کی دھلی تھی۔ اُس نے بھی دادی جان سے بدلہ لینے کی ٹھان لی اور اپنے شوہرکولے کر یہ جا وہ جا ۔ اب تو دادی جان کو بھی اک پل چین نہ رہا ہر وقت ثریا بی کو کوسنے اور بد دعائیں دینا تو جیسے ااُن کا مقصد ِ حیات بن گیا تھا۔ چاروں بچیوں کوچچا جان سے بے انتہا اُلفت تھی اور کیوں نہ ہوتی وہ بھی اِن پر جان چھڑِکتے تھے اور اپنے بھائی بھابی کی بھی بے انتہا عزت کرتے تھے۔زندگی کہاں کسی کے چلے جانے سے رکتی ہے ۔وقت گزرتا گیا والدین کی ناچاقی اور دادی کی باتیں سن سن کر شگفتہ ناز ایک عام سی شکل و صورت ، سانولی رنگت، درمیانے قد اور دبلی پتلی جسامت والی جوان لڑکی میں تبدیل ہوگئیں ۔ لیکن منجھلی بہن شہناز تھی تو قد میں ذرا کم، لیکن صاف رنگت گداز جسم اور تیکھے نین نقش کے باعث کافی دل کش نظر آنے لگی۔ شمع اور بلقیس ابھی چھوٹے ہونے کے ناتے ان خصوصیات سے مبرّا تھیں۔ اسی دوران دادی جان کے دور دراز کے کوئی یتیم مسکین رشتہ دار بنّے میاں اُن کے یہاں پڑھنے کی غرض سے رک گئے۔ آگے پیچھے کوئی ٹھکانہ نہیں تھا اس لیے دادی نے بھی ترس کھا کر اوپر کی برساتی میں اُنہیں رہنے کی جگہ دے ڈالی۔ بننے میاں کے آنے سے ایک رونق سی لگ گئی۔ دن ہو یا رات اس گھر سے قہقہوں کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوگیا۔ دیکھنے میں بھی بنّے میاں کسی مزاحیہ کردار سے کم نہ تھے اوپر سے اُن کی شرارتیں ۔ خدا کی پناہ جیسے یہ شخص خوشیاں بانٹنے ہی دنیا میں آیا ہو۔بچیوں کے ساتھ لڈو، تاش ،کیرم کھیلنا ، کبھی بھوت کا لبادہ اوڑھ کر پڑوسی کو ڈرا دینا ۔کوئی ایک تماشا ہو تو بتائیں ۔ بچیاں بھی چچا چچا کرتے نہ تھکتی تھیں۔ اُن کے لیے شاید وہ بچھڑے ہوئے چچا نور جیسے تھے، لیکن کسی کے دل کا بھید کون جانتا ہے؟ ایک دن بنّے میاں نے دادی جان سے شگفتہ ناز سے شادی کی خواہش ظاہر کر ڈالی بس وہ چچا بنّے کا آخری دن تھا اُس گھر میں۔ دادی نے پہلے تو خوب کھری کھری سنائیں اور پھر گھر سے رفع دفع ہونے کا حکم صادر کر ڈالا ۔ بنّے چچا دل کے ارمان آنسوو ٔں میں بہائے گھر خالی کر گئے،کوئی یہ نہ جان سکا کہ چچا پر آخر بیتی کیا؟





جب امی جان نے دادی سے انکار کی وجہ دریافت کی، تو اُنہوں نے جھٹ سے چچا کے والی وارث نہ ہونے کا بہانہ کرکے بات ختم کردی۔ امی جان بھی چپ ہوگئیں ۔
شگفتہ ناز شروع سے کافی سمجھ دار تھیں۔ اُن کے لیے اپنی امی کی آنکھ کا اشارہ ہی با ت سمجھنے کے لیے کافی تھا۔ ابھی کچھ ہی دن گزرے کہ امی جان کے کزن لطیف بھائی، جن کی انارکلی بازار میں مٹھائی کی مشہور دکان ہوا کرتی تھی ، ان کی امی نے دادی جان کو اپنے بڑے بیٹے کے واسطے شگفتہ ناز کے رشتہ کا پیغام بھیجوایا۔ بس یہ سننے کی دیر تھی کہِ دادی آگ بگولا ہوکرکہنے لگیں۔
”ارے بھیا!میں نہ بیاہوں اُن حلوایوں کے گھر اپنی پوتی کو ، بھلا بتاؤ کتنی بدبو آتی ہے اُن کے باپ کی دھوتی سے ، ملگجے سے کپڑے پہنے رکھتا ہے ہر وقت، ارے بیٹا چاہے جتنا بھی پڑھ لکھ جائے رہیں گے وہی کارخانہ د ار”۔
شگفتہ بی بی اکثر اُردو رومانی ناولوں کو چاند کی روشنی میں بیٹھ کر پڑھا کرتی تھیں شاید اُن کا افسانوی ہیرو بھی کوئی ایسا ہی قابل شخص تھاکیوں کہ یہی ایک واحد رشتہ تھا جس کے آنے پر اُن کے دل میں کچھ اُمنگ جاگی تھی،لیکن دادی کے صاف انکار پر اُن کا دل ایسا ٹوٹا کہ آیندہ کبھی کسی رشتے کے آنے پر اُنہیں خوش نہ دیکھا گیا۔
چاروں بہنوں میں سال سال ہی کا فرق تھا۔ ناچاہتے ہوئے بھی گویا وہ ایک دوسرے کے حالات سے بہت حد تک باخبر تھیں۔ دوسری طرف ثریا بانو نے اپنے شوہر کی نافرمانی کرتے ہوئے ، اپنی ذلت کا بدلہ لینے کے لیے رشید میاں پر دکان اور مکان کے بٹوارے کا کیس دائر کردیا۔ کورٹ کچہری کرتے کرتے حالات اتنے بدلے کہ دونوں دکانیں بک گئیں اور یہ سب کرا ئے کے مکان میں آگئے۔
آخرکار ثریا بانو کا تیر نشانے پر لگا اور اُس نے ہنستا مسکراتا گھر تباہ کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ ایک رات امی جان کی طبیعت اچانک بگڑ گئی۔ وہ اکثر دادی یا مولوی صاحب کا دم شدہ پانی پیا کرتی تھیں۔ جب دوا بے اثر ہونے لگی، تو اُن کے کہنے پر چھوٹی شمع اور بلقیس نے وہی دم کیا ہو ا پانی ماں کو لا دیا۔ بس چند قطرے حلق میں جاتے ہی آنکھیں ایک سمت ٹکٹکی باندھے دیکھنے لگیں اور جسم بے سُدھ ہوگیا۔ سنتے تھے کہ امی جان پر کوئی جن عاشق تھا، وہ اُنہیں زندگی کی تمام تکلیفوں سے نجات دلا کر اپنی دنیا میں لے گیا۔ ہاں یہی ایک خواب تھا ، جو رشید میاں نے اپنی بچیوں کو شایددلاسا دینے کے لیے سنایا تھا کہ ایک رات میں نے خواب کی حالت میں تمہاری ماں کو لال جوڑے میں ملبوس بہت خوش اور صحت مند پایا۔ چاروں معصوم بچیوں نے بھی یقین کرلیا۔
دن گزرتے رہے۔ گھر میں یا تو ڈیڈی تھے یا دادی، جی بالکل ! شروع ہی سے رشید میاں کو بچیاں ڈیڈی کہہ کر ہی مخاطب کیا کرتی تھیں ۔ وقت جوں جوں گزر رہا تھا ، بچیوں میں خود کو ڈھکنے کا شعور بھی اُجاگر ہورہا تھا۔ خاص طور پر شگفتہ بی بی تو شرم و حیا کا ایسا پیکر تھیں کہ رات سوتے وقت بھی ، مجال ہے جو اُن کا دوپٹہ سر سے سرک جائے ۔ دوسری طرف ثریا نے ماضی کی تلخیاں بھلا کر دوستی کا ہاتھ بڑھانا چاہا او ر بن ماں کی بچیوں سے پیار جتانے کی غرض سے اپنے بچوں کو ان کے گھر چھوڑنا شروع کردیا۔بیٹے کی محبت کے ہاتھوں مجبور دادی نے بھی ثریا کی معافی منظور کرلی۔ ویسے بھی دادی کو کچھ کم دکھائی دینے لگا تھا وہ یہ بھی نہ جان سکیں کہ دشمن تاک لگائے بیٹھا ہے۔
میل جول اور پیار پروان چڑھتا رہا ،یوں ایک دن یہ تمام بچے پکنک منانے کی غرض سے شالامار باغ گئے، جہاں خاص طور سے چچی جان یعنی ثریا بانو نے بچوں کے لیے بریانی بنا کر بھیجی تھی۔ خدا کی پناہ بریانی کھاتے کھاتے سب کے کھانے میںبال نکلنا شروع ہوگئے اور دیکھتے ہی دیکھتے تمام بچوں کے بیچ ایسی لڑائی ہوئی کہ اینٹ کتے کا ویر۔ بس اگلے ہی دن شگفتہ ناز کو تیز بخار چڑھا اور اُنہوں نے بستر سنبھال لیا ۔ میٹرک کا امتحان سر پر کھڑا تھا ،تپتے بخار میں چھوٹی بہنوں شمع اور بلقیس نے پکڑ پکڑ کر بڑی باجی کو پرچے دلوائے ،بڑی مشکل ہی سے سیکنڈ ڈویژن تک ہی بات بن پائی ۔ جس پر رشید میاں نے کہا کہ میں اتنے کم نمبروں سے پاس ہونے پر کالج میں داخلہ لے کر نہیں دے سکتا ۔ پڑھائی بند کر کے گھر بیٹھو اور یوں چاروں بچیوں کی آگے پڑھنے کی خواہش ادھوری رہ گئی۔ شگفتہ بی بی کا بخار ٹائیفائیڈ میں تبدیل ہوچکا تھا اور نظر بھی کافی حد تک گر گئی۔ ایک دن خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ دادی جان بھی چل بسیں ، بس پھر کیا تھا شگفتہ ناز ہی اب پورے گھر کی بڑی باجی بن کر رہ گئیں ۔گھر والوں کے علاوہ محلے دار رشتہ دار، عزیز و اقارب سب اُنہیں بڑی باجی کے نام سے پکارنے لگے ۔ شمع اور بلقیس بھی جوان ہونے لگی تھیں ۔رشید میاں اب دوسروں کے کتب خانوں میں پارٹ ٹائم نوکری کرتے تھے اس لیے حالات کافی تنگی کا شکار ہونے لگے بھائی کوئی تھا نہیں جو بڑھاپے کا سہارا بنتا ،بس یوں سمجھیئے کہ صورتِ حال کافی گھمبیرتھی۔ کبھی کوئی خالہ چھٹیوں میں باقی بہنوں کو اپنے ساتھ ملتان لے جاتی ،تو کبھی کوئی پھوپھی اپنے ساتھ کراچی گھمانے۔ سیرسپاٹا تو صرف ایک بہانہ تھا اصل مقصد تو اپنے اپنے گھروں میں مفت کام کروانا۔ رشید میاں سیدھے سادھے انسان تھے ، جو رشتہ داروں نے جھوٹ سچ لگایا ، مان لیا اور بچیوں کی کیا مجال کہ وہ بڑوں کے آگے چوں بھی کرجائیں۔
کہتے ہیں کہ بڑی بہن ماں کی جگہ ہوتی ہے، یہی سوچ شایدشگفتہ ناز کے ذہن میں بھی پروان چڑھ رہی تھی ۔ اپنی بیماری سے اُٹھتے ہی اُنہوں نے کسی دوا بنانے والی کمپنی میں نوکری کرلی۔ گھر میں کچھ پیسے آنے شروع ہوئے تو بڑی باجی کی عزت و عافیت بے پناہ بڑھ گئی اور ساتھ ہی ساتھ ایک کالے موٹے چشمے نے اُن کی آنکھوں پر بیٹھ کر اُن کے رعب و دبدبے میں بھی اضافہ کردیا۔ اب جو بھی رشتہ بڑی باجی کے لیے آتا وہ منجھلی شہناز کو پسند کر جاتا ،لیکن وہ بھی رشتہ سے صاف انکار کردیتی۔عمر بڑھتی جارہی تھی اور رشتے بھاگے جارہے تھے ۔ گرمیوں کی چھٹیوں میں پھوپھی جان ، شہناز کو اپنے ہمراہ کراچی لے گئیں۔تین مہینے بعد، پھوپھا جان نے رشید صاحب کو شہناز کے نکاح کی اطلاع فون پر دی، تو سنا ہے کہ رشیدمیاں دیواروں سے ٹکریں مار مار کر رو ئے ۔گھر میں جیسے کوئی مر گیا ہو۔ ظاہر ہے ایک شریف آدمی کے لیے یہ مرنے ہی کا مقام ہے جس کی جوان بیٹی نے اُس کی مرضی کے بغیر شادی کرلی ہو۔ میاں صاحب نے صاف صاف کہہ دیا کہ شہناز سے ہمارا کوئی تعلق نہیں ہے، میری آج سے صرف تین ہی بیٹیاں ہیں۔
اب شگفتہ بی بی کی سنو، اِس صدمے کا اُن پر ایسا اثر ہوا کہ اُنہوں نے چھوٹی بہنوں پر کڑی نظر رکھنی شروع کردی۔ اُن کا باہر آنا جانا روک دیا گیا ۔ سہیلی سے ملنے کے لیے بھی ایک مقررہ وقت دیا جاتا تھا۔ میٹرک کا امتحان پاس کرتے ہی ، امی جان کے دوردراز کے عزیز وں کی طرف سے ، عباد میاں کا رشتہ ، شمع کے لیے بڑی چاہت سے مانگا گیا۔





عباد میاں تھے تو اُس دور کے بڑے گورے چٹے ، قد آور، میٹرک پاس اور نو بہنوں کے اکلوتے بھائی۔ ان کے ابا پوسٹ آفس میں ملازم ہوا کرتے تھے اِسی بنیاد پر عباد میاں کو بھی وہیں ملازمتمل گئی تھی۔ لڑکا برسرِ روزگار، دیکھا بھالا خاندان اور کیا چاہیے تھا؟ بڑی باجی نے کچھ بچت کی کچھ اُدھار پکڑا اور شمع کو گھر سے خوشی خوشی رخصت کر دیا گیا۔
اب رہ گئی تو صرف بلقیس ، جو تمام بہنوں میں سب سے خوبصورت تھی ، یوں کہ جیسے آسمان سے کوئی حور اُتری ہو لمبا قد، گوری رنگت، نیلی آنکھیں ، سنہرے بال ، لگتا ہی نہیں تھا کہ یہ ایک ہندوستانی خاندان سے تعلق رکھتی ہے۔ ہلکی سی سرخی ہی لگاتی تو کسی لندن کی گوری میم سے کم نہ دکھتی۔ بڑی باجی نے سمجھ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے لگے ہاتھ اپنے ہی رشتہ داروں کے ہاں ایک نہایت شریف خاندان میں ، بلقیس کی بھی منگنی کردی۔ ابھی اس منگنی کو کچھ ہی عرصہ گزرا تھا کہ کراچی سے شہناز اور پرویز میاں ، میرا مطلب ہے کہ ان کے سرتاج کی لاہور واپسی کی اطلاع دی گئی ۔ شگفتہ ناز بہن کی محبت میں اپنے ڈیڈی اور بلقیس کو ساتھ لیے لاہور ریلوے اسٹیشن پہنچ گئیں ۔ سامنے سے سات ماہ کی حاملہ شہناز بی بی ، اپنے سامان اور میاں کے ساتھ چلی آئیں اور آتے ہی اپنے ڈیڈی کے قدموں میں گر گئیں ۔ بھلا آدمی کیا کرتا ؟ باپ نے بیٹی اور داماد کو گلے لگا لیا ۔ چوں کہ پرویز میاں دادی کی ایک سہیلی کے بیٹے تھے ، جو کراچی سے لاہور امتحانات کی غرض سے اکثر رشید میاں کے یہاں رک جایا کرتے تھے۔ یوں وہ ان کے لیے اجنبی نہ تھے۔آخرکار ان سب نے کفایت شعاری کی غرض سے ایک ہی چھت کے نیچے اکٹھے ، خوش گوار زندگی جینے کا فیصلہ کیا ۔ شاید شگفتہ ناز کو اپنے والد صاحب کی عمر کے احساس کے ساتھ پنجاب کے حالات کا بھی بہ خوبی علم تھا کہ اس معاشرے میں اکیلی عورت کا رہنا کتنا مشکل ہوتا ہے۔ سو باجی نے بھی پرویز بھائی کو نا اُمید نہیں کیا اور اندرونِ شہر ایک ایسا گھر لیا گیا جس کا کرایہ بڑی باجی اور پرویز میاں میں برابر تقسیم ہونے لگا۔
اب سنیے ذرا ، پرویز میاں کی ،شروع کے دنوں میں تو شہناز پر جان نچھاور کرتے تھے، لیکن جیسے ہی تین بچوں کی قطار لگی ، تو جناب کے تیور ہی بدل گئے ۔ ہر وقت گھر میں بچوں پر سختی ، میاں بیوی کے جھگڑے ، چیخ پکار اپنے رشتہ داروں کو کراچی سے بلا کر گھر والوں سے ان کی سیوا کروانا۔ یہ باتیں شگفتہ ناز کو کافی حد تک ناگوار گزرنے لگیں ۔ لیکن ہاں ایک بات تو پرویز میاں کی بھی ماننی پڑے گی کہ تھے تو وہ شگفتہ ناز سے عمر میں کچھ بڑے، لیکن ان کی کیا مجال جو بڑی باجی کے سامنے چوں بھی کرجائیں۔ بلاشبہ اُن کا چیخنا چلانا صرف اپنے خاندان تک ہی محدود ہوتا، تاکہ گھر کا اکلوتا مرد سربراہ ہونے کی حیثیت سے کچھ تو دہشت قائم رکھی جاسکے۔ بڑی باجی جب بھی ان میاں بیوی کے جھگڑے کے بعد اپنے ڈیڈی کو لے کر الگ گھر میں رہنے کا مطالبہ کرتیں ، تو فوری طور پر ان سے ہاتھ جوڑ کر معافی مانگ لیا کرتے تھے ۔ باجی بھی معاف کرکے سوچتیں کہ نجانے یہ کھٹکھٹا کب تک چلے گا ؟ ابھی حالات کچھ کارسازگار نہ ہوئے کہ تیسرے نمبر کی شمع کو سسرال والے ان کے یہاں یہ کہہ کر چھوڑ گئے کہ بھیا!علاج کرواؤ اپنی بہن کا، اس پر آسیب ہے۔ چلو جی ، بہن کا خرچہ بھی آن پڑا ، لیکن بڑی باجی نے اُف تک نہ کی اور بہن کے دردِ شقیقہ کے ہر طرح کے حکیمی اور روحانی علاج کروا ڈالے ۔ دو تین مہینے کی مسلسل تگ ودو سے جب شمع بھلی چنگی ہوئی، سسرال والے لینے آگئے ۔
اب شگفتہ کی زندگی ذرا پٹڑی پر آرہی تھی۔ ملازمت کے دوران ، زاہدہ نامی بیوہ خاتون سے دوستی ہوئی جو ایک عدد جوان بیٹے کی ماں بھی تھی ۔ رازونیاز بانٹے گئے اور زاہدہ بیگم ان کے گھریلو حالات سے باخبر رہنے لگیں ۔ انہی دنوں بلقیس کے منگیتر کو پولیس بے بنیاد غلط فہمی کے باعث ، گرفتار کرکے لے گئی اور اس بے چارے کو پوری رات تھانے میں گزارنی پڑی ۔ معافی تلافی سے بات آئی گئی ہوگئی ، لیکن جی کہاں، پرویز میاں کو تو جیسے موقع مل گیا بڑی باجی کو کچوکے دینے کا۔ اکثر بلند آواز کہہ دیا کرتے کہ ”جاؤ جاؤ ، بلقیس کا نکاح جیل میں ہی پڑھوانا جاکر۔” اُف! بڑی باجی کو بہت غصہ آتا کہ کیا ہمارے ایسے برے دن آگئے ہیں ،جو پرویز میاں کے فضول طعنے بھی سنیں۔ شگفتہ ناز نے جذبات میں اکر منگنی ہی توڑ ڈالی۔ بلقیس تو ویسے ہی شہناز اور پرویز میاں کے بچوں کو پالتے پوستے تھک چکی تھی۔ بڑی باجی کے اس فیصلے سے بلقیس پھوٹ پھوٹ کر روئی کہ نہ جانے اس قید سے وہ کب آزاد ہوگی؟ شاید خدا نے بلقیس کی پکار سُن لی اور اگلے ہی دن ایک درمیانے قدکاٹھ ، گندمی رنگ اور غلافی آنکھوں والا لڑکا ان کے یہاں پرویز صاحب کا دوست بن کر آیا۔بعد میں پتا چلا وہ ان کے آفس میں ہی کام کرتا ہے اور کسی اچھی اور سلجھی لڑکی سے بیاہ کرنا چاہتا ہے۔ اب لگے پرویز میاں، کلیم کے لیے لڑکی ڈھونڈنے، جھٹ سے بلقیس کا خیال آیا اور بڑی باجی اور ڈیڈی کے سامنے رشتہ ڈال دیا۔





ڈیڈی جی کا تو گھر میں اب عمل دخل کچھ خاص نہیں رہ گیا تھا ۔ سوچنا سمجھنا تو بہنوں کو تھا۔ لو جی چار گواہوں کی موجودگیمیں نکاح ہوا اور سادگی سے ایسے رخصتی کی گئی جیسے بیوا اور رنڈوے کی شادی ہو، یوں بلقیس بھی اپنے گھر کی ہوئی۔ شادی کے سال بعد ہی بلقیس بیگم نے ایک بیٹی کو جنم دیا جب کہ شمع کے یہاں بھی ، شہناز کی طرح تین بچوں کی ولادت ہوچکی تھی ۔ اب تمام بہنوں نے تہیہ کیا کہ کیوں نہ اب اپنی بڑی بہن کا گھر بسایا جائے اور ہر ایک نے اپنی اپنی حیثیت کے مطابق شگفتہ ناز کے لیے رشتہ کی مہم شروع کر ڈالی۔ چوں کہ پرویز اور کلیم میاں دونوں ہی سرکاری ملازم تھے ، تاہم وہ بھی بڑی باجی کے لیے نت نئے رشتوں سے اپنی اپنی بیویوں کو آگاہ کرتے رہتے ، لیکن شگفتہ ناز ان کے بتائے ہوئے رشتوں پر کبھی آمادہ نہ ہوتیں ۔ بھئی ان کی اپنی بہنوں کو کون سا ایسا سکھ مل گیا تھا شادی کرکے جو شگفتہ ناز کو بھی مل جاتا۔
ایک دن اچانک شہناز نے شمع اور بلقیس کو فون پر بڑی باجی کی بات پکی ہونے کی اطلاع دی اور کہا کہ اس ہفتے ہم نے شگفتہ ناز کے نکاح کا پروگرام رکھا ہے تو ذرا سج دھج کر آنا ۔ دونوں بہنوں کو بڑا تعجب ہوا کہ اچانک سے بڑی باجی رشتہ کے لیے راضی کیسے ہو گئیں ؟بہرحال عین نکاح کے موقع پر جب دُلہا میاں کا چہرہ مبارک سامنے آیا ، تو وہ ساٹھ سالہ رنڈوا بڈھا نکلا ۔ سنا ہے بی بی زاہدہ نے شگفتہ ناز کو بہلا پھسلا کر اس رشتے کے لیے آمادہ کیا تھا ، کہ عمر زیادہ ہونے کی وجہ سے اب کم عمر لڑکا تو ملنے سے رہا، جس پر پرویز میاں اور اُن کی بیگم نے بھی چھان بین کرکے اچھی طرح تسلی کرلی تھی یا یوں کہیے کہ وہ دونوں بھی بڑی باجی کے فریضے سے جلد از جلد سبک دوش ہونا چاہتے تھے۔ اس لیے شگفتہ ناز کو بغیر تصویر دکھائے پوری تسلی دیتے رہے، لیکن بلقیس اور شمع کو دُلہا میاں کی عمر من ہی من کھٹکے جائے کہ ہماری باجی کی تو پسند ہی وحید مراد جیسا، ہردل عزیز چاکلیٹی ہیرو ہے وہ کیسے اس بے ڈھنگے سے رشتے کے لیے ہاں کرسکتی ہیں۔ نکاح ہونے تک زاہدہ بی بی نے بہنوں کو دلہن کے کمرے میں جانے سے روکے رکھا کہ کہیں اس کا اپنا بھانڈا نہ پھوٹ جائے۔
فوری رخصتی کے اعلان پر ، جب شگفتہ ناز دُلہا میاں کا چہرہ دیکھا ،تو بے ساختہ خوف سے رو رو کر برا حال کرلیا ،لیکن نکاح ہوچکا تھا مگر، رخصتی تو ہونی ہی تھی۔وہ کسی بھی صورت اس بڈھے کے ساتھ جانا نہیں چاہتی تھیں تاہم اپنے ڈیڈی کی عزت بچانے کے لیے اُنہوں نے گھر سے جانا ہی بہتر سمجھا۔
اگلے ہی دن جب بہنیں، دل بھاری کرکے بڑے میاں کی طرف ناشتا لے کر پہنچیں ، تو شگفتہ ناز کو اسی حالت میں بیٹھے پایا ،جیسے رات سیج پر چھوڑ کر گئے تھے ۔ معلوم ہوا کہ دُلہا میاں نے تو ساری رات وظائف پڑھنے میں گزار دی اور دلہن کے پاس بھی نہ پھٹکے۔ اب تو شگفتہ ناز نے ٹھان لی تھی کہ اس موئے بڈھے کے ساتھ نہیں رہنا ۔ واپس گھر جاکر بہنوں نے خلع کا نوٹس بھجوا دیا کہ یہ شادی دھوکے کی بنیاد پر ہوئی اور شگفتہ ناز کو تو کیا کسی کو بھی دُلہا کی اصلی عمر کا معلوم نہ تھا۔بڑی تگ و دو کے بعد چھوٹے بہنویوں نے مل کر شگفتہ ناز کی اس بڑے میاں سے جان چھڑائی۔
بس پھر کیا تھا، شگفتہ ناز کا دل تو جیسے شادی کے نام سے ہی اُچاٹ ہوگیا، اگر کوئی بھول کر بھی ان کے سامنے کسی رشتے کا ذکر کردیتا، تووہ خود کو کمرے میں بند کرکے رونا شروع کردیتیں ۔وقت گزرتا رہا اور اپنی مایوس کن داستان شگفتہ ناز کے چہرے پر ، گہری لکیروں کی صورت چھوڑتاچلا گیا۔ دوسری اور آخری ملازمت انہیں گلبرگ کی نامی گرامی بوتیک میں ملی۔ ان کی زندگی کا محور صرف اپنا کام اورا سٹاف کے لوگ تھے۔مالکن ایک اچھی عورت تھی جوشگفتہ کے لیے ہمدردی کے جذبات بھی رکھنے لگی تھی ۔ سنیاروں کے خاندان سے تعلق ہونے کی بنا پر شگفتہ ناز کو سونے اور ہیرے جواہرات کا علم تھا اس لیے مالکن نے ترقی کے طور پر انہیں جیولری سیکشن کا انچارج بنا ڈالا۔
ڈیڈی کی بھی کافی عمر ہوگئی تھی ،لیکن شگفتہ ناز کا فریضہ ابھی تک ان کے کندھوں پر تھا۔ کلیم میاںخاصے ہوشیار اور رنگین مزاج شخص تھے اکثر عورتوں کی محفل میں بیٹھ کر ، اپنی سریلی آواز سے اپنا گرویدہ بنانے کا فن خوب جانتے تھے۔ صرف دو یا تین سال ہی بیچاری بلقیس نے سکون کے گزارے ہوں گے، کہ بھائی صاحب کو کسی نے فلم بناکر بہ طور ہیرو آنے کا جھانسا دے ڈالا۔ تبھی کلیم میاں نے بڑی باجی اور ڈیڈی کو اپنے گھر رکھنے کااصرار شروع کردیا۔ بھئی فلمی لوگ رات دیر شوٹنگ میں جو مصروف رہتے ہیں۔ نہ دن کا پتا نہ ہی رات کی خبر، تو پیچھے سے کوئی تو گھر اور بیوی بچوں کی دیکھ بھال کے لیے ہونا چاہیے یا نہیں۔ چل پڑیں بیچاری بڑی باجی دوسری بہن کے گھر کی نگہبان بن کر۔
ہر عورت کو اپنے شوہر سے وقت درکار ہوتا ہے، لیکن کلیم میاں نے آنکھیں ماتھے پر رکھ کر صاف لفظوں میں اپنی بیگم سے کہہ دیا تھا کہ میں صرف تمہیں پیسہ دے سکتا ہوں، لیکن وقت نہیں، یوں جب بھی بلقیس کو اپنے شوہر کی بے وفائی پر غصہ آتا، بیچاری شگفتہ ناز کی شامت آتی کہ” باجی تم نے میری شادی اس جیسے فلمی اور آوارہ آدمی سے کیوں کروائی؟ بے چاری بڑی باجی خاموشی سے ساری باتیں سنتی رہتیں۔
اب تو سب بہن بہنویوں نے یہی وتیرہ بنالیا تھا کہ کسی کو بھی اگر کیئر ٹیکر کی ضرورت ہوتی ، تو بس حکم صادر ہوجاتا کہ بڑی باجی سے کہو کہ وہ اپنے کام سے سیدھا ہماری طرف آجائیں۔دنیا کا یہی دستور ہے ، دبنے والے کو اور دبائے جاؤ، لیکن ہاں ایک بات تو ماننی پڑے گی۔ تینوں بہنویوں کے دلوں میںبڑی باجی کے لیے عزت میں بہ تدریج اضافہ ہوتا چلا جارہا تھا اور اپنے بچوں کو بھی شروع سے انہیں بڑی آنٹی کہنے کی عادت ڈلوادی۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ شگفتہ ناز ، بڑی باجی سے بڑی آنٹی تو بن گئیں، بس ایک شادی ہی تھی جونہ ہوسکی۔





بلقیس کے سسرال والے ذرا دیہاتی قسم کے لوگ تھے۔ جونہی کلیم میاں کے گھر میں ان کا عمل دخل شروع ہوا ، شگفتہناز کو خود پر زندگی تنگ محسوس ہوتی نظر آئی۔کبھی کلیم میاں کی چھوٹی بہن ان کے بارے میں اوٹ پٹانگ بکواس کرتی، تو کبھی بچوں کے ساتھ مل کر بیمار نانا کی نقل اتارتی رہتی۔ جیسے ہی یہ تمام حرکات و سکنات شگفتہ ناز کو معیوب لگنا شروع ہوئیں انہوں نے اپنے باپ کی عزت بچانے کی خاطر بہنوں کے در پر رہنے کے بہ جائے اپنا الگ مکان لینے کا فیصلہ کیا۔ کمیٹیوں کے پیسے جوڑ جوڑ انہوں نے شہناز اور پرویز میاں کے علاقے ہیمیں ، ایک چھوٹے سے گھر کے دو کمرے کرائے پر لے لیے تاکہ دونوں باپ بیٹی، بہنوں کی سسرالیوں کے طعنوں سے دور عزت و سکون کے ساتھ باقی زندگی گزار سکیں۔
اب شمع بیگم کی سنیے، نو نندوں کا ساتھ اور پانچ بچوں کو جنم دے کر بے چاری ہڈیوں کا پنجر بن گئی۔ آئے دن بے چاری کے دردِ شقیقہ کا مسئلہ ناسور بنتا گیا اور الزام آیا بڑی باجی پر کہ ہمیں بیمار لڑکی تھما دی۔ ارے ان جاہلوں کو کون بتائے کہ کسی انسان کو تم اچھا کھانے پینے کو نہ دو ، اوپر سے ،کام لو جانوروں کی طرح تووہ بے چارہ تو گیا نا اپنی جان سے۔ نہیں جی !بس جیسے ہی شمع بی کا دوپٹا بندھا سر پر، شگفتہ ناز کو آفس فون کیا جاتا کہ آو ٔ اور سنبھالو اپنی بہن کو۔
خیر یہ تو ہر ہفتہ کی خواری تھی۔ انہی دنوں فلمسٹار وحید مراد کا انتقال ہوگیا۔ سنا ہے یہ دوسری مرتبہ شگفتہ ناز کسی غیر کے لیے بے انتہا روئی تھی، پہلی مرتبہ وہ ذوالفقار علی بھٹو کے مرنے پر بھی خوب روئی تھیں۔ نہ جانے کیسے کوئی کسی اجنبی کے لیے اتنا رو سکتا ہے؟ یہی تو بات ہے نا، جو انسان خود میں دردچھپائے ہو ، وہی کسی دوسرے کا غم بھی سمجھ سکتا ہے۔ اس پھیکی بے رنگ زندگی میں ایک خوش گوار احساس ، کلثوم کی شکل میں بڑی آنٹی اور ان کی بہنوں کی زندگی میں آیا۔ کلثوم بھی انہی کی بوتیک پر کام کرنے والی سیلز گرلز میں سے ایک تھی ، لیکن اپنی خوبصورتی اور چالاکی کو کیش کرواکر ، کچھ ہی عرصہ میں اپنی بوتیک کھول بیٹھی ۔ اس بیچاری نے سیدھی سادھی بڑی آنٹی میں ، ایک اچھی سہیلی ہونے کے ناطے ، زمانے کے حساب سے کچھ تبدیلیاں لانے کی بھی کوشش کی لیکن ناکام رہی۔
بہنوں کے حالات بہتر ہوئے تو ان کے پاس گاڑیاں آگئیں، پرصبح سویرے ایک لمبی سی چادر اوڑھے ، آنکھوں پر عینک لگائے خاموشی سے چھے نمبر وین پر لبرٹی کے اسٹاپ پر اُترنا اور وہاں سے پیدل چل کر بوتیک جانا ،بڑی آنٹی کا معمول بن چکا تھا ۔ بس اتنا ہی آسرا کافی تھا کہ جس بہن کے درپر ہوتیں، گاڑی میں بس اسٹاپ تک رسائی ممکن ہو جاتی۔اسی معمول کو دیکھتے دیکھتے بہنوں کے بچے بھی جوان ہوتے گئے اور یہ کھٹکھٹا اسی رفتار سے آگے گھسٹتا چلا گیا۔
ایک دن کلیم میاں نے باجی کو فون پر بلقیس کی بیماری کی اطلاع دی ۔
” ہائے ہائے!تین بچوں کی ماں کو ایسا کیا ہوگیا جو کلیم میاں نے فوری طور پر گھر جانے کا حکم دے ڈالا؟” یہ سوچتے ہی بڑی آنٹی نے کام چھوڑ اپنی بہن کے گھر کا رُخ کیا۔ ماجرا یہ نکلا کہ بلقیس کو اچانک بیٹھے بیٹھے گٹھیا کا مرض لاحق ہو گیاتھا۔ خدا کی پنا ہ !وہ تو اٹھنے جوگی بھی نہ ہے ، اپنا گھر کیسے سنبھالے گی؟یہ خیال آتے ہی ، انہوں نے شہناز بی بی کو اپنے ڈیڈی کا نگہبان مقرر کیا اور بلقیس کے گھراس کی اور اس کے بچوں کی خدمت کے لیے رہنے لگی۔سچ بات تو یہ تھی کہ لاہور کے تمام مہنگے ترین ڈاکٹروں اور حکیموں نے بلقیس کے علاج میں کوئی کسر نہ چھوڑی ، لیکن آرام ہے کہ آتا ہی نہیں ۔اوپر سے بلقیس بیگم تھی بھی کچھ لڑاکا اور وہمی طبیعت کی مالک۔ وہ اسی بات پر اَڑ گئی کہ ہو نہ ہو کلیم کے گھر والوں نے ہی ان پر کوئی کالا علم کروا دیا ہے ، جو توڑ نہ ہونے تک قائم رہے گا۔ اب بھلا بتاو ٔ بیچاری بڑی آنٹی ، بہنوئی کی مانے تو پھنسے اور بہن کی مانے تو بُری بنے۔ سیاست اور چالاکی سے مبرّا یہ ہستی جائے تو کہاں ؟ بہنوئی کے کہنے پر بلقیس کو کبھی ڈاکٹر کے یہاں تو کبھی کسی بزرگ کی درگاہ پر۔ آخرکار مسلسل چھے سات مہینوں کی تگ و دو سے بیماری دور ہو تو گئی ، لیکن بلقیس کے مطابق اسے شفا کسی نیک پیر صاحب کے مزار پر حاصل ہوئی، جب کہ کلیم میاں کا ماننا تھا کہ پیسہ پانی کی طرح جو بہایا تھا علاج پر ، آرام تو یقینی آنا تھا۔ خیر!جان چھٹی تو لاکھوں پائے ، بڑی بہن کا ناطقہ بند کرکے اب دونوں میاں بیوی ساری زندگی چور پولیس کھیلتے رہو۔
شادی تو بہنوں سے کروائی نہ گئی لیکن خدمتیں خوب کروا ڈالیں ۔ دیکھنے والے تو یہی کہہ دیا کرتے ”کہ دیکھو بیچاری اکیلی ہے ۔ نہ شوہرہے ، نہ بچے، بس ایک واحد ڈیڈی ہیں نجانے کب اُن کا بھی بلاوا آجائے۔ بیچاری شگفتہ تو اکیلی رہ جائے گی۔ ”لیکن کوئی یہ نہیں جانتا تھا کہ وہ شادی کرنا ہی نہیں چاہتی اور کرتی بھی کیوں…؟ طرح طرح کے بہنویوں کے گھر گرہستی چلانے کی قابلیت کو دیکھ شاید اُن کا شادی نہ کرنے کا فیصلہ یک دم پختہ اور اَٹل ہوچکا تھا۔ اکثر کہہ دیا کرتیں ” شوہر حقیقت میں ایک دوغلا کردار ہے، جو صرف ایک مخصوص ضرورت کے تحت ، اپنی عورت کو ساتویں آسمان پر چڑھا دیتا ہے اور ضرورت پوری ہوجانے پر ایسے گراتا ہے کہ وہ بیچاری زمین کے بجائے کھائی میں گرتی ہے۔ اس لیے میں تو باز آئی ایسی شادی سے۔”




Loading

Read Previous

سمو — شاذیہ ستار نایاب

Read Next

محبت نام ہے جس کا —– محمد حارث بشیر

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!