چاہت — ثناء ذوالفقار

محبت کا ستایا ہوا انسان اکثر بھٹک جاتاہے، وہ بھی اسی سفر کی ایک تھکی ماندی مسافر تھی۔
”اماں ابھی نماز کا وقت ہے؟” اس نے اتنے سالوں بعد پوچھا، تو ماں چونک گئی۔
”ہاں ہے۔” ماں نے قدرے الجھے ہوئے انداز میں جواب دیا۔
وہ جلدی سے وضو کر کے جائے نماز بچھا کر نماز کے لیے کھڑی ہو گئی۔ ابھی دو رکعتیں ہی ادا کی تھیں کہ وہ پھوٹ پھوٹ کر رو دی، گویا صدیوں کا درد آنسوؤں میں اُمڈ آیا ہو۔
”یا اللہ! یہ سب کیا ہے؟ تو نے انسان کو اتنا حساس دل کیوں بنایا؟ جب تو نے دل کے پوشیدہ خانوں میں اپنی چاہت کا بیج بو رکھا ہے تو پھر آدم زاد کی چاہت کی کشش کیوں پیدا کی؟ یا خدا! تُو تو رحم کرنے والا ہے، یا تو اسے مجھ سے ملا دے یا پھر اس دل کو قرار بخش دے ۔” اسے خود بھی اندازہ نہیں تھا کہ اس نے اپنے رب سے یہ سب کیوں کہا؟ طویل مدت کے بعد رب کے دربار میں حاضری دینے پر لوگ بخشش مانگتے ہیں اور اس نے کیا مانگا تھا؟ مگر دل پر کس کا زور چلتا ہے بھلا۔
نماز مکمل کرنے کے بعد اس نے موبائل دیکھا، اب کی بار صرف ایک ہی میسج آیاہوا تھا۔ ”رابی شاید تم میری محبت سمجھ نہیں سکی، مگر میں ہمیشہ تمہارا منتظر رہوں گا۔” یہ کاشف کا نمبر تھا۔ اس کے جسم میں گویا بجلی کوند گئی ہو، اس کا دل بے ربطگی سے دھڑکنے لگا، اس نے موبائل پرے پھینک دیا۔ وہ مسلسل بے سکونی کا شکار تھی۔
”اگر نماز سے بھی سکون نہ ملے، تو کیا کرنا چاہیے؟”
”تو قرآن کی تلاوت شروع کر دینی چاہیے۔”
بہت عرصہ پہلے کسی ٹی وی شو میں ایک عالم نے سوال کے جواب میں کہا تھا۔ اس نے تفسیر والا قرآن پاک الماری سے نکالااور پڑھنے لگی۔”اور بے شک اللہ دلوں کے بھید خوب جانتا ہے۔”
”حکم صرف اللہ ہی کے لیے ہے،وہ جو چاہتا ہے، کرتا ہے۔”





وہ جلدی سے قرآن پاک کی تفسیر پڑھنے لگی۔
قدرے سکون ملا پھر اس نے ایک حدیث کی کتاب نکالی۔ صفحات کھولتے ہی جس حدیث قدسی پر نظر پڑی۔
”اک تیری چاہت ہے اور اک میری چاہت ہے،اگر تو وہ کرے گا جو میری چاہت ہے تو میں تجھے وہ بھی دوں گا جو تیری چاہت ہے اور اگر تو وہ کرے گا جو تیری چاہت ہے تومیں وہ بھی چھین لوں گا وہ جو تیری چاہت ہے اور پھر ہو گا وہی جو میری چاہت ہے۔”
وہ چونک گئی،کیا یہ اس کے سوالات کے جواب تھے؟ جو اس نے رب سے جھگڑے کیے تھے، اس کے جواب؟ اس نے جلدی سے حدیث کی کتاببند کر دی، پسینے کے ننھے ننھے قطروں نے اس کی پیشانی بھر دی تھی۔ تھوڑی دیر بعد اس نے دوبارہ پڑھنے کی کوشش کی لیکن نہ پڑھا گیا۔
اس نے گھبرا کر جلدی سے حدیث کی کتاب بند کر دی۔
وہ بستر پر لیٹی ہوئی تھی، آنکھوں سے نیند کوسوں دور تھی۔ سوچیں خواہشات کے تعاقب میں خوابوں کے ٹوٹے محلوں کے نشانوں سے وفاداری کا صلہ مانگنے بہت دور نکل گئی تھیں۔ ”بہتے پانی کی سی صاف، مشک دار پاکیزہ، بارش کے بعد نکھرے ہوئے آسمان کی طرح، کچے کمرے کے طاق میں رکھے چراغ کے مانند روشن، چھوٹے سے بچے کی سی معصومیت لیے، محبت تو ایسی ہوتی ہے، یہ تو بہت مقدس ہوتی ہے نا، اس میں تو خیر ہی خیر مانگی جاتی ہے۔ وہ خود ہی سے باتیں کر رہی تھی کہ موبائل کی اسکرین روشن ہوئی، اسی نمبر سے میسج تھا۔





”رابی میں مر جاؤں گا اگر تم نہ ملی تو۔”
اس نے بے بسی کی شدت سے آنکھیں بند کر لیں۔ چند آنسو آنکھوں کے کناروں سے فرار ہوتے ہوئے تیزی سے بہ گئے گویا اسی آزادی کے پل کی تلاش میں ہوں۔
آج صبح قدرے نکھری ہوئی تھی۔ ماں کے بہت اصرار کے بعد وہ بازار جانے کے لیے راضی ہو گئی۔ جب کافی دیر تک ماں کی خریداری ختم نہ ہوئی تو اس نے منہ بسورتے ہوئے کہا:
”اماں! بہت بھوک لگی ہے، پہلے کچھ کھا لیں؟” اس نے ایسا منہ بنایا کہ ماں کو ترس آگیا۔
”چلو ساتھ ایک ریسٹورنٹ ہے، وہاں سے کچھ کھا لیتے ہیں۔”
وہ کھانا کھا کے باہر نکل ہی رہی تھی کہ سامنے ایک مانوس سا چہرہ مسکراتے ہوئے داخل ہو رہا تھا۔ کاشف کے ہاتھ میں ایک لڑکی کا ہاتھ تھا، اس نے آنکھیں پھاڑ کے دوبارہ دیکھا، وہ کاشف ہی تھا۔ اس کے پاؤں کے نیچے سے زمین نکل گئی یا اس نے حواس کھو دیے، اسے خود بھی کچھ یاد نہیں رہا۔ وہ سب کچھ وہیں چھوڑ کے گھر چلی آئی۔
”صائمہ! صائمہ! وہ، وہ کاشف… کاشف وہ لڑکی، وہ کسی لڑکی کے ساتھ تھا۔ میں نے خود دیکھا۔” اس نے آتے ہی اپنی پرانی محرم راز صائمہ کو فون پر ہذیانی انداز میں ہکلاتے ہوئے کہا۔
”رابی! میری بات سنو، میں نے بھی اسے کل ایک لڑکی کے ساتھ دیکھا تھا، رابی؟میری بہن؟ تم سن رہی ہو نا؟ رابی… کچھ تو بولو… خود کو سنبھالو۔”
اس کے ہاتھ سے موبائل گر گیا اور آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا۔ وہ زندہ لاش کی طرح ہر احساس سے عاری چہرہ لیے کئی گھنٹے کھڑی رہی۔
اس کا پورا چہرہ بھیگ چکا تھا کہ ایک خوش الحان آواز اس کی سماعت سے ٹکرائی۔
”حی علی الصلوة،حی علی الفلاح۔”
وہ چونک گئی جیسے کوئی بہت بڑی گتھی خودبہ خود سلجھ گئی تھی۔ چہرہ صاف کیا اور وضو کرنے بھاگی۔ آج اسے خود کو رب کی بارگاہ میں پیش کرنا تھا، آج کوئی گلہ،کوئی شکوہ نہیں، صرف اور صرف اس ذات کا،جو دلوں کے ان بھیدوں سے بھی واقف ہے، جن سے وہ ناآشنا تھی، بندہ ہونے کا شکر ادا کرنا تھا، محبت کے سچا احساس دلانے پر، بندگی کا احساس دلانے پر۔

٭…٭…٭




Loading

Read Previous

آخری شام — سدرۃ المنتہیٰٖ جیلانی

Read Next

سمو — شاذیہ ستار نایاب

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!