”تم اُداس کیوں ہو؟” سینما سے واپس جاتے ہوئے گاڑی میں اقصیٰ نے مومنہ سے پوچھا تھا۔ ”تمہارے لیے۔ ”اُس نے بات بدلنے کی کوشش کی اور اقصیٰ جیسے اُس کے جھانسے میں آگئی۔ اُس
”مجھ سے اتنی نفرت ہوگئی ہے مومن کو اور مجھے پتہ ہی نہیں چلا۔” حسنِ جہاں نے سوئے ہوئے قلبِ مومن کو دیکھتے ہوئے جیسے بڑبڑاتے ہوئے وہ خط سلطان کی طرف بڑھایا تھا۔ مومن
شہریار کنول کی ایک پرانی ویڈیو دیکھ رہا تھا جس میں وہ بیت شرارتی سے انداز میں باتیں کررہی تھی۔وہ حسب معمو ل اپنے بیڈ پر بیٹھی ویڈیو بنا رہی تھی اور موبائل کیمرے میں
”مردوں کی طرف سے کتنا سپورٹ ملی؟” سمیع نے پوچھا۔ ”میں کہہ سکتی ہوں میرے ماں باپ نے مجھے بہت سپورٹ کیا۔ دوستوں نے خاصی طور پر ایک دوست ریحان جو پروگرام دیکھ رہا ہو
وہ کہتی گئی تھی۔ سلطان پلکیں جھپکائے بغیر اسے دیکھ رہا تھا جب وہ خاموش ہوئی۔ تو سلطان نے کہا۔ ”کس شخص کی وجہ سے؟” مومنہ نے اسکرپٹ میز پر رکھتے ہوئے کہا۔ ”سلطان کی
فوزیہ کے گھر والے آج بہت دنوں بعد ایک ساتھ مل کر بیٹھے تھے۔رحیم بات توماں سے کررہا تھا لیکن اس کی نظریں فوزیہ کی طرف تھیں جیسے اس کے تاثرات جانچنے کی کوشش کررہا