باغی ۔۔۔۔۔ قسط نمبر ۷ ۔۔۔۔ شاذیہ خان

کنول کوریڈور میں کھڑی ڈاکٹر سے بات کررہی تھی۔اس کے باپ کا آپریشن ہوچکا تھا۔ ڈاکٹرز اس کے ہاتھ میں آپریشن کابل تھماتے ہوئے بہت سپاٹ سے انداز میں بولا۔
”ہم نہیں چاہتے تھے لیکن ٹانگ کاٹنے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔”
”ڈاکٹر صاحب میں ابا کو کسی پرائیویٹ ہاسپٹل میں شفٹ کرنا چاہتی ہوں۔”کنول نے کہا۔
”دیکھ لیں ان کا آپریشن تو ٹھیک ہوگیا ہے لیکن اگر آپ مطمئن نہیں تو بے شک لے جائیں۔”ڈاکٹر نے کندھے اچکاتے ہوئے جواب دیا پھر بولا۔”لیکن یہ کچھ بل ہیں پہلے انہیں پے کردیں۔”
”وہ تو میں کردوں گی آپ بالکل فکر مت کریں۔بس یہ بتائیں آج مزید کسی ٹریٹمنٹ کی ضرورت تو نہیں؟”کنول نے پوچھا۔
” نہیں ویسے تو سب ٹھیک ہے۔بس یہ احتیاط ضرور کیجئے گا کہ مریض زیادہ ہلے جلے نہیں۔”ڈاکٹر نے ہدایت دیتے ہوئے کہا۔
” اس کی آپ فکر نہ کریں۔”کنول نے رسان سے کہا۔
”بس تو یہ بل پے کریں اور اپنا مریض لے جائیں۔”ڈاکٹر نے بے پروائی سے کہا۔ کنول نے ڈاکٹر کا شکریہ ادا کیا اوروارڈ میں چلی گئی۔
٭…٭…٭
”کل صبح مجھے کچھ پیسے چاہئیں،پلیز بھجوا دو۔”کنول نے کمرے میں جا کر ریحان کو فون کیا۔
”کتنے پیسے؟”ریحان نے سوالیہ انداز میں پوچھا۔
”یہی کوئی دو لاکھ۔”کنول نے کچھ سوچ کر جواب دیا۔
”اوکے نو پرابلم۔ مل جائیں گے۔” ریحان نے بے پروائی سے کہا پھر بولا۔”ابا کیسے ہیں؟”
” ٹھیک ہیں مگرڈاکٹرز نے ان کی ایک ٹانگ کاٹ دی ہے۔نقلیٹانگ لگنے تک انہیں بے ساکھیوں سے چلنا پڑے گا۔”کنول نے تھوڑا تھکے تھکے انداز میں جواب دیا۔
”اوہ ویری سیڈ،تم ان کا خیال رکھنا۔میں صبح ہوتے ہی پیسوں کا انتظام کردوں گا،فکر مت کرو۔”ریحان نے اسے تسلی دی۔
”تمہارے جیسے دوست کے ہوتے مجھے کیا فکر،چلو میں فون رکھتی ہوں،پھر ملیں گے۔”
ابھی وہ اس سے بات ہی کرنے کے بعد فون رکھ ہی رہی تھی کہ اس کی ماں آکرپاس آکھڑی ہوئی،اس نے سوالیہ انداز میں ماں کو دیکھا۔
” فوزیہ !منی کہہ رہی تھی تو اس ہسپتال سے اپنے ابا کو کسی دوسرے ہسپتال لے جانا چاہتی ہے؟”
”ہاں اماں دیکھ تو ذرا کتنی گندگی ہے یہاں اور پھر وہ ایک بڑا اور اچھا ہسپتال ہے۔ابا کا علاج اچھا ہو جائے گا۔”فوزیہ نے ماں کو سمجھایا۔
”لیکن اتنے پیسے کہاں سے آئیں گے۔”ماں نے پریشانی سے پوچھا۔
فوزیہ نے ماں کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر دباؤ ڈالا اور سمجھانے لگی۔” تو فکر مت کر،اس کا میں نے انتظام کرلیا ہے۔ بس تو سب سامان سمیٹ،ہم صبح ہوتے ہی دوسرے ہسپتال میں شفٹ ہو جائیں گے۔”
”چل تو جو کررہی ہے،بہتر ہی کررہی ہوگی۔”ماں نے کندھے اُچکاتے ہو ئے کہا۔
٭…٭…٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

شہریار ویک اینڈ پراسی پرانے ریسٹورنٹ میں بیٹھا کافی پی رہا تھا۔ساتھ ہی موبائل پرفوزیہ کاایک پرانامیسج پڑھتے ہوئے مسکرایا جس میں اس نے لکھا تھا کہ میں ویک اینڈ پراسی ریسٹورنٹ میں ملوں گی۔وہ وہاں شام پانچ بجے سے اس کے انتظار میں بیٹھا تھا۔اس نے ادھر ادھر دیکھا،سب مصروف تھے۔شاید بہت خوش بھی ہوں لیکن اس وقت شہریار کی خوشی کوئی اس سے پو چھتا کہ وہ کتنا خوش تھا ! کتنا خوش کُن احساس تھا کہ کچھ لمحوں ،کچھ منٹوں یا پھر کچھ گھنٹوں کے بعد وہ فوزیہ سے ملنے والا تھا۔
تھوڑی دیر بعد اس نے گھڑی کی طرف دیکھا جہاں پہلے چھے،پھر سات اور آٹھ بجے لیکن فوزیہ کا کہیں کوئی اتا پتا نہ تھا۔ اس نے فوزیہ کو کئی بارفون ملایا مگراس کا فون مسلسل بند جارہا تھا۔وہ پریشان ہوگیا اور دوبارہ گھڑی کی طرف دیکھاجہاں اب دس بج رہے تھے۔اس کا خیال تھا کہ شاید وہ کسی کام میں مصروف ہو گئی ہو اس لیے کوئی رابطہ نہیں کیا۔بہت دیرانتظار کرنے کے بعد وہ بل کافی کپ کی ٹرے کے نیچے رکھ کر ہوٹل سے باہر نکل آیا۔
٭…٭…٭
فوزیہ ہاسپٹل کے کوریڈور میں ایک بنچ پر مُنی اور اماں کے ساتھ بیٹھی ہوئی تھی،پھر اس نے مُنی کو باپ کے پاس جانے کا اشارہ کیا اور اسے وہاں سے اُٹھاتے ہوئے بولی۔
”جا مُنی!ابا اکیلا ہے۔تو جاکر اس کے پاس بیٹھ جا۔”منی نے بہت آرام سے اس کی بات مان لی۔
”اور سُن بھائی کو بھی فون کرکے بتا دینا کہ ہم اس ہسپتال میں آگئے ہیں۔”فوزیہ نے پیچھے سے آواز لگائی۔
”آج بھائی نہیں آیا تیرا؟”ماں نے دکھی لہجے میں پوچھا۔
”اس نے آج نہیں آنا تھا اماں!اور تو جانتی ہے کیوں۔”منی نے طنزیہ انداز میں کہا اور اند ر کی طرف بڑھ گئی۔
”ہاں لوگ اس لیے بیٹوں کی دعا کرتے ہیں۔”ماں فوزیہ کو دیکھتے ہوئے شرمندگی سے بولی۔
”اس نے تو فون کرکے ابا کی طبیعت تک نہیں پوچھی اور تو آنے کی بات کرتی ہے۔”فوزیہ نے منہ بناتے ہوئے کہا۔
”ہاں مجبوریاں ہیں سب کی،اب مجبوریوں کا کیا کیا جائے؟”ماں نے ایک بار پھر بیٹے کی دبی دبی سی طر ف داری کرتے ہوئے جواب دیا۔
”ہاں اماں واقعی مجبوریوں کا کیا کیا جائے؟”فوزیہ نے ماں پر طنز کرتے ہوئے کہا۔
”اچھاسن یہ بتا تو شہر میں کیا کررہی ہے۔”ماں نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے پوچھا۔
”اماں بیٹا بن گئی ہوں تیرا۔اتنا کما لیتی ہوں کہ تجھے کوئی پریشانی نہ ہو۔”فوزیہ نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اُس پر بہت محبت سے پیار کیا اور جواب دیا۔
”پھر بھی،کچھ تو بتا۔”ماں نے اصرار کیا۔
”ایک بوتیک میں اچھی نوکری مل گئی ہے، ابا کے لیے پیسے بھی میں نے ان سے لیے ہیں۔ بہت اچھے لوگ ہیں۔”فوزیہ نے پہلے سے تیار کیا ہوا جواب ماں کو دیا۔
”ہاں اللہ بھلا کرے اتنے اچھے لوگوں کا۔”ماں نے دعا دی۔
”اماں جب کبھی کبھی اپنے کام نہیں آتے اللہ ایسے لوگوں کو ہماری طرف بھیج دیتا ہے۔”اس نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔
”ہاں فوزیہ تو ٹھیک ہی کہہ رہی ہے۔”ماں نے ٹھنڈی سانس بھرکر کہا۔
٭…٭…٭
شہریاربہت دیر انتظار کرنے کے بعد گھر لوٹ آیا ،پھر گھر آکر اپنے لیپ ٹاپ پر بیٹھا فوزیہ کا پیج دیکھنے لگا۔فیس بک پیج پر بھی کوئی اسٹیٹس اپ ڈیٹ نہیں تھی۔
”پتا نہیں کیا مسئلہ ہے، نہ ریسٹورنٹ آئی اور نہ فیس بک پر کوئی سٹیٹس اپ ڈیٹ ہے۔کہیں کوئی مسئلہ نہ ہوگیا ہو۔کیا کروں، فون بھی بند جارہا ہے۔”وہ بڑبڑایا۔ اس کے چہرے پر پریشانی تھی۔شہریار کے پاس اس کا کوئی اتا پتا بھی نہ تھا جو خود جا کر معلوم کر لیتا۔
٭…٭…٭
فوزیہ کو دو دن کے بعد ہاسپٹل سے ڈسچارج کروا کر گھر لے جانا تھا۔ڈاکٹر اسے ہدایات دے رہا تھا۔
”دیکھیں زخم ابھی کچا ہے، آپ کو بہت احتیاط کی ضرورت ہے۔”
فوزیہ نے اسی انداز میں ان کو جواب دیا اور تسلی دی۔”ڈاکٹر صاحب آپ بالکل فکر نہ کریں۔میں ساری احتیاط کروں گی۔”
”گاوؑں سے یہ ہر ہفتے چیک اپ کے لیے کیسے آسکتے ہیں ؟”ڈاکٹر نے پریشانی سے پوچھا پھر مشورہ دیتے ہوئے بولا۔”ہوسکے تو ان کا یہیں اس شہر میں کم از کم کچھ عرصے کے لیے تو انتظام کریں۔”
”جی میں کچھ انتظام کرتی ہوں۔آ پ کی بات بھی بالکل ٹھیک ہے۔”
”یہاں پر ہی کوئی گھر وغیرہ لے لیں کچھ عرصہ ریگولر چیک اپ ہو تو ہی زخم جلدی اچھا ہوگا۔”ڈاکٹر نے اسے سمجھایا۔
”جی بہتر ہے ڈاکٹر صاحب میں کوئی انتظام کرتی ہوں۔”فوزیہ نے کچھ سوچتے ہوئے جواب دیا۔وہ سمجھ نہیں پا رہی تھی کہ شہر میں گھر کے لیے کس کو کہے لیکن اسی وقت اسے گوہر کا خیال آیا اور اس نے فون ملا دیا۔
”گوہر تم سے تھوڑا کام تھا۔مجھے شہر میں کوئی ایسی جگہ چاہیے جہاں میں کچھ دن کے لیے اپنی فیملی کو رکھ سکوں۔”کنول نے جھجکتے ہوئے کہا۔
” ابھی تو ایسی کوئی جگہ نہیں ہے لیکن دیکھا جاسکتا ہے۔”گوہر نے کچھ سوچ کر اس کی بات کا جواب دیا۔
”دیکھو ابھی میرے پاس اتنے پیسے نہیں کہ میں فوری مکان خرید سکوں۔”کنول کے لہجے میں شرمندگی تھی۔
”تو پیسے کماؤ بی بی!میں تو تمہیں صرف کام دے سکتا ہوں،باقی تم خود کرو۔”گوہرنے اس کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھا۔
”تمہارے پاس ہے کوئی کام؟”کنول نے فوراً پوچھا۔
”ہاں ہے تو، لیکن اب میں تمہارے اخلاقیات کے درس سے بہت بے زار ہوں یار۔” گوہر نے منہ بنا کر جواب دیا۔
”نہیں نہیں۔میں ایسا کچھ نہیں کہوں گی،اگر کوئی کام ہے تو پلیز بتاؤ،میں تیار ہوں۔”کنول گڑگڑا کر بولی۔
”سنو!ایک سونگ کی ماڈلنگ کرنی ہے،کر لو گی؟”گوہر نے پوچھا۔
”اچھا کس کا ہے؟”کنول نے اشتیاق سے پوچھا۔
”ایک نیا لڑکا ہے ،علی۔”
نئے لڑکے کا نام سن کر کنول تھوڑا بجھ سی گئی۔
گوہر نے اُسے سوچتا دیکھ کر ایک وار کیا۔” سوچ میں پڑ گئیں تو کسی اور کو دے دوں؟”
” نہیں نہیں یہ سونگ مجھے ہی کرنا ہے۔مجھے توہر قیمت پرپیسے چاہئیں۔”کنول جلدی سے بولی۔
”سوچ لو۔”گوہر نے قطعیت سے کہا۔
”سوچ لیا!”کنول نے حتمی انداز میں جواب دیا۔
گوہرخوش ہوتے ہوئے بولا۔”پھر کل آجاوؑ ایگریمنٹ وغیرہ کرلیتے ہیں۔”
”اوکے میں ضرور آجاوؑں گی، مگر یہ سونگ کسی اور کو نہ دینا اور پلیز کسی گھر کا انتظام بھی کر دو۔”کنول نے یہ کہہ کر فون بند کر دیا۔
٭…٭…٭
فوزیہ ہاسپٹل کے کمرے میں باپ کے پاس بیٹھی اسے سیب کاٹ کر دے رہی تھی۔امام بخش نے اپنے بیٹے کے بارے میں پوچھا۔
”رحیم نہیں آیا؟”
”مصروف ہوگا۔”ماں نے بے پروائی سے جواب دیا۔
”ایسی بھی کیا مصروفیت بیمار باپ کے لیے ٹائم نہیں اس کے پاس۔”امام بخش نے غصے سے کہا۔
”وہ تھوڑا پریشان تھا،تیرے بلوں کے پیسوں کا انتظام کرنے میں لگا تھا۔”ماں نے بیٹے کی طرف داری کرتے ہوئے کہا۔
”اماں پیسے تو باجی نے جمع کروادیے ہیں۔”ماں کی بات سنتے ہی مُنی فوراً فوزیہ کی حمایت میں بولی۔
”ہاں لیکن وہ بھی کوششوں میں لگا تھا۔”ماں نے کہا۔
”لیکن اتنے پیسے فوزیہ کے پاس کہاں سے آئے؟”امام بخش نے تشویش سے پوچھا۔
”شہر میں کماتی ہے۔”ماں نے رسان سے جواب دیا۔
” اتنے اچھے ہسپتال کا بل بھی بہت ہوگا،ایسا کیا کماتی ہے؟”باپ نے تفتیشی انداز میں پوچھا۔ اتنے میں فوزیہ اندر داخل ہوئی،اس کے ہاتھ میں پھلوں کا لفافہ تھا جو اس نے لا کر ٹیبل پر رکھ دیااور امام بخش کے پاس جا کر پوچھا۔
”ابا اب تو ٹھیک ہے نا؟”
باپ نے اسے عجیب سی نظروں سے دیکھا۔وہ خاموشی سے ماں کے ہاتھ سے چھری لے کر خود سیب کاٹنے لگی اور باپ کی طرف بڑھایا جو اس نے عجیب سی نظروں سے فوزیہ کو دیکھتے ہوئے پکڑ لیا۔
”ابا آج میں نے شہر میں تیرے لیے ایک مکان دیکھنے جانا ہے۔”فوزیہ نے سیب کاٹتے ہوئے گویا دھماکا کیا۔
”کیوں؟”امام بخش نے حیرانی سے پوچھا۔
”تم سب کو کچھ دنوں کے لیے یہاں شفٹ ہونا پڑے گا۔ڈاکٹرز کے خیال میں تمہارا ہرہفتے ایک چیک اپ ضروری ہے، گاوؑں سے ہر ہفتے آنا بہت مشکل ہوگا۔”فوزیہ نے باپ کو سمجھاتے ہوئے جواب دیا۔
”کیا مطلب؟اتنا سب کرلیا کافی ہے۔لوگ کیا کہیں گے کہ بیٹی کی کمائی کھا رہا ہے، بالکل نہیں۔”امام بخش کے لہجے میں ناراضی تھی۔
”ابا ضد نہ کر تیری ٹانگ صحیح ہونے میں ٹائم لگے گا،یہاں رہ کر ڈاکٹرز جلد ٹھیک کرسکتے ہیں۔”فوزیہ نے کہا۔
اتنے میں فون کی گھنٹی بجنے لگی اس نے نمبر دیکھا تو شہریار کا نمبر تھا۔اس نے غصے سے فون کاٹ دیا۔
”اماں تو سمجھا ابا کو،بے شک ٹھیک ہو جائے تو واپس چلا جائے، میں نہیں روکوں گی۔”
”مان جا فوزیہ کے ابا!اتنے پیار سے کہہ رہی ہے۔”ماں نے کہا۔
اتنے میں پھر فون بجنے لگا ،اس نے فون کی طرف دیکھا جہاں شہریار کا نام چمک رہا تھا۔وہ غصے میں کمرے سے باہر نکلی اور کوریڈور میں آکرشہریار کو فون کیا۔
”آپ کو کوئی اور کام نہیں؟ کیوں میرے پیچھے پڑے ہیں؟نوکر ہوں آپ کی؟ آپ کے ہر فون پر بات کرلوں گی۔ میرے اپنے بھی تو مسائل ہیں۔ہر وقت تو آپ کے فون کے جواب نہیں دے سکتی۔بندے کو خود بھی شرم ہونی چاہیے۔”کنول غصے سے بول رہی تھی۔
شہریار شرمندہ سا ہوگیا اور تھوڑا رُک رُک کر بولا۔” آئی ایم سوری اگر آپ کو بُرا لگا۔دراصل ویک اینڈ پر آپ کا میسج ملا تھا کہ شام کو اُسی کافی شاپ پہنچ جائیں۔میں نے اس شام وہاں کافی انتظار کیا آپ کا،پھر گھر آکر فین پیج بھی دیکھا وہاں بھی کوئی اپ ڈیٹ نہ تھی تو میں پریشان ہوگیا تھا۔”
کنول کو ایک دم شرمندگی نے آ گھیرا کیوں کہ غلطی اس کی تھی، اسی سوچ میں اس نے فون کاٹ دیا۔اُسے قطعاً یقین نہیں آرہا تھا۔کیا کوئی کسی سے اس انداز اور اتنی محبت سے بھی بات کرسکتا ہے؟ اتنی فکر بھی کر سکتا ہے؟اس نے خود سے پوچھا اور پھر خود ہی جواب دیا۔” نہیں سارے مرد پہلے ایسے ہی دانہ پھینکتے ہیں اور پھر آہستہ آہستہ کھلتے جاتے ہیں۔”یہ سوچتے ہوئے اس نے اپنے خیال پر لعنت بھیجی اورکمرے کی طرف بڑھ گئی۔
٭…٭…٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

الف — قسط نمبر ۰۸

Read Next

الف — قسط نمبر ۰۹

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!