باغی ۔۔۔۔۔ قسط نمبر ۹ (آخری قسط) ۔۔۔۔ شاذیہ خان

رات کو کنول اپنے کمرے میں بیٹھی ایک چینل پر اپنے سابقہ شوہر کا انٹرویو دیکھ رہی تھی۔۔عابد منہ بناتے ہوئے رپورٹر کو انٹرویو دے رہا تھا۔
” جی بہت بُری عورت تھی وہ۔میں نے بڑی کوشش کی کہ گھر بسا رہے،بیٹے کے واسطے دیے جی،مگر وہ تو جیسے بس شہر جا کر ٹی وی پر کام کرنے کی ٹھان چکی تھی۔”
وہ تاسف بھرے انداز میں سر ہلاتے ہوئے جھوٹ بول رہا تھا۔”بچے کا بھی نہ سوچا اس نے،میں نے اس کی گود میں بچہ ڈال دیا کہ دیکھ اس بچے کا واسطہ تجھے، نہ جا، لیکن اس کے سر پر تو بھوت سوار تھا۔بچے کو بھی میری ماں کی گود میں پھینک کر چلی گئی۔”
”آپ کے پاس لوٹ کر نہیں آئی کبھی بچے کے لیے؟”رپورٹر نے پوچھا۔
”نہ جی، آتی تو میں بچے کی خاطر ہی اسے معاف کردیتا،لیکن وہ تو بس ٹھان چکی تھی عزت سے نہیں رہنا۔”عابد صاف جھوٹ بولتے ہوئے کیمرے کی طرف دیکھ رہا تھا۔
”بیٹے تم بتاؤ تمہیں اپنی ماں یاد آتی ہے؟”رپورٹر نے بچے سے پوچھا۔
”نہیں، میری ماں میرے پاس ہے۔”بچے نے جواب دیا اور عابد کے پیچھے چُھپ گیا۔ عابد کیمرے کی طرف دیکھ کر بولا۔”جی میری بہن نے اس کو ماں بن کر پالا ہے۔یہ اسے ہی اپنی ماں سمجھتا ہے۔وہ بہت محبت کرتی ہے اس سے،جان دیتی ہے اس پر۔ایک وہ تھی،چھوڑ کر چلی گئی میرے بیٹے کو۔”عابد یہ کہہ کرجھوٹ موٹ کے آنسو بہانے لگا۔
”اب اگر وہ آنا چاہے تو آپ اُسے قبول کرلیں گے؟”رپورٹر نے پوچھا۔
”نہ جی،ایسی بے غیرت عورت کو کون رکھے،میرا بچہ بھی نہیں چاہے گا اُسے ماں کہنا۔”عابد نے نفرت سے جواب دیا ۔یہ سب سن کر کنول پھوٹ پھوٹ کر رو پڑی۔
٭…٭…٭
کنول کا باپ بیساکھیوں کے ساتھ گلی میں نکلا ہی تھا کہ اتنے میں پہلے سے موجودایک ٹی وی چینل کی ٹیم اس کو باہر نکلتے دیکھ کر پاس آگئی اور ساتھ ہی کیمرہ مین نے اپنا کیمرہ کھول لیا۔
”السلام علیکم جی آپ کنول بلوچ کے باپ ہیں؟”رپورٹر نے مائیک امام بخش کے مُنہ میں گھسیڑتے ہوئے پوچھا۔
”جی جی جی… مگر… ”امام بخش اس نئی افتاد سے بے خبر تھا،اس سے بات بھی نہیں ہو رہی تھی۔
”ہم نگار نیوز سے ہیں اور آپ سے کنول بلوچ کے بارے میں چند سوالات کرنا چاہتے ہیں۔” رپورٹر نے کہا۔
”لیکن جی میں کچھ نہیں کہنا چاہتا،مینوں معافی دیو۔”امام بخش نے ہاتھ جوڑتے ہوئے جواب دیا۔
”بابا جی ! بزرگو، بس دو چار سوال ہیں۔”رپورٹر نے اصرا ر کیا۔
”مجھے ایک بھی جواب نہیں دینا، بھائی جاؤ اپنا کام کرو۔”امام بخش نے یہ کہا اور لڑکھڑاتا ہوا واپس مُڑا اور گھر میں گھس کر دروازہ بند کرلیا۔
٭…٭…٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

سب گھر والے ایک ہی جگہ بیٹھے ہوئے تھے اور کسی نہ کسی بات پر فوزیہ کا ذکر نکل ہی آتا۔اس میں سب سے بڑھ چڑھ کراسما تھی جو حسب معمول فوزیہ کے متعلق ڈھکے چھپے انداز میں اُلٹی سیدھی باتیں کر رہی تھی۔
”ایسے کاموں کا نتیجہ ایسا ہی ہوتا ہے،اب بھگتو سب۔”اسما نے برا سا منہ بناتے ہوئے کہا۔
”تو تو چپ کر۔ ویسے ہی اتنی پریشانی ہے، تیری ٹرٹر ہی بند نہیںہوتی۔”ماں نے اسے ڈانٹا۔
”دنیا کی ٹر ٹر کیسے بند کروائے گی تو؟باہر تو نکل دنیا نے باتیں کرکرکے زندگی حرام کردینی ہے۔” اسما نے بہت روکھے انداز میں کہا۔
”کروا لوں گی بند،پہلے اپنے گھر والے تو چُپ ہوں۔جب گھر والے لحاظ نہ کریں تو باہر والوں کو کیا کہوں ۔”ماں نے اس کے آگے ہاتھ جوڑے۔
”دیکھ اماں یہ سب تیری وجہ سے ہوا ہے،تو نے ہمیشہ اپنی بیٹیوں کو شہ دی ہے۔” اسما نے انگلی اُٹھا کر الزام لگایا۔
ماں اس الزام پر بدک سی گئی اورسینہ تان کراسما کے آگے کھڑی ہوگئی”او کیا شہ دی ہے بتا ذرا؟”
”جب کسی نے کچھ کہنے کی کوشش کی تو دیوار کی طرح آگے آکر کھڑی ہوگئی، رحیم کو تجھ سے یہی شکایت ہے۔وہ تو بھرا بیٹھا ہے جانے پر،میں نے روکا ہے اُسے۔”اسما ساس سے لڑنے لگی۔
”مت کر یہ مہربانی،دفع ہو جا یہاں سے ہمیں ضرورت نہیں ہے تیری اور تیرے میاں کی۔”ماں نے بھی ہاتھ ہلاتے ہوئے جواب دیا۔
”یہ تو وقت بتائے گا کہ جن بیٹیوں پر تو اتنا مان کرتی ہے وہ آگے کیا کیا گل کھلاتی ہیں۔”اسما نے بھی تنک کر کہا۔
امام بخش ان دونوں کی بحث سے تنگ آچکا تھا۔اس نے ہاتھ جوڑتے ہوئے ان دونوں کو منع کیا۔”او بدبختو!مت لڑو ،چپ ہو جاؤ۔باہر کھڑے ہیںٹی وی والے، بو سونگھتے پھر رہے ہیں۔تمہاری یہ باتیں ان کے کانوں میں بھی پڑیں گی ،بس کرو۔”اسما نے یہ سناتوناک چڑھاتی ہوئی اندر کمرے میں چلی گئی۔
٭…٭…٭
کیمرہ مین کنول کے گھر کی بیرونی فوٹیج بنا رہا تھا اور ساتھ ہی رپورٹر رپورٹنگ کررہا تھا۔
”یہ دیکھئے ناظرین شہر میں اتنے زبردست محل جیسے گھر میں رہنے والی کنول بلوچ کے والدین کیسے گھر میں رہ رہے ہیں۔یہ ہے فوزیہ بتول یا کنول بلوچ کا گھر،لیکن اُن کے والد نے کوئی بھی بات کرنے سے انکار کردیا ہے۔ وہ اس بات پر کوئی رائے نہیں دینا چاہتے کہ فوزیہ بتول نے جو کچھ کیا وہ صحیح تھا یا غلط لیکن سچ چھپ نہیں سکتا۔وہ ایک نہ ایک دن سامنے آکر رہتا ہے۔آئیے یہاں آس پاس رہنے والوں سے کنول کے بارے میں پوچھتے ہیں۔”
”بھائی ذرا رُکیں اور بتائیں کنول بلوچ بلکہ فوزیہ بتول کے بارے میں۔کیا آپ جانتے ہیں اُسے؟”رپورٹر نے ایک راہ گیر کو روک کر کہا۔
راہ گیر کیمرہ میں آنے پر ہی بہت خوش تھا ۔وہ شدید جذباتی ہو کر بولا۔”جی بالکل جانتا ہوں اس کے بارے میں،پوچھیں کیا پوچھنا چاہتے ہیں آپ۔”وہ سب کچھ بتانے کو بے تاب تھااور اس نے بتا بھی دیا۔فوزیہ کے بارے میں،اس کے گھر والوں اور ماں باپ کے بارے میں۔
٭…٭…٭
کنول ٹی وی پریہ لائیو فوٹیج دیکھ رہی تھی۔اس نے پریشان ہوکر باپ کو فون کیا،باپ نے فون اٹھایا۔ کنول نے چھوٹتے ہی پوچھا۔
”اباکیاچینل والے اس وقت گھر کے باہر ہیں؟”
”تجھے کیا بے غیرت؟تو نے جو ہمارا جنازہ نکالنا تھا نکال دیا۔اب تو خوش ہو جا۔”باپ نے غصے سے کہا۔
”ابا میں نے یہ سب…”کنول روہانسی ہو گئی ۔امام بخش نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔
”مت کہہ کچھ بھی،نہیں سننا اب تیرا کوئی اور جھوٹ۔تو نے تو ہمیں منہ دکھانے کے قابل نہیں چھوڑا ۔”
”ابامجھے معاف کردے!میں مجبور تھی۔”کنول نے روتے ہوئے کہا۔
”یہ کیسی مجبوری تھی فوزیہ کہ تو نے میرا اور اپنے بھائی کا نام ڈبو دیا۔ساری عمر تجھے حلال کمائی کھلائی اور تو نے یہ کیا کیا؟کہیں منہ دکھانے کے قابل نہ چھوڑا۔”امام بخش نے بہت دکھی لہجے میں کہا۔
”نہ ابا ایسا نہ کہہ۔ میں آتی ہوں ساری بات بتاتی ہوں تجھے۔”کنول نے اپنے دفاع میں کچھ کہنے کی کوشش کی۔
امام بخش اس کی بات کاٹتے ہوئے فوراً چِلایا۔”تو واپس مت آ۔ مر جا کہیں،ڈوب مر چلو بھر پانی میں۔”
”نہ ابا ایسا مت کہہ،بد دعا نہ دے۔”کنول سسکنے لگی۔
”تو دعا کے قابل نہیں فوزیہ اور اب تو فون نہ کرنا مر گیا تیرا ابا۔”یہ کہہ کر امام بخش نے فون رکھ فیا۔کنول فون کی طرف دیکھ کر پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔
٭…٭…٭
شہریار اپنی ماں کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا۔حلیمہ نے اس کے چہرے کو غور سے دیکھتے ہوئے کنول کے بارے میں پوچھا۔
” شہریار کیوں اُداس ہو؟”
”نہیں ماما اُداس تو نہیں۔”شہریار اداسی سے مسکرایا۔
”ماں ہوں تمہاری،میں یہ بتا سکتی ہوں کہ اس وقت تم کیا سوچ رہے ہو۔”حلیمہ نے بہت پیار سے کہا۔
”اچھا بتائیں میں کیا سوچ رہا ہوں؟”شہریار نے ماں کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا۔
”تم کنول کے بارے میں سوچ رہے ہو۔”حلیمہ نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے بڑے مان سے کہا۔
”جب سب معلوم ہے تو پوچھ کیوں رہی ہیں۔”شہریار نے حیرانی سے ماں کو دیکھا۔
”میں تمہارے منہ سے اُس کا نام سننا چاہتی ہوں۔”حلیمہ نے محبت آمیز لہجے میں کہا۔
”میں اپنی زبان پر قابو کرسکتا ہوں ماما،لیکن اُسے اپنی سوچوں سے کیسے نکالوں۔”شہریار زچ ہوگیا تھا۔
”ضرورت بھی کیا ہے؟”حلیمہ نے بے پروائی سے کہا۔
”ضرورت ہے ماما، اس نے میرا اعتماد توڑا،مجھ سے اتنا بڑا جھوٹ کیوں بولا؟”شہریار نے بہت دکھی لہجے میں کہا۔
”پتا نہیں کیا مجبوری تھی؟”حلیمہ نے شہریار کے دُکھ کو کم کرتے ہوئے کہا۔
” کوئی مجبوری نہیں ماما،میں نے اس پر اعتبار کرکے غلط کیا شاید۔”شہریار نے اداسی سے کہا۔
”محبت کرتے ہو اس سے؟”حلیمہ شہریار کے پاس آگئی اور اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے پیار سے پوچھا۔
”ماما یہ بھی کوئی پوچھنے کی بات ہے؟”شہریار نے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا۔
”یاد رکھو سچی محبت کبھی بدگمان نہیں ہوتی۔”حلیمہ نے کہا۔
”جانتا ہوں،محبت کی ایک روح ہے اور جب دل میں بدگمانی جگہ لے لے تو وہ روح جسم سے نکل جاتی ہے۔”شہریار نے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔
”تم اُس سے پوچھو تو سہی ایسی کیا بات تھی جو اُسے یہ جھوٹ بولنا پڑا۔”حلیمہ نے اصرار کیا۔
”اُسے مجھے خود فون کرنا چاہیے تھا،میں کیوں کروں؟”شہریار نے سر جھٹکا۔
”اگر وہ بھی یہی سوچ رہی ہو تو؟”حلیمہ نے اسے ایک اور رخ دکھایا۔
”دیکھیں ماما غلطی اس سے ہوئی ہے،اب وہ فون کرے گی۔”شہریار نے قطعیت سے کہا۔
”جسے تم غلطی کہہ رہے ہو ہوسکتا ہے وہ کوئی مجبوری ہو۔”حلیمہ بھی اپنی بات سے پیچھے نہیں ہٹ رہی تھی۔
”ماما آپ بندے کو قائل کرنے کا ہنر جاتی ہیں۔”شہریار نے ہار مانتے ہوئے کہا۔
”یہ سب تمہارے باپ سے سیکھا ہے ۔سچی محبت قائل کرنے کا ہنر جانتی ہے شہریار ۔ پوچھو اس سے کہ کیا بات تھی جو اس نے اتنی بڑی بات تم سے چھپائی۔”حلیمہ نے اس کے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے بڑے پیار سے کہا۔
”جی ماما!”شہریار نے سر ہلاتے ہوئے کہااورساتھ ہی ماں کو دیکھتے ہوئے مُسکرایا۔
٭…٭…٭
مُناگھر جا رہا تھا کہ گلی کی نکڑ پرامام مسجد نے اسے روک لیا اورفوزیہ کے متعلق پوچھنے لگے۔
”سنو لڑکے!رکو۔”امام صاحب نے کڑک لہجے میں کہا۔
”السلام علیکم مولانا صاحب ۔”مُنا نہایت ادب سے بولا۔
”وعلیکم السلام!تم اس لڑکی کنول بلوچ کے بھائی ہو؟”امام صاحب نے سخت لہجے میں پوچھا۔
”جی۔” مُنے نے تھوک نگلتے ہوئے جواب دیا۔
”تمہیں معلوم تھا کہ تمہاری بہن شہر میں یہ سب کررہی ہے؟”امام صاحب نے تحکمانہ لہجے میں کہا۔
”وہ مولانا صاحب میں…”مُنا گڑبڑا گیا، اس سے کوئی جواب نہیں بن پڑا۔
” حرام کا پیسا زیادہ عرصے جیب میں نہیں رہتا،سمجھا دینا بہن کو۔بڑی بدنامی ہورہی ہے ہمارے علاقے کی۔ٹی وی پر نام چل رہا ہے،بلکہ ہمارے علاقے کا نام دنیا بھر میں اچھل رہا ہے۔کل مسجد میں سب نے فیصلہ کیا ہے کہ تم لوگوں کو زیادہ عرصے یہاں نہیں رکھا جاسکتا،دوسروں کی بہو بیٹیاں بھی بدنام ہوں گی۔”امام صاحب وعظ کرنے لگے،اردگرد لوگوں کی بھیڑ لگ گئی۔
”لیکن ہماری بہن کی سزا ہمیں…”مُنا نے اپنے دفاع میں کچھ کہنے کی کوشش کی ،لیکن امام صاحب نے بات مکمل نہ ہونے دی۔
”دیکھو یہ پورے علاقے کا فیصلہ ہے،تو تم جتنی جلدی ہو اپنا سامان اٹھاؤ اور نکلویہاں سے۔” امام صاحب گرجے۔
”مگر مولانا صاحب… ”مُناپھر ہکلایا۔
”اگر مگر کچھ نہیں،یہ نہ ہو کہ چند بدمعاشوں کو کہہ کر تمہارا سامان باہر پھنکوانا پڑے۔”امام صاحب نے پھر غصے سے کہا۔
”جی مولانا صاحب جو حکم تہاڈا۔”یہ کہہ کر وہ سر جھکا کر وہاں سے چلا آیا۔
٭…٭…٭
مُناغصے سے بھرا گھر میں داخل ہوااور غصے سے راستے میں پڑی جھاڑو کو پاؤں سے ٹھوکر مارتے ہوئے چلایا۔
”اماں !اماں کہاں ہے تو؟”
”کیا ہوا کیوں شور مچایا ہوا ہے؟”ماں اندر سے ہاتھ پونچھتی ہوئی آئی۔
” شور تو باہر مچا ہوا ہے باجی کے کارناموں کاتو نکل تو پتا چلے۔باجی کی وجہ سے باہر نکلنا مشکل ہوگیا ہے۔” مُنا شدید نفرت سے فوزیہ کا ذکرکرتے بولا۔
”کس نے کیا کہہ دیا؟”ماں نے حیرانی سے پوچھا۔
”مسجد والے امام صاحب ملے تھے کہہ رہے تھے نکلو یہاں سے یہ شریفوں کا محلہ ہے۔ہم جیسوں کا یہاں رہنا ٹھیک نہیں،دوسری بہو بیٹیاں بھی بگڑ جائیں گی۔”مُنے نے ناراضی سے کہا۔
”یہ کہا انہوں نے؟”ماں بیٹی کی حرکتوں سے سخت شرمندہ تھی۔
”اور کیا اماں،اتنا شرمندہ ہوا میں کہ بس۔تیری بات ہوئی باجی سے؟”مُنے نے ماں سے پوچھا۔
”ہاں تیرے باپ کے پاس آیا تھافون لیکن تیرے باپ نے بہت غصہ کیا اس پر اور ابھی بھی غصے میں ہے۔”ماں نے دکھی لہجے میں جواب دیا۔
” غصہ تو ہونا چاہیے اماں۔بات ہی ایسی ہے۔”مُنا نفرت سے بولا۔
”ہاں تو ٹھیک کہہ رہا ہے لیکن سوچ وہ پورے گھر کا خرچہ چلا رہی ہے،اب کیسے پورا ہوگا۔تو بھی کسی قابل نہیں۔”ماں نے کچھ سوچتے ہوئے کہا تو مُنا خلا میں گھورنے لگا۔
٭…٭…٭
”آپ یہ بتائیں کہ اتنا شور صرف کنول بلوچ کے خلاف کیوں ہورہا ہے؟ آپ کا ہی فیس بک پیج کیوں بند ہوا؟”کنول ایک ٹی وی شو میں بیٹھی تھی جب اینکرنے اس سے یہ سوال پوچھا۔
”سچی بات تو یہ ہے کہ لوگ مجھ سے جیلس ہیں، مگر مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا۔”کنو ل نے کندھے اچکا کر بے پروائی سے جواب دیا۔
”پبلک ڈومین میں آکر غلط قسم کی بات کریں گی تو وہاں تو لوگ جواب بھی دیں گے۔”اینکر نے کہا۔
” تو پھرمیں بھی اسی طرح جواب دوں گی۔”کنول کی بے پروائی ابھی بھی قائم تھی۔
”اچھا یہ بتائیں کبھی آپ کو اپنا بیٹا یا فیملی یاد نہیں آتی؟”اینکر نے بات کا رُخ بدل دیا۔
”کیوں نہیں آتی، بہت یاد آتی ہے،لیکن… ”کنول نے کچھ سوچنے کے بعد جواب دیا۔
”لیکن کیا؟”اینکر نے فوراً سوال کیا۔
”میں بہت پیچھے چھوڑ آئی ہوں یہ سب۔”کنول کے لہجے میں اداسی تھی۔
کیا ملا یہ سب کر کے؟”اینکر نے پوچھا۔
”شہرت،پیسا،دولت۔”کنول نے تھکے تھکے انداز میں جواب دیا۔
”اور اس سب میں کیا کھویا؟”اینکر نے سوال کیا۔
”فیملی، بچہ،بہت کچھ۔”کنول نے اداسی سے جواب دیا۔
”آپ سمجھتی ہیں آپ نے یہ سب کھو دیا؟”اینکر نے اس کے چہرے پر نظریں جماتے ہوئے پوچھا۔
”ہاں!دیکھیں کچھ پانے کے لیے کچھ کھونا پڑتا ہے۔اس وقت لاکھوں لوگ میرے پیج کو لائیک کرتے ہیں۔”کنول نے کچھ سوچ کر جواب دیا۔
”لیکن ایک عورت کے لیے اس کی فیملی یا بچہ زیادہ اہم نہیں ہونا چاہیے تھا؟”اینکر نے طنز کا وار کیا۔
”بالکل ہونا چاہیے تھا لیکن جیسے مرد میری زندگی میں تھے اس کے بعد تو میں یہی سب کرتی۔میرا شوہر جو آج آکر میڈیا پر اپنی وفاکی داستانیں سنا رہا ہے۔مارتا تھا مجھے،جھوٹ بولتا تھا،بے وفائی کررہا تھا۔ میرے بھائی جنہیں میں پال رہی تھی،کبھی کسی نے مجھے نہیں کہا کہ میں کام نہ کروں،بلکہ پوچھا بھی نہیں کہ میں پیسا کہاں سے لا رہی ہوں۔”کنول نے ناراضی سے جواب دیا۔
”اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ بندہ بگڑ جائے اور غلط کام کرنے لگے۔ لوگ کہتے ہیں کہ آپ نے عوام کی توجہ حاصل کرنے کے لیے یہ سب کیا۔” اینکر نے پھر طنز کیا۔
”او مائی گاڈ!” کنول نے مصنوعی حیرانی کا مظاہر ہ کیا،پھر اینکر سے ہی سوال کر ڈالا۔” چلیں میں آپ سے ایک سوال کرتی ہوں کہ اگر میری جگہ آپ کی بیٹی یہ کام کرتی تو آپ کیا کرتے؟”
”ویری سمپل، سب سے پہلے میں اپنی بیٹی کی کرافٹنگ کروں گا۔اسے بتاؤں گا کہ کیا صحیح ہے کیا غلط اگر اس کے بعد بھی وہ غلط راستے پر چلے گی تو یہ اس کی اپنی چوائس ہے۔” اینکر نے مزے سے کندھے اچکا کر جواب دیا پھر اگلا سوال کیا۔
”چلیں چھوڑیں یہ بتائیں آپ کا فیس بک پیج بند کردیا ہے،اب آپ کیا کریں گی۔”
”میں گھر میں بیٹھنے والی نہیں ہوں،میں کسی اور طرح سے سامنے آؤں گی۔اتنی آسانی سے ہار نہیں مانوں گی۔” کنول نے دلیری سے جواب دیا۔
”آپ آخری پیغام کیا دیں گی عوام کے لیے؟”اینکر نے پوچھا۔
”سب لوگ سمجھتے ہیں کہ میں عوام سے لڑائی لڑ رہی ہوں،ایسا نہیں ہے۔بس ریکویسٹ ہے کہ ایک بار تو میرے لیے اچھا بولو۔دیکھو میں کیا کرتی ہوں، میرے خلاف کیوں ہو؟اک معصوم لڑکی کو کیوں ٹارگٹ کیا جارہا ہے؟میں نے کیا کیا ہے؟ اللہ کے واسطے مجھے معاف کردیں؟”کنول ہاتھ جوڑتے ہوئے پھوٹ پھوٹ کر رو پڑی۔
٭…٭…٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

باغی ۔۔۔۔۔ قسط نمبر ۸ ۔۔۔۔ شاذیہ خان

Read Next

الف — قسط نمبر ۱۱

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!