زلیخا کی فکر سے نجات پائی تو حسن کو بچھڑی ہوئی محبوبہ کی یاد آئی۔ ہر دم اسی کا خیال تھا، فراق باعثِ رنج و ملال تھا۔ آہِ دردناک اور ٹھنڈی سانسیں بھرتا تھا۔ دن
حسن نے کہا: ‘‘اے زلیخا میں گھر سے بھاگا جاتا ہوں۔ بجز اس کے کوئی راستہ نہیں پاتا ہوں۔’’ زلیخا نے سرگوشی میں ڈانٹ کر کہا: ‘‘پاگل ہو گئے ہو؟ نیچے اترو۔ بھاگ کر کہاں
بہت دن نہ گزرے تھے کہ گلیوں بازاروں میں جھنڈیاں لگنے لگیں، نغمے گونجنے لگے اور تقریریں ہونے لگیں۔ روز کوئی نہ کوئی آ دھمکتا اور کبھی منت سماجت سے اور کبھی زورزبردستی سے ووٹ
زلیخا معنی خیزی سے بولی: ’’اس خوش فہمی میں نہ رہنا۔ ویسے بھی تم اس کے بارے میں جانتے ہی کیا ہو؟ بس شکل دیکھی اور شادی کرنے پر تل گئے؟‘‘ حسن نے کہا ’’ایسی