بہت دن نہ گزرے تھے کہ گلیوں بازاروں میں جھنڈیاں لگنے لگیں، نغمے گونجنے لگے اور تقریریں ہونے لگیں۔ روز کوئی نہ کوئی آ دھمکتا اور کبھی منت سماجت سے اور کبھی زورزبردستی سے ووٹ
زلیخا معنی خیزی سے بولی: ’’اس خوش فہمی میں نہ رہنا۔ ویسے بھی تم اس کے بارے میں جانتے ہی کیا ہو؟ بس شکل دیکھی اور شادی کرنے پر تل گئے؟‘‘ حسن نے کہا ’’ایسی
اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے، اسی وقت خط کا جواب لکھنے بیٹھ گیا۔ پیارے ابا! میرے اچھے سوہنڑے ابا! آپ کا خط ملا، یہی بات آپ مجھے فون پر بھی کہہ سکتے تھے، پتا
اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے، اسی وقت خط کا جواب لکھنے بیٹھ گیا۔ پیارے ابا! میرے اچھے سوہنڑے ابا! آپ کا خط ملا، یہی بات آپ مجھے فون پر بھی کہہ سکتے تھے، پتا
اسے برا لگا تھا۔ اسے احساس تھا کہ اس نے غلط کیا۔ سوچنے لگا فون کر کے چاچے سے معافی مانگ لے، بار بار کانوں میں ان کی آواز گونجتی تھی۔ ”سارنگ بول سجن۔” دل