الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۸

الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۸

از: سارہ قیوم

نویں رات

جانا حسن بدرالدین کا محبوبہ کے مکان پر

رات کو جب سلطانِ داراجاہ، گیتی پناہ کو گزشتہ شب کا قصہء دلچسپ یاد آیا تو فوراً شہرزاد کو طلب فرمایا اور کہا، اے طوطی شکر فشانِ خوش بیانی و عندلیب ہزار داستانِ شاخسارِ نکتہ دانی، تیری قصہ خوانی سے میرا دل بدرجہء غائت مسرور ہے اور تیرا کلام اور بیانِ شیریں مشہورِ نزدیک و دور ہے۔ شہرزاد جھک کر آداب بجا لائی اور یوں عرض پرداز ہوئی کہ حسن بدرالدین نے دروازہ کھول کر جو ایک حسینہ خوبرو، عربدہ جُو، قوس ابرو کو دیکھا تو دیکھتے ہی شیفتہ و والا ہوا۔ عشق کا بول بالا ہوا۔ ابھی اس کے حسن و جمال کی دیدمیں محو تھا کہ وہ نازنین اٹھلا کر بولی: ’’اللہ حسن بھائی، اب رستہ دیں گے یا یہیں کھڑا رکھیں گے؟‘‘
آواز کیا تھی مندر کی گھنٹیاں تھیں۔ حسن بدرالدین عش عش کرنے لگا، جامے میں پھولا نہ سمایا۔ دل چاہا اسی وقت ہاتھ تھام لے اور اظہارِ عشق کرے اور کہے۔ ’’پیاری، میں تجھ پر اپنی جان نثار کرتا ہوں، تہہِ دل سے تجھ سے پیار کرتا ہوں۔ اے زہرہ جمال، ناہید نغمہ، پروی وش وپری رُو۔ آئیلویُولُو، آئیلویُولُو۔‘‘ لیکن قبل اس کے کہ ہاتھ پکڑ پاتا اور اپنے ارادے کو عملی جامہ پہناتا، پیچھے سے زلیخا کی آواز آئی۔ ’’کون آیا ہے حسن؟‘‘
اس پری رُو حسینہ نے نزاکت سے حسن کے پیچھے جھانک کر صحن میں کھڑی زلیخا کو دیکھا اور اٹھلا کر بولی: ’’ہائے زلیخا۔ ہاؤ آر یو؟‘‘
زلیخا بھی مسکرائی اور بولی۔ ’’آؤ کرن۔ آج صبح صبح کیسے؟‘‘
وہ حسینہ مہ جبینہ کہ نامِ نامی جس کا کرن تھا، ناز سے بولی: ’’آج پریکٹیکل ہے میرا ،اور اوورآل نہیں مل رہا۔ میں نے سوچا تم سے پوچھ لوں۔ تمہارے پاس تو پری میڈیکل کا رکھا ہو گا نا۔ اب تو ضرورت نہیں ہو گی تمہیں؟‘‘
زلیخا کے چہرے کی مسکراہٹ پھیکی پڑ گئی۔ آہستہ سے بولی: ’’ہاں رکھا ہے۔ تم بیٹھو میں لا کر دیتی ہوں۔‘‘
حسن نے بسر و چشم راستہ دیا اور کرن اپنی پتلی کمر لچکاتی اندر آئی اور تخت پر بیٹھ گئی۔ پھر اس کی نظر صحن میں کھڑے حسن پر پڑی، دونوں کی آنکھ لڑی۔ کرن مسکرائی، حسن کی خوب بن آئی۔ بے جھجک اس کے پاس تخت پر جا بیٹھا۔ وہ ناز سے کھسک کر دور ہوئی تو یہ اور آگے بڑھا۔ اُس نے ٹھنک کر منہ بنایا، اِس نے ہاتھ پکڑنے کو ہاتھ بڑھایا، ابھی یہ لگاوٹ بازی جاری تھی کہ کنیز وہاں بلائے درماں کی طرح آٹپکی۔ حسن کو محبوبہ پری وش کے ساتھ بازو بھڑائے بیٹھے دیکھا تو آنکھیں مٹکا کر بولی: ’’آپ یہاں کیا کر رہے ہیں حسن بھائی؟‘‘
اس مداخلتِ بے جا پر حسن بہت جھلایا۔ بڑا غصہ آیا۔ ڈانٹ کر بولا: ’’دور ہو۔ تیرا یہاں کیا کام ہے؟ یہ کنیز بڑی بے لگام ہے۔‘‘
یہ ڈانٹ سن کر کنیز کو غصہ آیا۔ چمک کر بولی: ’’مجھ پہ کیوں ناراض ہو رہے ہیں؟ مجھے پتا ہے کن چکروں میں ہیں آپ۔ میرے سے بنا کے رکھیں ورنہ کام نہیں بننے دوں گی آپ کا۔‘‘
اسی وقت زلیخا باہر آئی اور ہاتھ میں پکڑا سفید رنگ کا جبہ کرن کے ہاتھ میں تھمایا اور کہا: ’’لو ،کرن۔ تم رکھ لو یہ اوورآل۔ اب مجھے اس کی ضرورت نہیں رہی۔‘‘

Loading

Read Previous

شریکِ حیات قسط ۶

Read Next

الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۹

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!