اوپرا ونفرے


اوپرا ونفرے


صوفیہ کاشف

ننھی اوپرا کیلے کی چھال سے بنی بوری کے کپڑے پہنے اپنی غریب نانی کو گندے کپڑے پانی میں ابالتے ہوئے دیکھتی اس لیے کہ غربت کی مہربانی سے ان کے ہاں کپڑے دھونے کا کوئی انتظام نہ تھا۔ چناں چہ کپڑے پانی میں ابال کر صاف کیے جاتے۔ اس تکلیف سے ناخوش اس کا دل کہیں لاشعور کی تہوں سے گواہی دیتا “میرا مقدر ایسا نہیں ہو گا!”
ساٹھ کی دہائی میں افریقی کےا! مریکی علاقوں میں بھی تقریباً ہر سیاہ فام بچہ غربت اور تنگ دستی کا شکار ، ناجائز اور جنسی زیادتی سے متاثرتھا۔ ان بچوں کے کالے والدین اکثر غربت کے ہاتھوں تنگ “عظیم ہجرت” کے دور میں ملازمت کے لئے مختلف علاقوں کا سفر کر گئے اور اپنی جائز اور ناجائز اولادیں پلنے کے لیے نانیوں اور دادیوں کے پاس چھوڑ گئے۔
اوپرا کی کہانی بھی کچھ اس سے مختلف نہ تھی۔ سماجی اور معاشی حالات کے مطابق یہ کوئی ایسی حیرت ناک صورت حال نہ تھی۔ حیرت کی بات تو یہ ٹھہری کہ غلامانہ دور میں تنگ دستی اور جنسی زیادتیوں کی شکار ہر لڑکی ”اوپرا“ نہیں بنتی۔ ذلت اور پستیوں کی گہرائیوں سے اتنی اُنچائیوں تک کہ اس کی آنکھ کا اشارہ بڑے فنکاروں، برانڈز اور کتابوں کے عروج اور زوال کا سبب بن جائے، اس کے الفاظ سے لوگوں کی تقدیر بدلنے لگے اور نام اے ٹی ایم کی طرح استعمال ہونے لگے جس سے جب چاہے کوئی ذرا سی معلومات دے کر جتنے چاہے پیسے نکلوا لے۔ اوپرا جو بیسویں صدی کی سب سے زیادہ مال دار افریقی امریکی امریکا کی تاریخ کی عظیم ترین سیاہ فام انسان دوست اور شمالی امریکا کی پہلی اور واحد ملٹی ملینیر سیاہ فام عورت ہے۔ تاریخ کا اپنی قسم کا سب سے مشہور شو اوپرا ونفرے شو کرنے والی اوپرا 2006ئ۔ میں امریکا کی تاریخ میں سب سے زیادہ معاوضہ وصول کرنے والی ٹی وی سے منسلک ہستی تھی۔ تمام تر میڈیا کی اس ملکہ کی سالانہ آمدنی پچھتر ملین یو ایس ڈالر کے قریب ہے۔
اوپرا کی زندگی کا آغاز امریکا کے ایک غریب افریقی علاقے .Mississippi کے پس ماندہ گھر میں دوسرے بہت سے سیاہ فام بچوں کی طرح نانا نانی کی سرپرستی میں ہوا۔ گہرے کالے رنگ کی بدصورت اور موٹے جھاڑ جیسے بالوں والی اوپرا کی زندگی کے دامن میں آنکھوں کے چمکتے ستاروں اور دل میں امید نامی تسلّی کے سوا کچھ نہ تھا۔ ماں باپ کی شفقت اور توجہ، خوب صورتی کے جادو اور پیسے کی کرامات سے اس کی جھولی کسی بے چارے فقیر کے کشکول کی طرح خالی تھی۔ بازار سے خریدا کوئی جوڑا ، جوتا یا کھیلنے کے لئے کوئی کھلونا اوپرا کے بچپن کی یاد کا حصہ نہ بن سکا۔ پالتو جانور کا شوق ایک شیشے کی بند بوتل میں قید دو کاکروچ پورا کرتے۔ سخت گیر نانی امریکا کے پسماندہ غلام طبقے کی طرح اوپرا کو بات بات پر پیٹنے پر تیار نظر آتی۔ گورے بچوں کو تعلیم یافتہ ،مہذب والدین کے ہاتھوں محبت اور شفقت سے پلتا دیکھتی تو اوپرا خود بھی گوری بن جانے کی خواہش میں مبتلا رہتی تاکہ نانی کے تھپڑوں اور جوتوں اور نانا کے گریز سے بچ کرو ہ بھی پیار کی حق دار بن سکے۔ ایک ناجائز اولاد اوپرا جس کے حقیقی باپ کا نام بھی ایک عرصے تک گم شدہ اور نامعلوم رہا اور جب باپ اپنے نام اور سب حوالوں کے ساتھ منظر عام پر آیا تو مقدر کی سختیوں سے تن تنہا نبرد آزما ہو کر اوپرا کامیابی اور شہرت کے اس زینہ پر کھڑی تھی جہاں اس کے باپ کو اوپرا نامی اے ٹی ایم سے پیسہ تو مل سکتا تھا قبولیت نہیں۔
تمام تر غربت اور سختی کے باوجود پہلے چھے سالوں میں نانی کی کی گئی تربیت اور تعلیم کی بدولت اوپرا مضبوط آواز اور پر اعتماد لہجے کے ساتھ بہت کم عمری میں ہی چرچ میں بائبل کی حمدیں پڑھنے اور تبلیغ کرنے لگی تھی۔ چھے سال کی عمر میں اوپرا کو اس کی پچیس سالہ ماں ورنیٹا کے پاس منتقل کر دیا گیا جس کی غربت اور مصروفیت نانی سے کئی گنا زیادہ تھی۔ گھر گھر نوکریاں کرنے والی ورنیٹا دوسری بیٹی پیٹریشیا کو جنم دے کر ایک رشتہ دار کے گھر میں کرایے کے ایک کمرے میں مقیم تھی۔ معاشی مسائل ، دُہری نوکری اور چھوٹے بچوں کے ساتھ نے اس کی کمر توڑ رکھی تھی۔ نانی کے گھر مکمل توجہ سے پلی اکلوتی اوپرا کو دینے کے لئے ماں کے پاس توجہ کے نام پر کچھ نہیں تھا۔ کم سن اوپرا ماں کی مجبوریوں معاشی مشکلات اور ذمہ داریوں کو سمجھنے سے قاصر تھی اور ماں کی ساری نظر اندازی اور عدم توجہی کا سبب اپنا گہرا سیاہ رنگ اور بدصورت ہونا تصور کرتی۔ ماں کی نظر انداز ی نے اوپرا میں شدید احساس کمتری کو جنم دیا جس نے آنے والے دنوں میں اس کے لیے بدترین مشکلات کو جنم دیا۔ چھوٹی بیٹی کو ماں کے ساتھ سلانے کی مجبوری میں چھے سالہ اوپرا کا بستر پورچ میں ایک بڑے انیس سالہ رشتے کے بھائی کے ساتھ لگا دیا گیا۔ رشتے کا یہی بھائی کمسن اوپرا کے لئے زہرِ قاتل ثابت ہوا اور نو سال کی عمر میں اوپرا کو چڑیا گھر اور آئسکریم کا لالی پاپ دے کر جنسی زیادتی کا نشانہ بنانے لگا۔ ماحول اور زندگی کی غربت اور پس ماندگی، ماں کی عدم توجہ اور اوپرا کا بڑھتا ہوا احساس کمتری رشتے کے بھائی کے لئے سازگار ثابت ہوا اور ذرا سے استحصال اور معمولی سی رقم کے بدلے نو سالہ اوپرا بکنے اور استعمال ہونے لگی یہاں تک کہ اسے لگا زندگی تو شاید صرف ایسی ہی ہوتی ہے….

Loading

Read Previous

المیزان

Read Next

رفیع خآور: ننھا

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!