گل موہر اور یوکلپٹس


گل موہر اور یوکلپٹس
ظفر محمود اقبال ہاشمی

”یہ جو چودھویں کا چاند ہے نا ہنی، مجھے یہ تب تک آدھا اورا دھورالگتا ہے جب تک اس پر تمہاری ستارہ آنکھوں کی پوری چمک نہیں پڑتی۔ اس کے اردگرد پھیلا ستاروں کا جنگل غور سے دیکھو، یہ ستارے نہیں بلکہ تمہاری خوبصورت آنکھوں سے آزاد ہونے والی نظریں ہیںجنہوں نے آسمان اور چاند دونوں کو سجا ڈالا ہے۔“
حنین اُمرا کی اس پر شور محفل سے اُکتا کر سب سے نظریں بچا ئے باہر نکل توآئی، مگرشومئی قسمت باہر چودھویں کی رات اس کی منتظرتھی۔ پچھلے دو برسوں کے دوران اس کے ساتھ جو کچھ ہوا تھا اس کے بعد خاص طور پر اسے چاند کی کھلکھلاتی راتوں اور اس کی نقرئی روشنی سے چِڑ سی ہو گئی تھی۔چودھویں کی رات کو توجیسے حنین سے کوئی خاص پرخاش تھی۔ اسے دیکھتے ہی وہ گویااس کاتمسخر اڑانے لگتی، اس کے بھرے ہوئے زخموں کو اپنے تیز ناخنوں سے کھرچنے لگتی،پرانی آوازیں پھر سے جاگنے لگتی تھیں۔
آج پھر وہی ہوا۔
وہ تقریباً چھے ماہ ایک ماہرِ نفسیات کے پاس زیر علاج رہنے کے بعدخرد مندوں، روشن خیالوں،سیانوں، دنیا داروں اور جنہیں دنیا intellectuals کہہ کر پکارتی ہے، ان کے جنگل میں واپس لَوٹی تھی اور آج اس پارٹی میں پھر وہی شناساسی بھنبھناہٹ تھی۔
ہونٹ کم ہلتے تھے اور کندھے اچکا اچکا کرمعمولی سے سچ پر جھوٹ کی عمیق تہیں کمال مہارت کے ساتھ بچھانے کا فن زیادہ بولتا تھا۔
لوگ ہر جملے کے بعد ایک کے بعد ایک چہرہ اتار کر ڈسٹ بِن میں پھینک رہے تھے!
اخلاقیات ٹشو پیپرز سے پونچھ پونچھ کر ڈنر کی پلیٹوں میںبچے ہوئے کھانے کے ساتھ دھری جارہی تھیں۔
اپنے پھنسے ہوئے سب کام اور مطلب معنی خیز اشاروں اور مخصوص ساخت کی مسکراہٹوں کی مدد سے نکالے جا رہے تھے۔
اُمرا کی ایک اور پارٹی میںخوشامد، جھوٹ اورملمع کاری ہمیشہ کی طرح نقطہ ¿ عروج پر تھی۔
والدین کی اکلوتی اولادحنین ملکوتی حسن کی مالک تھی۔ لڑکپن میں جب ماں بریسٹ کینسر سے چل بسی، تو وہ کٹی ہوئی پتنگ کی طرح ہوگئی۔ کبھی اس چھت پر تو کبھی اس چھت پر ۔باپ کو اس سے محبت تو بہت تھی لیکن بزنس کے جھنجھٹ اور بکھیڑے اس محبت کے بھرپور اظہار کے آڑے آتے تھے۔پیسے کی اسے کمی نہ تھی اور نہ باپ کی طرف سے کوئی روک ٹوک، سو لڑکپن ہی سے اس نے اپنے آپ کو زندگی کی بھٹی میں بلا جھجک اور بے دریغ جھونکنا شروع کر دیا۔کچھ نیا کرنے کا جنون ہر بار اسے نئے راستے پر لے جاتا اور سفر بند راستے پر ہی موقوف ہوتا۔ ہر بارکچھ دن ڈپریشن کا شکار رہنے کے بعد باپ کی ہلا شیری پر وہ نئے عزم کے ساتھ کسی نئے سفر پر نکل جایا کرتی۔اٹھارہ سالہ قیامت خیز حسن کی مالک حنین کو جب ایک پارٹی میں ملک کے فیشن ٹائیکون نے یہ کہا کہ فیشن کی دنیا میں جواس وقت موجود ہیں وہ صرف چھوٹے یا بڑے ستارے ہیں اور فیشن کی دنیا اس جیسے چندے ماہتاب کی منتظر ہے ، تو وہ اس پٹڑی پر ایسی چڑھی کہ پھراترنے کا نام ہی نہیں لیا۔چندہی برسوں میں واقعی وہ فیشن کی دنیا کاچندے ماہتاب قرار پائی۔ منہ مانگے معاوضے پر ٹی وی ڈرامے، ٹی وی کمرشلز اور بیرونِ ملک شوز کیے اور پھرجب ایک بڑے بجٹ کی فلم کا پراجیکٹ ہاتھ آیا، تو یہاں اس کی ملاقات ملک میں اسکرپٹ رائٹنگ کے آفتاب سمجھے جانے والے دانیال ملک سے ہوئی۔اس آفتاب کی چکا چوند اتنی زیادہ تھی کہ اس کے سامنے حنین جیسا روشن چاندچار روز بھی نہ ٹھہر سکا اوربہت جلد وہ آنکھیں موند کر، اس آفتاب کواپنا مدار سمجھ کر اس کے گرد چکر لگانے لگی۔تقریباًپینتالیس سالہ گھاگ دانیال کی شخصیت اور باتیں تھیں ہی ایسی کہ جو اس کے ساتھ ایک نشست کر لیتا گویا مسحور ہوکر حالت ِتنویم یا پھرمراقبے میں چلا جاتا تھا۔حنین جو اس سے تقریباً سترہ برس چھوٹی تھی ویسے ہی لوگوں پر بہت جلد بھروسا کرلینے اورچکاچوند کے پیچھے بھاگنے کی پیدائشی بیماری کا شکار تھی۔ یہی وجہ تھی کہ وہ دانیال کی صیادانہ فطرت کو نہ سمجھ سکی اور اس کے دام اُلفت کا شکار ہوگئی ۔ کچھ عرصہ دونوں کے افیئرکا دھواں شو بزنس کی فضاو ¿ں پر چھایا رہا جو بالآخر دونوں کے بہت طمطراق سے رچائے گئے بیاہ پر ختم ہوا۔ ویسے تو دونوں کی شادی بہ مشکل دو برس ہی چلی لیکن شادی کے تین چار ماہ بعد ہی حنین کو اندازہ ہو گیا کہ دانیال کے قول و فعل میں زمین آسمان کا فرق ہے۔وہ سب باتیں جو وہ سر دُھننے پر مجبور کر دینے والے ا سکرپٹ میں لکھا کرتا تھا اور شادی سے پہلے اس کے ساتھ بہت مخمور اور رومانٹک اندازمیں کیا کرتا تھا، وہ ایک ایک کر کے حرفِ باطل ثابت ہونے لگیں۔ شادی کے بعدپارٹیوں میں جب اس نے خود سے زیادہ حنین کو سب کی توجہ کا مرکز محسوس کرنا شروع کیا، تو اس موضوع پر بننے والی ان گنت فلموںکی طرح احساسِ کمتری کی رِیل اس کی آنکھوں اور دماغ کی سِلو اسکرین پر دھڑا دھڑ چلنے لگی۔پہلے ردّ عمل کے طور پر حنین کی پارٹیوں میںشرکت پر پابندی لگی۔پھر باری باری ٹی وی کمرشلز، فیشن شوز،ٹی وی، سوشل میڈیا اورپھر فلم میں کام کرنے پر پابندی لگا دی گئی۔ حنین اس کی محبت میں اپنی ذات کے سب خوبصورت پرندے ایک ایک کر کے اپنے ہاتھوں سے آزاد کرتی رہی لیکن دانیال کے اندر احساسِ کمتری کا درخت اتنی جڑیں پکڑ چکا تھا کہ اس سے بھی اس کی تشفی نہ ہوئی اور بات بات پر طنزکے زہر سے بُجھے تِیر نہتی حنین پربرسانے لگا۔معاملہ تب نقطہ ¿ عروج پر پہنچ گیا جب اس نے ماضی کے گڑھے مردے اکھاڑتے ہوئے اس کے کردار پر رکیک حملے کرنے شروع کر دیے۔ جس کی محبت میںحنین نے سب کچھ تیاگ دیا تھا جب اس نے دانیال کا یہ روپ دیکھا، تو وہ شدید ذہنی اضطراب اور دباو ¿ کا شکار رہنے لگی۔ دانیال کی ذات سے جڑے تمام کھلے در اس نے ایک ایک کر کے اپنے آنسوو ¿ں اور خونِ جگر سے بند کیے۔ جب اس رات دانیال نے اس پر پہلی بار ہاتھ اٹھایا، تو بہت نازوں میں پلی حنین تذلیل کی اس آخری حدکو برداشت نہ کر سکی اور نروس بریک ڈاو ¿ن کا شکار ہو گئی۔ پہلی بار حنین کے والد ذکا اللہ بیگ کواصل صورتِ حال کا علم ہوا جس سے کاروباری مصروفیات کے باعث وہ اب تک بے خبر تھے۔مہینوں وہ پہلے ہسپتال اور پھرماہرِ نفسیات کے پاس زیرِ علاج رہی ۔ دانیال سے علیحدگی کے تکلیف دہ مراحل نے اس دوران اسے پوری طرح نارمل اور صحت مند نہیں ہونے دیا اور آخر کار یہ تلخ تجربہ اس کے ذہن، شخصیت، اعتماد اور حسن پر بدنما اوربھدے نشانات چھوڑتا ہوا رخصت ہو گیا۔ اس کی ماہر نفسیات ڈاکٹر عائشہ ربانی نے آٹھ ماہ اس پر بہت محنت کی، لیکن اس کے باوجود اس پورے عرصے میںوہ حنین کے اندراعتماد، محبت، انسانیت، زندگی اور امید کی شمعیں نئے سرے سے جلانے میں زیادہ کامیاب نہیں ہو سکی تھی۔اس کی کامیابی صرف اتنی سی تھی کہ آج وہ بہت عرصے بعد عائشہ ربانی اور والد ذکا اللہ بیگ کے کہنے پر کسی پارٹی میں شرکت کے لیے آمادہ ہوئی تھی۔
٭….٭….٭

Loading

Read Previous

کھوئے والی قلفی

Read Next

المیزان

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!