تو ہی تو کا عالم

پیش لفظ

ایک محبت….!

محبت جس نے اپنے لیے ہمیشہ عام چہروں سے لے کر ، بہت خاص چہروں کو چنا ہے۔ ہر بار محبت کا انتخاب لاجواب رہا مگر اس بار محبت نے جس کا انتخاب کیا عام سوچ و نظر میں وہ محبت کے لیے پیدا ہی نہیں ہوا ہے۔

ایک ایسی ہی محبت کی داستان جو کسی مرد یا عورت کے ملن یا جدائی سے تخلیق نہیں ہوئی بلکہ یہ کہانی ہے محبت کے اُس رنگ کی جسے کسی دور میں معاشرے نے کبھی ہی قبول نہیں کیا۔

محبت کا امرت کسی ایک رنگ ،کسی ایک نسل یا کسی ایک جنس کے لیے مخصوص نہیں ہے۔

محبت زرخیز زمین سے پیدا ہونے کے لیے نہیں بنیبلکہ محبت کا وصف یہ ہے کہ وہ بنجر زمین کو بھی زرخیز بنا دیتی ہے۔

کبھی کبھی محبت اس جنس کے خمیر سے بھی اٹھتی اور سانس لیتی ہے جسے خواجہ سرا سمجھ کر ہمیشہ کمتر سمجھا اور مانا گیا ہے۔

ایک ایسی ہی کہانی کہ جب کوئی اپنی محروی کے احساس سے لڑتے لڑتے زندگی گزارتے اچانک جس نقطے پر ٹھہرا، وہ محبت کا تھا۔

ایک عورت کی محبت کو پانے کی تمنا اور خواہش کی راہ میں اس کی محرومی اور کمی اس کی راہ میں رکاوٹ بن کر سامنے آ کھڑی ہوئی تھی۔ محبت میں صرف جدائی ملتی تو شاید وہ برادشت کر لیتا مگر اُسے حقارت اور تحقیر ملی تو وہ اپنے حواس کھونے لگا۔ وہ جسم کے خام سے رب کی پہچان کر رہا تھا۔ اسی لیے اس سے بد گمان ہو کر اس سے دور ہوتا گیا مگر و ہ یہ نہیں جانتا تھا کہ جسموں کا خام صرف دنیا کے ترازو میں وزنی ہوتا ہے۔

ایک محبت….

جو اٹھتی تو جسموں کے خام سے ہے ، مگر جاوداں زندگی اسے عشق کے جام سے ملتی ہے۔

ایک محبت….

جو صرف اپنی ذات سے، اُس کی ذات تک لے جا نے کے لیے راستے میں آئی تھی۔

ہر محبت ایک ایسا نقطہ ہے جو دنیا اور خلا میں رابطہ قائم کردیتا ہے ۔ جب انسان اپنی محبت سے گزر کر اس نقطے کو کراس کرتا ہے، تو اُس کے سامنے میلوں دور دور تک خلا پھیلا ہوتا ہے، نظر اور دل کو چیرتا سناٹا ہوتا ہے۔

مگر پھر بھی وہ وجود عشق کا جام پیے، مست قدموں سے چلتا ، رقص کرتا ، جگہ جگہ اپنے جنوں کی مہر ثبت کرتا، عشق کی منزلیں طے کرنے لگتا ہے۔ عام نظر کے لیے وہ خلا ہے جہاں کچھ بھی نہیں سوائے خاموشی اور سناٹے کے مگر عشق کے دیوانے جانتے ہیں کہ وہاں قدم قدم پر یار کے جلوے بکھرے ہوئے ہیں۔ اسی لیے کبھی جبین خاک پر سجدہ کرتی اور کبھی پتھر کو چومتی ہے۔

اور وہ وحدہ لا شریک ہر ذرے میں جلوہ افروز ہوتا ہے۔

دیکھنے والی نظر اُس کا جلوہ ہر ذرے ذرے میں دیکھتی ہے۔

 جسے دنیا خلا او ر سناٹے کا جہاں یا عالم کہتی ہے۔

 وہ اس کے لیے صرف ”تُو ہی تُو کا عالم“ ہوتا ہے۔

یہی وہ منزل ہے جس کی طلب اجسام کو نہیں ، روح کو ہوتی ہے۔

اور روح جسم کے لباس سے پاک اور الگ ہوتی ہے ۔

پھر چاہے وہ روح کسی مرد کی ہو یا کسی عورت کی یا پھر خواجہ سرا کی….

مرکزی خیال

اس نے کُن کہا، تو مٹی سے جسم کا خمیر اٹھا۔

وہ کُن کہے گا، تو مٹی کو اس کی امانت لوٹا دی جائے گی۔

مٹی ، مٹی میں مل جائے گی۔

اس لیے کہ جسم خام ہے۔

جسم کے لبادے میں روح ایک مقرر وقت کے لیے پھونکی گئی ہے۔

حکم آئے گا اور روح ا پنے اصل کی طرف لوٹ جائے گی۔

اس لیے کہ روح خالص ہے۔

اور اللہ ہر خالص چیز کو پسند کرتا ہے، محبوب رکھتا ہے۔

”بے شک اللہ جسموں سے نہیں ، روح سے محبت کرتا ہے۔“

٭….٭….٭

گہری رات کے آخری پہر اماوس کی تاریکی کو چیرتی ، درد کی انتہاﺅں سے گزرتی اور اذیت کے آخری لمحوں میں جب اسے لگا کہ وہ ہمت ہار دے گی۔ اسی وقت اس کے کانوں میں بچے کے رونے کی آواز گونجی ۔اس کے وجود نے ایک اور وجود کو رب کے حکم سے جنم دیا تھا۔ ماں بننے کا احساس اور رتبہ اس کے اندر کھوئی ہوئی توانائی واپس لانے لگا۔ اس نے آنکھیں کھول کر دیکھنا چاہا مگر اس کے آگے گہری دھند چھائی تھی۔ تھوڑی سی کوشش کے بعد وہ بہ مشکل بچے کے ہلتے ہاتھ پاﺅں دیکھ سکی اور پھر پرسکون ہو کے گہری نیند سو گئی ۔ وہ دل ہی دل میں مطمئن تھی کہ جب سو کر اٹھے گی تو بچہ اس کے پہلو میں ہوگا۔ نہ جانے کتنی دیر بعد اسے ہوش آیا ۔ اس کے آس پاس خاموشی تھی ۔ اس نے بے چین ہو کر اپنے پہلو پر نظر ڈالی اور اس کا دل دھک سے رہ گیا ۔وہ خالی تھا۔

اس نے کہنی کے بل اٹھنے کی کوشش کی مگر کمزوری کی وجہ سے کراہ کر رہ گئی ۔ اسی وقت اماں رحیمہ نے کمرے میں قدم رکھا اور اسے جاگتے دیکھ کر فوراً اس کی طرف بڑھی ۔

”بی بی سائیں ! آپ کی طبیعت تو ٹھیک ہے ؟“ اماں رحیمہ نے فکرمندی سے اس کے زرد چہرے اور کانپتے ہونٹوں کو دیکھا۔

”اماں رحیمہ، میرا بچہ کہاں ہے؟“ اس نے بے تابی سے پوچھا۔ اماں رحیمہ کا چہرہ ایک دم ہی زرد ہوگیا اور اس نے آگے بڑھ کر اس کی نم پیشانی سے پسینا صاف کیا اور دھیرے سے بولی۔

”بی بی سائیں! آپ کے ہاں مردہ بچے نے جنم لیا تھا۔ اب تک تو اس کی تدفین بھی ہوچکی ہوگی۔ آپ آرام سے لیٹ جائیں ، اللہ بہت جلد آپ کی دوبارہ گود ہری کرے گا۔میں آپ کے لیے گرم دودھ لاتی ہوں۔“

”نہیں…. یہ نہیں ہو سکتا۔“ اس کے چہرے کا رنگ یک دم ہی مزید زرد پڑ گیا اور اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔

” اماں رحیمہ، آپ جھوٹ بول رہی ہیں ۔ میرا بچہ مردہ پیدا نہیں ہوا تھا ۔ میں نے خود اس کے رونے کی آواز سنی اور غنودگی میں جانے سے پہلے اس کے ہاتھ پاﺅں بھی ہلتے دیکھے تھے۔آپ کیسے کہہ سکتی ہیں کہ وہ مردہ پیدا ہوا تھا؟ یہ جھوٹ کیوں اور کس لیے؟ کہاں ہے میرا بچہ؟ بولیں، نہیںتو میں کسی حد سے بھی گزر جاﺅں گی۔“ وہ پاگلوں کی طرح چیخ رہی تھی۔ اماں رحیمہ نے ایک نظر اس کے غصے سے لال ہوتے چہرے پر ڈالی۔ کمزوری کی وجہ سے اس کی سانس بھی پھول گئی تھی۔

”بی بی سائیں! میں اس حویلی کی پرانی ملازمہ ہوں۔ میری ہر سانس بھی آپ لوگوں پر قربان ہے۔ مجھے جو حکم ملا میں نے اسے پورا کیا ہے ۔ آپ کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے ۔آپ آرام کریں۔“

”کس نے حکم دیا ہے تمہیں؟“ اس نے سخت لہجے میں پوچھا۔ اماں رحیمہ ایک دم ہی چپ کر گئیں اس سے پہلے کہ وہ کچھ بولتیں۔ کمرے میں کوئی داخل ہوا اور ایک ایک قدم مضبوطی سے جماتا، اس کے سرہانے پہنچ کر بولا۔

” میں نے حکم دیا ہے نور بانو!کیا تمہیں ہمارے عمل پر بھی شک ہے؟“ اس کی سُرخ آنکھوں اور گھنی مونچھوں تلے پھڑپھڑاتے لب ، اس کے اندورنی انتشار اور تکلیف کو ظاہر کر رہے تھے ۔ اماں رحیمہ خان زادہ شمشیر کو دیکھ کر مو ¿دب انداز میں سر جھکاتی خاموشی سے کمرے سے باہر نکل گئی۔جب کہ نور بانو پھٹی پھٹی نگاہوں سے اپنے محبوب شوہر کی طرف دیکھ رہی تھی ۔ وہ جانتی تھی کہ آنے والے اس بچے کا انتظار ان دونوں ہی کو بہت بے صبری سے تھا اور کیوں نہ ہوتا ۔ آنے والا بچہ ان کی نسل در نسل چلی آرہی گدی کا وارث بننا تھا ۔ پھر اب کیسے….؟

” میری محبت کو آپ پر کبھی شک نہیں ہو سکتا مگر ایک ماں کا بے چین دل یہ جاننے کے لیے تڑپ رہا ہے کہ آخر ایسا کیا ہوا ہے کہ میرے زندہ بچے کو مردہ قرار دے کر زمانے کی نظروں سے چھپایا جا رہا ہے ۔اتنا تو میں بھی جانتی ہوں کہ آپ لوگوں کا خاندان زمانہ جاہلیت کے لوگوں جیسا ہرگز نہیں ہے کہ جو بیٹیوں کی پیدائش پر انھیں ، شرمندگی اور نفرت سے زندہ دفنا دیں۔پھر ایسا کیا ہے جو میری نظروں سے پو شیدہ ہے ؟“ نور بانو نے بے قراری سے پوچھا۔ خان زادہ شمشیر نے اپنی نم آنکھوں کو سختی سے بند کیا اور کچھ لمحوں کے بعد کھولا، تو نور بانو ان کی آنکھوں میں دیکھتی ، ایک دم ہی خوف زدہ ہوگئی۔

” نور بانو! آپ کی تسلی کے لیے صرف اتنا بتا دوں کہ میں چاہتے ہوئے بھی زمانہ جاہلیت کی رسم کو نہیں نبھا سکا کہ ایک جیتے جاگتے وجود کو مٹی کا حصہ بنا دوں مگر میرے میں اتنا حوصلہ اور برداشت بھی نہیں ہے کہ میں اپنے ساتھ کیے قدرت کے اس سنگین مذاق کو تمغے کی طرح اپنے سینے پر سجا کر، اپنی خاندانی گدی کا مذاق بنا لوں۔“

”گدی کا وارث نہ سہی مگر بیٹی بھی ہوتی تو وہ میرے دل کے قریب ہوتی مگر نہ جانے قدرت کو ہمارا امتحان لینا مقصود تھا جو ہمیں ”تیسری جنس “(خواجہ سرا ) سے آزمایا گیا ہے۔“ خان زادہ نے کہا، تو نوربانوکی چیخ نکل گئی اور وہ منہ پر ہاتھ رکھ کر نفی میں سر ہلانے لگی۔

”او میرے خدایا۔“نوربانو دکھ کی شدت سے رونے لگی۔

” نور بانو !اس بات کو یہاں ہی دفن سمجھو اور بھول جاﺅ کہ ہماری زندگی میں کبھی ایسا کوئی طوفان آیا تھا۔یہ ہم خان زادوں کی عزت اور شان کے خلاف ہے ۔“

اس نے سختی سے بات ختم کی، روتی بلکتی نور بانو پر ایک نظر ڈالی اور تیزی سے پلٹ کر کمرے سے باہر نکل گیا ۔ پیچھے نور بانو ایسے بین کر رہی تھی جیسے سچ میں اس نے مردہ بچے کو جنم دیا ہو۔

شاید مردہ بچہ پیدا ہوتا، تو اُسے اتنی تکلیف نہ ہوتی جتنی اس وقت ہو رہی تھی ۔اسے قدرت کے اس سنگین مذاق اور اپنی خالی گود کا دکھ چیر رہا تھا ۔ وہ سمجھ نہیں پا رہی تھی کہ اس کے یہ بہتے آنسو کس کے لیے ہیں ۔ رب کی آزمائش میں پورے نہ اترنے کے لیے یا اپنی ممتا کی کمزوری پر جو ایسے بچے کو اپنانے سے ڈر کر کہیں دور جا چھپی تھی ۔

٭….٭….٭



اس نے بار میں آکر اپنی مخصوص جگہ پر بیٹھتے ہوئے ،وہسکی لانے کا آرڈر دیا ۔ اسے دیکھ کر جولین باقی گاہکوں کو چھوڑتی فوراً اس کی طرف بڑھی۔جولین کے سنہری بالوں کی کئی لٹیں بہت نفاست اور خوبصورتی سے کندھے اور چہر ے کے اطراف میں بکھری ہوئیں تھیں۔اس کا متناسب سراپا اور دلکش ادائیں وہاں موجود بہت سے گاہکوں کواپنی طرف متوجہ کر لیتی تھیں مگر جولین اپنی خوبصورتی کو بہت سوچ سمجھ کر کیش کرواتی تھی ۔

”ہیلو!“ جولین نے ٹرے میز پر رکھتے ہوئے دل کش انداز سے کہا ۔ اپنے موبائل پر تیزی سے انگلیاں چلاتے ایڈم نے سر اٹھا کر اس کی طرف دیکھا ۔ جولین کا خوشبو میں بسا سراپا دیکھ کر ایک ہلکی سی مسکراہٹ اس کے چہرے پر آگئی۔ اسے خوب صورت چہرے اور اچھی خوشبو فوراً اپنی طرف کھینچ لیتے تھے۔

” آج رات ایک پارٹی میں چلو گی میرے ساتھ ؟“ ایڈم نے گلاس میں جام بھرتے ہوئے مصروف سے انداز میں پوچھا ۔جولین کا دل بلیوں اچھلنے لگا۔ ایڈم کے ساتھ رات گزارنے کا مطلب، ایک لگثرری لائف اسٹائل کو بہت قریب سے دیکھنا اور محسوس کر نا تھا اور اس کے علاوہ ایڈم اپنی دولت خرچ کرنے کے معاملے میں بادشاہ تھا ۔ دونوں ہاتھوں اور بند آنکھوں سے پیسہ اڑانے والا۔ بدلے میں اسے صرف جولین کا ساتھ اور وقت چاہیے ہوتا جس میں زیادہ تر وہ جولین کی مر ضی ا ور پسند ہی سے اسے شاپنگ کرواتا اور پھر اچھے سے ڈنر کے بعد کبھی لیٹ نائٹ اچھی سی مووی دیکھتے یا پھر اسے ایسی ہی کسی پارٹی میں اپنے ساتھ لے جاتا جو صبح تک چلتی تھی اور صبح ہوتے ہی جولین اس خوب صورت خواب سے جاگ کر واپس اپنی درماندہ اور پس ماندہ زندگی میں لوٹ آتی۔ ایڈم کے ساتھ ایک دن گزارنا ، اس کے مہینے بھر کی کمائی کے برابر ہوتا تھا ۔ جولین نے جلدی سے اثبات میں سر ہلایا ۔ ایڈم نے مُسکرا کر اس کی طرف دیکھاجو خوشی سے جھومتی، مُسکراتی واپس پلٹ گئی تھی ۔

”کچھ دیر بعد ایڈم کی نئے ماڈل کی چمکتی گاڑی میں وہ بہت اترا کر بیٹھ رہی تھی کہ آج رات کی ملکہ صرف وہ تھی۔“

٭….٭….٭

”کٹ!“ شہرام نے بے زاری سے کہا تو آڈیشن دیتی لڑکی نے چونک کر اس کی طرف دیکھا۔ اسے اپنی خوبصورتی اور اداﺅں پر پورا پورا یقین تھا مگر اس وقت شہرام کے چہرے کے بگڑے زاویوں نے اس کے اعتماد کو شدید ٹھیس پہنچائی تھی ،جب کہ دوسری طرف شہرام ، اپنے اسسٹنٹ پر برس رہا تھا ۔

” مبشر میں نے کہا تھا کہ مجھے قدرتی حسن اور معصومیت سے بھرا چہرہ چاہیے۔ اس طرح کے بناوٹی حسن اور اداﺅں کی ضرورت ہوتی تو اتنے مہینوں سے میں خوار نہ ہو رہا ہوتا۔پتا نہیں تم لوگوں کو سمجھ کیوں نہیں آتی۔“

شہرام نے بے زار لہجے میں کہا ۔ مبشر نے کن انکھیوں سے اپنے ساتھ کھڑے ، کولیگ احمد کی طرف دیکھا ۔ وہ بھی گہری سانس لیتے ہوئے کندھے اُچکاتا رہ گیا۔ جیسے اس کی سمجھ میں بھی یہ سب نہ آرہا ہو۔

” سر! پچھلے چھے مہینوں سے ہم تقریباً پورے ملک میں خوب صورت اور نئے چہروں کا آڈیشن لے چکے ہیںمگر کوئی لڑکی ، آپ کے معیار کے مطابق نہیں مل رہی ۔اس طرح تو یہ پروجیکٹ کبھی مکمل نہیں ہوگا جس کے لیے آپ کب سے تیاریاں کر رہے ہیں۔“

مبشر نے باقی لوگوں کو بیک اپ کا شارہ کرتے ، شہرام کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ۔جو سر جھکا کر کسی گہری سوچ میں گم تھا۔ وہ اس کی بات پر چونکا اور پھر اپنی جگہ سے اٹھتے ہوئے بولا۔

” اگر مجھے میری پسند کے مطابق چہرہ نہیں ملے گا، تو یہ فلم بھی کبھی مکمل نہیں ہو گی ۔ میں اپنے معیار پر کبھی کمپرومائز نہیں کرتا۔“ شہرام نے سنجیدگی سے کہا اور کار کی چابیاں اٹھاکر تیز تیز قدم اٹھاتا، آڈیٹوریم سے باہر نکل گیا ۔

” کیا ہو ا؟ کیا شہرام سر کو میرا کام پسند نہیں آیا؟“

اسی لڑکی نے پاس آ کر فکرمندی سے پوچھا ۔ اسے بہت امید تھی کہ اسے شہرام کے ساتھ کام کرنے کا موقع مل جائے گا اور اگر ایسا ہوجاتا، تو اس کی زندگی بدل جاتی ۔ اس کے لیے شہرت اور ترقی کے دروازے کھل جاتے کیوں کہ شہرام کی بنائی فلمیں اپنے موضوع اور ہدایت کاری کے اعتبار سے عالمی سطح پر بھی ایک واضح مقام رکھتی تھیں۔ پاکستان میں ہونے والے ایوارڈ فنکشن میں زیادہ تر ایوارڈز ، شہرام کی ہدایت کاری میں بننے والے مختلف پروجیکٹ جیسے ٹی وی ڈرامے ، ڈاکومنٹری فلم اور فیچر فلموں ہی کو ملتے تھے۔ملک سے باہر بھی اس کی مارکیٹ بہت اچھی تھی مگر اصل مسئلہ یہ تھا کہ شہرام اپنے کام کے بارے میں بہت جنونی اور ایمان دار تھا ۔ وہ اپنے اسکرپٹ سے لے کر کاسٹنگ تک ہر چیز پر کئی کئی بار غور کرتا اور اپنے معیار سے کم کسی چیز پر سمجھوتہ نہیں کرتا تھا ۔اس کا پروڈکشن ہاﺅس ڈریم انٹرٹینمنٹ کے نام سے چلتا تھا جس میں اس کا پارٹنر پہلے کوئی اور تھا مگر پھر اس کے اچانک چھوڑ کر چلے جانے کی وجہ سے شہرام اس ادارے کو اکیلا ہی چلا رہا تھا ۔اس کے پارٹنر کا قصہ بھی دل چسپ تھا جس کے بارے میں مختلف قیاس آرائیاں گردش کرتی رہی تھیں۔ کچھ کہتے تھے کہ اس پروڈکشن ہاﺅس کی بڑھتی مقبولیت اور نام نے ان دونوں کے درمیان پھوٹ ڈلوا دی تھی ۔اس لیے شہرام نے چالاکی سے اپنے پارٹنر کو راستے سے ہٹا دیا اور پھر اس کی گمشدگی کا شور مچا دیا۔ کچھ کے مطابق ان دونوں کے درمیان اصل جھگڑا اور پھوٹ ایک خوبصورت اور طرح دار ہیروئن کی وجہ سے پڑی تھی ۔کچھ یہ بھی کہتے تھے کہ شہرام کا پارٹنر اپنی رضا اور خوشی سے سب کچھ چھوڑ کر گمنامی کی زندگی گزار رہا ہے ۔ غرض اس سے متعلق بہت سی کہانیاں گردش میں رہیں مگر شہرام نے کسی بھی بات کی تصدیق یا تردید نہیں کی۔ وہ خاموشی سے اپنے کام پر توجہ دیتا ، کامیابی کی منزلیں طے کر رہا تھا اور یہ بات ہی اس کے مخالفوں کے لیے تکلیف دہ تھی کہ شہرام ایک چٹان کی طرح اپنی جگہ پر کھڑا ہے اور کسی چیز سے ڈرتا یا جھکتا نہیں۔

وہ جانتا تھا کہ دنیا کی زبان اور باتوں کو روکنے اور ان پر کڑھنے کے بجائے ، اپنا سفر جاری رکھنا ضروری ہوتا ہے کیوں کہ پھر ایک وقت آتا ہے کہ یہ دنیا ہی آپ کی کامیابی اور ترقی دیکھ کر آپ کی پیچھے بھاگتی ہے اور گزرتے وقت نے اس بات کو سچ ثابت کیا تھا ۔ کئی سال پہلے کی ان سب باتوں کو بھلا کر یا نظرانداز کر کے لوگ آج بھی اس کے ساتھ کام کرنے کو منتیں، سفارشیں کرتے اور دعائیں مانگتے تھے مگر روز بہ روز اس کے سخت ہوتے اصولوں اور معیار کی وجہ سے بہت سے لوگوں کی خواہش ادھوری ہی رہ جاتی۔

”شہرام صاحب کو جس چہرے کی تلاش ہے ۔ وہ آپ کا نہیں ہے محترمہ۔ اسی لیے وہ اٹھ کر چلے گئے ہیں۔“

 مبشر نے ایک نظراس کے خفت سے سُرخ ہوتے چہرے پر ڈالی ۔

”ہونہہ! میں تو خود ایسے مشکوک کردار والے شخص کے ساتھ کام کرنا پسند نہیں کروں گی جس کے ماضی سے بہت سی کہانیاںجڑی ہوئیں ہیں ۔“ اس نے غصے سے تپتے ہوئے کہا ۔

مبشر اور احمدجو وہاں سے جانے والے تھے ۔ ایک دم رکے اور پلٹ کر اس کی طرف قدم بڑھائے۔ وہ ماڈل ڈر کر پیچھے ہٹی تب ہی مبشر نے اپنا سر خم کیا اور ایک ہاتھ سینے پر رکھتے ہوئے نرمی سے کہا ۔

” ہم اس احسان کو ہمیشہ یاد رکھیں گے محترمہ !“

 مبشرنے سر اٹھا کر مُسکراتے ہوئے علی کی طرف دیکھا جس کے ہونٹوں پر بھی ہلکی سی مُسکراہٹ تھی ۔

وہ دونوں وہاں سے چلے گئے اور وہ ماڈل منہ ہی منہ میں بڑبڑاتی رہ گئی۔

٭….٭….٭

نور بانو نے محبت بھری نظروں سے اپنے جگر گوشے بارہ سالہ احمد کی طرف دیکھا جو ابھی ابھی مدرسے سے واپس آیا تھا ۔ آتے ہی ٹھنڈے پانی کا گلاس رحیمہ بی بی نے اس کے سُرخ ہونٹوں سے لگایا۔ گرمی کی شدت سے اس کا خوب صورت چہرہ تمتمارہا تھا ۔

” میں صدقے ! احمد بابا آپ یہاں بیٹھ جائیں ۔ گرمی نے حشر برا کر دیا ہے آپ کا۔“

رحیمہ بی بی کی پوری کوشش تھی کہ احمد کے تپتے جسم کو ٹھنڈک اور سکون پہنچا سکے ۔احمد قریب ہی ایک مدرسے میں قرآن کی تعلیم حاصل کر رہا تھا ۔

”امی جان!“ احمد نے دونوں بازو پھیلائے اور ماں کی گود میں چھپ گیا۔ نور بانو نے محبت سے اس کی روشن پیشانی چومی۔ اس کے گھنے سیاہ بالوں میں انگلیاں پھیرتی وہ ممتا کے دریا میں بہتی بہتی کہیں بہت دور نکل گئی ۔

” کیا کوئی اسے بھی اسی نرمی اور محبت سے سینے سے لگاتا ، اپنی گود میں چھپاتا ہو گا؟ کیا اس کے تپتے ، سلگتے جسم کو سمیٹ کر کوئی اسی طرح اپنی محبت اور شفقت کی ٹھنڈی چھاﺅں تلے سلاتا ہو گا؟“

نوربانو کا حرکت کرتا ہاتھ بے ساختہ رُک سا گیا۔ کسی کے ننھے ہاتھ اور پاﺅں کی حرکت اس کے دل کو کچلنے لگی ۔ اس کی ممتا سیراب ہو کر بھی نہ جانے کیوںپیاسی تھی؟احمد جیسا ذہین اور لائق بیٹا اور مریم اور آمنہ جیسی دو پیاری پیاری بیٹیاں ہونے کے باوجود بھی، اس کے ذہن کے پردے پر ایک دھندلا سا تصور اکثر لہراتا رہتا تھا ۔ اسے کچھ بھی یاد نہیں تھا ۔سوائے اس کے ننھے ہاتھوں اور پاﺅں کے اور ہاں ایک اور چیز بھی جو اس کے ذہن پر نقش رہ گئی تھی ۔ اس کے دائیں ہاتھ کی شہادت والی انگلی کے نیچے بنا چاند کی شکل جیسا ایک نشان!اکثر اس کی پیاسی ممتا اس نشان کو چومنے کے لیے کئی بار بے قرار ہوئی تھی۔ اس کی آنکھوں میں پھیلا نم ، آنکھ کے پانی سے ملنے کے باوجود بھی اکثر محسوس ہوتا تھا ۔

نہ جانے کیسی تڑپ اور جلن تھی جو ا حمد، مریم، آمنہ جیسے بچوں پر اپنی محبت، اپنی ممتا لٹانے کے باوجود بھی سیراب نہیں ہوتی تھی۔ نہ جانے کیسی بے چینی تھی جو دعاﺅں اور طویل سجدوں ، صدقہ خیرات ، سے بھی کم نہیں ہوتی تھی ۔

نور بانو کا دل اکثر ایک خواہش پر مچل کر رہ جاتا کہ کیا خان زادہ شمشیر بھی ایسی ہی آگ یا جلن کا شکار ہیں؟ کیا یہ سب صرف ممتا ہی کا نصیب بنا ہے یا اس آگ میں کچھ حصہ باپ کا بھی ہے؟ مگر یہ پوچھنے اور جاننے کی ہمت وہ آج تک نہیں کر پائی تھی ۔ کچھ باتوں اور چیزوں پر پڑے پردے ایسے ہوتے ہیں کہ جیسے اپنی ذات پر پڑے ہوں !گمنام سے ، چپ چاپ مگر اپنے ہونے کے یقین کے ساتھ بہت بھاری اورجان لیوا سے۔ ایسے ہی بہت سے سوالوں اور جوابوں کی ایک عدالت کو دل میں سجائے ، وہ لمحوں، سے دنوں ، دنوں سے ہفتوں اور پھر مہینوں سے سالوں کے درمیان چکراتی ،عمر کی کئی منزلیں طے کر گئی۔خان زادہ احمد نے اپنی خاندانی گدی سنبھال لی۔ اس دن اس کے باپ کا سر فخر سے اونچا اور آنکھوں میں آنسو تھے۔ رب نے اسے دنیا کے سامنے سرخرو کردیا مگر وہ خو د اپنے رب کے سامنے شرمندہ اور نادم سا سر جھکائے کھڑا تھا۔

حیرت تو اس بات کی تھی کہ وہ مہربان ذات اس کے گناہ اور عیب سے واقف ہونے کے باوجود اسے ، اس کی مرضی اور منشا کے مطابق نوازے جا رہی تھی ۔اس نے دنیا طلب کی اسے دنیا ہی ملی۔ مریم اور آمنہ کی شادیاں ، روایتی رسم و رواج کے مطابق ، خاندان کے بہترین گھرانوں میں ہوئیں۔ اب خان زادہ احمد کے سہرے کے پھول کھلنے تھے جس کے لیے نوربانو کی نازک اندام اور خوبصورت بھتیجی عائشہ کو چنا گیا ۔ نور بانو ، پوری چاہ اور لگن سے تیاریوں میں مشغول تھی۔ مریم اور آمنہ بھی ماں کے ساتھ شامل تھیں ۔ سب کچھ کتنا مکمل اور خوبصورت تھا ۔ کسی خواب کی طرح….

خواب در خواب جینا ہماری چاہ اور اوّلین خواہش ہوتی ہے ۔ ایک خواب کے بعد دوسرے خواب کی چاہ اور طلب ،نفس کے گھوڑے دوڑائے ِ سر پٹ اور اندھا دھند بھاگنے پر مجبور کرتی ہے۔دیکھا جائے تو سارا کھیل ہی اس چاہ اور طلب کا ہے جو خوابوں کے سر سبز میدانوں میں اڑنے اور بسیرا کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔

کیا اپنی چاہ اور خواہش کو، اپنے رب کی چاہ اور خواہش پر قربان کرنا، ہی تقویٰ اور پاکیزگی کی معراج نہیں ہے؟

کیا انسان ہوتے ہوئے ، حسب ونسب ، جاہ وجلال کی تمنا رکھنا غلط ہے؟

کیا رب کے حکم سے زمین پر پیدا ہونے والاکوئی بھی جاندار وجود ، اُس ذات کی حکمت اور دانائی سے بے نیاز ہو سکتا ہے؟

اگر ایمان یہ کہتا ہے کہ نہیں کیوں کہ وہ ذات غلطیوں اور خطاﺅں سے پاک ہے ، تو و ہ ایمان کامل ہے ۔

اور اگر عقیدہ متزلزل ہو کر” اگرمگرشاید“ جیسی بیساکھیوں پر چلتا ہے، تو وہ عقیدہ ہی باطل کہلائے گا۔

”پھر اگر انسان اس رب کے فیصلے کو غلط قرار دے کر ، اپنی مرضی چلائے تو اسے ضد کہیں گے یا نافرمانی یا اس ذات کی ناشکری ۔“

جو بھی کہیں گے ۔

مگر پھر آزمائش انسان اپنے لیے خود لکھتا اور چنتا ہے۔

 مگر کیا آزمائش بھی کوئی چنتا ہے ؟

ہاں….!

”ہر کمزور ایمان والا اور دنیا کی چاہ میں رب کے صادر کیے فیصلوں کو رد کرنے والا، اپنے لیے آزمائش کی وہ آگ چنتا ہے جو صرف جلاتی ہی نہیں ، بھسم بھی کر دیتی ہے۔“

رب کے پیارے بندوں پر آئی آزمائش انھیں دہکا کر کندن بنا دیتی ہے ، نایا ب کر دیتی ہے۔

کہ پھر کوئی چیز انھیں فنا نہیں کر پاتی ۔

 وہ خود ہی اپنی ذات میں فنا ہو کر اپنے رب کی رضا پا لیتے ہیں۔

 مجھے عشق کے پر لگا کر اڑا۔

میری خاک جگنو بنا کر اڑا۔

٭….٭….٭

” کافی دنوں سے تمہارا پرنس چارمنگ نظر نہیں آرہا؟“

شفٹ ختم ہوتے ہی دونوں نے اپنا ویٹریس کا مخصوص لباس تبدیل کیا اور اپنے اپنے بیگ کندھے پر ڈال کر وہاں سے باہر نکلیں ، تو کرسٹی نے چپ چپ سی جولین سے پوچھا۔ وہ بے زاری سے کندھے اچکا کر رہ گئی، جیسے خود بھی اس سوال کا جواب سو چ سوچ کر تھک گئی ہو۔

”ویسے تم لوگوں کا رشتہ کافی گہرا بن چکا ہوگا۔ تمہیں ضرور اسے مجبور کرنا چاہیے کہ وہ تم سے شادی کر لے ۔ پسند تو تمہیں کرتا ہی ہے اسی لیے تو تم پر اس کی خاص نظرِ کرم ہے۔ویسے اگر ایسا ہو جائے تو تمہاری تو قسمت ہی سنور جائے گی۔ دولت سے لے کر اچھی شکل صورت سب کچھ تو ہے اس کے پاس اور….!“

کرسٹی اپنی ہی دھن میں بولے جا رہی تھی ۔ جب ساتھ چلتی جولین نے اسے ٹوکا۔

”اُف اوہو تم بھی کتنی دور تک سوچتی ہو۔ وہ لاکھ مجھ پر مہربان سہی مگر پھر بھی مجھ سے ملنے میں ایک فاصلہ رکھتا ہے۔ وہ اپنے دوستوں ، اپنے گھر ہونے والی پارٹیز میں مجھے بہ خوشی لے کر جاتا ہے، میری کمر میں ہاتھ ڈال کر، رومانٹک میوزک پر جھومتا ہے ، میری خوبصورتی کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملا دیتا ہے ، میری من پسند شاپنگ ، ڈنر ، سب کرواتا ہے مگر اس سے زیادہ اور کچھ نہیں ۔کبھی کبھی مجھے ایسا لگتا ہے جیسے وہ صرف میرے وقت اور خوب صورتی کی قیمت ادا کرتا ہے۔ جیسے میں بازار میں بکنے والی کوئی چیز ہوں۔ جس سے وہ جب دل چاہے ، کھیل سکتا ہے ، اپنا دل بہلا سکتا ہے۔مگر اس سے زیادہ اہمیت اور عزت دینے کو وہ تیار نہیں ہے۔“

جولین کی خوب صورت ، نیلی آنکھوں میں نمی تیرنے لگی تھی ۔ کرسٹی نے ہمدردی سے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔

” کیا تم اس سے محبت کرتی ہو؟“ کرسٹی نے پوچھا، تو جولین اس کی طرف دیکھتی رہ گئی ۔

”پتا نہیں ! شاید محبت اور ضرورت میںبہت فرق ہے کرسٹی۔ محبت تو مجھے آج بھی جوڈی سے ہے ۔ اس کی بے وفائی اور دھوکا دہی کے باوجود بھی۔ ایڈم میری ضرورت تو ہو سکتا ہے مگر محبت نہیں۔ ایڈم کی بے تحاشا دولت مجھے اپنی غربت سے باہر نکلنے کا ایک راستہ نظر آتا ہے مگر….“ جولین گہری سانس لے کر رہ گئی ۔کرسٹی ساتھ چلتے چلتے تھوڑی اور اس کے قریب ہوئی اور راز داری سے پوچھنے لگی ۔

” کیا تم اب بھی جوڈی سے….“ جولین کے لبوں پر خوب صورت سی ہنسی پھیل گئی ۔

” ہاں پچھلے ویک اینڈ ہم نے ایک دوسرے کی قربت ہی میں گزارا تھا ۔اس کے فلیٹ پر اور تم جانتی ہو وہ کہہ رہا تھا کہ بہت جلد وہ مجھ سے شادی کر لے گا مگر میں سوچ رہی ہوں کہ اگر شادی کے بعد بھی اس کی یہی حرکتیں رہیں تو؟ پھر اس سے شادی کر کے بھی مجھے غربت بھری زندگی ہی گزارنی پڑے گی مگر یہ بھی ہے کہ میں اس کے بغیر نہیں رہ سکتی اور….“

جولین ایسے بول رہی تھی جیسے اس کی اندر ادھم مچاتی ، شور کرتی سوچوں کو باہر کا راستہ مل گیا ہو۔ اس کی ایک بات ختم ہونے سے پہلے ہی دوسری شروع ہو جاتی ۔ کرسٹی گہری سانس لے کر رہ گئی ۔ اب جولین کو چپ کروانا تقریباً ناممکن تھا ۔اس لیے اس نے خاموش ہونا ہی بہتر سمجھا اور جولین کے ساتھ فٹ پاتھ پر چلتی ، کن انکھیوں سے آس پاس سے گزرتے ، ہشاش بشاش لوگوں کو دیکھنے لگی کہ خوش چہرے ہوں یا منظر دونوں ہی نظروں کو بہت بھلے لگتے ہیں۔

٭….٭….٭

شہرام کی عمر تیس کا ہندسہ عبور کر چکی تھی۔ وہ ایک بہت ہی ویل آف فیملی سے تعلق رکھتا تھا ۔ اس کے دو بڑے بھائی اور ایک بہن امریکا میں کئی سالوں سے مقیم ،اپنی اپنی شادی شدہ زندگی ہنسی خوشی گزار رہے تھے ۔ شہرام ان سب میں چھوٹا اور من موجی تھا ۔ والدین کئی سال پہلے وفات پا چکے تھے ۔ شہرام کی تعلیم اور جوانی کا زیادہ تر حصہ امریکا ہی میں گزرا تھا ۔ اس کے دونوں بھائی بھی اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہاں ہی اپنی اپنی مرضی اور پسند سے شادی کرکے خوشگوار زندگی گزار رہے تھے۔ شہرام کے والدین کی بہت خواہش تھی کہ ان کے بچے ان کی آنکھوں کے سامنے ہی زندگی گزاریں ۔

شہرام کے والد یوسف خان کے آباءواجداد میں سے زیادہ تر آرمی سے وابستہ رہے تھے۔ اپنی فیملی میں تین بھائیوں میں سے یوسف ہی واحد فرد تھے جو آرمی میں نہیں جا سکے جس کا افسوس ان کے والد کو مرتے دم تک رہا ۔ یوسف کے والد جہانگیر نے ۵۶۹۱ ءاور ۱۷۹۱ ءکی جنگیں بہت بہادری اور شجاعتسے لڑیں تھیں ۔ ۱۷۹۱ءکی جنگ میں انہیں دشمنوں کی قید میں بھی رہنا پڑا ۔اسی چیز نے ان کے اندر وطن سے محبت اور جنوں کو بہت بڑھا دیا تھا ۔اپنے تینوں بیٹوں کو فوجی وردی میں اور وطن کی خاطر جان نثار کرتے دیکھنا ان کی شدید خواہش تھی ۔ ان کی یہ خواہش بڑے دونوں بیٹوں نے کارگل اور سیاچن کے محاذ پر اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر کے پوری بھی کی تھی ۔ اپنے جوان بیٹوں کی شہادت نے انہیں بڑھاپے میں بھی جوان رکھا تھا ۔ وہ فخر سے اپنے بیٹوں کا ذکر کرتے ۔ان کی ماں بہ ظاہر مضبوط مگر اندر ہی اندر بیٹوں کی جدائی کا غم دل سے لگائے بہت جلد بیمار ہو کر خالقِ حقیقی سے جا ملیں مگر جاتے جاتے وہ اپنی واحد خوشی، اپنے بیٹے کے سہرے کے پھول کھلتے اپنی آنکھوں سے دیکھ کر گئیں ۔ بڑے دونوں بیٹوں کو شہادت کی اتنی جلدی تھی کہ اُن کے سہرے کے پھولوں کے بجائے ، قبر کے پھول کھلے تھے ۔

یوسف خان کی بیوی شہلا بہت اچھی اور محبت کرنے والی خاتون تھی ۔اسی لیے بہت جلد ساس سسر کے دل کے قریب پہنچ گئی ۔ یوسف کی ماں کی اچانک وفات نے اسے بھی بہت دھچکا پہنچایا تھا مگر پھر آنگن میں کھلنے والے ننھے ننھے پھولوں نے اپنی خوشبو اور مہکار سے سب کے دلوں کو پھر سے آبا د کر دیا۔ جہانگیر نے اپنے تینوں پوتوں کے لیے یہی سوچا ہوا تھا کہ وہ فوج میں جائیں گے ۔ وہ اکثر بہت دکھبھری نگاہوں سے یوسف کی طرف دیکھتے اور سر جھٹک کر آسمان کی طرف دیکھ کر آہ بھرتے ۔

” کیا تھا مولا اگر اسے بھی شہادت کا رتبہ ملتا۔ اس کے سینے پر بھی آرمی کا میڈل چمکتا مگر اس کی بدقسمتی۔“

یوسف اپنی محنت اور قابلیت سے اپنے بزنس کو دن رات ترقی دیتا کامیابی کی منزلیں طے کر رہا تھا کہ لوگ اس پر رشک کرتے تھے ۔ اپنے بیٹوں کو اس کی فرماں برداری اور محنت کی مثالیں دیتے تھے ۔ وہ اپنے باپ کی نظروں میں کھوٹے سکے کی طرح تھا۔ساری دنیا کو اس پر فخر تھا ،سوائے اس کے باپ کے۔



ہاں اگر آج وہ فوج میں ہوتا، تو اس کے باپ کا سرفخر سے بلند ہوتا۔شہلا اکثر یوسف کی حالت دیکھ کر ہنس پڑتی تھی جو باپ کے منہ سے تعریف سننے کے لیے کسی بچے کی طرح ضد کرتا اور منتظر رہتا تھامگر کبھی کبھی اسے بہت دکھ بھی ہوتا کہ اس کا محبوب شوہر کتنی چھوٹی سی خواہش دل میں رکھے ، زندگی گزار رہا ہے کہ اسے اپنی کوئی کامیابی، کامیابی نہیں لگتی ۔ وہ اکثر شہلا سے کہتا تھا کہ

” کاش گزرا وقت واپس لوٹ آئے اور وہ اپنے باپ کی خواہش پوری کرسکے۔“

اب یوسف کو اپنی نوجوانی کی اس ضد اور بحث پر بہت غصہ آتا تھا جو وہ اپنے والدین سے فوج میں نہ جانے کی وجہ سے کرتا تھا۔شاید اپنے باپ کی سختی اور ہدایتوں سے چڑ کر اس نے فوج میں نہ جانے کا فیصلہ کیا تھا مگر اب اس کا بس نہیں چلتا تھا کہ کسی طرح اپنے باپ کی دلی خواہش پوری کرسکے۔اسے امید کی ایک کرن ، اپنے بچوں کی صورت میں نظر آتی تھی جو کام وہ خود نہیں کر سکا، اپنے بچوں سے لینا چاہتا تھا مگر اپنی وفات سے کچھ دن پہلے یوسف کے والد جہانگیر نے بہت محبت سے اس کا ماتھا چوما اور کتنی ہی دیر اس کے چہرے کو اپنی نم آنکھوں سے دیکھتے رہے۔

”تم جانتے ہو یوسف دنیا میںکچھ رشتے اپنی جان اور زندگی سے بڑھ کر پیارے اور عزیز ہوتے ہیں۔میرا ایسا ہی رشتہ میری مٹی ، میرے وطن سے بن کر میرے خون کی ہر بوند کے ساتھ دوڑتا، گردش کرتا رہا۔ شاید تمہیں ایسا لگتا ہو کہ میں نے تمہارے ساتھ زیادتی کی ہو۔ اپنے وجود سے سینچے پودوں سے محبت فطری چیز ہے یوسف۔ ہم چاہ کر بھی اس سے انکار نہیں کر سکتے ہیں۔ بس تمہارے معاملے میں فرق یہ ہوا کہ فوقیت میں میری ، مٹی کی محبت ،تم سے جیت گئی!“

” مجھے آپ سے کوئی گلہ نہیں ہے باباجان۔“ یوسف نے اُن کے ہاتھ چوم لیے ۔

” جیتے رہو میرے بچے!مگر میری ایک بات ہمیشہ یاد رکھنا۔ زندگی میں کچھ بھی کرو، کتنی بھی کامیابی حاصل کر لو ، اپنی مٹی ، اپنے وطن سے رشتہ بنائے رکھنا اور یہ بات اپنے بچوں کو بھی سکھانا۔ “

یوسف نے اپنے باپ سے وعدہ کیا کہ وہ اس رشتے کو ہمیشہ بنائے رکھے گا اور اپنی آخری سانس تک اس وعدے پر قائم بھی رہامگر اس کی طرح اس کے بچے بھی آزاد فضاﺅں کے پنچھی بن کر، پردیس میں جا بسے۔یوسف نے اپنی طرف سے کوشش کی کہ وہ سب پاکستان میں سیٹ ہو جائیں مگر ان کے لیے زیادہ کشش اور ترقی کے بہترین مواقع پردیس ہی میں تھے ۔

قسمت سے اکلوتی بیٹی کی شادی بھی امریکا میں مقیم اس کے قریبی دوست کے بیٹے سے ہوئی۔ شہرام سب سے چھوٹا تھا ۔ یوسف کے بہت قریب بھی ۔اور سب کی امیدوں اور خواہشوں کا واحد مرکز بھی۔مگر گریجویشن کے بعد شہرام نے بھی باہر جانے کی ضد کی تو یوسف کو اس کی ماننی پڑی ۔ شہرام نے اپنے شوق اور دلچسپی سے ایم بی اے کر کے ، فلم اور ہدایتکاری کے کئی کورس کیے اور بہت سے لوگوں کے ساتھ اسسٹنٹ کے طور پر کام بھی کیا۔پھر اس نے سنجیدگی سے اس شعبے میں قدم رکھا۔ پہلے مختلف ڈاکومنٹری فلمیں بنائیں پھر فلم میکینگ کی طرف آگیا۔

اس دوران یوسف اسے اکثر پاکستان واپس آنے کو کہتا رہتا۔ شہرام کہتا:

” پاپاجان! مجھے ابھی بہت سے کام کرنے ہیں۔ تب ہی آپ کا نام روشن کروں گا۔“

” مجھے اس بات کی زیادہ خوشی ہو گی کہ تم میرے نام سے زیادہ ، اپنے ملک کا نام روشن کرو۔“

یوسف اسے دوٹوک کہتا، تو شہرام ہنس پڑتا اور پھر شرارتاً اپنے باپ سے کہتا۔

” ویسے پاپاجان کبھی کبھی مجھے لگتا ہے کہ آپ کوہم سب سے زیادہ محبت ، اپنے ملک سے ہے۔“

یوسف بہت اطمینان بھرے اور فخریہ لہجے میں کہتے ۔

Loading

Read Previous

انگار ہستی

Read Next

داستانِ حیات

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!